’’ایریا51‘‘ امریکی خفیہ تجربات کی آماجگاہ
اسپیشل فیچر
فضا سے کارروائی کرنے کی ٹیکنالوجی میں امریکہ کو سبقت حاصل ہے جس کا استعمال وقتاً فوقتاً کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ''ایریا51‘‘ کے نام سے مشہور ہونے والے علاقے میں امریکہ نے متعدد خفیہ تجربات کیے۔ ذیل میں ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات کی روشنی میں چند اہم معلومات قارئین کی نذر کی جا رہی ہیں۔
امریکی خفیہ ادارے سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) نے جدید ترین ہوائی جہاز بنانے اور تجربات کرنے کیلئے1955ء میں امریکی فضائیہ اور ایک دفاعی کنٹریکٹر کے ساتھ مل کر جنوبی نواڈا میں واقع صحرائے موجیو کے دور افتادہ مقام کا انتخاب کیا ۔
کئی دہائیوں تک ''نواڈا ٹیسٹ اینڈ ٹریننگ رینج‘‘ جسے ''ایریا 51‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، کسی عام نقشے میں دکھائی نہ دی، یہاں تک کہ شروع میں امریکی حکومت نے اس کی موجودگی سرے سے تسلیم ہی نہ کی۔ اس مقام کے گرد سخت سکیورٹی تھی اور ''سیاہ ہوائی جہازوں‘‘ کے تجربات کے باعث 1950ء کی دہائی میں مختلف افوائیں پھیلیں جن میں اڑنے والی مخیرالعقول اشیا، خلائی مخلوق اور علاقے کے آس پاس عجیب و غریب سرگرمیوں کی باتیں شامل تھیں۔
سی آئی اے کی ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات کی مدد سے اب ہم جانتے ہیں کہ افواہوں کے برخلاف، وہاں کی جھیل گروم کے اوپر خلائی مخلوق کے جہاز کبھی نہیں آئے، مگر وہاں بہت سے انتہائی جدید اور غیرمعمولی ہوائی جہازوں کو تیار کیا گیا اور ان کے تجربات ہوئے۔ ذیل میں ایریا 51 میں بنائے گئے یا تجربات سے گزرنے والے چند شاندار جہازوں کے بارے میں بتایا جا رہا ہے۔
''یو2 ڈریگن لیڈی‘‘
1950ء کی دہائی کے اوائل میں، جب سرد جنگ عروج پر تھی، سی آئی اے نے 70 ہزار فٹ کی بلندی پر اڑنے والا طیارہ بنانے کی کوشش کی۔ امریکیوں کا خیال تھا کہ اتنی اونچائی پر یہ سوویت ریڈار کی پہنچ سے باہر ہو گا۔ اس تصور کا نتیجہ ''پروجیکٹ ایکواٹون‘‘ کی صورت میں نکلا جس میں ایک انجن والا طیارہ ''یو2 ‘‘بنایا گیا۔ اس کے پَر گلائیڈر کی طرح تھے۔ اسے صرف آٹھ ماہ میں کیلیفورنیا کے ایک مقام پر بنا کر'' ایریا 51‘‘ میں تجربات کیلئے بھیج دیا گیا۔ اس سے قبل کہ ''یو2‘‘ اڑان بھرتا، ماہرین کو ایسے ایندھن کی ضرورت تھی جس کی تبخیر اس بلندی پر نہ ہو جس پر طیارے نے اڑنا تھا۔ اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک معروف آئل کمپنی نے خصوصی ایندھن تیار کیا۔ اس تجربے میں ہوا بازوں کو زیادہ بلندی پر زندہ رکھنے کیلئے خصوصی طور پر تیار کیا گیا لباس بعدازاں خلا میں انسان کو بھیجنے کے منصوبے میں بہت کام آیا۔
یکم اگست 1955ء کو ''یو2‘‘ نے اپنی پہلی تجرباتی اڑان جھیل گروم کے اوپر بھری اور ایک برس سے بھی کم عرصے میں سوویت یونین کے اوپر پہلی بار اڑا۔ سی آئی اے کی ڈی کلاسیفائیڈ رپورٹ کے مطابق ''یہ فوری طور پر سوویت یونین کے بارے میں اہم خفیہ معلومات کا ذریعہ بن گیا۔‘‘ مگر اس کی قیمت ادا کرنی پڑی۔ 1956ء میں ''یو2‘‘ کی تجرباتی اڑانوں میں تین سی آئی اے ہوا باز مارے گئے۔ ان میں دو ''ایریا51‘‘ میںاور ایک جرمنی میں واقع ہوائی اڈے میں ہلاک ہوا۔ مئی 1960ء میں سوویت یونین نے اپنے شہر سوردلووسک کی فضاؤں میں ایک ''یو2‘‘ طیارہ مار گرایا اور اس کے ہوا باز فرانسس گیری پاورز کو پکڑ لیا۔ سوویت یونین نے امریکہ کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا کہ وہ جاسوسی کر رہا تھا۔ اگرچہ امریکی صدر آئزن ہاور نے سوویت یونین پر ''یو2‘‘ کی اڑانوں پر پابندی لگا دی، لیکن اس سے پہلے ہی زیادہ چھوٹے، تیز اور خفیہ رہنے والے طیاروں کے منصوبوں کا آغاز ہو چکا تھا۔
اے12 آکسکارٹ اور ایس آر71 بلیک برڈ
پراجیکٹ آکسکارٹ کی ابتدا 1957ء میں ہوئی۔ اس میں امریکی تاریخ کے دو انتہائی تیز اور بہت زیادہ بلندی پر پرواز کرنے والے طیارے بنائے گئے۔ ان میں ایک ''آرک اینگل12‘‘ تھا جس میں ایک نشست تھی اور دوسرا دو نشستوں والا ''ایس آر71 بلیک برڈ‘‘ تھا۔ ''اے12‘‘ میں دو جیٹ انجن تھے، اس کا دھڑ لمبا تھا اور یہ دور سے کوبرا جیسا لگتا تھا۔
پہلا ''اے12‘‘فروری 1962ء میں ''ایریا 51‘‘ میں آیا۔ اسے بُربنک کے مقام پر الگ الگ کرنے کے بعد نواڈا لے جایا گیا تھا۔ اس کیلئے خصوصی ٹرالر بنایا گیا تھا جس پر اس وقت ایک لاکھ ڈالر لاگت آئی تھی۔ ''اے12‘‘ کی موجودگی کو پوشیدہ رکھنے کیلئے سی آئی اے نے فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (ایف اے اے) کے سربراہ کو بریفنگ دی تھی، جس نے ایئرٹریفک کنٹرولرز کو حکم دیا کہ وہ کسی غیرمعمولی تیز اور بلند اڑنے والے طیارے کی اطلاع ریڈیو پر دینے کے بجائے تحریری طور پر دیں۔ اس کے باوجود ''اے12‘‘ کی ''ایریا 51‘‘ پر، اپریل 1962ء میں پہلی پرواز کے بعد خلائی جہاز دیکھے جانے کی خبریں زوروں پر تھیں۔ 90 ہزار فٹ کی بلندی پر 2200 میل فی گھنٹہ سے قدرے زائد مستحکم رفتار حاصل کرنے کے بعد اس طیارے نے 1967ء میں ویت نام اور شمالی کوریا کے اوپر پروازیں شروع کر دیں۔ اگلے برس اس کی جگہ ایس آر71 بلیک برڈ نے لے لی۔ ''ایس آر71‘‘،'' اے12‘‘ کی نسبت لمبا اور بھاری ہے۔ یہ سپر سانک طیارہ ہے اور اپنے خصوصی ڈیزائن اور روغن کی وجہ سے ریڈار پر کم دکھائی دیتا ہے۔ 28 جولائی 1976ء کو ہوا بازوں نے ''ایس آر71‘‘ کو 2193 میل فی گھنٹہ کی ریکارڈ رفتار سے اڑایا۔ یہ رفتار 400 فٹ فی سیکنڈ بنتی ہے، جو گولی سے بھی زیادہ رفتار ہے۔ یہ دنیا کا تیز ترین طیارہ ہے۔
مِگ21
نئے طیاروں کی ٹیکنالوجی پرکھنے کے علاوہ ''ایریا51‘‘ کو غیرملکی طیاروں کی جانچ پڑتال کیلئے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ سرد جنگ کے دوران ان طیاروں کو خفیہ طریقوں سے امریکی حکومت نے حاصل کیا۔ تازہ ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات کے مطابق 1960ء کی دہائی کے اواخر میں امریکی فضائیہ ایک سوویت مِگ21 جیٹ فائٹر اپنے ہاں لائی۔ ایک عراقی پائلٹ ملک سے روگردانی کرتے ہوئے اس طیارے کو لے کر اسرائیل چلا گیا اور وہاں سے امریکہ نے اسے لے لیا۔ ''ایریا51‘‘ میں اس کی انجینئرنگ اور کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔
1968ء میں 40 دنوں سے زائد عرصہ میں امریکی ہوا بازوں نے مِگ کی 102 تجرباتی پروازیں کی جن میں انہیں معلوم ہوا کہ اگرچہ سوویت طیارے رفتار میں ایف5 اور ایف 105 جیسے امریکی طیاروں سے کم ہیں لیکن یہ زیادہ تیزی سے موڑ کاٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔مِگ کے بارے میں جاننے کا فائدہ امریکہ کو ویت نام میں ہوا جس میں سوویت یونین کے تیارکردہ 137 مِگ گرائے گئے۔
ایف117 نائٹ ہاک
1970ء کی دہائی میں پہلے امریکی سٹیلتھ بمبار ''ایف117 نائٹ ہاک‘‘ کو تیار کیا گیا۔ اس کا ڈیزائن کٹے ہوئے ہیرے جیسا تھا جس کا مقصد ریڈار کی لہروں کو منعکس اور تتربتر کرنا تھا۔ اسے ''ایریا51‘‘ میں جون 1981ء کو پہلی بار اڑایا گیا۔ 1988ء تک اس کی خبر کو عام نہ کیا گیا اور یہ سات برسوں تک پینٹاگان کا خفیہ اور بیش قیمت منصوبہ رہا۔
ڈاکٹر عثمان شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں، آپ نے بیجنگ یونیورسٹی سے
پی ایچ ڈی ہیں