غصہ آگ کا اک انگارہ

غصہ آگ کا اک انگارہ

اسپیشل فیچر

تحریر : سلمان عثمانی


ایک صالح بزرگ کو بلا وجہ شیر کے پنجرے میں پھینک دیا گیا لیکن اللہ نے ان کو بچالیا۔ باہر نکلنے کے بعد لوگوں نے پوچھا ''شیر کے پنجرے میں آپ کیا سوچ رہے تھے‘‘؟ بزرگ کہنے لگے ''مجھے غصہ بالکل نہیں آیا،میں سوچ رہا تھا کہ شیر کالعاب پاک ہے یا ناپاک؟علماء نے لعاب کے بارے میں کیا کہا ہے؟‘‘
ابن القیمؒ کہتے ہیں کہ انسان کی قیمت اس کی ہمت اور ارادے سے متعین ہوتی ہے؟ مصم ارادہ انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا سکتا ہے۔سکراتِ موت میں بھی امام احمد بن حنبلؒ اپنی داڑھی کو پانی سے خلال کرنے کا اشارہ کر رہے تھے اور اسے وضو کرانے کے لئے کہہ رہے تھے۔''دنیا کی چاہت والوں کو ہم کچھ دنیا دے دیتے ہیں اور آخرت کا ثواب چاہنے والوں کو ہم وہ بھی دیں گے‘‘ (145:3)۔
حدیث پاک میں آیا ہے ''غصہ نہ کرو، غصہ نہ کرو، غصہ نہ کرو‘‘ اسی میں آگے یہ ہے کہ ''غصہ آگ کا ایک انگارہ ہے۔ شیطان تین اوقات میں بندے پر چھا جاتا ہے: غصہ ، شہوت اور غفلت کے وقت۔
اپنے اوپر زیادتی کواگر آپ معاف کر دیں اور درگزر کریں تو دنیا میں عزت اور آخرت میں بڑامرتبہ ملے گا جیسا کہ ارشاد فرمایا ''تو جودرگزر کر دے اور اصلاح سے کام لے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہوگا‘‘ (40:42)
کسی شخص نے سالمؒ بن عبداللہ بن عمر ؓ تابعی سے کہا کہ تم برے آدمی ہو! فرمایا'' مجھے تمہارے علاوہ کسی نے نہیں پہچانا‘‘۔ ایک امریکی ادیب کہتا ہے ''ڈنڈے اور پتھر میری ہڈیاں توڑ سکتے ہیں لیکن کلمات مجھے نقصان نہیں دے سکتے‘‘۔ ایک شخص نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا ''میں تمہیں ایسی گالی دوں گا جو تمہارے ساتھ قبر تک جائے گی!‘‘ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا ''بلکہ تمہاری قبر میں جائے گی!!‘‘ ایک شخص نے عمروؓ بن العارص سے کہا ''میں آپ سے جنگ کے لئے یکسو ہو جاؤں گا‘‘ فرمایا ہاں اب تمہیں مصروف کن کام ملا!! جنرل آیزن آور کہتا تھا: جن لوگوں کو ہم پسند نہیں کرتے ان کے بارے میں سوچ سوچ کر اپنا وقت کیوں ضائع کریں۔ مچھرکھجور سے بولا، رکو میں اڑنا اور تمہیں چھوڑ دینا چاہتا ہوں۔ کھجور نے کہا، خدا کی قسم جب تو میرے اوپر اترا تھا میں نے اس وقت کچھ محسوس نہیں کیا تو جب اُڑ جائے گا تو کیوں محسوس کرنے لگا؟ حاتم نے کہا: شریف و سخی کی غلطیاں اس کی سخاوت کے باعث معاف کر دیتا ہوں اور کمینہ و ذلیل کی گالیوں سے اعراض اس لئے کرتا ہوں کہ اپنے شرف کی حفاظت کروں۔
کنفیوشش نے کہا ہے : غضبناک آدمی ہمیشہ زہر آلود رہتا ہے۔شکسپیئر کہتا ہے: اپنے دشمن کیلئے اتنا الاؤ نہ دہکاؤ کہ اس میں تمہارے بھی جل جانے کا سامان ہو جائے۔ آشوب چشم والی آنکھوں سے کہہ دو کہ بہت سی آنکھیں ہیں جو مطلع صاف ہو یا غبار آلود انہیں سورج دکھائی دیتا ہے۔ ان آنکھوں سے درگزر کرو جن کی بصارت اللہ نے چھین کر ان کا نور بجھا دیا، وہ نہ کچھ یادرکھتی اور نہ افاقہ پاتی ہیں۔ایک حکیم کہتے ہیں ''مجھے یہ بتاؤ آدمی کی دلچسپی کیا ہے، میں یہ بتاؤں گا کہ وہ کس قسم کا آدمی ہے۔سمندر میں ایک کشتی پلٹ گئی ایک عابد و زاہد پانی میں گر پڑا تو اپنے اعضاء کو وضو کی مانند دھونے لگا، ناک میں پانی ڈالا، کلی کی، سمندر نے اسے نکال پھینکا وہ بچ گیا اس بارے میں اس سے پوچھا گیا تو کہاکہ موت سے پہلے میں طہارت کیلئے وضو کرنا چاہتا تھا۔
مضمون نگار معروف سکالر اور
کالم نگار ہیں، ان کے مضامین مختلف جرائد میں شائع
ہوتے رہتے ہیں

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
یادرفتگاں لیڈی ڈیانا کروڑوں دلوں کی ملکہ برطانوی شہزادی

یادرفتگاں لیڈی ڈیانا کروڑوں دلوں کی ملکہ برطانوی شہزادی

کروڑوں دلوں کی ملکہ برطانوی شہزادی لیڈی ڈیانا کو دنیا سے رخصت ہوئے 27 برس بیت گئے تاہم یہ حقیقت ہے کہ پرکشش شخصیت کی مالک برطانوی شہزادی ڈیانا آج بھی لوگوں کے دلوں زندہ ہیں۔ زندگی کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ زندگی بے یقینی ہے۔ لیڈی ڈیانا کی زندگی نے بھی زیادہ وفا نہ کی۔ دنیا کو اپنے سحر میں مبتلا رکھنے والی یہ دیومالائی شخصیت طوفان کی طرح اٹھی، چار دانگ عالم میں شہرت پائی اور جوانی ہی میں قبر میں یوں اتر گئی جیسے دریا سمندر میں اترتا ہے۔ لیڈی ڈیانا کا پورا نام ڈیانا فرانکس سپینسر تھا۔ انہوں نے یکم جولائی 1961ء کو پارک ہائوس سینڈرنگھم نار فوک برطانیہ میں آنکھ کھولی۔ ڈیانا سپینسر خاندان میں پیدا ہوئیں ، وہ جان سپینسر کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ بھائی جین اور بہن سارہ ان سے بڑے تھے۔ انگلینڈ اور سوئٹزر لینڈ سے تعلیم حاصل کی۔ ڈیانا 9 سال کی تھی کہ والدہ کو طلاق کے بعد باپ نے پالا۔ 1975ء میں جب ان کے والد کو ارل سپینسر کا خطاب ملا تو انہیں لیڈی ڈیانا سپینسر کے نام سے پکارا جانے لگا۔ تعلیم مکمل کی تو ایک سکول میں ننھے بچوں کو پڑھانے لگیں۔ پانچ فٹ گیارہ انچ قد کی 18سالہ ڈیانا اپنی سہیلی کمیلا پارکر کے ہمراہ ایک بار لڈلو ریس کورس جا پہنچیں۔ ریس میں شامل ایک گھوڑے کے سوار ولی عہد برطانیہ چارلس تھے۔ یہیں پہ شہزادہ ان لڑکیوں کو دل دے بیٹھا۔ ڈیانا سے شادی کرلی اور کمیلا سے وعدہ۔ اس وعدے کو بعد ازاں چارلس نے سچ کر دکھایا اور 2005ء میں کمیلا پارکر سے شادی کی۔فروری 1981ء میں شہزادہ چارلس سے منگنی کا اعلان ہوتے ہی لیڈی ڈیانا دنیا بھر کے فوٹوگرافروں کی اوّلین ترجیح بن گئیں۔ اس شادی سے ان کے دو بیٹے شہزادہ ولیم اور شہزادہ ہیری پیدا ہوئے۔ ویلز کی شہزادی ( Princess of Wales) کی حیثیت سے ڈیانا نے ملکہ کی جانب سے شاہی فرائض سر انجام دیئے اور ملک سے باہر ہونے والی تقریبات میں ملکہ کی نمائندگی کی۔ خیراتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی وجہ سے انہیں شہرت ملنا شروع ہو گئی۔ انہوں نے ایڈز، کینسر اور ذہنی بیماریوں کے حوالے سے بھی لوگوں میں شعور پیدا کیا۔ شادی سے پہلے اور بعد بھی ڈیانا عالمی میڈیا پر چھائی رہیں۔ ڈیانا نے 1982ء میں شہزادہ ولیم اور 1985ء میں شہزادہ ہیری کو جنم دیا۔ ڈیانا کہتی تھیں کہ بڑا بیٹا باپ پہ گیا جبکہ چھوٹے بیٹے کی مشابہت مجھ سے ہے۔ 28 اگست 1996ء کو ڈیانا کی چارلس سے شادی ختم ہو گئی۔ دونوں طرف سے ایک دوسرے پر الزامات لگائے گئے۔ڈیانا اچھی موسیقار، دلکش ڈانسر اور ہر دل عزیز ٹیچر تھیں۔ وہ شاہی خاندان کی پہلی دلہن تھیں جو منگنی سے پہلے نوکری کرتی رہیں اور اس کی انہیں تنخواہ بھی ملتی رہی۔ لیڈی ڈیانا کی شہزادہ چارلس کے ساتھ شادی 15 برس تک قائم رہی۔ 20 برس کی عمر میں ڈیانانے ویلز کی شہزادی کا خطاب حاصل کیا۔ لیڈی ڈیانا نے جتنا فلاحی کام کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے ایڈز کے خاتمے کیلئے بہت مثبت اقدامات اٹھائے۔ بیمار بچوں کیلئے بھی ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ خلیجی جنگ کے دوران انہوں نے دسمبر 1990ء میں جرمنی کا دورہ کیا تا کہ وہ فوجیوں کے خاندانوں سے ملاقات کر سکیں۔ڈیانا نے تین مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا۔ پاکستان کی معروف سیاستدان عابدہ حسین کہتی ہیں کہ شہزادی ڈیانا پہلی بار چار روزہ دورے پر 1991ء میں پاکستان آئی تھیں تو ان کو اس دورے میں معاونت فراہم کرنا میری ذمہ داری تھی۔ اس دوران لیڈی ڈیانا نے اپنے اور پرنس چارلس کے تعلقات میں تناؤ کا تذکرہ کیا اور کہا کہ شہزادہ چارلس ان سے محبت نہیں کرتے۔ تاہم وہ اپنے دونوں بیٹوں سے بے حد پیار کرتی ہیں لیکن وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہیں۔عابدہ حسین نے کہا کہ میں نے لیڈی ڈیانا کو یہ مشورہ دیا کہ آپ کے پاس وہ سب کچھ ہے جو کسی بھی عورت کی خواہش ہو سکتی ہے لہٰذا اپنے بچوں کی خاطر وہ اپنی شادی سے متعلق انتہائی قدم نہ اٹھائیں۔ جس پر ڈیانا نے ان کو صرف اتنا کہا کہ ٹھیک ہے لیکن ایسی شادی چلانا مشکل کام ہے۔ لیڈی ڈیانا پاکستانیوں کے دلوں میں بستی تھیں۔ وہ جہاں بھی گئیں ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ شہزادی ڈیانا اس دورے کے دوران لاہور، چترال اور پشاور بھی گئیں۔ لاہور میں وہ بادشاہی مسجد اور کنیئرڈ کالج بھی گئیں۔ 2019ء میں شہزادہ ولیم اور کیٹ مڈلٹن نے پاکستان کا دورہ کیا تو پاکستانیوں کو لیڈی ڈیانا کا دورہ یاد آگیا۔ لیڈی ڈیانا اپنی دوست جمائما خان کی دعوت پر 1996 اور 1997 میں بھی پاکستان آئیں۔ 1995ء میں انہوں نے بوسنیا کے بچوں کیلئے فنڈز اکٹھا کرنے کی بھی کاوشیں کیں۔ انہیں بے شمار ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا گیا۔ ان کی زندگی کے آخری آٹھ برس مسلسل فلاحی کاموں میں گزرے اور انہیں اپنے ان کاموں کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ 31 اگست 1997ء کو ڈیانا پیرس کے ہوٹل سے اپنے دوست دودی الفائد کے ساتھ روانہ ہوئیں۔ڈیانا منزل تک نہ پہنچ سکیں جب ان کی گاڑی ایک خطرناک حادثے کا شکار ہوکر مکمل طور پر تباہ ہو گئی، حادثے میں شہزادی کے ساتھ ان کے دوست ڈوڈی الفائد اور ڈرائیور سنیری پال بھی موت کی وادی میں اتر گئے۔ ڈیانا کی آخری رسومات کو دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں نے براہ راست دیکھا۔یہ سوشل میڈیا کا دور ہے لیکن اس سے دو عشرے قبل کے دور کو ''لیڈی ڈیانا کا دور‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ تصاویر لیڈی ڈیانا کی کھینچی گئیں۔ ڈیانا کی عالمی سطح پر مقبولیت کابڑا سبب ان کی خوبصورت شخصیت تھی اور طلاق کے بعد بھی ان کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔ 1981ء میں ڈیانا کی برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس سے شادی کی تقریبات کو دنیا بھر میں 70 کروڑ سے زائد افراد نے دیکھا۔ آخری رسومات کے وقت لندن میں بکنگھم کے محل کے باہر ڈیانا کے پرستاروں کی جانب سے ان کیلئے دس لاکھ گلدستے رکھے گئے۔ صرف 36 برس جینے والی لیڈی ڈیانا کا شاہی خاندان سے ناطہ یک طرفہ نہ تھا۔ ڈیانا کو اگر شاہی خاندان کی بہو ہونے سے شہرت ملی تو شاہی خاندان کو بھی لیڈی ڈیانا نے پہچان عطا کی۔ شاہی روایات میں قید ہونے کی بجائے کئی حوالوں سے لیڈی ڈیانا نے شاہی خاندان کو اپنے نقش پا پہ چلنے پر قائل کیا۔ 

چائے کی کاشت ، صدیوں پرانا راز

چائے کی کاشت ، صدیوں پرانا راز

آج ہماری زندگی میں پانی کے بعد اگر کوئی چیز بہت عام ہے تو وہ چائے ہے۔ تقریباً ہر شخص شوق سے چائے پینا پسند کرتا ہے۔ ہر گھر میں صبح کے وقت چائے پی جاتی ہے اور بغیر چائے کے ایسا محسوس کیا جاتا ہے کہ ہم قدرت کی کسی نعمت سے محروم ہیں۔اتنی زیادہ استعمال ہونے والی چائے کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیںکہ چائے کی دریافت کس نے کی تھی۔ چائے کی کھوج کے سلسلے میں کئی دلچسپ کہانیاں مشہور ہیں۔بہت عرصہ پہلے چین میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ ایک بار اس کو چھوت کی بیماری ہو گئی، اس نے اس بیماری کا بہت علاج کیا، بڑے بڑے حکیموں اور ڈاکٹروں کو بلایا گیا لیکن کوئی بھی بادشاہ کے اس مرض کو صحیح طور پر پہچان نہ سکا۔ کافی علاج کرنے کے بعد بھی بادشاہ کا مرض ٹھیک نہیں ہوا۔ ایک دن بادشاہ وزیر کے ساتھ شاہی باغ میں ٹہلنے نکلا اور اپنی بیماری کے بارے میں وزیر کو بتا کر کہنے لگامیں شاید ہی صحت مند ہو سکوں مجھے صحت یاب ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ بادشاہ کی بات سن کر وزیر نے کہا کہخدا کی طرف سے کبھی ناامید نہیں ہونا چاہئے۔ابھی یہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ ان کے پاس ایک چھوٹی ڈالی گری جس میں ہرے پتے لگے ہوئے تھے۔ وزیر نے نظر اوپر ڈالی دیکھا کہ ایک کوا پودے پر بیٹھا ہوا ہے اور اس نے یہ ڈالی پھینکی تھی۔ بادشاہ نے اس ڈالی کو اٹھا لیا اور کہا شاید خدا نے یہ ہمارے لئے بھیجی ہے ضرور اس میں قدرت کی کوئی مصلحت ہے پھر وزیر نے ڈالی کے پتے کو پانی میں اُبال کر بادشاہ کو پینے کو دیا۔ قدرت کی مہربانیوں کا کیا کہنا کہ اس پانی کے پینے کے بعد بادشاہ کی بیماری میں حیرت انگیز طور پر کمی ہوئی۔ بادشاہ نے لوگوں کو اس ڈالی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے کہا۔ کافی تحقیق کے بعد کامیابی حاصل ہوئی۔ بادشاہ نے اس پودے کی کاشت کرائی۔ یہ وقت کے ساتھ مشہور ہوتی گئی۔ یہ چائے کا درخت تھا جو پہلی بار دریافت کیا گیا تھا اور وہ بادشاہ شاید دنیا کا پہلا انسان تھا جس نے چائے پی۔ چائے کا پیدائشی مقام چین کو مانا جاتا ہے۔ سب سے پہلے چائے کا استعمال چین میں شروع ہوا۔یہ کوئی 2700سال قبل عیسوی کی بات ہے۔ سائنسدانوں کے خیال میں 1000ء میں چائے چین سے جاپان پہنچی اور 16ویں صدی میں یہ یورپ کے بازاروں میں آئی اور پھر 1820ء میں جاوا اور 1830ء میں یہ ہندوستان پہنچی۔ پہلے چائے کا استعمال زیادہ تر دوا کے طور پر ہوتا تھا۔ یہ مشروب کے طور پر بہت کم استعمال ہوتی تھی۔ اس کی کاشت روس، برازیل اور افریقہ میں بھی ہوتی ہے، لیکن چائے کی سب سے زیادہ کاشت ہندوستان کے صوبہ آسام میں ہوتی ہے۔چائے کا پودا جھاڑی جیسا ہوتا ہے۔ اس کی اونچائی تقریباً تین یا چار فٹ ہوتی ہے۔ چائے کی پتیاںآٹھ یا دس دن کے بعد توڑی جاتی ہیں۔ ویسے تو پہلے سال سے ہی چائے کی پتیاں توڑی جا سکتی ہیں لیکن ایک پودے کو پوری طرح سے بڑھنے میں تقریباً پانچ سال لگ جاتے ہیں اور چائے کے ایک پودے کی عمر انسان کی طرح تقریباً ساٹھ سال تک ہوتی ہے۔پتیاں توڑنے کے بعد چائے تیار کی جاتی ہے۔ آسام کی چائے کی پتیاں بڑی ہوتی ہیں اور ان کی کاشت میدان میں ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف چین میں پیدا ہونے والی چائے کی پتیاں چھوٹی ہوتی ہیں اور ان کی کاشت پہاڑی علاقوں میں کی جاتی ہے۔ آسام کی چائے رنگ میں اپنا جواب نہیں رکھتی اور خوشبو میں دارجلنگ کی چائے دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔ چائے کے پودے کو سمندر کی سطح سے تقریباً آٹھ ہزار فٹ کی اونچائی تک پہاڑوں کے ڈھالوں پر کامیابی کے ساتھ اْگایا جا سکتا ہے۔ چائے کی جھاڑیوں کا منظر بے حد خوبصورت ہوتا ہے۔ اگر آپ چائے کے باغ کو دیکھیں تو آپ کو ساری زندگی یاد رہے گا۔ چائے کی کاشت کیلئے تیزابی مٹی بہت ضروری ہے اور ایسی آب و ہوا جس میں مسلسل بارش ہوتی رہے۔ اس کی کاشت کیلئے موزوں خیال کی جاتی ہے۔ عام طور پر چائے کے پتے اکتوبر تک جھڑ جاتے ہیں اور اسی وقت سردی شروع ہوتی ہے اس کے بعد مارچ کے قریب چائے کے پتے دوبارہ نکل آتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ سردیوں میں پتے نہ ہونے سے روشنی کافی ہوتی ہے جبکہ گرمی میں پتیوں سے روشنی کم چھنتی ہے۔ اس قدرتی نظام سے زمین کی زرخیزی بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ چائے کے درخت نائیٹروجن مہیا کرتے ہیں اور گرنے والے پتے آہستہ آہستہ کھاد میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور مٹی زرخیز ہو جاتی ہے۔ چائے کی تیاری میں نئی پتیاں (دو پتی اور ایک کلی) توڑی جاتی ہیں۔ پھر استعمال ہوتی ہے۔ پرانے پتے استعمال نہیں ہوتے۔ اگر آپ دو پتیوں اور ایک کلی سے زیادہ توڑ دیں گے تو چائے کے خراب ہونے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔ پتیوں کو توڑنے کا مشکل کام عورتیں کرتی ہیں۔ پتیوں کو توڑنے کے بعد انہیں خشک کیا جاتا ہے تاکہ ان میں کچھ کیمیاوی تبدیلی پیدا ہو جائے۔ عمل سولہ سے بیس گھنٹے تک جاری رہتا ہے۔اس کے بعد چائے کی پتی رولر مشین میں ڈال دی جاتی ہے۔ جہاں پتی کو مروڑا جاتا ہے۔ اس سے نکلنے والے سیال کو برابر پھیلا دیا جاتا ہے۔ پھر دوسری مشین میں ڈال کر پتیوں پر بَل ڈالا جاتاہے۔ پھر انہیں توڑنے اور پیسنے کے عمل سے گزرنا ہوتا ہے۔ اس عمل میں تقریباً ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ اس کے بعد ان پتیوں کو بہت چھوٹے ٹکڑوں میں مشین کے ذریعے علیحدہ کرتے ہیں اور ٹھنڈی جگہ پر تھوڑی دیر کیلئے رکھتے ہیں۔ اس دوران میں کیمیاوی تبدیلیاں ہوتی ہیں اور اب چائے کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس طریقے کو فرمنٹیشن کہتے ہیں جس کے بعد پتیاں بھورا رنگ اختیار کر لیتی ہیں۔ پھر انہیں چھوٹی بڑی چھلنی سے علیحدہ کر لیا جاتا ہے۔چائے کی قسم بہت سی باتوں پر منحصر ہوتی ہے مثال کے طور پر پودے کی عمر، اْگانے کی جگہ، مٹی، آب و ہوا، توڑنے کا وقت اور پتیوں پر عمل سے ہے۔ گولڈن چائے کی تیاری کیلئے صرف کچی کلیوں کو ہی استعمال میں لایا جاتا ہے۔ چائے تیار کرتے وقت اس کا خیال رکھا جاتا ہے کہ اس کی لذت، خوشبو اور رنگ باقی رہے۔ اس کے ساتھ چائے کے مفید اجزا بھی باقی رہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب ہم چائے کو اْبالتے ہیں تو چائے کو ایک مناسب مقدار میں کھولتے ہوئے پانی میں ڈالتے ہیں اور اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ چائے کی پتیوں میں موجود الکولائیڈ اور تیل فوراً پانی میں گھل جاتا ہے، جس سے اس پانی کا رنگ، خوشبو اور لذت اب کچھ اور ہی ہو جاتی ہے، لیکن اگر ہم چائے کو زیادہ دیر تک اْبالتے رہیں اور کھولاتے رہیں تو چائے کی پتیوں میں موجود ٹینن پانی میں کھل جائے گا، جس سے چائے کے پینے کی لذت پہلے جیسی باقی نہیں رہتی اور چائے کڑوی ہو جاتی ہے اس کے مفید اجزا بھی باقی نہیں رہتے۔ ایسی چائے ہماری صحت کے لئے نقصان دہ ہے۔ چاثے کی تجارت کے معاملے میں ہندوستان دنیا میں پہلے نمبر پر ہے اور سب سے زیادہ چائے باہر کے ملکوں کو برا?مد کرتا ہے۔ جوپوری پیداوار کا پچھتر فیصد ہے اس طرح پچیس فیصد جائے کا استعمال ملک میں ہوتا ہے۔ اس طرح چائے ہمارے لئے ایک لذیذ مشروب (رقیق پینے والی چیز) ہی نہیں بلکہ ہماری ملکی ترقی میں بھی مدد گار ہے۔چائے کس طرح بنائی جاتی ہے۔ اب یہ بھی سینے۔ جو چائے ہم بازار سے خریدتے ہیں اسے مختلف ترکیبوں سے تیار کیا جاتا ہے۔ کم لوگ ہیں جو چائے کی پتی کو صحیح پینے کے قابل بنانے کے بارے میں جانتے ہوں اور اس کی خصوصیات سے واقف ہوں۔  

آج کا دن

آج کا دن

العائمہ پل حادثہ31اگست2005ء کو عراق کے دارالحکومت بغداد میں دریائے دجلہ کو عبور کرنے کیلئے بنائے گئے العائمہ پل پر بھگدڑ مچنے سے 953افراد ہلاک ہوئے۔ بھگدڑ کے وقت تقریباً 10 لاکھ زائرین مسجد الکاظمیہ کی طرف مارچ کر رہے تھے۔ ہجوم کچھ خوفزدہ بھی تھا کیونکہ اس واقعہ سے ایک دن پہلے ہجوم پر مارٹر حملے میں سات افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔ بھگدڑ کی اصل وجہ یہ افواہ بنی کہ مزار کے قریب خودکش دھماکہ ہوا ہے۔تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہجوم میں موجود ایک شخص نے دوسرے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ شخص دھماکہ خیز مواد لے کر جا رہا ہے ۔ایس ایس ایڈمرلایس ایس ایڈمرل کو مارچ1925ء میں آپریشنل کیا گیا۔اصل میں اس کا نام ایس ایس برلن تھا اور یہ ایک مسافر بردار بحری جہاز تھاجسے بعد میں ہسپتال کے جہاز اورپھر سوویت یونین کے مسافر بردار جہاز میں تبدیل کر دیا گیا۔ 31 اگست 1986ء کو یہ جہاز روسی بندرگاہ کے قریب ایک بہت بڑے کیرئیر سے ٹکرا گیا اور کچھ ہی دیر میں سمندر کی گہرائیوں میں چلا گیا۔ مجموعی طور پر، جہاز میںایک ہزار234افراد موجود تھے جس میں سے 423 جاں بحق ہوگئے جبکہ دیگر کو بچا لیا گیا۔اس حادثے کو سمندری جہازوں کے بڑے حادثات میںشمار کیا جاتا ہے۔ پنسلوینیا ائیر لائن31 اگست 1940ء کو پنسلوینیا سینٹرل ایئر لائنز کی فلائٹ ٹرپ 19 واشنگٹن سے ایک سٹاپ اوور کے ساتھ ڈیٹرائٹ کیلئے طے شدہ پرواز تھی۔ جب ہوائی جہاز6ہزار فٹ پر پرواز کر رہا تھا اور مغربی ورجینیا کی سرحد کے قریب تھا اسے اچانک شدید طوفان کا سامنا کرنا پڑا۔ متعدد عینی شاہدین نے بتایا کہ بجلی کی ایک بڑی چمک دیکھی گئی جس کے کچھ ہی دیر بعد جہاز کپتان کے کنٹرول میں نہیں رہا اور الفالفا کے میدان میں کریش کر گیا۔سول ایروناٹکس بورڈ کی رپورٹ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اصل وجہ آسمانی بجلی گرنا تھی۔ ہلاک ہونے والے 21 مسافروں اور عملے کے 4 ارکان میں امریکی سینیٹر ارنسٹ لنڈین بھی شامل تھے۔چارلسٹن کا زلزلہ31اگست1886ء کوریاستہائے متحدہ امریکہ کے جنوب مشرقی علاقے میں شدید زلزلہ آیا، جس سے تقریباً 2ہزار عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا جبکہ60 افراد ہلاک ہوئے۔اس زلزلے کی وجہ سے تقریباً60 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا۔ یہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے مشرقی ساحل پر آنے والے سب سے زیادہ طاقتور اور نقصان دہ زلزلوں میں سے ایک تھا۔سائنسدانوں نے اس کی انٹرا پلیٹ زلزلے کے طور پر درجہ بندی کی اور کہا کہ ایک اندازے کے مطابق اس زلزلے کی شدت 6.9 سے7.3 تھی۔  

جینز دنیا کا مقبول ترین کپڑا

جینز دنیا کا مقبول ترین کپڑا

'' جینز ‘‘ جو کپڑے کی ایک قسم ''ڈینم‘‘ سے بنتی ہے ، بلاشبہ اس وقت دنیا کا ایک مقبول ترین کپڑا ہے۔ اس کے پہننے والے، اس کے بنانے والے اور اس کے بیچنے والے بجا طور پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آج تک دنیا بھر میں کسی کپڑے کو اتنی مقبولیت نہیں ملی جتنی جینز کو ملی ہے۔ اس کی مقبولیت میں اس کو یہ اعزاز بھی جاتا ہے کہ یہ کپڑا قطع نظر عمر، جنس اور کلچر دنیا کے ہر کونے میں یکساں مقبول ہے۔یہ کپڑا کب ، کیسے اور کہاں ایجاد ہوا ؟ اس کی تاریخ بھی اتنی ہی دلچسپ ہے جس قدر یہ مقبول ہے۔جین فسٹئین نامی سوتی کپڑا 16 ویں صدی کے آس پاس جینیوا کامقبول ترین کپڑا ہوا کرتا تھا جو پوری دنیا میں ایک آرام دہ اور پر وقار کپڑے کے طور پر جانا جاتا تھا۔ مورخین کہتے ہیں کہ بنیادی طور پر یہی کپڑا ''جینز‘‘کی ایجاد کا باعث بنا۔ جینز کا ''جنم‘‘ دراصل ایک حادثے کا نتیجہ ہے۔ اس ایجاد کے پیچھے چھپی کہانی کچھ اس طرح سے ہے کہ فرانس کے شہر نمز کے کچھ جولاہے، جن کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ اچھے سے اچھا کپڑا بنانے پر ملکہ رکھتے ہیں۔ایک دن وہ سوتی کپڑا جین فسٹئین بنانے کی کوشش کررہے تھے جو ان سے نہ بن پایالیکن بنتے بگڑتے یہ کچھ اور ہی شے بن گئی۔ پہلے تو انہیں اس ناکامی پر ملال ہوا لیکن مزید غور کرنے پر یہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اس '' بگاڑ‘‘ میں بھی کچھ نیا پن ہے۔ یہ دراصل''جینز ‘‘کا ایسا جنم تھا ،جس کا ان پریشان حال جولاہوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ آنے والے وقتوں میں یہ دنیا کا ایک مقبول ترین کپڑا بن جائے گا۔تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی چیز کی ایجاد کے پس پردہ متعدد عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ جینز سے پہلے بھی اس سے ملتا جلتا ایک کپڑا ہندوستان میں 16 ویں صدی کے اوائل میں رواج پا چکا تھا۔ جسے مقامی زبان میں ''ڈگاری‘‘کہا جاتا تھا ، اسے بعد ازاں نیلے رنگ میں رنگ کر ممبئی کے ڈوگار قلعہ کے پاس فروخت کیا جاتا تھا۔ شروع شروع میں جب ملاحوں کی اس پر نظر پڑی تو انہوں نے اسے اپنے لئے سہل پایا تو اس کی پتلونیں بنوانا شروع کر دیں۔جینز سے ملتاجلتا ایک اور کپڑا 16 ویں ہی صدی میں اٹلی کے ایک قصبے ٹیورن میں تیار کیا جانے لگا۔اس نئے کپڑے پر جب جینیوا کے ملاحوں کی نظر پڑی تو ا نہوں نے بھی اسے اپنی پینٹوں کیلئے سازگار اور موزوں پایا۔جینیوا چونکہ ایک آزاد جمہوریہ کا دارالحکومت تھا جس کی بحریہ اپنے دور کی ایک طاقتور بحریہ تھی۔ سب سے پہلے جینیوا کی بحریہ نے اپنے ملاحوں کیلئے پتلونیں اس کپڑے سے بنوائیں ۔ دراصل انہیں ایسے ہی کپڑے کی پتلونیں چاہئیے تھیں جنہیں خشک یا گیلا دونوں صورتوں میں پہنا جا سکے ، اس کے ساتھ ساتھ ڈیک کی صفائی کے دوران پینٹ کے پائنچوں کو باآسانی اوپر کی طرف موڑا بھی جا سکے۔ دھلائی کے دوران جینز کی پینٹوں کو بڑے بڑے جالوں میں باندھ کر سمندر کی لہروں کے سامنے رکھ دیا جاتا تھا جس سے یہ بہت اچھے طریقے سے دھل جاتی تھیں اور تھوڑی ہی دیر میں سمندر کی تیز ہوائیں انہیں سکھا بھی دیتی تھیں۔ مورخین کا کہنا ہے کہ جینیوا کے نام ہی کی مناسب سے ان پتلونوں کانام ''جینز‘‘ مشہور ہوا ۔ علاوہ ازیں اس کپڑے کا خام مال فرانس کے شہر نمز سے آتا تھا جسے مقامی زبان میں ''دی نم‘‘ کہا جاتا تھا ، یہیں سے اس کپڑے کا نام ''ڈینم‘‘ کی شہرت اختیار کر گیا۔ جینز کی پتلونیں بنیادی طور پر محنت کش طبقے کی آسانی کو مدنظر رکھ کر بنائی گئی تھیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی میں روز بروز بڑھتی مصروفیات اور وقت کی قلت نے دفتروں میں کام کرنے والے دیگر کارکنوں کو بھی اس پہناوے کا گرویدہ بنا دیا۔ صحیح طور پر جینز کو مقبولیت دینے میں نوجوانوں کا کلیدی کردارہے جنہوںنے 1950ء کی دہائی میں اسے بطور فیشن اپنانا شروع کر دیا تھا۔ اس کی مقبولیت دیکھتے ہوئے عالمی شہرت یافتہ کمپنیاں، لیوائس، رینگکر اور ذوڈائک میدان میں آئیں اور جس سے اس پراڈکٹ کو چار چاند لگنا شروع ہو گئے اور آج بقول ''گلوبل ڈینم پراجیکٹ ‘‘ ،''سال کے کسی بھی دن دنیا کی آبادی کی اکثریت جینز یا ڈینم زیب تن کئے نظر آتی ہے ‘‘۔جینز عالمی لباس کیسے بنا؟ جینز کو عالمی طور پر متعارف کرانے میں دو نوجوانوں جیکب جوفیوس اور لوئب سیٹراس کا کلیدی کردار نظر آتا ہے ، جن کا تعلق جرمن اور لٹویا سے تھا۔جیکب اور لوئب نے 1870ء میں اپنے اپنے ملک سے امریکہ کا رخ کیا۔ بہت سارے دوسرے لوگوں کی طرح انہوں نے بھی اپنے اپنے نام بدل لئے۔ جیکب جوفیوس، ڈیوس جبکہ لوئب سیٹراس، لیوی سٹیراس بن گئے تھے۔ڈیوس جو بنیادی طور پر ایک درزی تھے انہیں ایک پتلون کی سلائی کا آرڈر ملا۔انہوں نے یہ سوچ کر کہ اس طرح اس پتلون کی مضبوطی میں خاطر خواہ اضافہ ہو جائے گا، انہوں نے اس کی پشت پر ایک بیج کا اضافہ کردیا۔اس پتلون کی شہرت چاروں طرف کیا پھیلی کہ ایک ہی ماہ کے اندر اس قسم کی پتلون کے لاتعداد آرڈر انہیں ملنا شروع ہو گئے۔ جب مانگ بڑھی تو ڈیوس نے سان فرانسسکو میں کپڑا سپلائی کرنے والے لیوی سے رابطہ کیا۔ لیوی نے موقع کی نزاکت بھانپتے ہوئے ڈیوس کو سان فرانسسکو فوری پہنچنے کا مشورہ دیا جہاں دونوں نے مل کر باقاعدہ طور پر دنیا کہ پہلی جینز (پینٹ ) تیار کی۔ڈینم سے بنی جینز کی یہ خصوصیت ہے کہ اسے جتنا زیادہ دھوئیں گے یہ اتنا ہی نرم ہوتا چلا جائے گا اور محنت کشوں کے لئے دراصل ایسا ہی کپڑا موزوں اور موافق تھا جو آرام دہ تھا لیکن نازک نہیں تھا۔جینز کی اسی خاصیت نے رفتہ رفتہ اسے پوری دنیا میں ایک مقبول لباس بنا دیا۔ جینز کی تیاری میں پاکستان کا کردارپاکستان میں فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی کو یہ اعزاز جاتا ہے کہ اس نے بھنگ کے پودے کے ریشوں کو کپاس کے ساتھ ملا کر ایک ایسی پائیدار جینز بنا ئی ہے جس کی مانگ امریکہ اور یورپ میں دن بدن بڑھ رہی ہے۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ بھنگ ملی جینز کی خاص بات یہ ہے کہ یہ روائتی جینز کے مقابلے میں نہ صرف ایک پائیدار جینز ہے بلکہ عالمی منڈی میں اس کی قیمت بھی بہت زیادہ ہے۔پاکستان کو اللہ نے خودرو جنگلی بھنگ کی دولت سے مالا مال کر رکھا ہے ، جسے نہ تو کھاد اور نہ ہی پانی کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ یہ پودے بارش کے پانیوں میں پرورش پاتے ہیں۔اس سے پہلے جنگلی بھنگ نہ صرف ملکی ادویات کی ضروریات پورا کرتی تھی بلکہ دوسرے ملکوں کو بر آمد بھی کی جاتی تھی۔اب پاکستان میں جنگلی بھنگ کی وافر مقدار میں دستیابی سے جینز بنانے کی لاگت میں خاطر خواہ کمی کے باعث پاکستان عالمی منڈی میں کئی گنا زیادہ منافع کما رہا ہے۔   

ایڈولف ہٹلر کی لڑائیاں

ایڈولف ہٹلر کی لڑائیاں

ہٹلر جرمنی کا مقبول ترین لیڈر تھا۔ تاریخ انسانی کی یہ شخصیت جمہوری طریقہ سے منتخب ہو کر ڈکٹیٹر کے درجہ پر فائز ہوئی۔ایڈولف ہٹلر آسٹریا کے شہر برائونا میں1889ء میں پیدا ہوا۔ نوجوانی میں اس نے عملی زندگی کا آغاز ایک ناکام مصور کی حیثیت سے کیا۔ بعدازاں وہ ایک پرجوش جرمن قومیت پرست بن گیا۔ جنگ عظیم اوّل میں وہ جرمن فوج میں بھرتی ہوا، زخمی ہوا اور اسے شجاعت کے مظاہرے پر میڈل ملے۔جرمنی کی شکست نے اسے صدمہ پہنچایا اور برہم کیا۔ 1919ء میں جب وہ تیس برس کا تھا، وہ میونخ میں ایک چھوٹی سی دائیں بازو کی جماعت میں شامل ہوا، جس نے جلد ہی اپنا نام بدل کر'' نیشنل سوشلسٹ جرمن ورکرز پارٹی‘‘ (مختصراً ''نازی‘‘ جماعت) رکھ لیا۔ ترقی کرتے ہوئے اگلے دو برسوں میں وہ اس کا غیر متنازعہ قائد بن گیا۔ہٹلر کی زیر قیادت نازی جماعت جلد ہی طاقتور ہوگئی۔ نومبر 1923ء میںاس نے اقتدار پر قبضہ کرنے کیلئے ایک کوشش کی، جسے ''میونخ بیئرپال پوش‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ناکام رہا جس کے بعد ہٹلر کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس پر غداری کامقدمہ چلا اور اسے سزا ہوئی۔ تاہم ایک سال سے بھی کم جیل رکھنے کے بعد اسے رہا کر دیا گیا۔1928ء میں بھی ''نازی‘‘ مختصر سی جماعت تھی۔ تاہم عظیم عالمی کساد بازاری کے دور میں جرمن عوام سیاسی جماعتوں سے بیزار ہونے لگے۔ اس صورت حال میں نازی جماعت نے خود کو متبادل کے طور پر پیش کرتے ہوئے اپنی بنیادیں مضبوط کر لیں۔ جنوری 1933ء میں چوالیس برس کی عمر میں ہٹلر جرمنی کا چانسلر بن گیا۔ چانسلر بننے پر اس نے تمام مخالف جماعتوں کو زبردستی دبانا شروع کر دیا اور آمر بن بیٹھا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ سب کچھ عوامی رائے اور قوانین کے مطابق ہوا۔ بس سب کچھ تیزی کے ساتھ کیا گیا۔ نازیوں نے مقدمات کا تکلف بھی ضروری نہیں سمجھا۔ بیشتر سیاسی حریفوں پر تشدد کو استعمال کیا گیا اور انہیں زود وکوب کیا گیا، بعض کو مار دیا گیا۔ تاہم اس کے باوجود عالمی جنگ کی شروعات سے پہلے چند سالوں میں ہٹلر کو جرمنوں کی بڑی اکثریت کی حمایت حاصل رہی، کیونکہ اس نے بے روزگاری کا خاتمہ کیا اور معاشی خوشحالی لایا۔پھر وہ دوسرے ملک فتح کرنے لگا جو جنگ عظیم دوم کا سبب بنا۔ ابتدائی فتوحات اسے لڑائی کے چکر میں پڑے بغیر حاصل ہوئیں۔ انگلستان اور فرانس اپنی معاشی بدحالی کے باعث مایوس تھے اور امن کے خواہاں تھے۔ اسی لیے انہوں نے ہٹلر کے کسی کام میں مداخلت نہیں کی۔ ہٹلر نے ورسیلز کا معاہدہ منسوخ کیا اور جرمن فوج کو ازسرنو منظم کیا۔ اس کے دستوں نے مارچ 1936ء میں رہائن لینڈ پر قبضہ کیا، مارچ 1938ء میں آسٹریا کو جبری طور پر خود سے ملحق کر لیا۔ اس نے ''سوڈبٹن لینڈ‘‘ کو بھی ستمبر 1938ء میں الحاق پر رضامند کر لیا۔ یہ چیکو سلواکیہ کاایک قلعہ بند علاقہ تھا جو ایک معاہدے سے ہٹلر کے پاس چلا گیا۔ اس بین الاقوامی معاہدے کو ''میونخ پیکٹ‘‘ کہتے ہیں۔ برطانیہ اور فرانس کو امید تھی کہ یہ سب کچھ لے کر وہ پرامن ہو جائے گا لیکن ایسا نہ ہوا۔ ہٹلر نے اگلے چند ماہ میں مزید حصہ بھی غصب کر لیا۔ ہر مرحلے پر ہٹلر نے مکاری سے اپنے اقدامات کے جواز گھڑ لیے اور دھمکی بھی دی۔ اس نے کہا، اگر کسی نے مزاحم ہونے کی کوشش کی تو وہ جنگ کرے گا۔ ہر مرحلے پر مغربی جمہوریتوں نے پسپائی اختیار کی۔انگلستان اورفرانس نے البتہ پولینڈ کے دفاع کا قصد کیا، جو ہٹلر کا اگلا نشانہ تھا۔ ہٹلر نے اپنے دفاع کیلئے اگست1939ء میں سٹالن کے ساتھ ''عدم جارحیت‘‘ کے معاہدے پر دستخط کیے (دراصل یہ ایک جارحانہ اتحاد تھا۔جس میں دو آمراس امر پر متفق ہوئے تھے کہ وہ پولینڈ کو کس شرح سے آپس میں تقسیم کریں گے)۔ نودن بعد جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا۔ اس کے سولہ روز بعد روس بھی حملے میں شامل ہوگیا، اگرچہ انگلستان اور فرانس بھی اس جنگ میں کود پڑے، لیکن پولینڈ کوشکست فاش ہوئی۔ 1940ء ہٹلر کیلئے بہت اہم برس تھا۔ اپریل میں اس کی فوجوں نے ڈنمارک اور ناروے کو روند ڈالا۔ مئی میں انہوں نے ہالینڈ، بلجیم اور لکسمبرگ کو تخت و تاراج کیا۔ جون میں فرانس نے شکست کھائی لیکن اسی برس برطانیہ نے جرمن ہوائی حملوں کا دلیری سے مقابلہ کیا۔ برطانیہ کی مشہور جنگ شروع ہوئی۔ ہٹلر کبھی انگلستان پر قابض ہونے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اپریل1941ء میں ہٹلر کی فوجوں نے یونان اور یوگوسلاویہ پر قبضہ کیا۔ جون1941ء میں ہٹلر نے عدم حارجیت کے معاہدے کو تارتار کیا اور رود پر حملہ آور ہوا۔ اس کی فوجوں نے بڑے روسی علاقے پر فتح حاصل کی۔ لیکن وہ موسم سرما سے پہلے روسی فوجوں کو نیست ونابود کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ہٹلر بیک وقت روس اورانگلستان سے برسرپیکار تھا، اس کے باوجود اس نے دسمبر1941ء میں امریکہ پر بھی حملہ کر دیا۔ کچھ عرصہ پہلے جاپان پرل ہاربر میں امریکی بحری چھائونی پر حملہ کرچکا تھا۔1942ء کے وسط تک جرمنی یورپ کے ایک بڑے حصے پر قابض ہو چکا تھا۔ تاریخ یورپ میں کسی قوم نے کبھی اتنی وسیع سلطنت پر حکمرانی کی تھی۔ مزید برآں اس نے شمالی افریقہ کے بیشتر حصہ کو بھی فتح کیا۔ 1942ء کے دوسرے نصف میں جنگ کا رخ بدل گیا۔ جب جرمنی کو مصر میں العلمین اور روس میںسٹالن گراڈ کی جنگوں میں شکست کی ہزیمت اٹھانی پڑی۔ ان نقصانات کے بعد جرمن کی عسکری برتری کا زوال شروع ہوا۔ جرمنی کی حتمی شکست گو اب ناگزیر معلوم ہو رہی تھی، لیکن ہٹلر نے جنگ سے دست بردار ہونے سے انکار کر دیا، ہولناک نقصانات کے باوجود سٹالن گراڈ کی شکست کے بعد قریب دو برس یہ جنگ جاری رہی۔ 1945ء کے موسم بہار میں تلخ انجام وقوع پذیر ہوا۔ 30 اپریل کو برلن میں ہٹلر نے خودکشی کرلی۔ سات روز بعد جرمنی نے ہتھیار پھینک دیے۔متعدد وجوہات کی بنا پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہٹلر کی شہرت باقی رہے گی۔ اس لیے کہ اسے تاریخ کے بدنام ترین افراد میں شمار کیاجاتا ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

شوکت عزیز پاکستان کے وزیر اعظم بنے28اگست 2004ء کو شوکت عزیزنے وزیر اعظم کا حلف اٹھایا۔ سابق بینکر اورفنانسر شوکت عزیز پاکستان کے 17 ویں وزیر اعظم تھے جو وزیر اعظم ظفر اللہ خان جمالی کے استعفی کے بعد وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ اس عہدے پر وہ تین سال تک یعنی 15 نومبر 2007ء تک فائز رہے ۔جرمنی: خوفناک فضائی حادثہ28 اگست 1988ء کو جرمنی میں ایک انتہائی خوفناک فضائی حادثہ پیش آیا ۔ یہ حادثہ رام اسٹائن فوجی اڈے پر فضائی کرتب کے دوران پیش آیا۔ اطالوی فضائیہ کے تین طیارے فضائی کرتب دکھاتے ہوئے آپس میں ٹکرا گئے ، جن کا جلتا ہوا ملبہ تماشائیوں کے اوپر گرا، اس حادثے میں 75 افراد ہلاک اور 364 زخمی ہوئے۔بینک ڈکیتی28 اگست 2003ء کو پیزا ڈیلیوری کرنے والے برائن ڈگلس ویلز نے پنسلوینیا کے قریب ایک بینک لوٹ لیا۔ پکڑے جانے کے بعد وہ گردن سے بند ھے دھماکہ خیز مواد کے پھٹنے سے ہلاک ہو گیا۔ فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن نے تحقیقات کے بعداس واقعہ کو ایک بڑی سازش قراردیتے ہوئے اس بات کا انکشاف کیا کہ اس ڈکیتی کا ماسٹر مائنڈ کوئی اور تھا ،ویلز کو واردات کیلئے استعمال کیا گیا۔ ہیلیگو لینڈ بائٹ کی جنگہیلیگو لینڈ بائٹ کی جنگ پہلی عالمی جنگ کے دوران ہونی والی پہلی اینگلو جرمن بحری جنگ تھی ۔ جنگ کا آغاز 28 اگست 1914ء کو برطانیہ اور جرمنی کے جہازوں کے درمیان لڑائی سے ہوا۔جنگ جنوب مشرقی بحرہ شمالی میں لڑی گئی ۔دونوں فریقوں نے بحری اور جنگی جہازوں کے ساتھ لمبی پرواز کرنے والے جہازوں کا بھی استعمال کیا۔گوڈی بغاوتیونان میں 28 اگست 1909ء کو گوڈی فوجی بغاوت کا آغاز ہوا۔ یہ بغاوت جدید یونانی تاریخ کا ایک اہم واقعہ تھا کیونکہ اس کی وجہ سے یونان میں Venizelos کی آمد ہوئی اور ان کی بطور وزیر اعظم تقرری ہوئی۔ جس نے پرانے سیاسی نظام کا خاتمہ کر کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ اس کے بعد کئی دہائیوں تک، یونانی سیاسی زندگی پر دو مخالف قوتوں کا غلبہ رہا۔