مردان کی تاریخی اہمیت
اسپیشل فیچر
مردان پاکستان کا تاریخی شہر ہے یکم جولائی 1988ء کو صوبہ خیبر پختونخوا کے تاریخی شہر مردان کو ڈویژن کا درجہ ملا۔ اس طرح صوبہ خیبر پختونخوا میں چھٹا ڈویژن مردان ڈویژن ہے۔ مردان کی وجہ تسمیہ کے بارے میں بزرگوں کا کہنا ہے کہ اوائل میں اس علاقہ کو ایک ممتاز روحانی پیشوا مردان شاہ کے نام سے موسوم کیا گیا حتیٰ کہ یہ سارا علاقہ ہی مردان کے نام سے پکارا جانے لگا۔
مردان، صوبہ خیبر پختونخوا کے صدر مقام پشاور سے چالیس میل دور شمال مشرق میں واقع ہے۔ مردان دور غلامی میں پشاور کی تحصیل تھا جسے یکم جنوری 1937ء میں ضلع کا درجہ دیا گیا۔ پاکستان کے ایک سابق صدر سکندر مرزا مرحوم ضلع مردان کے پہلے ڈپٹی کمشنر مقرر کئے گئے۔
ضلع مردان کے تاریخی مقامات شہباز گڑھی، گڑھی، اور تخت بھائی ایک دوسرے سے نو میل کے فاصلے پر ہیں یہاں کے آثار قدیمہ مردان کی تاریخی عظمت کا تعین کرتے ہیں۔ مردان کا علاقہ بیرونی حملہ آوروں کے ہاتھوں کئی مرتبہ شکست و ریخت سے گزرا اور محمود غزنوی سے احمد شاہ ابدالی تک تمام مسلمان سلاطین ہندوستان پر لشکر کشی کے دوران ان علاقوں سے گزرے۔
مردان چھائونی کی تاریخ خاصی طویل ہے 1850ء میں سب سے پہلے یہاں گائیڈوں نے ڈیرہ جمایا اور بعد ازاں یہ فوجی دستے بغداد اور گوجر گڑھی تک پھیل گئے دسمبر 1853ء میں مردان قلعے کی تعمیر شروع ہوئی جس میں بارہ سو مقامی مزدوروں نے حصہ لیا۔
مردان میں جگہ جگہ تاریخی آثار پائے جاتے ہیں۔ سوتی مردان سے 9میل دور، مردان ، مالا کنڈ روڈ پر ایک پہاڑی پر جو سطح سمندر سے کوئی دو ہزار فٹ بلند ہے قدیم زمانہ کے کھنڈرات پائے جاتے ہیں۔ پہاڑ کی عین چوٹی پر بودھوں کی ایک عبادت گاہ اور درس گاہ کے آثار پائے جاتے ہیں۔ مردان سے آٹھ میل مشرق کو صوابی جانے والی شاہراہ پر شہباز گڑھ کا تاریخی قصبہ واقع ہے۔ شہنشاہ بابر نے تزک بابری میں اس کا ذکر کیا ہے کہ قصبے نے موجودہ نام شہباز قلندر نامی ایک بزرگ سے پایا ہے۔ جو بابر کی آمد سے 30 برس پیشتر فوت ہو چکے تھے۔ مردان صوابی روڈ پر شہباز گڑھ سے کوئی بارہ میل شمال مشرقی کو اسوڑ قصبہ ہے یہاں سے ایک ذیلی سڑک شیوہ کو بھی نکلتی ہے اس جگہ پتھروں کی بنی ہوئی ایک قدیم عمارت کے آثار ملے ہیں۔
محققین کہتے ہیں کہ پتھر کی یہ عمارت ایک قدیم عبادت گاہ تھی جہاں سورج دیوتا کی پرستش کی جاتی تھی۔ تخت بھائی کے قدیم قصبے سے دو اڑھائی میل جنوب مغرب کی ساری بہلول کا گائوں ایک اونچے ٹیلے پر ہے۔ ساری بہلول صوبہ خیبر پختونخوا میں گندھارا آرٹ کا بہت بڑا خزینہ ہے، مردان سے بیس اکیس میل مشرق میں سنگھائو کے مقام سے ملنے والے پتھر کے اوزار آج سے چالیس ہزار برس پہلے کی انسانی آبادی کا پتہ دیتے ہیں۔
مردان کو تاریخی اور تجارتی لحاظ سے صوبہ خیبر پختونخوا کے اہم شہر کی حیثیت حاصل ہے یہ شہر اپنے دامن میں اتنی داستانیں پنہاں کئے ہوئے ہے جتنی کسی قدیم شہر کی ہو سکتی ہیں لیکن کسی نے ان تاریخی مقامات اور یادگاروں کے پیچھے چھپی ہوئی داستانیں پڑھنے کی کوشش نہیں کی۔ اس خطے میں بدھ مت کے کھنڈرات محمود غزنوی، نادر شاہ، احمد شاہ ابدالی، مغلوں، درانیوں، سکھوں اور انگریزوں کی فتوحات اس بات کی آئینہ دار ہیں کہ یہ علاقہ ماضی میں مختلف تہذیبوں کا مسکن رہا ہے۔تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ 320ء ق م میں یونان شہنشاہ سکندر اعظم سوات اور بونیر کے راستے سے ہوتا ہوا مردان کے علاقے میں اٹک سے 20میل شمال مشرق میں ہنڈنام کا ایک شہر بسایا جو برسوں وادی گندھارا کا دارالحکومت رہا۔
مردان کینٹ کے علاقے میں برطانوی دور حکومت کی قائم کردہ ایک یاد گار عمارت موجود ہے جسے 1892ء میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی یاد میں تعمیر کیا گیا تھا۔ انگریزی اقتدار کی حفاظت کرتے ہوئے کوئین اون کیولری کے سپاہیوں کے دستہ جس میں سکھوں اور ہندوئوں کے علاوہ مسلمان سپاہی بھی شامل تھے۔ 3ستمبر 1879ء کو کابل ریذیڈنس پر افغانوں کی یلغار پر کندہ ہیں اس یاد گار عمارت کے دائیں جانب پہلی منزل پر چند سیڑھیاں چڑھنے کے بعد ایک چوبی پختہ دیوار کے ساتھ سیڑھیوں میں نصب کیا گیا ہے۔
عام طور پر لوگ اس تختے کے بارے میں نہیں جانتے حالانکہ یہ تختہ ہماری تاریخ کا روشن باب ہے اس تختے کے پیچھے صوبہ خیبر پختونخوا کے نپولین عمرا خان کا چہرہ چھپا ہوا ہے جس نے ماضی میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی یہ مضبوط چوبی تختہ جس کی موٹائی چار انچ ہے۔ منڈا قلعہ، دیر کے اس دروازے کا حصہ ہے جسے سر کرنے کی مہم میں انگریزوں کو قدم قدم پر خیبر پختونخوا کے مجاہدوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ عمراخان، منڈا قلعہ کا سردار تھا اس کی بے مثال بہادری اور شجاعت کی داستانیں آج بھی یہاں کے بچے بچے کی زبان پر ہیں۔
انگریز قلعے کے دروازے کا ایک حصہ فتح کی نشانی کے طور پر اکھاڑ کر مردان لے آئے مالا کنڈ کی جنگ میں عمراخان کے خلاف استعمال کی جانے والی توپیں بھی مردان میں تعمیر کی جانے والی یادگار کے طور پر رکھ دی گئیں۔ آج بھی یہ توپیں عمرا خان کی توپوں کے نام سے مشہور ہیں۔