احمد راہی لاجواب اردو فلمی نغمات کے بھی تخلیق کار
2ستمبر2002ء کو اس دنیا سے رخصت ہونے والے احمد راہی پنجابی کی شاعری کے حوالے سے اپنی ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں۔عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ احمد راہی نے اعلیٰ درجے کی پنجابی شاعری کی ہے جبکہ پنجابی شاعری کے علاوہ انہوں نے بہت خوبصورت پنجابی نغمات بھی لکھے ہیں۔ سب سے زیادہ ذکر ان کی جن پنجابی فلموں کا کیا جاتا ہے ان میں ''یکے والی‘‘، ''مرزا جٹ‘‘ اور ''ہیر رانجھا‘‘ شامل ہیں۔ پنجابی نظموں کی ان کی کتاب ''ترنجن‘‘ اب تک مقبول ہے۔
اس طرف شاید کسی کا دھیان نہیں جاتا کہ احمد راہی نے نہ صرف اردو شاعری کی بلکہ کئی اردو فلموں کیلئے نغمات بھی لکھے اور ان میں سے کئی نغمات سپر ہٹ ہوئے بلکہ آج تک ان کی مقبولیت برقرار ہے۔ احمد راہی کے لازوال گیتوں نے فلم انڈسٹری میں اپنی خوب دھوم مچائے رکھی۔ان کے لکھے ہوئے لوگ گیتوں کے علاوہ فلمی گیتوں نے بھی ایک عرصہ تک لوگوں کے دلوں پر راج کیا ہے۔احمد راہی کو اپنی زندگی میں بھی اس بات کا قلق تھا کہ ان کی اردو شاعری کے بارے میں بات نہیں کی جاتی۔ بہرحال ہم اس مضمون میں احمد راہی کے بے مثل اردو نغمات کے بارے میں اپنے قارئین کو بتائیں گے۔
1960ء میں خلیل قمر کی فلم ''کلرک‘‘ ریلیز ہوئی جس کے ہدایت کار بھی وہ خود تھے۔ اس میں ایک گیت کے علاوہ باقی تمام گیت احمد راہی کے زور قلم کا نتیجہ تھے۔ اس کے دو گیت ''بھٹک رہے ہیں ہم جہاں‘‘ اور ''خالی پیٹ کسے دکھائیں‘‘ تو بہت اثر انگیز تھے۔
نجم نقوی کی فلم ''دل ناداں‘‘ کے گیت احمد راہی اور طفیل ہوشیارپوری نے تحریر کیے۔ بابا جی اے چشتی کی موسیقی بہت معیاری تھی۔ اس میں احمد راہی کا لکھا ہوا ایک نغمہ ''دولت کے گن گانے والو، دل جو نہیں تو کچھ بھی نہیں‘‘ بہت پسند کیا گیا۔اسی طرح فلم ''خیبر میل‘‘ کیلئے ان کا گیت ''اے چاند تو بتا‘‘ بھی بہت پسند کیا گیا۔فلم ''سلطنت‘‘ کیلئے ان کا ایک گیت ''بہکی بہکی ہوا جاری جا‘‘ ناہید نیازی نے گایا اور اس گیت کو بہت سراہا گیا۔ فلم ''عجب خان‘‘ کا مشہور گیت ''کوئی مخمور نظر، یوں گئی دل سے گزر‘‘ بھی احمد راہی نے تخلیق کیا اور اسے بھی ناہید نیازی نے گایا۔
1963ء میں سلیمان کی فلم ''باجی‘‘ کے تمام نغمات احمد راہی کے زرخیز ذہن کی پیداوار تھے۔ احمد راہی نے اس فلم کے مکالمے بھی لکھے تھے۔ اس فلم کے نغمات ''اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا‘‘، ''دل کے افسانے نگاہوں سے زباں تک پہنچے‘‘،''چندا توری چاندی میں جیا جلا جائے رے‘‘، ''سجن لاگی توری، لگن من سا‘‘ نے زبردست مقبولیت حاصل کی۔اگرچہ ''باجی‘‘ باکس آفس پر اتنی زیادہ کامیاب نہیں ہوئی لیکن اس کے نغمات آج بھی دل کے تاروں کو چھو لیتے ہیں۔
1968 میں ہدایت کار لقمان کی فلم ''پاکیزہ‘‘ کو نمائش کیلئے پیش کیا گیا۔ اس فلم میں احمد راہی کا لکھا ہوا گیت ''لوٹ آئو میرے پردیسی بہار آئی ہے‘‘ بہت مقبول ہوا۔1979 میں مسعود پرویز کی فلم ''خاک اور خون‘‘ میں احمد راہی کے دو گیت ''علم تو ہے پردہ تقدیر میں‘‘ اور ''میں تری یاد کو دل سے بھلاتا ہوں‘‘ شامل تھے۔فلم ''آزاد‘‘ کے نغمات نے کافی مقبولیت حاصل کی۔ احمد راہی اس فلم کے دو نغمات تخلیق کیے، جن میں سے ''میں وہ دیوانہ ہوں جس پر کوئی ہنستا بھی نہیں‘‘ بہت مقبول ہوا۔
نیلو اور یوسف خان کی فلم ''رقاصہ‘‘ ایک ناکام فلم تھی لیکن ماسٹر رفیق علی کی موسیقی میں تمام گلوکاروں نے اس کے گیت بڑے خوبصورت انداز میں گائے۔ اس فلم کے سات نغمات میں سے چھ نغمات شیر کاظمی نے تحریر کیے جبکہ احمد راہی نے صرف ایک گیت ''رو رہی ہے شام غم، جلنے لگی تنہائیاں‘‘ لکھا، جسے بہت پسند کیا گیا۔
انور کمال پاشا کی فلم ''گمراہ‘‘ کا ذکر بھی ضروری ہے۔ فلم کے آٹھ گیتوں میں سے دو قتیل شفائی نے لکھے جبکہ چھ گیت احمد راہی نے تحریر کیے۔ احمد راہی کے جن نغمات کو شہرت ملی ان میں ''آئے کوئی کارواں‘‘، ''لو ہو گئے ہم تیرے‘‘، ''رہی نہ میرے بس کی بات‘‘ شامل ہیں۔ فلم ''بدل گیا انسان‘‘ میں احمد راہی کا لکھا ہوا گیت ''دل بے قرار کو قرار آگیا ہے‘‘ کو بہت پسند کیا گیا۔
مذکورہ بالا نغمات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ احمد راہی نے صرف پنجابی فلموں کیلئے ہی لازوال گیت نہیں لکھے بلکہ ان کے اردو گیتوں کا بھی جواب نہیں۔ ان کا گلہ جائز تھا کہ ان کے اردو گیتوں کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو دینی چاہیے تھی۔ جو بھی ہو راہی صاحب کے اردو گیت بھی یاد رکھے جائیں گے۔