سملی پہاڑوں کے دامن میں قدرتی ڈیم

اسپیشل فیچر
مری کی پہاڑیاں اور اس کے گردو نواح کے علاقے جو عرف عام میں ''گلیات‘‘ پکارے جاتے ہیں پر ہونے والی برف باری اور بارش صرف ان کے حسن و خوبصورتی میں اضافہ کا باعث ہی نہیں بنتی بلکہ ان سے لاکھوں افراد کو پینے اورآبپاشی کیلئے پانی جیسی انمول نعمت بھی حاصل ہوتی ہے۔ مری اور اس کے بالمقابل واقع گلہڑا گلی کی پہاڑیوں کی خصوصیت یہ ہے کہ ان پر ہونے والی برفباری اور بارش ڈھلوان کے ایک جانب دریائے جہلم اور اس کی وادیوں کو پانی فراہم کرتی ہے تو دوسری جانب راولپنڈی اسلام آباد اور ان سے ملحقہ علاقے اس سے فیض یاب ہوتے ہیں۔
مری سے دریائے سواں اور گلہڑ ا گلی سے کھاد نالہ ان پانیوں کو لے کر نشیب کی جانب اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ راستے میں سیکڑوں چھوٹے چھوٹے برساتی نالوں اور چشموں کا پانی ان میں شامل ہو جاتا ہے۔لگ بھگ پچاس کلو میٹر کا پر پیچ راستہ طے کرنے کے بعد آزادی کے مقام پر کھاد نالہ، دریائے سواں سے مل جاتا ہے۔ کچھ فاصلے کے بعدیہ ایک چھوی سی پیالہ نما وادی میں آ نکلتا ہے۔ جہاں دو دہائی قبل ''سملی‘‘ نام کا ایک گائوں آباد تھا ۔
وفاقی دارالحکومت کی تعمیر کے وقت پانی کی فراہمی کیلئے جو منصوبے بنائے گئے تھے وہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے رفتہ رفتہ کم پڑنے لگے تو پانی کی کسی بڑی ذخیرہ گاہ کی تلاش شروع ہوئی چنانچہ ارضیاتی اور جغرافیائی سروے کے بعد قرعہ فال اس علاقے کے نام نکلا جہاں سملی گائوں آباد تھا۔ اس کی خصوصیت یہ تھی کہ تین اطراف بلند و بالا پہاڑ تھے جن کے عین نشیب میں آبادی تھی اگر اس گائوں کو خالی کرا لیا جاتا تو یہ پیالہ نما وادی قدرتی جھیل بن سکتی تھی۔ چنانچہ سملی کے مکینوں کو پرانی آبادی کے سامنے پہاڑی پر بھارہ کہو کو پتریاٹہ اور مری سے ملانے والی سڑک کے کنارے متبادل جگہ دے کر گائوں خالی کرا لیا گیا اور یہاں پانی کی اس ذخیرہ گاہ کی بنیاد رکھی گئی جسے اب ''سملی ڈیم‘‘ کہا جاتا ہے۔
'' سملی‘‘ اسلام آباد کے شمال مشرق میں لگ بھگ چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقعہ ہے ۔ دریائے سواں پر واقع یہ مکمل قدرتی ڈیم ہے اور اس میں پانی کی آمد بارشوں سے مشروط ہے۔ کھاد نالہ اور دریائے سواں کے علاوہ منگل، جندریلا، چنیوٹ ، کلا لئی، کلاں، بساند بھانہ اور ملحقہ چھوٹے چھوے علاقوں سے بھی درجنوں نالوں اور چشموں کا پانی براہ راست اسی جھیل میں آ کر گرتا ہے جو 10کلو میٹر رقبہ پر پھیلی ہوئی ہے۔ ستمبر 1982ء میں مکمل ہونے والے اس ڈیم کی عمر کا اندازہ 63برس ہے یعنی دوسرے لفظوں میں اسلام آباد کے شہری 2045ء تک سملی کے پانی سے استفادہ کر سکیں گے۔
سملی ڈیم کی جھیل265 فٹ گہری ہے اور اس میں 25لاکھ80 ہزار کیوبک گز پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔445 کیوسک گنجائش کی 6فٹ چوڑی سرنگ کے ذریعے پانی دو جدید ترین فلٹریشن اور پیوری فکیشن پلانٹس میں پہنچایا جاتا ہے۔ 48انچ قطر کی 120میٹر طویل دو پائپ لائنوں پر متعدد پمپنگ اسٹیشن قائم کئے گئے ہیں جن کے باعث صاف پانی کی فراہمی میں کوئی تعطل پیدا نہیں ہوتا۔
جھیل میں گنجائش سے زیادہ پانی آ جانے کی صورت میں اس کے اخراج کیلئے سپل وے بنایا گیا ہے جو سطح زمین سے 250 فٹ بلند ہے۔ اس کے تین دروازے ہیں۔اس سپل وے سے 4500کیوسک پانی خارج ہو سکتا ہے۔ حال ہی میں سپل وے کے گیٹ مزید20فٹ بلند کر دیئے گئے ہیں جس کی وجہ سے ڈیم میں پانی کی مقدار 28ہزار 750ایکڑ فٹ سے بڑھ کر 38ہزار ایکڑ فٹ ہو گئی ہے۔ پہلے یہاں سے 2کروڑ 40لاکھ گیلن پانی روزانہ فراہم کیا جاتا تھا جبکہ توسیع سے یہ مقدار تقریباً دگنی ہو گئی ہے۔
اسلام آباد کی 5لاکھ 25ہزار کی آبادی کو اوسطاً گیلن فی شخص کے حساب سے 8کروڑ 25 لاکھ گیلن پانی درکار ہے۔ سی ڈی اے گیارہ مختلف ذرائع سے یہ پانی فراہم کرتا ہے جن میں کورنگ واٹر ورکس، سملی واٹر ورکس، سید پور واٹر ورکس، نور پور واٹر ورکس اور نیشنل پارک پرانے گولف کورس، نئے گولف کورس اور مختلف سیکٹروں میں نصب 143ٹیوب ویل شامل ہیں جن میں سے کئی ایک خشک یا خراب ہو چکے ہیں۔ سملی ڈیم کو ان تمام ذرائع پر اس لئے فوقیت حاصل ہے کیونکہ یہاں سے اسلام آباد کی پانی کی نصف ضروریات پوری ہوتی ہیں اور روزانہ 4کروڑ 20لاکھ گیلن پانی 48انچ کی دو پائپ لائنوں کے ذریعے یہاں پہنچتا ہے۔
اسلام آباد راولپنڈی سمیت پوری وادی پوٹھوہار کو ان دنوں بارشوں کی کمی کا سامناہے اس لئے اس بارانی ڈیم سے اسلام آباد کو پانی کی فراہمی نمایاں طور پر کم ہو گئی ہے۔ سی ڈی اے کے مطابق اس وقت سملی صرف 2کروڑ گیلن پانی روزانہ فراہم کر رہا ہے جس سے اسلام آباد فی الوقت سنگین صورتحال سے دوچار ہے۔ سملی ڈیم کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ کوئی کمرشل منصوبہ نہیں، یہ اپنا خرچہ اسلام آباد کو پانی کی فراہمی کے عوض پورا کر لیتا ہے۔'' سملی‘‘ کی جھیل میں دو کشتیاں بھی موجود ہیں۔ اسلام آباد کو پانی فراہم کرنے کے علاوہ سملی ڈیم بعض سیاست دانوں کا میزبان بھی رہا ہے۔ جھیل کنارے بنے ہوئے عالی شان ریسٹ ہائوس میں کئی سیاست دان اپنے ایام اسیری بسر کر چکے ہیں۔ ان میں آصف زرداری اور سابق وزیراعظم آزاد کشمیر ممتاز راٹھور بھی شامل ہیں۔ بے نظیر بھٹو خود بھی دوبار اس ریسٹ ہائوس کی میزبانی کا لطف اٹھا چکی ہیں۔