مرزا غالب اور آم۔۔ ’’میٹھے ہوں اور بہت زیادہ ہوں‘‘
اسپیشل فیچر
آموں کا موسم آتے ہی جہاں بہت سے اہل دل آم کے لیے اپنی جانیں مختلف انداز میں نچھاور کرتے نظر آتے ہیں۔ وہاں اردو ادب سے شغف رکھنے والے افراد کے دلوں میں مرزا اسد اللہ خان غالب اور ان کی آم سے مختلف انداز سے کی گئی محبت یاد آنا شروع ہو جاتی ہے۔۔ مرزا غالب کے نہایت مشہور شاگرد اور اردو ادب کے مایہ ناز شاعر، ادیب مولانا الطاف حسین حالی نے اپنے استاد غالب پر دو کتابیں لکھیں، جن میں ''یادگار غالب‘‘ اور ''حیات جاوید ‘‘ بے حد مشہور ہیں۔ اپنی کتاب ''یادگار غالب‘‘ جس کے چند اقتباسات میں وہ مرزا غالب کی آموں سے رغبت کو بھرپور انداز میں بیان کرتے ہیں جو مرزا غالب کی حاضر دماغی ، سنجیدگی، بزلہ سنجی اور متانت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مرزا غالب اردو اور فارسی زبان و ادب کے بلند اور مایہ ناز شاعر تھے۔ پھلوں میں آم انہیں بے حد مرغوب تھے۔ آموں کا موسم شروع ہوتے ہی میں ان کے دوست دور دور سے ان کے لیے عمدہ آم بھیجتے تھے۔ اہلِ شہر تحفتاً بھی انہیں ڈھیروں آم بھیجتے۔ مرزا غالب کبھی دوستوں سے تقاضا کرکے تو کبھی خود بھی بازار سے آم منگواتے تھے۔ باہر سے دُور دُور کا آم بطورِ سوغات ان کے ہاں آتا تھا، لیکن ان کا کبھی دل نہیں بھرتا تھا۔ یعنی آموں سے متعلق ان کی طبیعت کبھی سیر نہ ہوتی تھی۔
ایک مرتبہ مرزا غالب مغلیہ سلطنت کے آخری بادشاہ مرحوم بہادر شاہ ظفر کے ساتھ آموں کے موسم میں باغِ حیات بخش یا مہتاب باغ میں ٹہل رہے تھے۔ وہاں آم کے پیڑ رنگ برنگ آموں سے لدے ہوئے تھے۔ مرزا بار بار آموں کی جانب دیکھ رہے تھے۔ بادشاہ نے پوچھا ''مرزا اس قدر غور سے کیا دیکھتے ہو؟‘‘ مرزا نے ہاتھ باندھ کرعرض کیا: '' اس کو دیکھتا ہوں کہ کسی دانے پر میرااور میرے باپ دادا کا نام بھی لکھا ہے یا نہیں‘‘۔ اس باغ کا آم بادشاہ یا سلاطین یا بیگمات کے علاوہ کسی کو میسر نہ آسکتا تھا لیکن مرزا کے اس طرح کہنے پر بادشاہ مسکرائے اور اسی روزعمدہ آموں کی پیٹی مرزا غالب کو بھجوادی۔
دوسری جانب نواب مصطفی خان مرحوم ناقل تھے کہ ایک صحبت میں مولانا فضل حق اور دیگر احباب موجود تھے جن میں مرزاغالب بھی پیش پیش تھے۔ اس صحبت میں ہر شخص آم کی نسبت اپنی اپنی رائے بیان کررہا تھا کہ اس میں کیا کیا خوبیاں ہونی چاہئیں۔ سب لوگ اپنی اپنی آراء پیش کرچکے تو مولانا صاحب نے مرزا سے عرض کی کہ آپ بھی اپنی رائے بیان کریں۔ مرزا غالب نے کہا ''بھئی ! میرے نزدیک تو آم میں صرف دو باتیں ہونی چاہئیں، ایک میٹھا ہو اور دوسرا بہت ہو‘‘۔ اس پر سب حاضرین ہنس پڑے۔‘‘
مرزا غالب کے چند دوسرے واقعات بھی بے حد مشہور ہیں۔ایک روز مرزا کے دوست حکیم رضی الدین خان صاحب جن کو آم پسند نہیں تھے، مرزا صاحب کے مکان پر آئے۔ دونوں دوست برآمدے میں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ اتفاق سے ایک کمہار اپنے گدھے لیے سامنے سے گزرا۔ زمین پر آم کے چھلکے پڑے تھے۔ گدھے نے ان کو سونگھا اور چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔ حکیم صاحب نے جھٹ سے مرزا صاحب سے کہا، ''دیکھئے! آم ایسی چیز ہے جسے گدھا بھی نہیں کھاتا‘‘۔ مرزا صاحب فوراً بولے ''بیشک گدھا نہیں کھاتا‘‘۔
غالب آم کے بے حد شوقین تھے اور ان کی بیوی آمراو بیگم کو آموں سے نفرت تھی۔ بیوی روزے نماز کی پابند تھیں اور یہ رمضان شریف میں ایک روزہ نہ رکھتے مگر سنا ہے کہ فریقین میں دشمنی کی سب سے بڑی وجہ آم ہی تھے۔ مرزا صاحب یار دوستوں کو آموں کی فصل میں جو خطوط لکھتے تھے ان میں پہلا مطالبہ یہی کہ '' اس فصل میں جو بھیجئے، بس آم بھیجئے‘‘ ۔
اس کانتیجہ یہ تھا کہ فصل شروع ہوتے ہی آموں کے جھولے کے جھولے آنا شروع ہو جاتے اور گھر بھر میں تل رکھنے کو جگہ نہ رہ جاتی۔ اور مرزا صاحب کی طرف سے اس زورں پر آموں کی کھلائی پلائی شروع ہوتی کہ شام تک صحن میں ہر طرف گٹھلیوں کے ڈھیر لگ جاتے۔ اس پر ان کی بیوی اور زیادہ آگ بگولہ ہو جاتیں اور جب آموں کے ٹوکروں کے پاس سے گزرتیں تو زیر لب کہتی جاتیں ''خدا ان مردوں کو اڑائے، جو آموں کے فصل شروع ہوتے ہی گھر بھر کو گُھورا بنا دیتے ہیں‘‘۔
ایک دن اتفاق سے بیوی وضو کر کے دالان میں نماز پڑھنے جا رہی تھیں کہ آم کا چھلکا ان کے پیروں کے نیچے آ گیا اور وہ اس بری طرح پھسل کر گریں کہ ان کی دونوں کہنیوں میں سخت چوٹیں آئیں اور پاؤں کا گٹا اتر گیا۔ اس پر وہ ہنگامہ ہوا کہ مرزا صاحب نے اس دن سے گھر کے اندر قدم رکھنا بند کر دیا اور بیوی نے نمازیں پڑھ پڑھ کر آم اور آم کھانے والوں کو منہ بھر بھر کوسنا شروع کر دیا۔
اس کے بعد مرزا صاحب نے ڈیوڑھی میں اپنا پلنگ بچھوالیا اور وہیں بیٹھ کر سویرے، شام اور دوپہر آم کھا کھا کر گٹھلیاں اور چھلکوں کا انبار لگانے لگے۔ چونکہ گٹھلی چھلکے ایک وقت میں اتنے ہو جاتے تھے کہ ان کا اٹھانا مرزا صاحب کے بس سے باہر تھا اس لئے محلہ کی ایک عورت کو آموں کی فصل بھر آٹھ آنا مہینہ پر رکھ لیتے تھے جو آموں کے گٹھلی چھلکے پھینکتی رہتی۔
یوں اردو ادب میں آم کا موسم مرزا غالب کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔