سملی پہاڑوں کے دامن میں قدرتی ڈیم

سملی پہاڑوں کے دامن میں قدرتی ڈیم

اسپیشل فیچر

تحریر : شیخ نوید اسلم


مری کی پہاڑیاں اور اس کے گردو نواح کے علاقے جو عرف عام میں ''گلیات‘‘ پکارے جاتے ہیں پر ہونے والی برف باری اور بارش صرف ان کے حسن و خوبصورتی میں اضافہ کا باعث ہی نہیں بنتی بلکہ ان سے لاکھوں افراد کو پینے اورآبپاشی کیلئے پانی جیسی انمول نعمت بھی حاصل ہوتی ہے۔ مری اور اس کے بالمقابل واقع گلہڑا گلی کی پہاڑیوں کی خصوصیت یہ ہے کہ ان پر ہونے والی برفباری اور بارش ڈھلوان کے ایک جانب دریائے جہلم اور اس کی وادیوں کو پانی فراہم کرتی ہے تو دوسری جانب راولپنڈی اسلام آباد اور ان سے ملحقہ علاقے اس سے فیض یاب ہوتے ہیں۔
مری سے دریائے سواں اور گلہڑ ا گلی سے کھاد نالہ ان پانیوں کو لے کر نشیب کی جانب اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ راستے میں سیکڑوں چھوٹے چھوٹے برساتی نالوں اور چشموں کا پانی ان میں شامل ہو جاتا ہے۔لگ بھگ پچاس کلو میٹر کا پر پیچ راستہ طے کرنے کے بعد آزادی کے مقام پر کھاد نالہ، دریائے سواں سے مل جاتا ہے۔ کچھ فاصلے کے بعدیہ ایک چھوی سی پیالہ نما وادی میں آ نکلتا ہے۔ جہاں دو دہائی قبل ''سملی‘‘ نام کا ایک گائوں آباد تھا ۔
وفاقی دارالحکومت کی تعمیر کے وقت پانی کی فراہمی کیلئے جو منصوبے بنائے گئے تھے وہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے رفتہ رفتہ کم پڑنے لگے تو پانی کی کسی بڑی ذخیرہ گاہ کی تلاش شروع ہوئی چنانچہ ارضیاتی اور جغرافیائی سروے کے بعد قرعہ فال اس علاقے کے نام نکلا جہاں سملی گائوں آباد تھا۔ اس کی خصوصیت یہ تھی کہ تین اطراف بلند و بالا پہاڑ تھے جن کے عین نشیب میں آبادی تھی اگر اس گائوں کو خالی کرا لیا جاتا تو یہ پیالہ نما وادی قدرتی جھیل بن سکتی تھی۔ چنانچہ سملی کے مکینوں کو پرانی آبادی کے سامنے پہاڑی پر بھارہ کہو کو پتریاٹہ اور مری سے ملانے والی سڑک کے کنارے متبادل جگہ دے کر گائوں خالی کرا لیا گیا اور یہاں پانی کی اس ذخیرہ گاہ کی بنیاد رکھی گئی جسے اب ''سملی ڈیم‘‘ کہا جاتا ہے۔
'' سملی‘‘ اسلام آباد کے شمال مشرق میں لگ بھگ چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقعہ ہے ۔ دریائے سواں پر واقع یہ مکمل قدرتی ڈیم ہے اور اس میں پانی کی آمد بارشوں سے مشروط ہے۔ کھاد نالہ اور دریائے سواں کے علاوہ منگل، جندریلا، چنیوٹ ، کلا لئی، کلاں، بساند بھانہ اور ملحقہ چھوٹے چھوے علاقوں سے بھی درجنوں نالوں اور چشموں کا پانی براہ راست اسی جھیل میں آ کر گرتا ہے جو 10کلو میٹر رقبہ پر پھیلی ہوئی ہے۔ ستمبر 1982ء میں مکمل ہونے والے اس ڈیم کی عمر کا اندازہ 63برس ہے یعنی دوسرے لفظوں میں اسلام آباد کے شہری 2045ء تک سملی کے پانی سے استفادہ کر سکیں گے۔
سملی ڈیم کی جھیل265 فٹ گہری ہے اور اس میں 25لاکھ80 ہزار کیوبک گز پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔445 کیوسک گنجائش کی 6فٹ چوڑی سرنگ کے ذریعے پانی دو جدید ترین فلٹریشن اور پیوری فکیشن پلانٹس میں پہنچایا جاتا ہے۔ 48انچ قطر کی 120میٹر طویل دو پائپ لائنوں پر متعدد پمپنگ اسٹیشن قائم کئے گئے ہیں جن کے باعث صاف پانی کی فراہمی میں کوئی تعطل پیدا نہیں ہوتا۔
جھیل میں گنجائش سے زیادہ پانی آ جانے کی صورت میں اس کے اخراج کیلئے سپل وے بنایا گیا ہے جو سطح زمین سے 250 فٹ بلند ہے۔ اس کے تین دروازے ہیں۔اس سپل وے سے 4500کیوسک پانی خارج ہو سکتا ہے۔ حال ہی میں سپل وے کے گیٹ مزید20فٹ بلند کر دیئے گئے ہیں جس کی وجہ سے ڈیم میں پانی کی مقدار 28ہزار 750ایکڑ فٹ سے بڑھ کر 38ہزار ایکڑ فٹ ہو گئی ہے۔ پہلے یہاں سے 2کروڑ 40لاکھ گیلن پانی روزانہ فراہم کیا جاتا تھا جبکہ توسیع سے یہ مقدار تقریباً دگنی ہو گئی ہے۔
اسلام آباد کی 5لاکھ 25ہزار کی آبادی کو اوسطاً گیلن فی شخص کے حساب سے 8کروڑ 25 لاکھ گیلن پانی درکار ہے۔ سی ڈی اے گیارہ مختلف ذرائع سے یہ پانی فراہم کرتا ہے جن میں کورنگ واٹر ورکس، سملی واٹر ورکس، سید پور واٹر ورکس، نور پور واٹر ورکس اور نیشنل پارک پرانے گولف کورس، نئے گولف کورس اور مختلف سیکٹروں میں نصب 143ٹیوب ویل شامل ہیں جن میں سے کئی ایک خشک یا خراب ہو چکے ہیں۔ سملی ڈیم کو ان تمام ذرائع پر اس لئے فوقیت حاصل ہے کیونکہ یہاں سے اسلام آباد کی پانی کی نصف ضروریات پوری ہوتی ہیں اور روزانہ 4کروڑ 20لاکھ گیلن پانی 48انچ کی دو پائپ لائنوں کے ذریعے یہاں پہنچتا ہے۔
اسلام آباد راولپنڈی سمیت پوری وادی پوٹھوہار کو ان دنوں بارشوں کی کمی کا سامناہے اس لئے اس بارانی ڈیم سے اسلام آباد کو پانی کی فراہمی نمایاں طور پر کم ہو گئی ہے۔ سی ڈی اے کے مطابق اس وقت سملی صرف 2کروڑ گیلن پانی روزانہ فراہم کر رہا ہے جس سے اسلام آباد فی الوقت سنگین صورتحال سے دوچار ہے۔ سملی ڈیم کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ کوئی کمرشل منصوبہ نہیں، یہ اپنا خرچہ اسلام آباد کو پانی کی فراہمی کے عوض پورا کر لیتا ہے۔'' سملی‘‘ کی جھیل میں دو کشتیاں بھی موجود ہیں۔ اسلام آباد کو پانی فراہم کرنے کے علاوہ سملی ڈیم بعض سیاست دانوں کا میزبان بھی رہا ہے۔ جھیل کنارے بنے ہوئے عالی شان ریسٹ ہائوس میں کئی سیاست دان اپنے ایام اسیری بسر کر چکے ہیں۔ ان میں آصف زرداری اور سابق وزیراعظم آزاد کشمیر ممتاز راٹھور بھی شامل ہیں۔ بے نظیر بھٹو خود بھی دوبار اس ریسٹ ہائوس کی میزبانی کا لطف اٹھا چکی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
یادرفتگاں: مسعود رانا

یادرفتگاں: مسعود رانا

ہلکے پھلکے رومانٹک گانے ہوں یا پھر المیہ دھنیں، مسعود رانا ہر قسم کے گیت یکساں مہارت کے ساتھ گانے کی صلاحیتوں سے مالا مال تھے۔ پاکستان فلم انڈسٹری کے اس عظیم ورسٹائل گلوکار کی آج 28ویں برسی ہے۔ مسعودرانا، پاکستانی فلمی تاریخ کے واحد گلوکار تھے جنھوں نے 600 سے زائد فلموں کے لیے نغمہ سرائی کی تھی۔ انھیں یہ منفرد اعزاز بھی حاصل تھا کہ اپنی پہلی فلم ''انقلاب‘‘ (1962ء) سے لے کر اپنی آخری فلم ''سناٹا‘‘ (1995ء) تک فلمی صنعت کی ضرورت بنے رہے۔ اپنے 34برسوں پر محیط کریئر میں کبھی کوئی ایک سال بھی ایسا نہیں گزرا تھا کہ جب ان کی بطور گلوکار کوئی فلم ریلیز نہ ہوئی ہو۔ وہ اکلوتے گلوکار تھے جنھیں اردو اور پنجابی فلموں میں یکساں کامیابی حاصل ہوئی تھی اور ان کی بے مثل کارکردگی کی وجہ سے انھیں ''پاکستانی رفیع‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ منفرد لہجے کے حامل اس گلوکار نے مشکل طرز کے گانے بھی ریکارڈ کرائے جو سننے والوں کو آج بھی اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔مسعود رانا کی دوسری ہی فلم ''بنجارن‘‘ سے پاکستانی فلموں کو محمد رفیع کا متبادل مل گیا۔ 1964ء کی فلم ''ڈاچی‘‘ نے انہیں پنجابی فلموں کا تاحیات ناقابل شکست گلوکار بنا دیا۔ 1966ء کی فلم ''ہمراہی‘‘ کے 7 امر گیت گا کر مسعود رانا نے گائیکی کی معراج کو چھو لیا۔ 1984ء کی فلم ''عشق نچاوے گلی گلی‘‘ کیلئے گائیکی پر انہیں پہلا قومی ایوارڈ یافتہ گلوکار ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔پاکستان فلم انڈسٹری کے عظیم گلوکار مسعود رانا 9 جون 1938ء کو سندھ کے شہر میرپورخاص میں پیدا ہوئے۔ ان کا پورا نام مسعود احمد رانا تھا۔ ان کا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے تھا جو جالندھر سے ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا۔ انہوں نے 1955ء میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے گانا شروع کیا۔گزرے وقتوں میں ریڈیو سٹیشن کسی بھی فنکار کی ابتدائی درس گاہ ہوتی تھی۔ریڈیو پاکستان حیدرآباد بھی ایک ایسی ہی درسگاہ تھی، جس نے سندھ کے بہت سے فنکاروں کوپروان چڑھایا، گلوکار مسعود رانا بھی ان فنکاروں میں سے ایک تھے۔ 60ء کے عشرے میں انہوں نے کراچی میں ایک میوزک بینڈ بنایا جس میں ان کے ساتھ نذیر بیگ (اداکار ندیم) اور اخلاق احمد بھی شامل تھے۔1962ء میں ہدایتکار اقبال شہزاد کی فلم ''انقلاب‘‘ سے مسعود رانا کی فلمی گیت گانے کی خواہش پوری ہوئی، مسعود رانا کا پہلا فلمی گیت ایک ترانہ ''مشرق کی تاریک فضا میں نیا سویرا پھوٹا ہے، اب یہ راز کھلے گا سب پر،کس نے کس کو لوٹا ہے‘‘ تھا۔اس گیت یا ترانے میں اس وقت کے صدر، آرمی چیف اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان کی مدح سرائی کی گئی تھی جنہیں اس وقت پاکستانی قوم کا نجات دہندہ بھی کہا جاتا تھا۔مسعود رانا ہر قسم کے گیت گانے میں مہارت رکھتے تھے۔ خاص طور پر اونچے سروں میں گائے گئے مشکل ترین گیت گانے میں ایک بے مثل گلوکار تھے۔ان کی آواز فلم میں کہانی اور مکالموں کی طرح لازمی سمجھی جاتی تھی۔رومانوی گیت ہی نہیں طربیہ دھنوں اور غمگین شاعری کو اپنی دل گداز آواز دینے والے مسعود رانا ورسٹائل فنکار تھے اور ان کی اسی خوبی نے انہیں اپنے دور کے دیگر گلوکاروں میں ممتاز کیا۔ مسعودرانا ہی پاکستان کی فلمی تاریخ کے واحد گلوکار ہیں کہ جنہوں نے اردو اور پنجابی فلموں اور گیتوں کی سینچریاں بلکہ ڈبل سینچریاں بنائی تھیں۔مسعودرانا اپنے فلمی کریئر میں کبھی کسی ایک اداکار کے لیے مخصوص نہیں رہے۔ ان کے سب سے زیادہ گیت پس پردہ تھے۔ مسعودرانا کا فنی کریئر چار عشروں پر محیط تھا لیکن ان کے گیت آٹھ عشروں پر پھیلے ہوئے فنکاروں پر فلمائے گئے تھے جو ایک اور منفرد ریکارڈ ہے۔ 1920ء کے عشرہ میں فلمی کریئر کا آغاز کرنے والے اداکار نور محمد چارلی سے لے کر 1990ء کے عشرہ میں متعارف ہونے والے شان اور جان ریمبو پر بھی مسعودرانا کے گیت فلمائے گئے تھے۔مسعودرانا کے گیت باپ اور بیٹوں پر بھی فلمائے گئے تھے جو ایک اور عجوبہ تھا۔ اکمل، منور ظریف، سلطان راہی، دلجیت مرزا اور ریاض شاہد کے بعد ان کے بیٹوں بالترتیب شہباز اکمل، فیصل منور ظریف، حیدر سلطان، دلاور اور شان پر بھی مسعودرانا کے گیت فلمائے گئے تھے۔مسعودرانا نے موسیقار باپ بیٹوں کے ساتھ بھی نغمہ سرائی کی تھی جن میں رشید عطرے، ماسٹر عنایت حسین، بابا جی اے چشتی اور صفدر حسین کے بعد ان کے بیٹوں بالترتیب وجاہت عطرے، ماسٹر طفیل، تسکین چشتی اور عباس صفدر کے نام بھی آتے تھے۔ انہوں نے تین مختلف موسیقاروں کے ساتھ سو، سو سے زائد گیت بھی گائے تھے، جن میں بابا جی اے چشتی، ایم اشرف اور وجاہت عطرے شامل تھے۔ان کے گیتوں سے سجی فلموں میں آئینہ، دھڑکن، مجاہد، نائلہ، کون کسی کا، بھیّا، سنگ دل، پاک دامن، احساس، دامن اور چنگاری، میرا ماہی، مرزا جٹ، دھی رانی،دل میرا دھڑکن تیری، خواب اور زندگی،چراغ کہاں روشنی کہاں، ہمراہی، بدنام نمایاں ہیں۔دنیائے موسیقی کا یہ روشن ستارہ 4 اکتوبر 1995ء کو غروب ہو گیا لیکن ان کی یادوں کے چراغ شائقین موسیقی کے دلوں میں ہمیشہ روشن رہیں گے۔  

ارشمیدس عظیم یونانی ریاضی دان

ارشمیدس عظیم یونانی ریاضی دان

آج ہم ایک ایسے شخص کی زندگی کے حالات اور کارنامے آپ کو بتانے جا رہے ہیں جو علم کی خاطر زندہ رہا اور اس کی خاطر مرا۔ وہ سائنس کا دیوانہ تھا، اس نے سائنس کے ایسے اصول بنائے کہ ہم آج تک ان سے فائدہ اْٹھا رہے ہیں۔ وہ ایک ایسے زمانے میں پیدا ہوا تھا جب پڑھنے لکھنے کیلئے آج جیسی آسانیاں موجود نہیں تھیں۔ ہم بات کر رہے ہیں ارشمیدس کی۔ ارشمیدس جزیرہ سسلی کے شہر سیراکیوز میں 287قبل ازمسیح میں پیدا ہوئے۔ ارشمیدس یونانی ریاضی دان تھے جس نے میکانیات اور علم ِمائعات کے اصول وضع کیے اور اجرام فلکی کی حرارت معلوم کرنے کا ایک آلہ تیار کیا۔ ایک ایسا آتشی شیشہ بھی بنایا جس کی حرارت سے دورسے دور کی چیزیں جل اْٹھیں۔ارشمیدس علم ِجر ثقیل کا بھی ماہرتھا اس کی ایجاد کردہ توپیں اس قدر مضبوط تھیں کہ سیرا کیوز کا محاصرہ کرنے والے رومن جنرل کو شہر پر قبضہ کرنے میں پورے تین سال لگے۔ارشمیدس نے یہ قانون بھی دریافت کیا کہ جب کسی جسم کو مائع میں ڈبو دیا جائے تو اس جسم پر اچھال کی قوت عمل کرے گی، جس کی مقدار اس جسم کے مساوی الحجم مائع کے وزن کے برابراہوگی۔ ارشمیدس کے اس اصول کے حوالے سے ہم آپ کو ایک کہانی سناتے ہیں ارشمیدس نے اس اصول کی مدد سے کیسے اپنے بادشاہ کیسونے کے تاج کا معمہ حل کیا تھا۔سیراکیوزکے بادشاہ نے اپنے سنار (جوہری) سے ایک تاج بنوایا لیکن جب تاج بن کر آیا تو بادشاہ کو اس کے خالص ہونے پر شک ہوا۔ بادشاہ سنار کو سزا دینا چاہتا تھا کہ اس نے بادشاہ کے ساتھ دھوکہ کیا اور بیوقوف بنانے کی کوشش کی لیکن اس کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں تھا جس سے وہ ثابت کر سکے کہ تاج کے سونے میں ملاوٹ ہے۔ جب بادشاہ کو کچھ سمجھ نہ آئی توبادشاہ نے یہ کام ارشمیدس کے سپرد کیا۔اس وقت یہ ثابت کرنا بڑا مشکل تھا ۔ارشمیدس جو اس زمانے میں ریاضی کا استاد ماناجاتا تھا یہ کام سائنس کی روشنی میں انجام دینا چاہتا تھا۔ اس لیے وہ بھی سوچ میں پڑگیا۔ارشمیدس نے سوچااگرشاہی تاج کوپانی میں ڈبو دیا جائے تو اس کے وزن میں کمی پیدا ہو گی اور اگر تاج کے ہم وزن سونے کی ڈلی لے کر اسے پانی میں ڈبو دیا جائے تو اس کا وزن کم ہوجائے گا۔اگر دونوں صورتوں میں وزن کی یہ کمی برابر ہوئی تو اس کا مطلب ہو گا کہ تاج خالص سونے کا ہے۔ ارشمیدس نے تجربوں کی مدد سے جانچا اور اس نے معلوم کرلیا کہ جوہری نے تاج میں کھوٹ ملائی تھی۔اس نے بادشاہ کو بتایا کہ تاج میں کتنا خالص سونا ہے اور کتنا کھوٹ ہے۔ اس انوکھے واقعہ سے ارشمیدس اور بھی مشہور ہو گیا۔ اب بھی ارشمیدس کا یہ اصول اسی طرح چلا آرہا ہے۔ارشمیدس کی بہت سی ایجادات ہیں کیونکہ ارشمیدس کو شروع سے انجینئرنگ سے دلچسپی تھی۔ اس نے آب پاشی کیلئے پیچ دارمشین ایجاد کی۔آج ہماری بہت سی مشینیں اسی اصول پر کام کرتی ہیں۔انہوں نے بعد میں مزید کئی مشینیں ایجاد کیں۔ ارشمیدس نے اپنے ملک کو دشمنوں سے بچانے کیلئے اور دشمن کو شکست فاش دینے میں بھی غیر معمولی خدمات سرانجام دیں۔ یہ اس وقت ہوا جب رومن فوج نے ارشمیدس کے شہر کو چاروں طرف سے گھیر لیا لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ارشمیدس نے ساحل پر ایسی مشینیں لگا رکھی ہیں جن کی مدد سے بڑاجہاز بھی غرق کیا جاسکتا ہے۔ارشمیدس نے کچھ جہازوں کو رسیوں سے کھینچ کر چٹانوں سے ٹکراٹکرا کر پاش پاش کردیا اور اس نے چند عدسوں اور شیشوں کی مدد سے رومنوں کے بحری بیڑے میں آگ لگا دی۔رومن فوج اس یونانی ریاضی داں کی نت نئی ایجادات سے بوکھلا گئی اور بھاگ کھڑی ہوئی۔سائنس کی تاریخ میں ارشمیدس کانام ہمیشہ زندہ رہے گا کیونکہ اس نے اپنی محنت سے علم وسائنس کی ایسی شمع روشن کی جس نے اس گزرے دور میں بھی جہالت کے دھندلکوں کو دور کیا۔حساب اور سائنس کے ایسے ایسے اصول وضع کیے جن پر بعد کے سائنس دانوں نے علم و ہنر کے عظیم قصرتعمیر کیے۔جدید سائنس ان قدیم سائنس دانوں کی خدمات کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔میں نے مضمون کے آغاز میں کہا تھا کہ ارشمیدس ''علم کی خاطر زندہ رہا اور اس کی خاطر مرا‘‘۔رومن جنرل نے جب دھوکے سے سیراکیوز پر قبضہ کرلیا توجنرل سب کچھ جانتے ہوئے بھی کہ ارشمیدس نے ہی اس کی مخالفت کی تھی ارشمیدس کی قابلیت اور ذہانت کا وہ قائل ہوگیا تھا۔ اس لیے اس نے ارشمیدس کو معاف کردیا اور اس سے ملنے کی خواہش ظاہر کی جب اس کا سپاہی ارشمیدس کے گھر پہنچا تو وہ فرش پر ٹیڑھی میڑھی لکیریں کھینچ رہا تھا۔ وہ اپنے خیالات میں اتنا محو تھا کہ سپاہی نے دو مرتبہ اسے اپنے جنرل کے پاس چلنے کیلئے کہا،لیکن اس نے پرواہ نہ کی۔ اس پر سپاہی نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔

آج کا دن

آج کا دن

رومی امن معاہدہروم جنرل پیس ایکارڈز، باضابطہ طور پر ایک امن معاہدہ تھا جو موزمبیق اوررینیامو کی حکومت کے درمیان طے پایا تھا، جس سے 4 اکتوبر 1992ء کو موزمبیقن خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا تھا۔ معاہدے سے قبل مذاکرات شروع ہوئے تھے۔ معاہدوں پر موزمبیق کے اس وقت کے صدر جواکیم چیسانو اور رینامو کے رہنما افونسو دھلاکاما نے دستخط کیے تھے۔اس امن معاہدہ کی وجہ سے 16برسوں سے جاری سول جنگ کا خاتمہ ہوا اور یہی وجہ تھی کہ اس معاہدے کو عالمی سطح پر کافی شہرت حاصل ہوئی ۔ 21اکتوبر2013ء میں رومانو نے امن معاہدہ منسوخ کر دیا اور یہ الزام لگایا کہ ان کے اڈو ں پر حملے کئے گئے ہیں۔لومس فارگو بینک ڈکیتیلومس فارگو بینک ڈکیتی 4 اکتوبر 1997ء کو شارلٹ، نارتھ کیرولینا، لومس فارگو اینڈ کمپنی کے ریجنل آفس والٹ سے 17.3 ملین ڈالر کی ڈکیتی تھی۔ یہ ڈکیتی لومس والٹ کے سپروائزر ڈیوڈ سکاٹ گھنٹ نے کی تھی۔ اس کی ایک سابق ساتھی کارکن، اسٹیون یوجین چیمبرز، اس کی بیوی مشیل چیمبرز، مائیکل گوبیز اور چار دیگر ڈکیتی میں اس کے سہولت کار تھے۔ ایف بی آئی کی تحقیقات کے نتیجے میں آٹھ افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔عدالت نے اس ڈکیتی میں براہ راست ملوث ہونے والوں کے ساتھ سولہ دیگر افراد کوبھی سزا سنائی جنہوں نے بالواسطہ طور پر ان کی مدد کی تھی۔ تقریباً 88فیصد چوری شدہ رقم کی بازیابی بھی ہو گئی۔بروڈسینڈ کی جنگ''بروڈسینڈ کی جنگ‘‘ 4 اکتوبر 1917ء کو بیلجیئم میںگھیلوویلٹ سطح مرتفع کے مشرقی سرے پر برطانوی فوجوں نے جرمن فوج کے خلاف لڑی تھی۔ یہ جنگ یپریس کی تیسری جنگ کا سب سے کامیاب اتحادی حملہ تھا۔ جرمن جوابی حملوں کے خلاف محدود مقاصد کے ساتھ، کاٹنے اور پکڑنے کی حکمت عملی کا استعمال کرتے ہوئے، برطانویوں نے جرمن دفاع کو تباہ کر دیا۔ جس سے جرمن کمانڈروں میں بحران پیدا ہو گیا اور فوج کے حوصلے پست ہو گئے۔ جرمنوں نے مقامی طور پر انخلاء کی تیاری کی اور جلد از جلد انخلاء کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔اپنی اس حکمت عملی کی وجہ سے جرمنی کو کئی علاقوں سے دستبردار ہونا پڑا۔ایسٹرن ائیر لائنز کا حادثہ4 اکتوبر 1960ء کو ایسٹرن ایئر لائنز کی پرواز 375 بوسٹن، میساچوسٹس کے لوگن انٹرنیشنل ایئر پورٹ سے ٹیک آف کے وقت گر کر تباہ ہو گئی۔ اس حادثے میں72افراد ہلاک ہوئے، دس افراد زندہ بچے، نو کو شدید زخمی حالت میں نکالا گیاجبکہ62افراد معمولی طور پر زخمی ہوئے۔ ٹیک آف کے فوراً بعد جہاز کا سامنا پرندوں کے جھنڈ سے ہوا،کچھ پرندے انجن میں داخل ہوگئے اور انجن کا پنکھا خرابی کا شکار ہو کر بند ہو گیا۔ جیسے ہی جہاز کا انجن بند ہوا جہاز بے قابو ہو گیا اور کچھ ہی دیر بعد گر کر تباہ ہو گیا۔  

بابائے طب بقراط سے جڑی جھوٹی کہانیاں

بابائے طب بقراط سے جڑی جھوٹی کہانیاں

وبائیں انسانی آبادی کو صدیوں سے اپنا ہدف بنا رہی ہیں۔ یہ کئی قدیم سلطنتوں کی تباہی کا سبب بنیں اور انہوں نے کئی اہم شہروں کو برباد اور ویران کر دیا۔ علم محدود ہونے کی وجہ سے دورقدیم کا انسان انہیں پوری طرح سمجھ نہیں پایا اور اس نے انہیں بہت سی مافوق الفطرت چیزوں سے منسوب بھی کیا۔ کسی انسان سے بھی بعض اوقات ایسی باتیں منسوب کر لی جاتی ہیں جن کا حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا۔ ہزاروں سال قبل بقراط نے اپنے علم، مشاہدے، تجربے اور سخت محنت سے دریافت کر لیا تھا کہ کچھ بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جو کسی علاقے میں بہت تیزی سے پھیلتی ہیں اور اس طرح ایک شخص سے دوسرے کو بہت جلدی متاثر کر دیتی ہیں۔ ایسی بیماریوں میں طاعون، جسے کالی موت بھی کہا جاتا تھا بلکہ اب بھی کہا جاتا ہے، بہت ہی تیزی سے پھیلتی ہے اور ایک دن میں ہزاروں، لاکھوں انسانوں کی موت کا باعث بن سکتی ہے۔ اسی طرح ہیضہ، چیچک، جذام، خناق اور متعدی بخار وغیرہ وبائی امراض کے زمرے میں آتے ہیں۔ بقراط نے ان وبائی امراض کو دریافت کر کے ان کے علاج بھی تجویز کیے۔ بقراط ایک ذہین اور بابغہ روزگار طبیب تھا۔ اس نے طبی دنیا میں زبردست انقلاب برپا کیا اور اس کے طریقہ علاج اور ضابطہ اخلاق نے دائمی شہرت حاصل کی۔ بقراط کی ذاتی زندگی کے متعلق بہت سی کہانیاں منسوب ہیں، ان میں سے زیادہ تر کہانیاں سچی نہیں ہیں کیونکہ تاریخی حوالے سے ان کی کوئی شہادت نہیں ملتی۔ بقراط نے شاندار زندگی بسر کی اور وہ اپنی زندگی میں ہی ''بقراط عظیم‘‘ کہلایا جبکہ اس کی زندگی سے کئی غیرمعمولی کہانیاں وابستہ کر دی گئی ہیں۔ بقراط کے متعلق ایک غیر معمولی کہانی وابستہ ہے کہ جب ایتھنز میں طاعون کی وبا پھیل گئی تو بقراط نے پورے شہر میں آگ کے بڑے بڑے الاؤ جلا کر شہر سے طاعون کی بیماری کے جراثیموں کو ختم کر دیا یعنی ڈِس انفیکٹ کر دیا جبکہ تاریخی حوالے سے ایسے کوئی شواہد نہیں ملتے۔ بقراط سے منسوب ایک دوسری کہانی ہے کہ مقدونیہ کا بادشاہ پریڈیکس ایک ایسی بیماری میں مبتلا تھا کہ اس بیماری کی سمجھ کسی طبیب کو نہ آتی تھی۔ بقراط نے اس کی نبض پر ہاتھ رکھ کر بتا دیا کہ بادشاہ محبت کی بیماری (لَو سِکنس) میں مبتلا ہے اور اس طرح بادشاہ کی مطلوبہ محبوبہ سے شادی کر کے اس کو تندرست کر دیا۔ اس کہانی کے بھی کوئی تاریخی شواہد نہیں ہیں بلکہ یہ کہانی بقراط سے بلاوجہ منسوب کر دی گئی ہے۔ تیسری کہانی ایران کے شہنشاہ کے متعلق ہے کہ شہنشاہ آردشیر نے بقراط کو ایران بلوایا، بہت سا مال و دولت بقراط کو بھجوایا کہ وہ ایران آ کر ایرانی شہریوں کا علاج کرے لیکن اس نے ایران کے شہنشاہ کی درخواست کو ٹھکرا دیا اور ایران نہ گیا۔ یہ کہانی بھی تاریخی شواہد سے خالی ہے اور اس کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے۔ چوتھی کہانی جو بقراط سے منسوب کی جاتی ہے اس کا تعلق عظیم سائنس دان اور فلسفی ڈیماکریٹس سے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ڈیماکریٹس کو عادت تھی کہ وہ ہر کسی کے ساتھ ہنس کر بات کیا کرتا تھا اور اسے ہنسنے کی بیماری تھی۔ ڈیماکریٹس کو کسی نے مشورہ دیا کہ تم جا کر بقراط سے اپنی بے تکی ہنسی کا علاج کراؤ۔ ڈیماکریٹس جب بقراط کے پاس گیا تو بقراط نے اس کو ایسا سنجیدہ کر دیا کہ وہ ہنسنے کے بجائے اداس رہنے لگا۔ اس حد تک تو بات صحیح ہے کہ ڈیماکریٹس کو آج بھی ہنستا ہوا فلسفی یا لافنگ فلاسفر کہا جاتا ہے لیکن اس نے کبھی بقراط سے اپنی ہنسی کا علاج کروایا ہو، ایسی کوئی شہادت تاریخ میں نہیں ملتی جبکہ ہنسنا اور خوش رہنا کوئی بیماری ہی نہیں ہے۔ پانچویں کہانی بقراط کی موت کے بعد اس کی قبر سے منسوب ہے۔ جالینوس جو کہ بقراط کا بہت زیادہ مداح اور شارح ہے، اس نے بیان کیا ہے کہ بقراط کی قبر پر شہد کا چھتا تھا، جو کوئی مریض خواہ کسی بھی مرض میں مبتلا ہوتا، اس شہد کے چھتے سے شہد کھا لیتا تو اس کی بیماری فوراً ختم ہو جاتی۔ اس کہانی کے بھی کوئی تاریخی شواہد نہیں ملتے بلکہ یہ کہانی عقیدت کے طور پر بقراط سے وابستہ کر دی گئی ہے۔ چھٹی کہانی بھی اس کی موت کے بعد اس سے منسوب کی گئی۔ جالینوس نے اس کہانی کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ بقراط نے اپنی موت سے کچھ دیر پہلے ہاتھی دانت کا خوبصورت بند ڈبہ اپنے شاگردوں کو دیا اور وصیت کی کہ اس ڈبے کو بھی اس کی میت کے ساتھ قبر میں دفن کر دیا جائے۔ وہ ہاتھی دانت کا بنا ہوا ڈبہ بھی اس کی قبر میں اس کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔ ایک عرصہ گزر جانے کے بعد اتفاق سے قیصر روم کا گزر بقراط کی قبر کے قریب سے ہوا۔ اس وقت قبر بہت ہی خستہ حال ہو چکی تھی۔ قیصرروم کو جب بتایا گیا کہ یہ قبر عظیم طبیب بقراط کی ہے تو قیصر روم نے حکم دیا کہ قبر کو دوبارہ بقراط کے شایانِ شان تعمیر کیا جائے۔ جب قبر کی تعمیر کے لیے بنیادیں کھودی جا رہی تھیں تو کھدائی کرنے والے کوایک خوبصورت منقش ہاتھی دانت کا ڈبہ ملا جو کہ بند تھا۔ جب وہ ہاتھی دانت کا بنا ہوا ڈبہ قیصر روم کو دکھایا گیا تو اس نے اسے کھولنے کا حکم دیا۔ جب ڈبہ کھولا گیا تو اس میں ایک کتاب تھی، جس میں 25 ایسے امراض لکھے ہوئے تھے جن کے بارے میں معلوم ہو جاتا تھا کہ مریض کتنے دنوں کے بعد مرجائے گا۔ یہ کہانی بھی بے معنی ہے اور تاریخی لحاظ سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ بقراط کے متعلق ایک کہانی اس کے پہلے سوانح نگار سورانوس نے بھی بیان کی ہے۔ سورانوس کا کہنا ہے کہ یونان میں ایک شفائی مندر (ہِیلنگ ٹمپل) تھا۔ اس مندر کو بقراط نے ایک دن آگ لگوا دی اور وہاں سے چلا گیا۔ یہ مندر کنڈوس میں واقع بھی۔ جبکہ بقراط ایک دوسرا سوانح نگار ٹیزیٹزس (Tzetzes) کہتا ہے کہ یہ بقراط کا آبائی مندر تھا اور اس کے اپنے شہر کوس میں واقع تھا لیکن دونوں نے اس مندر کو آگ لگانے کی کوئی وجہ بیان نہیں کی۔ بقراط کے متعلق یہ تمام کہانیاں اس کو ایک لیجنڈ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں جبکہ بقراط کے شاندار کام جو کہ انسانیت کی فلاح کے لیے ہیں، اس کو عظیم بنانے کے لیے کافی ہیں۔

طب کا نوبیل انعام

طب کا نوبیل انعام

2023ء کیلئے ''میڈیسن‘‘ (طب) کا نوبیل انعام امریکہ سے تعلق رکھنے والے دو سائنسدانوں کو دینے کا اعلان کیا گیاہے۔ ہنگری نژاد امریکی بائیو کیمسٹ کاتالین کاریکو (katalin Kariko)اور ڈریو ویسمین (Drew Weissman) کو کووڈ 19 کی وباء سے لڑنے کیلئے ایم آر این اے ویکسین تیار کرنے میں مدد فراہم کرنے پر نوبیل انعام سے نوازا گیاہے۔دونوں نوبیل انعام یافتگان سائنسدانوں کی دریافتیں 2020ء کے اوائل میں شروع ہونے والی وباء ''کووڈ19‘‘ کے خلاف مؤثر ویکسین ''mRNA‘‘تیار کرنے کیلئے اہم تھیں۔ اپنے اوّلین نتائج کے ذریعے، جس نے بنیادی طور پر ہماری سمجھ کو تبدیل کر دیا ہے کہ ایم آر این اے ہمارے مدافعتی نظام کے ساتھ کس طرح تعامل کرتا ہے۔ انعام یافتگان نے جدید دور میں انسانی صحت کو لاحق سب سے بڑے خطرات میں سے ایک کے دوران ویکسین کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا۔یہ دونوں امریکہ کی پنسلوانیا یونیورسٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور برسوں سے ایم آر این اے ٹیکنالوجی پر کام کر رہے تھے۔ان کے تحقیقی کام کے باعث کووڈ 19 کی وباء کے دوران ریکارڈ وقت میں زندگی بچانے والی ویکسینز تیار کرنے میں مدد ملی۔کاتالین کاریکو 1955ء میں ہنگری میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1982ء میں Szeged کی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور 1985ء تک ہنگری اکیڈمی آف سائنسز میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کی تحقیق کی۔ اس کے بعد انہوں نے ٹیمپل یونیورسٹی فلاڈیلفیا اور یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنس، بیتھسڈا میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کی تحقیق کی۔ 1989ء میں انہیں پنسلوانیا یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر مقرر کیا گیا، جہاں وہ 2013ء تک رہیں۔ اس کے بعد، وہ بائیو این ٹیک آر این اے فارماسیوٹیکلز میں نائب صدر اور بعد میں سینئر نائب صدر بن گئیں۔ 2021ء سے، وہ سیجڈ یونیورسٹی میں پروفیسر اور یونیورسٹی آف پنسلوانیا میں پیریل مین اسکول آف میڈیسن میں ایڈجینٹ پروفیسر ہیں۔ڈریو ویس مین 1959ء میں لیکسنگٹن، میساچوسٹس، امریکہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1987ء میں بوسٹن یونیورسٹی سے ایم ڈی، پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے ہارورڈ میڈیکل اسکول میں بیت اسرائیل ڈیکونس میڈیکل سینٹر اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ میں پوسٹ ڈاکٹریٹ ریسرچ میں اپنی کلینیکل ٹریننگ کی۔ 1997ء میں ویس مین نے پنسلوانیا یونیورسٹی میں پیرل مین اسکول آف میڈیسن میں اپنا تحقیقی گروپ قائم کیا۔ وہ ویکسین ریسرچ میں رابرٹس فیملی پروفیسر اور پین انسٹی ٹیوٹ برائے آر این اے انوویشن کے ڈائریکٹر ہیں۔یہ دونوں 1990ء کی دہائی کے آخر میں ایک تحقیق کے دوران ملے تھے اور اس کے بعد انہوں نے مل کر ایم آر این اے ٹیکنالوجی کو مختلف امراض کے علاج کے طور پر جانچنے کیلئے کام شروع کیا۔2005ء میں ان کی پہلی تحقیق شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ ایم آر این اے کو تبدیل کرکے جسمانی مدافعتی نظام کو مؤثر طریقے سے متحرک کرنا ممکن ہے۔انہوں نے بتایا کہ ایم آر این اے پر مبنی ویکسینز ٹھوس مدافعتی ردعمل کو متحرک کر سکتی ہیں اور اتنی اینٹی باڈیز تیار کرتی ہیں جو مخصوص امراض پر حملہ آور ہوتی ہیں۔کووڈ کی وباء کے موقع پر ان دونوں سائنسدانوں کے تحقیقی کام کو مختلف کمپنیوں نے استعمال کیا تاکہ لوگوں کو کورونا وائرس سے تحفظ فراہم کر سکیں اور دسمبر 2020ء میں اوّلین ایم آر این اے ویکسین متعارف کرائی گئی۔وبائی مرض سے پہلے ویکسینویکسی نیشن کسی خاص پیتھوجن کے خلاف مدافعتی ردعمل کی تشکیل کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ یہ بعد میں نمائش کی صورت میں بیماری کے خلاف جنگ میں جسم کو ایک سر آغاز دیتا ہے۔ مارے گئے یا کمزور وائرسوں پر مبنی ویکسینز طویل عرصے سے دستیاب ہیں، جن کی مثال پولیو، خسرہ، اور زرد بخار کے خلاف ویکسینز ہیں۔ 1951ء میں، میکس تھیلر کو پیلے بخار کی ویکسین تیار کرنے پرطب میں نوبیل انعام سے نوازا گیا۔حالیہ دہائیوں میں سالماتی حیاتیات میں پیشرفت کی بدولت، پورے وائرس کی بجائے انفرادی وائرل اجزاء پر مبنی ویکسین تیار کی گئی ہیں۔ وائرل جینیاتی کوڈ کے کچھ حصے جو عام طور پر وائرس کی سطح پر پائے جانے والے پروٹین کو انکوڈنگ کرتے ہیں، پروٹین بنانے کیلئے استعمال ہوتے ہیں جو وائرس کو روکنے والے اینٹی باڈیز کی تشکیل کو متحرک کرتے ہیں۔ اس کی مثالیں ہیپاٹائٹس بی وائرس اور ہیومن پیپیلوما وائرس کے خلاف ویکسین ہیں۔ متبادل طور پر، وائرل جینیاتی کوڈ کے کچھ حصوں کو ایک بے ضرر کیریئر وائرس، ایک ''ویکٹر‘‘ میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ یہ طریقہ ایبولا وائرس کے خلاف ویکسینز میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جب ویکٹر ویکسینز لگائی جاتی ہیں تو منتخب کردہ وائرل پروٹین ہمارے خلیوں میں پیدا ہوتا ہے، جو ہدف بنائے گئے وائرس کے خلاف مدافعتی ردعمل کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔پورے وائرس، پروٹین اور ویکٹر پر مبنی ویکسین تیار کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر سیل کلچر کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ وسائل سے بھرپور عمل پھیلنے اور وبائی امراض کے جواب میں تیزی سے ویکسین کی تیاری کے امکانات کو محدود کرتا ہے۔ لہٰذا محققین نے طویل عرصے سے سیل کلچر سے آزاد ویکسین ٹیکنالوجیز تیار کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن یہ چیلنج ثابت ہوا۔mRNA ویکسینز: ایک امیدہمارے خلیوں میں، ڈی این اے میں انکوڈ شدہ جینیاتی معلومات کو '' میسنجر آر این اے‘‘ (mRNA) میں منتقل کیا جاتا ہے، جو پروٹین کی پیداوار کیلئے ایک ٹیمپلیٹ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ 1980ء کی دہائی کے دوران، سیل کلچر کے بغیر '' ایم آر این اے‘‘ تیار کرنے کے موثر طریقے متعارف کروائے گئے، جسے ''وٹرو ٹرانسکرپشن ‘‘کہا جاتا ہے۔ اس فیصلہ کن قدم نے کئی شعبوں میں سالماتی حیاتیات کی ایپلی کیشنز کی ترقی کو تیز کیا۔ ویکسین اور علاج معالجے کے مقاصد کیلئے mRNA ٹیکنالوجیز کے استعمال کے خیالات بھی سامنے آئے، لیکن ان میں کچھ رکاوٹیں سامنے آئی ہیں۔ ان وٹرو ٹرانسکرپٹڈ ایم آر این اے کو غیر مستحکم اور ڈیلیور کرنے کیلئے چیلنج سمجھا جاتا تھا، جس میں ایم آر این اے کو ختم کرنے کیلئے نفیس کیریئر لیپڈ سسٹم کی ترقی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مزید برآں، وٹرو میں تیار کردہ ایم آر این اے نے سوزش کے رد عمل کو جنم دیا۔ لہٰذا، کلینیکل مقاصد کیلئے ایم آر این اے ٹیکنالوجی کی ترقی کیلئے جوش و خروش ابتدائی طور پر محدود تھا۔

آج کا دن

آج کا دن

ترکی اور یونان کے درمیان جنگ بندی 3 اکتوبر1922ء کو اناطولیہ میں یونانی فوج کی شکست کے بعد ترکی، برطانیہ، فرانس اور اٹلی کے درمیان مودانیہ کانفرنس کا آغاز ہوا۔ جس کے آٹھ روز بعد ترکی اور یونان کے درمیان جنگ بندی ہوئی۔ یونان نے ترکی کے مطالبات کو قبول کیا اور جنگ سے پہلے کی سرحدوں پر واپس آگیا۔یہ جنگ1919ء میں شروع ہوئی تھی۔لنگیاڈس قتل عام1943ء میں آج کے دن نازیوں کی جانب سے ایک قتل عام کیا گیا جس میں فرسٹ ماؤنٹین ڈویژن نے حصہ لیا، اسے ''لنگیاڈس کا قتل عام‘‘ کہا جاتا ہے۔ شمال مغربی یونان میں لنگیاڈس کے قریب ایک جرمن افسر قتل ہو گیا۔ جس کے بعد نازیوں نے ایک آپریشن شروع کیا جس میں بڑی تعداد میں لوگوں کو قتل کیا گیا۔ قتل کئے جانے والوں میں زیادہ تعداد بچوں، خواتین اور بزرگوں کی تھی۔آپریشن ہریکین''آپریشن ہریکین‘‘ برطانوی ایٹم ڈیوائس کا پہلا ٹیسٹ تھا جو 3 اکتوبر 1952ء کو مغربی آسٹریلیا کے ٹریموئل جزیرے میں کیا گیا۔ آپریشن ہریکین کی کامیابی سے برطانیہ، امریکہ اور سوویت یونین کے بعد تیسری ایٹمی طاقت بن گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران، برطانیہ نے جوہری ہتھیاروں کے منصوبے کا آغاز کیا تھا، جسے ''ٹیوب الائے‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔اٹلی میں کشتی حادثہ3 اکتوبر 2013ء کو لیبیا سے تارکین وطن کو اٹلی لے جانے والی ایک کشتی اطالوی جزیرے کے قریب ڈوب گئی۔ کشتی لیبیا سے روانہ ہوئی جس میں سوار بہت سے لوگوں کا تعلق اریٹیریا، صومالیہ اور گھانا سے تھا۔ اطالوی کوسٹ گارڈ کی بروقت کارروائی سے 155 افرادکو زندہ بچا لیا گیا۔ اس حادثہ میں میں مرنے والوں کی تصدیق شدہ تعداد 359 تھی جن میں سے بہت سے لوگوں کی لاشیں نہیں مل سکیں۔تحقیقات کے مطابق کشتی میں ضرورت سے زیادہ لوگوں کو بٹھانا حادثے کی وجہ بنا۔