’’دریائے نیل‘‘ دنیا کا طویل ترین دریا
اسپیشل فیچر
براعظم افریقہ میں واقع 6695کلو میٹر کی لمبائی کے باعث دریائے نیل دنیا کا طویل ترین دریا ہے ۔ بنیادی طور پر یہ دو دریاؤں ''نیل ابیض‘‘ اور '' نیل ازرق ‘‘ کے ملاپ سے مزید گہرا ہو جاتا ہے ۔ دریائے ابیض جنوبی روانڈا سے نکل کر شمال کی جانب تنزانیہ ، یوگنڈا اور جنوبی سوڈان کو چھوتا ہوا آگے رواں دواں رہتا ہے جبکہ دریائے ازرق ایتھوپیا میں جھیل ٹانا سے نکلتا ہے۔ سوڈانی شہر خرطوم میں دونوں کا ملاپ ہوتا ہے ۔یہی وہ مقام ہے جہاں ایک نیا دریا ''دریائے نیل ‘‘ بنتا ہوا نظر آتا ہے۔ سوڈان پہنچ کر اس کی رفتار میں خاطر خواہ کمی آ جاتی ہے کیونکہ یہاں اس کا گزر ایک بہت بڑی دلدل سے ہوتا ہے۔ دنیا کی اس سب سے بڑی دلدل کی لمبائی سات سو کلو میٹر ہے ۔
خرطوم کے بعد اس کا ملاپ اتبارا کے مقام پر دریائے اتبارا سے ہوتا ہے جوحبشہ کے پہاڑوں سے نکلنے والی جھیل ٹانا کا ایک دریا ہے ۔مصری سرحد پر یہ دنیا کی سب سے بڑی مصنوعی جھیل ''جھیل ناصر‘‘ میں شامل ہو جاتا ہے۔ اسوان کے مقام پر ایک بند باندھنے کی وجہ سے بہت بڑی جھیل وجود میں آئی جس سے چھوٹی چھوٹی نہروں اور سرنگوں کی مدد سے ایک طرف بجلی پیدا کی جانے لگی جبکہ دوسری طرف آبپاشی سے زمینوں کو سر سبز کھیتوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ شاید اسی وجہ سے زمانہ قدیم میں مصر کی بنجر زمینوں کو نیل کی بدولت سر سبز و شاداب دیکھ کر یونانی مؤرخ ودویش نے مصر کو ''نیل کا عطیہ ‘‘کہا تھا۔قاہرہ پہنچ کر دریائے نیل مختلف شاخوں میں تقسیم ہو کر اسکندریہ کے قریب بحیرہ روم میں گر جاتا ہے ۔
دریا کی رفتار اور پانی کی مقدار جانچنے کیلئے زمانہ قدیم میں اہل مصر نے ایک پیمانہ ''نیلو میٹر‘‘ ایجاد کر رکھا تھاجو ایک کمرے پر مشتمل ہوتا تھا۔ جس میں ایک سوراخ کے ذریعے پانی آتا تھا، جہاںپانی کا درجہ حرارت، رنگ اور رفتار معلوم ہوتی رہتی تھی۔جس کے ذریعے سیلاب کی آمد کی قبل از وقت پیش گوئی کر کے فصلوں کیلئے احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کیا جا سکتا تھا۔
دریائے نیل کا منبع
دریائے نیل کے آغاز کا مقام تحقیق کا باعث ضرور تھا لیکن یہ ایک مشکل ترین کام تھا۔اس لئے کسی نے کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ ایک تو اس دریا کی لمبائی بہت زیادہ ہے، یہ گیارہ ملکوں کو عبور کرتاہے،دوسرے اکثر مقامات پر پانی کا بہائو اس قدر تیز ہوتاہے کہ پہاڑوں اور چٹانوں کو کاٹتا ہوا ایسے نوکیلے کناروں میں تبدیل کر دیتا ہے، جسے عبور کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ اٹھارویں صدی میں کچھ یورپی سیاحوں نے افریقہ کے اندرونی علاقوں کو دریافت کرنے کا سوچا۔ 1857ء میں دو سیاح رچرڈ برٹن اور جان ہیننگ ٹن اسپیک افریقہ کے مشرقی ساحل سے عازم سفر ہوئے۔ دشوار گزار راستوں سے گزرتے ہوئے برٹن شدید بیمار ہوگیا۔ جبکہ اسپیک نے ہمت نہ ہاری اور یوگنڈا کے شہر کمپلا میں واقع جھیل وکٹوریہ تک جا پہنچا۔ اس نے کہا کہ دراصل اسی مقام سے دریائے نیل شروع ہوتا ہے ۔
دلچسپ انکشافات
دریائے نیل یوگنڈا سے شروع ہو کر 11ممالک سے ہوتا ہوا بحیرہ روم میں جا گرتا ہے ۔ ان ممالک میں یوگنڈا، تنزانیہ، وانڈا، برونڈی، کونگو،کینیا، ایتھوپیا، کینشاسا، ایری ٹیریا، سوڈان اور مصر شامل ہیں ۔
دریا کے کنارے پر کئی تاریخی اور گنجاب آباد شہر آباد ہیں جن میں قاہرہ، الیگزینڈریا، خرطوم، اساوان اور لکسور شامل ہیں ۔ مشہور مصری تہذیب بھی اسی دریا کے کنارے پر آباد ہے ۔ اس دریا کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ قرآن پاک میں بھی اس کا ذکر موجود ہے۔ یہ دنیا کا واحد دریا ہے جو جنوب سے شمال کی سمت بہتا ہے جبکہ باقی سب دریا شمال سے جنوب کی طرف بہتے ہیں ۔
''نیل ‘‘کے لفظی معنی دریا کے ہیں جبکہ لفظ ''نیل‘‘یونانی لفظ Neliosسے نکلا ہے۔ اسکندریہ شہر دریائے نیل ہی کے کنارے آباد ہے۔ یہ وہی شہر ہے جس کا نام سکندر اعظم کے نام پر رکھا گیا تھا۔ یہیں پر زمانہ قدیم میں ''لائٹ ہاؤس ‘‘بنایا گیا تھا جسے عرف عام میں ''روشن مینار‘‘ بھی کہتے ہیں لائٹ ہاؤس بھی عجائبات عالم میں شامل ہے ۔
یہ دریا دنیا کے گیارہ ممالک کے چالیس سے پچاس کروڑ افراد کی پانی کی مختلف ضروریات پوری کرتا ہے۔ یہ حبشہ کے میدانوں سے اپنے ساتھ زرخیز مٹی لا کر مصر کی زمینوں کو زرخیز کرتا آ رہا ہے، جس سے مصر کی زمینیں سونا اگلتی آ رہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس خطے میں شاید ہی کوئی اور زمین اس قدر زرخیز ہو۔
حیرت انگیز قدیم روایات
یہ عظیم دریا زمانہ قدیم میں مصریوں کو بہت پراسرار معلوم ہوتا تھا ۔وہ تعجب کرتے کہ ہر سال باقاعدگی سے اپنے مخصوص وقت پر اس میں تغیانی کہاں سے آ جا تی ہے ۔ پرانی روایات کے مطابق اس بارے طرح طرح کے افسانے گھڑ لئے گئے تھے ۔ ایک روایت یہ تھی کہ دیوی ہر سال اس میں ایک آنسو گراتی ہے جس کے سبب نیل میں حیرت انگیز طغیانی آ جاتی ہے ۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ کہاوت بے معنی ہوتی چلی گئی۔
چونکہ زمانہ قدیم میں نیل آمدورفت کا سب سے موثر ذریعہ تھا اس لئے مصری دریائے نیل کی پوجا کرتے ۔ یہ دریا ہر سال 17جون کی رات کو چڑھنا شروع ہو جاتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی اس قدیم تصور کے چند پجاری موجود ہیں۔