لسان الدین ابن الخطیب

اسپیشل فیچر
عالی دماغ لسان الدین ابن الخطیب وہ عظیم مسلم سائنسدان تھے جس نے امراض کے بارے میں تحقیق کا ایک نیا راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے پتہ چلایا کہ امراض دو قسم کے ہوتے ہیں، متعدی اور غیر متعدی۔ متعدی یعنی پھیلنے والے، ایک دوسرے کو لگ جانے والے، جیسے ہیضہ، طاعون، چیچک وغیرہ۔ابن الخطیب نے دریافت کیا کہ یہ امراض متاثر ہوا کے ذریعے پھیلتے ہیں۔ پھیلنے کا سبب امراض کے جراثیم ہیں، یہ جراثیم مختلف ذریعوں سے دوسروں تک پہنچ جاتے ہیں۔ انہوں نے علاج کا طریقہ بھی بتایا۔ ابن الخطیب کے اس نظریے نے امراض کے متعلق نئی نئی تحقیقات کا راستہ کھول دیا۔ ابن الخطیب ایک ادیب، مورخ اور سیاست دان بھی تھے۔وہ 1313ء میں غرناطہ(اندلس) میں پیدا ہوئے اور 1374ء میں وفات پائی۔
ابتدائی زندگی، تعلیم و تربیت
لسان الدین ابن الخطیب اندلس کا مایہ ناز طبیب اور محقق گزرا ہے، اس کے آبائو اجدادشام کے رہنے والے تھے اور اندلس میں آکر آباد ہو گئے تھے۔ ابن الخطیب اسی عرب خاندان میں پیدا ہوا۔عالی دماغ ابن الخطیب کے عظیم کارنامے آج تک زندہ ہیں، اور ان کارناموں نے امراض اور علاج کے بارے میں ایک نئی راہ دکھائی۔
ابن الخطیب کے بچپن کے حالات پردہ خفاء میں ہیں لیکن اس کی قابلیت ، صلاحیت اور اس کے حقیقی کام اور دریافتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ والدین نے اس کی تعلیم و تربیت کا اچھا انتظام کیا ہوگا۔اندلس کی کھلی اور آزاد فضا میں وہ جوان ہوا تو اپنے چاروں طرف اس نے علمی مشاغل اور درس و تدریس کے حلقے دیکھے۔ اس کے حوصلے بڑھے اور اپنی عمدہ صلاحیتوں کو کام میں لانے کا اسے اچھا موقع ملا۔ علمی مشاغل کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی اس نے حصہ لیا۔
ابن الخطیب وزارت کے عہدے پر
ابن الخطیب ماہر طبیب کی حیثیت سے مشہور ہو چکا تھا، بادشاہ وقت نے اس کی قدر و منزلت بڑھائی اور رفتہ رفتہ اپنی انتظامی صلاحیتوں کے سبب ترقی کرکے وزارت کے عظیم عہدے پر پہنچ گیا۔
اندلس میں اس وقت بنی نصر(غرناطہ) کے ساتویں سلطان محمد ابن یوسف کی حکومت تھی، غرناطہ دارالسلطنت تھا۔ سلطان بڑا مردم شناس اور علم دوست تھا، اس نے ابن الخطیب کی بڑی عزت کی۔ سلطان نے ابن الخطیب کی انتظامی صلاحیتوں اور علمی قابلیت کی قدر کرتے ہوئے اسے ''ذوالریاستین‘‘ کا معزز ترین خطاب عطا کیا۔ اس زمانے میں درباروں میں اور آج کل پارلیمنٹ اور حکومتوں میں جوڑ توڑ اور سازشیں ہمیشہ ہوتی رہی ہیں۔1371ء میں ایک درباری سازش سے جان بچا کر ابن الخطیب غرناطہ سے بھاگ کر روپوش ہو گیا۔تین برس بعدخانہ جنگی میں عالی دماغ ابن الخطیب جان سے مارا گیا۔
ابن الخطیب کی موت سے ملک اندلس ایک ناقابل ترین شخصیت سے محروم گیا۔ اہل ملک نے اس کی موت سے علمی نقصان کا شدید احساس کیا۔ پورے عرب اسپین کا آخری مشہور و معروف طبیب مصنف شاعر، مورخ، سیاستدان اور عظیم محقق اٹھ گیا۔
علمی خدمات اور کارنامے
قدرت نے اسے علمی تحقیق و تجسس کا ایک صحیح شعور و احساس اور ذہن دماغ کی بہت سی مخفی قوتیں اور صلاحیتیں بخشی تھیں۔وہ ایک شاعر، مورخ، جغرافیہ داں اور فلسفی بھی تھا لیکن وہ ایک طبیب اور محقق کی حیثیت سے زیادہ مشہور ہوا۔ اس نے مختلف عنوانات کے تحت بہت سی کتابیں لکھیں۔ مورخین اس کی کتابوں کی کل تعداد 60 ہے۔ ان میں سے صرف ایک تہائی کتابیں محفوظ ہیں۔ابن الخطیب کی جو کتابیں زمانے کے ہاتھوں بچ سکیں ان میں سے ایک نہایت اہم کتاب طبی تحقیقات پر ہے۔ اور دوسری غرناطہ کی مفصل تاریخ ہے۔
انہوں نے طب کا پیشہ اپنی طبی صلاحیتوں اور خدمت خلق کی بناء پر اختیار کیا تھا۔ دوسرے بہت سے طبیبوں کی طرح قلمدان وزارت بھی ان کے پاس رہ چکا تھا۔
امراض کی تحقیق اور دریافت
ابن الخطیب نے امراض کی تحقیق میں ایک نیا راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے غور کرنا شروع کیا کہ بعض امراض پھیل جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو لگ جاتے ہیں اور بعض امراض نہیں پھیلتے۔ پھیلنے والے امراض وبائی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور گھر کے گھر صاف ہو جاتے ہیں۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ایسے متعدی امراض ہیں وہ کسی وجہ سے ایک دوسرے کولگ جاتے ہیں اس لئے امراض کو اس نے دوا قسام میں تقسیم کیا،متعدی امراض اور غیر متعدی امراض۔
اس قدیم دور میں عام نظریہ یہ تھا کہ امراض جسم میں کسی سبب یا اسباب کی بنا پر پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ اسباب داخلی بھی ہو سکتے ہیں اور خارجی بھی۔ امراض متعدی کی دریافت کے بعد ابن الخطیب اس جستجو میں مصروف ہو گئے کہ متعدی امراض پھیلتے کیوں ہیں، وہ اسباب کیا ہیں۔ وہ جسم میں پیدا ہو جاتے ہیں یا باہر سے آکر لگ جاتے ہیں۔ بڑی جدوجہدکے بعد ابن الخطیب نے پتہ چلایا کہ یہ امراض باہر سے آکر لگ جاتے ہیں اور اس کے پھیلنے کے اسباب وہ نہایت باریک کیڑے ہیں جو نظر نہیں آتے۔ ان کیڑوں کا نام اس نے جراثیم رکھا۔جراثیم کی دریافت اس عظیم طبیب کا عظیم کارنامہ ہے، جس نے آئندہ چل کر طبی دنیا میں زبردست انقلاب پیدا کردیا۔ ابن الخطیب کی اس دریافت کو یورپ کے دانشوروں نے تسلیم کیا۔
اس دریافت کا سبب کالی بلا
یورپ میں اکثر مرض طاعون سے پھیلا کرتے تھے۔ یہ موذی مرض وباء کی طرح پھیلتا اور گھر کے گھر صاف کر دیتا تھا۔ طبیب اعظم لسان الدین الخطیب اس طرف متوجہ ہوا اور طبی نقطہ نظر سے اس کی تحقیق شروع کی۔انہوں نے اپنا یہ تحقیقی کام اس وقت مکمل کیا جب یورپ میں طاعون کی وباء نے وبائی صورت اختیار کرلی، ہزاروں جانیں ضائع ہو گئیں، ہر طرف قیامت کا منظر تھا۔یہ چودھویں صدی کا زمانہ تھااور عیسائیت کا غلبہ تھا۔اہل یورپ اس ''کالی بلا‘‘ سے اس قدر خوفزدہ تھے کہ گھر کو چھوڑ کر بھاگ جاتے تھے، مریض کوتنہا چھوڑ دیتے تھے۔ مریض ہر قسم کی ہمدردیوںاور طبی امداد سے محروم ہو جاتا اور تڑپ تڑپ کر ختم ہو جاتا تھا۔
ابن الخطیب کا کارنامہ
ابن الخطیب اپنے طبی کاموں میں مصروف تھا۔ وہ مرض طاعون کی ہلاکت آفرینیوں سے بہت متاثر ہوا۔ اسلامی نقطہ نظر سے اللہ نے ہر مرض کی دوا پیدا کی ہے اور ہر صورت میں علاج معالجے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس وباء کے بیشمار جانی نقصانات اور ان کے غلط عقیدے کے اثرات سے ابن الخطیب نے تہیہ کر لیا کہ بحیثیت مسلم اور طبیب اس کا فرض ہے کہ اس مرض کے اسباب کا کھوج لگائے اور علاج معلوم کرے۔
جراثیم کی دریافت
ابن الخطیب پہیم تحقیق و جستجو، تجربے اور مشاہدے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ جو امراض متعدی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو الگ بھی سکتے ہیں۔ امراض کا یہ پھیلنا جراثیم کے ذریعے ہوتا ہے یہ جراثیم نہایت باریک کیڑے ہوتے ہیں جو نظر نہیںآتے اور سانس کے راستے سے جسم انسانی میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ابن الخطیب اپنی اس دریافت سے مطمئن ہوااوراس نے علاج بھی دریافت کیا۔
ابن الخطیب نے اپنی اس اہم تحقیق کو کتابی صورت میں مرتب کیا، اس نے اپنی کتاب میں اس مرض طاعون کے بارے میں پوری بحث کی ہے۔ابن الخطیب اپنی اس تحقیق کو اس طرح بیان کرتا ہے: ''جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم ''تعدیہ‘‘ امراض کا پھیلنا کے امکان کو نہیں مان سکتے کیونکہ یہ احکام الٰہی کے خلاف ہے، ان لوگوں کو ہمارا یہ جواب ہے کہ تعدیہ کا وجود تجربات، فہم و ادراک کی شہادت اور قابل اعتماد بیانات سے ثابت ہے اور یہ تمام حقائق ، زبردست دلیلیں ہیں‘‘۔
تعدیہ کی صداقت پر تحقیق کرنے والے پر یہ بات پوری طرح ثابت ہو سکتی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ ایک ایسا شخص جو کسی متعدی مرض میں مبتلا مریض کے ساتھ اٹھتا بیٹھتاہے تو وہ بھی اسی مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے لیکن ایک ایسا شخص جو متعدی مرض میں مبتلا شخص سے دور رہتا ہے، وہ اس مرض سے محفوظ رہتا ہے۔تحقیق کرنے والا یہ بھی معلوم کر سکتا ہے کہ متعدی مرض کے جراثیم مریض کے کپڑوں،کھانے پینے کے برتنوں کے ذریعے سے بھی دوسروں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔
امراض کی اس نئی تحقیق اور جراثیم کی دریافت نے فن طب میں ایک انقلاب عظیم برپا کیا۔ اور اب تو امراض اور جراثیم کے بارے میں نئی نئی تحقیقاتیں شروع ہو گئی ہیں۔ فن طب پر ابن الخطیب کا یہ بہت بڑا احسان ہے۔ جراثیم کی دریافت نے علاج معالجے میں بہت سی سہولتیں پیدا کردی ہیں۔