مسجد مریم زمانی بیگم:خوبصورت طرز تعمیر کا شاہکار
اسپیشل فیچر
''آئین اکبری‘‘ کے مطابق مریم مانی، اکبر کی بیوی اور جہانگیر کی والدہ تھی۔ وہ راجہ بہاری مل کی بیٹی اور راجہ بھگوان داس کی ہمشیرہ تھی اس نے قلعہ لاہور کی مشرقی دیوار اور اکبری گیٹ کے بالمقابل مستی دروازہ میں اپنے نام سے 1023 ہجری بمطابق 1614ء میں مسجد مریم زمانی (بیگم شاہی مسجد) تعمیر کرائی۔ جس کے کہنہ درو دیوار میں پٹھانوں کا عہد آج بھی مضبوطی کے گہرے تاثر کی گواہی دے رہا ہے۔
مسجد مریم زمانی وسطی بلند محرابی دروازہ کے ساتھ پانچ محرابوں پر مشتمل ہے یہ مسجد اپنے طرز تعمیر کے لحاظ سے پٹھانوں اور مغلوں کے عبوری دور کی نمائندگی کرتا ہے اسے اعلیٰ قسم کے چونے اور سیمنٹ کے ساتھ نہایت عمدگی اور خوبصورتی سے تعمیر کیا گیا ہے۔ مسجد کا اندرونی کام بہت منفرد ہے اور اس کے بعد تعمیر ہونے والی بادشاہی مسجد کے اندرونی کام میں بھی اس کے گل بوٹوں اور آرائش کی جھلک ایک حد تک نظر آتی ہے۔ اس پانچ محرابی مسجد کی اندرونی وسطی محرابوں پر چاروں جانب بلندی پر تین محرابیں بنی ہیں۔ جن پر وسطی محراب اپنی سادگی اور سائیڈ کی تکون نما محرابیں چاروں کونوں میں اپنی موجودگی کا گہرا تاثر چھوڑتی ہیں۔ تکون نما محرابیں اس مسجد کا سب سے خوبصورت حصہ ہیں کہ دیکھنے والا نظر نہ ہٹانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ انہیں بلاشبہ انفرادیت، جاذبیت اور حسین تخلیق کا شہ پارہ کہا جا سکتا ہے۔ اندرونی وسطی محراب پر کلمہ طیبہ اور تین جانب حاشیہ میں آیت الکرسی تحریر ہے۔ چھت کا وسطی حصہ آرائشی کام سے مزین ہے اور اس کے اندرونی جانب گولائی میں اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنہ دائرے میں لکھے ہوئے اور پہلی نظر میں وہ نقش و نگار لگتے ہیں ۔ دائیں اور بائیں دونوں وسطی محراب کا کام مٹ چکا ہے لیکن ان کی چھتوں کے اندرونی جانب گولائی میں آٹھ پتیوں کے بڑے پھول اپنی دیدہ زیبی سے توجہ دلاتے ہیں۔
دونوں سائیڈ کی نچلی محرابیں چھوٹی ہیں جن کے اوپر آیات قرآنی، پھول بوٹے اورکھجور کے درخت بنے ہیں تمام محرابوں کے کونوں کو کمال ہنر مندیش گولائی سے اس عمدگی سے لایا گیا ہے کہ تکونیں اپنی جگہ پر متوجہ کرکے اپنی پہچان کراتے ہوئے غیر محسوس طریقہ سے اس گولائی کا حصہ بنتی نظر آتی ہیں۔ بظاہر تکونیں نظر آنے والی قوسیں چاروں کونوں کے ٹکڑوں میں اوپر نیچے بنتے ہوئے ختم ہو جاتی ہیں۔ تمام پھولوں کے گرد حاشیے ضرور ہیں۔ اس بیگم شاہی مسجد میں طاق کی بجائے جفت اعداد کی اشکال دیکھنے کو ملتی ہیں جبکہ مغل دور کی عمارات میں طاق اعداد حتمی حیثیت کے حامل ہیں۔ یہاں آپ کو پانچ کی بجائے چھ کونوں کے ستارے بھی نظر آئیں گے جن کے درمیان میں پھول بوٹے بنے ہوئے ہیں۔ اس طرح صحن کی بڑی اور بلند وسطی محراب کے دونوں جانب چار چار مستطیل محرابیں اور سائیڈ کے چاروں دروازوں پر دونوں جانب دو مستطیل اشکال میں صراحیاں پھولوں سے مزین ہیں۔ جن کے دونوں جانب نیلے پھولوں کا حاشیہ ہے۔ پہلی نظر میں مسجد کی مضبوطی دیکھنے والے کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے اور یہ اس کی مضبوطی اور پائیداری ہی تھی کہ یہ سکھوں کے عہد کی تمام تر لوٹ کھسوٹ ، بارود خانہ اور اسلحہ خانہ بننے کے باوجود آج بھی اپنا لٹا پٹا جلال ہمارے سامنے خم ٹھونکے کھڑی ہے۔
بیگم شاہی مسجد کے وسیع حجم کے محرابی ستون اور بھاری بھر کم گنبد اس کا سب سے بڑا نمایاں اور اوجھل وصف ہیں اور اوجھل اس لئے کہ یہ عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ بیگم شاہی مسجد کے ستونوں کی لمبائی اور چوڑائی دیکھنے والوں کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔ اس کے ستونوں کی لمبائی دو سو انچ اور چوڑائی ڈیڑھ سو انچ ہے۔ ان ستونوں پر ہونے والا کام بھی اپنی مثال آپ ہے جن میں مخمس (پانچ کونے) مسدس( چھ کونے اور مثمن( آٹھ کونے) کی بنی ہوئی جیو میٹریکل اشکال حسن توازن کا بینظیر نمونہ ہیں۔ چھت پر جانے کیلئے دائیں اور بائیں جانب دوزینے بنے ہیں۔ دایاں زینہ تباہ ہونے کے باعث بند پڑا ہے جبکہ بائیں جانب کی سیڑھیاں آمدورفت کیلئے کھلی ہیں۔
وسطی گنبد چھت سے بہت بلند اور اپنی نوعیت کا منفرد اور دوسرا گنبد ہے۔ یہ خاص بلندی تک سیدھی شکل میں جا کر اوپر سے گولائی میں آ جاتا ہے بڑے گنبد اور چھت فصیل سے متصل دونوں جانب سیڑھیاں بھی ہیں۔ دونوں سائیڈ کے دو دو گنبدوں کی گولائی چھت کی سطح سے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ چھت کے چاروں کونوں پر بلند میناروں کی بجائے چار برجیاں اپنے پلیٹ فارم اور سیڑھیوں کے ساتھ موجود ہیں۔ جہاں کھڑے ہو کر آپ چاروں جانب کے مناظر سے محظوظ ہو سکتے ہیں۔ چھت کی قلعہ نما فصیل کا مضبوطی میں جواب نہیں۔ یہ فصیل دوھری بنی ہوئی ہے اور اس پر بیٹھنے کیلئے جگہ بھی بنی ہوئی ہے۔
''بیگم شاہی مسجد‘‘ کیلئے جگہ کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا۔ یہ قلعہ کے باہر اور اس کے نزدیک تعمیر ہونے والی سب سے پہلی مسجد تھی اس دور میں قلعہ لاہور کا صرف اکبری گیٹ ہی تھا اور اس کے سامنے اس کی تعمیر اس کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ بادشاہی مسجد اس کی بہت عرصہ بعد تعمیر ہوئی۔
اکبری گیٹ کے بلند چبوترے کے جنوبی کونہ پر ایک سرنگ سی تھی۔ گمان غالب ہے کہ یہ سرنگ مسجد کے اندر تک جاتی تھی۔ یعنی شاہی خاندان کے افراد مسجد میں ادائے نماز کیلئے قلعہ کے اندر سے ہاں سیدھے جا سکتے تھے۔ بیگم شاہی مسجد کی شمالی دیوار کے ساتھ ساتھ اندر ایک راستہ نیچے سے قلعہ لاہور کے اندر تک جاتا تھا جو کہ اب بند کردیا گیا ہے۔ اکبری گیٹ سے مسجد مریم زمانی کا فاصلہ صرف پچاس قدم کا ہے۔
تاریخ لاہور کے مصنف سید محمد لطیف ایک صدی سے زائد عرصہ قبل لکھتے ہیں: '' اس تاریخی مسجد کو رنجیت سنگھ نے بندوقوں اور بارود کی تیاری کیلئے استعمال کیا اسی بناء پر اسے ''بارود خانہ والی مسجد‘‘ کہا جانے لگا، یہ کام جو ہرمل مستری کی نگرانی میں ہوتا تھا لاہور کے ڈپٹی کمشنر نے یہ مسجد اور اس کے ساتھ ملحقہ دکانیں مسلمانوں کے حوالے کردیں۔ مسلمانوں نے چندہ اکٹھا کرکے اس کی تعمیر و مرمت کروائی‘‘۔مزید یہ کہ '' انگریز عہد میں اس میں سے بارود نکلوا کر دریائے راوی میں پھینک دیا گیا اور مسجد خالی ہو گئی۔ میجر میگر ہگر صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر لاہور نے یہ کمال دریا ولی1850ء میں یہ مسجد مسلمانوں کے حوالے کردی اور ایک بیٹھک اور دکانیں جو متعلقہ مسجد تھیں وہ بھی واگزار کر دیں‘‘۔