بحری جہاز کب اور کیسے ایجاد ہوئے؟
اسپیشل فیچر
پانی پر تیرنا اتنی ہی پرانی بات ہے جتنی انسان کی تاریخ۔ قدیم زمانے میں لوگوں نے جب کسی درخت کے تنے کو دریا میں بہتے دیکھا ہو گا تو انہوں نے معلوم کر لیا ہو گا کہ لکڑی پانی میں تیر سکتی ہے۔ اس زمانے کے لوگ درختوں کے انہی تنوں پر سوار ہو کر دریاؤں کو عبور کرتے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے بہت سی لکڑیوں کو ملا کر ایک بڑا سا تختہ بنا لیا جس پر کئی آدمی بیٹھ سکتے تھے اور سامان کو بھی اس کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جا سکتاتھا۔ جلد ہی انسان کی ضرورت نے اسے محسوس کرا دیا کہ یہ طریقہ بھی محفوظ نہیں۔ اب اس نے تختوں کو ملا کر کھوکھلی لکڑی کی صورت میں ناؤ یا کشتی بنائی جس میں چاریا چھ آدمی بیٹھ کر سفر کرنے لگے۔ بادبان کا استعمال بھی اسی زمانے میں شروع ہوا۔ اس وقت تک ناؤ صرف دریا کے بہاؤ پر چلتی تھی،بادبان کی ایجاد سے اسے مخالف سمت میں بھی چلایا جانے لگا۔ انسان نے جب دریاؤں اور جھیلوں کو عبور کر لیا تو باہمت ملاحوں نے سمندر کے کنارے کچھ دور تک ناؤ چلائی۔
یورپ سے برصغیر پاک وہند کا خشکی کا راستہ اسلامی ملکوں سے ہو کر گزرتا تھا اور ان راستوں سے جو مال یہاں آتا تھا، اسلامی ممالک اس پر ٹیکس لیتے تھے، جس کے باعث اشیاء ہندوستان پہنچ کر گراں قیمت پر فروخت ہوتی تھیں۔ لہٰذا یورپ کے لوگوں نے ایسے بحری راستے تلاش کیے جن کے ذریعے وہ ہندوستان کا سفر بغیر کسی رکاوٹ کے کر سکیں۔ انہوں نے بحری جہاز بنائے اور ملاحوں نے بحری سفر کر کے کئی نئے راستے اور نئے ملک ڈھونڈ نکالے۔ حقیقت میں یورپ کی ترقی کا سب سے بڑا ذریعہ بحری سفر تھا۔ تھوڑی مدت بعد بحری جہازوں کے ذریعے تجارت اور سفر ہونے لگے۔ سمندری چٹانوں سے محفوظ رہنے کیلئے جگہ جگہ روشنی کے مینار بنائے گئے۔ سمتوں سے واقفیت کیلئے قطب نما سے کام لیا جانے لگا، جس کی سوئی کا رخ ہمیشہ شمال کی طرف رہتا ہے۔
بادبانی جہازوں کی یہ دقت تھی کہ وہ ہوا کے مخالف نہیں چلائے جا سکتے تھے۔ معمولی طوفان سے ان کے غرق ہونے کا ڈر رہتا۔ کشتی کو بھاپ سے چلانے کی پہلی کوشش فرانسیسی موجد ڈینس پاپن اور انگریز موجد تھامس نیوکومن نے کی۔ 1785ء میں مارکوئس ڈی جافرے، جو فرانس کا رہنے والا تھا، دخانی کشتی بنانے میں کامیاب ہوا۔ 1789ء میں انگلستان میں سمینگٹن، ٹیلر اور ملر تین اشخاص نے مل کر دخانی یعنی بھاپ سے چلنے والی کشتیاں بنانے کے تجربے کیے ۔امریکی باشندے رابرٹ فلٹن نے 1807ء میں بھاپ سے چلنے والا بحری جہاز بنایا۔ اس جہاز نے اپنا پہلا سفر دریائے ہڈسن میں نیویارک سے البانی تک، ساڑھے چار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے کیا۔
آہستہ آہستہ جہاز سازی کی صنعت میں ترقی ہوتی گئی اور یورپ کے ملکوں میں بھی دخانی جہاز بننے لگے۔ جس دخانی جہاز نے سب سے پہلے 1838ء میں اوقیانوس کو عبور کیا اس کا نام ''سریس‘‘ تھا۔ اس میں بادبان بھی لگائے گئے تھے تاکہ ایندھن کم خرچ ہو۔ 1811ء میں انگلستان کا جہاز ''گریٹ برٹین‘‘ سمندر میں اتارا گیا۔ اس کے انجن بہت طاقتور تھے اور اس میں کافی سامان لادا جا سکتا تھا۔ اس کے بعد جہاز سازی میں نئی نئی تحقیقات کی گئیں اور تھوڑے عرصے بعد بحری سفر آرام دہ اور محفوظ ہو گیا۔
بحری جہازوں نے طوفانوں پر اگرچہ فتح پا لی تھی، تاہم ان کے ڈوب جانے کا برابر اندیشہ رہتا تھا۔ آخر ایک انگریز لیونل لیوکن نے ایک لائف بوٹ بنائی۔ آہستہ آہستہ اس کو بہتر بنایا اور اس کی خامیوں کو دور کیا۔ اب حادثات کے وقت لیوکن کی لائف بوٹ 25 آدمیوں کو سمندر سے صحیح سلامت نکال لانے لگی۔
ہر جہاز میں متعدد لائف بوٹس اور لائف بیلٹس ہوتی ہیں۔ حادثے کی صورت میںجہاز کا عملہ لائف بیلٹس باندھ لیتے ہیں، لائف بوٹس سمندر میں ڈال دی جاتی ہیں اور مسافر ان میں بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر کوئی لائف بوٹ سمندر میں تباہ ہو جائے تو لائف بیلٹ سے لوگ اپنی جانیں بچا سکتے ہیں۔ یہ پیٹیاں انسان کو پانی میں ڈوبنے نہیں دیتیں۔ جب تیل سے چلنے والے انجن ایجاد ہوئے تو بحری جہازوں میں بھی یہ انجن لگا دیے گئے جن سے ان کی رفتار بہت تیز ہو گئی۔ موجودہ زمانے میں زیادہ تر بحری جہاز ڈیزل سے چلتے ہیں۔ مسافر بحری جہازوں کو ایٹمی طاقت سے چلانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن یہ خطرناک تھا اس لیے ترک کر دیا گیا۔ البتہ امریکا اور روس نے ایٹمی طاقت سے چلنے والی آب دوزیں بنالیں۔
آج کل کے جہازوں میں مسافروں کے آرام اور سہولت کیلئے سینما، کھیل کے میدان اور تیراکی کے تالاب بھی ہوتے ہیں۔ جنگ کیلئے الگ جہاز بنائے جاتے ہیں۔ ان میں فوجی سازو سامان اور توپین وغیرہ ہوتی ہیں۔ ان کے ذریعے ایک سے دوسری جگہ فوجیں بھی لے جائی جاتی ہیں۔ بحری جہازوں پر طیارے کھڑے بھی کیے جا سکتے ہیں اور اڑائے اور اتارے بھی جا سکتے ہیں۔
بحری جہازوں کی صنعت بہت وسیع ہے اور ممالک کے درمیان تجارت کا اہم ذریعہ بھی۔ غالباً سمندری راستوں کے بغیر عالمی تجارت کا تصور کرنا محال ہے۔ سمندری راستوں کی اہمیت کے پیش نظر ان تک رسائی کو محفوظ بنانے کی کوششوں نے امریکہ اور چین کے درمیان مخاصمت کو جنم دیا۔ یہ مخاصمت بحیرہ جنوبی چین، بحرہند اور دیگر سمندروں میں دکھائی دیتی ہے۔