یادرفتگاں: عنایت حسین بھٹی
اسپیشل فیچر
بھارتی اور پاکستانی فلمی صنعت میں صرف دو مرد فنکار ہی ایسے ملتے ہیں جنہوں نے بیک وقت گلوکاری اوراداکاری میں اپنی صلاحیتوں کے ایسے جوہر دکھائے کہ ان کا نام ہمیشہ کیلئے فلمی تاریخ کے صفحات میں درج ہوگیا۔ یہ دو فنکار تھے آنجہانی کشور کمار اور مرحوم عنایت حسین بھٹی۔عنایت حسین بھٹی کی داستان زیست کا اگرجائزہ لیا جائے تو انسان حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔ ایک شخص کی زندگی اور فن کی اتنی جہتیں،یقین نہیں آتا۔ ان کے کارناموں کی تفصیل جب پڑھنے کو ملتی ہے تو یقین کرنا پڑتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ یہ قدرت کے کام ہیں۔ ان گنت ایسے انسان ہیں جنہیں قدرت کی طرف سے وہ کچھ عطا کیا گیا ہے کہ دوسرے جن کا صرف تصور کرسکتے ہیں۔
12جنوری1928ء کو گجرات میں پیدا ہونے والے عنایت حسین بھٹی بلاشبہ ایک کثیرالجہات (Multi-dimensional) فنکار تھے۔ وہ پلے بیک سنگر، اداکار، فلمساز و ہدایتکار،سکرپٹ رائٹر ، سماجی کارکن، کالم نگار اوردینی عالم تھے۔ وہ 1948ء کو قانون کی تعلیم حاصل کرنے لاہور آئے۔ ابتدا میں انہوں نے ایم اے او کالج میں قیام کیا۔ وائی ایم سی اے ہال میں انہوں نے پہلا ڈرامہ سٹیج کیا۔ اس کے بعد وہ اعجاز گیلانی کے ساتھ ریڈیو پاکستان لاہور آگئے یہاں ان کی ملاقات ماسٹر نیاز حسین شامی سے ہوئی اور انہوں نے ان کی شاگردی اختیارکرلی۔ نیاز شامی صاحب نے بھٹی صاحب کو ریڈیو گلوکار بنانے میں بہت مدد کی۔لاہور ریڈیو سٹیشن سے نشر ہونے والے ڈراموں میں وہ خودبھی کبھی کبھی کیریکٹر ایکٹر کے طور پر اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے تھے۔ پھر انہیں ڈرامہ نگاررفیع صاحب نے اپنے ڈرامے ''اکھیاں‘‘ میں ہیرو کا کردار ادا کرنے کیلئے کہا۔
ماسٹر شامی نے 1949ء میں بھٹی صاحب کو بابا جی اے چشتی سے ملوایا جنہوں نے انہیں فلمساز و ہدایتکار نذیر کی فلم ''پھیرے ‘‘ میں چند گانے ریکارڈ کرنے کیلئے کہا۔ ان نغمات کی بدولت عنایت حسین بھٹی راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ اس کے بعد اداکار و فلمساز نذیر نے بھٹی صاحب کو اپنی فلم ''ہیر‘‘ میں رانجھے کا کردار ادا کرنے کیلئے کاسٹ کر لیا۔ ان کے ساتھ ہیر کا کردار سورن لتا نے ادا کیا۔ بھٹی صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پاکستان کے پہلے پلے بیک سنگر تھے۔ 1960ء کی دہائی میں عنایت حسین بھٹی کو لوک تھیٹر اور گائیکی سے رغبت ہوگئی۔ وہ پنجاب کے دیہات میں وارث شاہؒ، بلّھے شاہؒ، میاں محمد بخشؒ، شاہ عبدالطیف بھٹائیؒ اور سلطان باہوؒ کا صوفیانہ کلام گاتے رہے اور بہت مقبولیت حاصل کی۔ بھارت میں کشور کمار وہ آرٹسٹ تھے جنہوں نے گائیکی کے ساتھ اداکاری بھی کی۔ فلمساز کی حیثیت سے ان کی پہلی فلم ''وارث شاہ‘‘ تھی جو 1962ء میں ریلیز ہوئی۔ یہ فلم پنجاب کے عظیم صوفی شاعر وارث شاہ ؒکی زندگی اور شاعری کے بارے میں تھی۔ 1965ء میں بطور فلمساز ان کی دوسری فلم ''منہ زور‘‘ ریلیز ہوئی۔ 1968ء میں ان کی فلم ''چن مکھناں‘‘ سپرہٹ ثابت ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے کئی ایک سپرہٹ فلمیں دیں جن میں ''سجن پیارا جند جان، دنیا مطلب دی، عشق دیوانہ اور ظلم دا بدلہ‘‘ شامل ہیں۔''ظلم دا بدلہ‘‘ نے ریکارڈ کامیابی حاصل کی۔ عنایت حسین بھٹی نے اس فلم میں اپنی اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ وہ پنجابی فلموں کے سپرسٹار بن گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے تین سرائیکی فلمیں بھی بنائیں اوران میں اداکاری بھی کی۔ انہوں نے بھٹی پکچرز کے بینر تلے 30 فلمیں بنائیں اور 300 سے زائد فلموں میں اداکاری کی۔ علاوہ ازیں انہوں نے 500 فلموں کیلئے نغمات بھی گائے۔ پچھلے چارعشروں سے ماہ رمضان کے دوران ان کی عربی زبان میں گائی ہوئی ایک نعت ریڈیو پاکستان سے نشر کی جا رہی ہے۔ 1958ء میں انہوں نے ایک ترانہ ''اللہ اکبر‘‘ گایا جو اب تک اپنی شہرت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ یہ ایمان افروز ترانہ دلوں میں نیا ولولہ پیدا کر دیتا ہے۔ ان کی مشہور فلموں میں (بطور اداکار) ''ہیر، پھیرے، جلن، شہری بابو، دنیا مطلب دی، سجن بیلی، سچا سودا، عشق دیوانہ، چن مکھناں، سجن پیارا، جند جان، کرتار سنگھ، جگا گجر اور ظلم دا بدلہ‘‘ شامل ہیں۔ جن اداکارائوں نے ان کے ساتھ کام کیا ان میں سورن لتا، زینت، نگار سلطانہ، شیریں، یاسمین، صابرہ سلطانہ، رانی، فردوس، سلونی، حسنہ، نیلو اور خانم کے نام لئے جاسکتے ہیں۔ بطور گلوکار انہوں نے ملک کے نامور سنگیت کاروں کے ساتھ کام کیا۔ ان موسیقاروں میں بابا جی اے چشتی، ماسٹرعنایت حسین، ماسٹر غلام حیدر، اصغر علی، محمد حسین، رشید عطرے، صفدر حسین، گل حیدر، طفیل فاروقی، رحمان ورما اور دوسرے شامل ہیں۔
عنایت حسین بھٹی 1970ء کے عشرے میں '' بھٹی دا ڈیرہ‘‘ کے نام سے ٹی وی پر میوزیکل ٹاک شو کرتے رہے۔ یہ میوزیکل ٹاک شو ایک سال تک چلتا رہا اور عوام نے اسے بہت پذیرائی بخشی۔ انہوں نے ایک اور ٹی وی پروگرام ''اُجالا‘‘ کی کمپیئرنگ کی۔ یہ پروگرام پاکستان کے صوفی بزرگوں کے بارے میں تھا۔ انہوں نے اس پروگرام کے سکرپٹ بھی لکھے۔ لاہور کے ایک اخبار میں ان کا اردو کالم کئی برسوں تک شائع ہوتا رہا۔ عنایت حسین بھٹی کا دل انسانیت کے درد سے معمورتھا۔ 1971ء میں انہوں نے گلاب دیوی ہسپتال میں ٹی بی وارڈ قائم کی۔ یہاں غریب مریضوں کا مفت علاج ہوتا تھا۔ بھٹی صاحب اپنی وفات تک اس وارڈ کیلئے عطیہ دیتے رہے۔
عنایت حسین بھٹی نے سیاست کے میدان میں بھی جھنڈے گاڑے۔ انہوں نے 1975ء میں پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ 1977ء میں انہوں نے کئی انتخابی جلسوں سے خطاب کیا۔اسی طرح 1990ء کے انتخابات میں انہوں نے پی ڈی اے کے امیدوار اصغر خان کی انتخابی مہم میں حصہ لیا اور اپنی جاندار تقریروں سے لوگوں کے دل موہ لئے۔انہوں نے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں بھی حصہ لیا اور خوب مقابلہ کیا۔
ان کے چھوٹے بھائی کیفی نے بھی بطور اداکار اور ہدایتکار بہت نام کمایا۔ اس کے علاوہ ان کے بیٹے وسیم عباس نے ٹی وی اور فلموں میں کام کیا اور خاصی شہرت حاصل کی۔ مرحوم اداکار آغا سکندر بھٹی صاحب کے داماد تھے۔عنایت حسین بھٹی نے زیادہ تر پنجابی فلموں کے نغمات گائے۔ 1997 ء میں عنایت حسین بھٹی پر فالج کا حملہ ہوا۔31مئی 1999ء کو یہ بے مثال فنکار اس جہان فانی سے رخصت ہوگیا، بلاشبہ ان کا نام اور کام ہمیشہ زندہ رہیں گے۔