لسان الدین ابن الخطیب

لسان الدین ابن الخطیب

اسپیشل فیچر

تحریر : امین کنجاہی


عالی دماغ لسان الدین ابن الخطیب وہ عظیم مسلم سائنسدان تھے جس نے امراض کے بارے میں تحقیق کا ایک نیا راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے پتہ چلایا کہ امراض دو قسم کے ہوتے ہیں، متعدی اور غیر متعدی۔ متعدی یعنی پھیلنے والے، ایک دوسرے کو لگ جانے والے، جیسے ہیضہ، طاعون، چیچک وغیرہ۔ابن الخطیب نے دریافت کیا کہ یہ امراض متاثر ہوا کے ذریعے پھیلتے ہیں۔ پھیلنے کا سبب امراض کے جراثیم ہیں، یہ جراثیم مختلف ذریعوں سے دوسروں تک پہنچ جاتے ہیں۔ انہوں نے علاج کا طریقہ بھی بتایا۔ ابن الخطیب کے اس نظریے نے امراض کے متعلق نئی نئی تحقیقات کا راستہ کھول دیا۔ ابن الخطیب ایک ادیب، مورخ اور سیاست دان بھی تھے۔وہ 1313ء میں غرناطہ(اندلس) میں پیدا ہوئے اور 1374ء میں وفات پائی۔
ابتدائی زندگی، تعلیم و تربیت
لسان الدین ابن الخطیب اندلس کا مایہ ناز طبیب اور محقق گزرا ہے، اس کے آبائو اجدادشام کے رہنے والے تھے اور اندلس میں آکر آباد ہو گئے تھے۔ ابن الخطیب اسی عرب خاندان میں پیدا ہوا۔عالی دماغ ابن الخطیب کے عظیم کارنامے آج تک زندہ ہیں، اور ان کارناموں نے امراض اور علاج کے بارے میں ایک نئی راہ دکھائی۔
ابن الخطیب کے بچپن کے حالات پردہ خفاء میں ہیں لیکن اس کی قابلیت ، صلاحیت اور اس کے حقیقی کام اور دریافتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ والدین نے اس کی تعلیم و تربیت کا اچھا انتظام کیا ہوگا۔اندلس کی کھلی اور آزاد فضا میں وہ جوان ہوا تو اپنے چاروں طرف اس نے علمی مشاغل اور درس و تدریس کے حلقے دیکھے۔ اس کے حوصلے بڑھے اور اپنی عمدہ صلاحیتوں کو کام میں لانے کا اسے اچھا موقع ملا۔ علمی مشاغل کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی اس نے حصہ لیا۔
ابن الخطیب وزارت کے عہدے پر
ابن الخطیب ماہر طبیب کی حیثیت سے مشہور ہو چکا تھا، بادشاہ وقت نے اس کی قدر و منزلت بڑھائی اور رفتہ رفتہ اپنی انتظامی صلاحیتوں کے سبب ترقی کرکے وزارت کے عظیم عہدے پر پہنچ گیا۔
اندلس میں اس وقت بنی نصر(غرناطہ) کے ساتویں سلطان محمد ابن یوسف کی حکومت تھی، غرناطہ دارالسلطنت تھا۔ سلطان بڑا مردم شناس اور علم دوست تھا، اس نے ابن الخطیب کی بڑی عزت کی۔ سلطان نے ابن الخطیب کی انتظامی صلاحیتوں اور علمی قابلیت کی قدر کرتے ہوئے اسے ''ذوالریاستین‘‘ کا معزز ترین خطاب عطا کیا۔ اس زمانے میں درباروں میں اور آج کل پارلیمنٹ اور حکومتوں میں جوڑ توڑ اور سازشیں ہمیشہ ہوتی رہی ہیں۔1371ء میں ایک درباری سازش سے جان بچا کر ابن الخطیب غرناطہ سے بھاگ کر روپوش ہو گیا۔تین برس بعدخانہ جنگی میں عالی دماغ ابن الخطیب جان سے مارا گیا۔
ابن الخطیب کی موت سے ملک اندلس ایک ناقابل ترین شخصیت سے محروم گیا۔ اہل ملک نے اس کی موت سے علمی نقصان کا شدید احساس کیا۔ پورے عرب اسپین کا آخری مشہور و معروف طبیب مصنف شاعر، مورخ، سیاستدان اور عظیم محقق اٹھ گیا۔
علمی خدمات اور کارنامے
قدرت نے اسے علمی تحقیق و تجسس کا ایک صحیح شعور و احساس اور ذہن دماغ کی بہت سی مخفی قوتیں اور صلاحیتیں بخشی تھیں۔وہ ایک شاعر، مورخ، جغرافیہ داں اور فلسفی بھی تھا لیکن وہ ایک طبیب اور محقق کی حیثیت سے زیادہ مشہور ہوا۔ اس نے مختلف عنوانات کے تحت بہت سی کتابیں لکھیں۔ مورخین اس کی کتابوں کی کل تعداد 60 ہے۔ ان میں سے صرف ایک تہائی کتابیں محفوظ ہیں۔ابن الخطیب کی جو کتابیں زمانے کے ہاتھوں بچ سکیں ان میں سے ایک نہایت اہم کتاب طبی تحقیقات پر ہے۔ اور دوسری غرناطہ کی مفصل تاریخ ہے۔
انہوں نے طب کا پیشہ اپنی طبی صلاحیتوں اور خدمت خلق کی بناء پر اختیار کیا تھا۔ دوسرے بہت سے طبیبوں کی طرح قلمدان وزارت بھی ان کے پاس رہ چکا تھا۔
امراض کی تحقیق اور دریافت
ابن الخطیب نے امراض کی تحقیق میں ایک نیا راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے غور کرنا شروع کیا کہ بعض امراض پھیل جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو لگ جاتے ہیں اور بعض امراض نہیں پھیلتے۔ پھیلنے والے امراض وبائی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور گھر کے گھر صاف ہو جاتے ہیں۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ایسے متعدی امراض ہیں وہ کسی وجہ سے ایک دوسرے کولگ جاتے ہیں اس لئے امراض کو اس نے دوا قسام میں تقسیم کیا،متعدی امراض اور غیر متعدی امراض۔
اس قدیم دور میں عام نظریہ یہ تھا کہ امراض جسم میں کسی سبب یا اسباب کی بنا پر پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ اسباب داخلی بھی ہو سکتے ہیں اور خارجی بھی۔ امراض متعدی کی دریافت کے بعد ابن الخطیب اس جستجو میں مصروف ہو گئے کہ متعدی امراض پھیلتے کیوں ہیں، وہ اسباب کیا ہیں۔ وہ جسم میں پیدا ہو جاتے ہیں یا باہر سے آکر لگ جاتے ہیں۔ بڑی جدوجہدکے بعد ابن الخطیب نے پتہ چلایا کہ یہ امراض باہر سے آکر لگ جاتے ہیں اور اس کے پھیلنے کے اسباب وہ نہایت باریک کیڑے ہیں جو نظر نہیں آتے۔ ان کیڑوں کا نام اس نے جراثیم رکھا۔جراثیم کی دریافت اس عظیم طبیب کا عظیم کارنامہ ہے، جس نے آئندہ چل کر طبی دنیا میں زبردست انقلاب پیدا کردیا۔ ابن الخطیب کی اس دریافت کو یورپ کے دانشوروں نے تسلیم کیا۔
اس دریافت کا سبب کالی بلا
یورپ میں اکثر مرض طاعون سے پھیلا کرتے تھے۔ یہ موذی مرض وباء کی طرح پھیلتا اور گھر کے گھر صاف کر دیتا تھا۔ طبیب اعظم لسان الدین الخطیب اس طرف متوجہ ہوا اور طبی نقطہ نظر سے اس کی تحقیق شروع کی۔انہوں نے اپنا یہ تحقیقی کام اس وقت مکمل کیا جب یورپ میں طاعون کی وباء نے وبائی صورت اختیار کرلی، ہزاروں جانیں ضائع ہو گئیں، ہر طرف قیامت کا منظر تھا۔یہ چودھویں صدی کا زمانہ تھااور عیسائیت کا غلبہ تھا۔اہل یورپ اس ''کالی بلا‘‘ سے اس قدر خوفزدہ تھے کہ گھر کو چھوڑ کر بھاگ جاتے تھے، مریض کوتنہا چھوڑ دیتے تھے۔ مریض ہر قسم کی ہمدردیوںاور طبی امداد سے محروم ہو جاتا اور تڑپ تڑپ کر ختم ہو جاتا تھا۔
ابن الخطیب کا کارنامہ
ابن الخطیب اپنے طبی کاموں میں مصروف تھا۔ وہ مرض طاعون کی ہلاکت آفرینیوں سے بہت متاثر ہوا۔ اسلامی نقطہ نظر سے اللہ نے ہر مرض کی دوا پیدا کی ہے اور ہر صورت میں علاج معالجے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس وباء کے بیشمار جانی نقصانات اور ان کے غلط عقیدے کے اثرات سے ابن الخطیب نے تہیہ کر لیا کہ بحیثیت مسلم اور طبیب اس کا فرض ہے کہ اس مرض کے اسباب کا کھوج لگائے اور علاج معلوم کرے۔
جراثیم کی دریافت
ابن الخطیب پہیم تحقیق و جستجو، تجربے اور مشاہدے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ جو امراض متعدی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو الگ بھی سکتے ہیں۔ امراض کا یہ پھیلنا جراثیم کے ذریعے ہوتا ہے یہ جراثیم نہایت باریک کیڑے ہوتے ہیں جو نظر نہیںآتے اور سانس کے راستے سے جسم انسانی میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ابن الخطیب اپنی اس دریافت سے مطمئن ہوااوراس نے علاج بھی دریافت کیا۔
ابن الخطیب نے اپنی اس اہم تحقیق کو کتابی صورت میں مرتب کیا، اس نے اپنی کتاب میں اس مرض طاعون کے بارے میں پوری بحث کی ہے۔ابن الخطیب اپنی اس تحقیق کو اس طرح بیان کرتا ہے: ''جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم ''تعدیہ‘‘ امراض کا پھیلنا کے امکان کو نہیں مان سکتے کیونکہ یہ احکام الٰہی کے خلاف ہے، ان لوگوں کو ہمارا یہ جواب ہے کہ تعدیہ کا وجود تجربات، فہم و ادراک کی شہادت اور قابل اعتماد بیانات سے ثابت ہے اور یہ تمام حقائق ، زبردست دلیلیں ہیں‘‘۔
تعدیہ کی صداقت پر تحقیق کرنے والے پر یہ بات پوری طرح ثابت ہو سکتی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ ایک ایسا شخص جو کسی متعدی مرض میں مبتلا مریض کے ساتھ اٹھتا بیٹھتاہے تو وہ بھی اسی مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے لیکن ایک ایسا شخص جو متعدی مرض میں مبتلا شخص سے دور رہتا ہے، وہ اس مرض سے محفوظ رہتا ہے۔تحقیق کرنے والا یہ بھی معلوم کر سکتا ہے کہ متعدی مرض کے جراثیم مریض کے کپڑوں،کھانے پینے کے برتنوں کے ذریعے سے بھی دوسروں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔
امراض کی اس نئی تحقیق اور جراثیم کی دریافت نے فن طب میں ایک انقلاب عظیم برپا کیا۔ اور اب تو امراض اور جراثیم کے بارے میں نئی نئی تحقیقاتیں شروع ہو گئی ہیں۔ فن طب پر ابن الخطیب کا یہ بہت بڑا احسان ہے۔ جراثیم کی دریافت نے علاج معالجے میں بہت سی سہولتیں پیدا کردی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
یادرفتگاں: میجر شبیر شریف شہید

یادرفتگاں: میجر شبیر شریف شہید

میجر شریف نے گرجدار آواز میں اپنے ساتھیوں سے کہا: ''بہادرو! یہ حق و باطل کی فیصلہ کن جنگ ہے، یہ ہماری ملی غیرت کا امتحان ہے، خدا کی قسم! اگر میں پیچھے ہٹوں تو مجھے گولی مار دینا اور اگر تم پیچھے ہٹے تو میں تمہیں گولی مار دوں گا جو پیچھے رہنا چاہتا ہے ، وہ ابھی رہ جائے، ہمیں ہر حال میں آگے بڑھنا ہے۔ بولو! میرے ساتھ چلو گے؟‘‘میجر شریف کی آوازپر سب نے لبیک کہا۔ میجر شبیر شریف کی قیادت میں مجاہدوں کی یہ جماعت گولوں کی بارش میں آگے بڑھتی ہوئی سبونہ نہر کے کنارے پر جا پہنچی۔ یہ واقعہ 3 دسمبر کا ہے ، خون جما دینے والی سردی میں میجر شبیر شریف اپنی کمپنی کی قیادت کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے، سب سے پہلے وہ کنکریٹ سے بنے ہوئے بنکروں پر حملہ آور ہوئے۔ دشمن نے مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن میجر شبیر شریف کی کمپنی نے بڑی تیزی سے دشمن پر قابو پا لیا اور پسپا ہوتی ہوئی بھارتی فوج کی اہم سرحدی چوکی جھانگر بھی پاکستان کے قبضے میں آ گئی۔ نہر ابھی دو میل دُور تھی۔ یہ علاقہ دشمن کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگوں سے اَٹا پڑا تھا، قدم قدم پر موت منتظر تھی لیکن یوں دِکھائی دے رہا تھا کہ میجر شبیر شریف کی لغت میں ڈر اور خوف کا کوئی لفظ نہیں تھا۔وہ بارودی سرنگوں کے درمیان سے خود بھی گزر گئے اور اپنے ساتھیوں کو بھی بچا کر لے گئے۔ اب وہ دشمن کے گاؤں بیری والا کے سامنے پہنچ چکے تھے۔بھرپور لڑائی کے بعد بیری والا گاؤں پر بھی پاکستانی جانبازوں کا قبضہ ہو گیا۔پیش قدمی کیلئے نہر عبور کرنا ضروری تھا، سردیوں کی سرد راتوں میں خون جما دینے والا ٹھنڈا پانی اور اس پر بھارتی توپ خانہ کی گولہ باری مزید مشکلات پیدا کر رہی تھی، یہاں سے آگے بڑھنا ایک چیلنج بن چکا تھا۔ دشمن نے بہت کوشش کی کہ یہ جوان نہر کے دوسرے کنارے پر نہ پہنچ سکیں لیکن تمام تر رکاوٹوں کو عبور کر کے ہمارے مجاہد دوسرے کنارے پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ اب انہیں دشمن کے آہنی مورچوں کا سامنا تھا۔ فولاد کی دیواروں کے ساتھ ساتھ ٹینکوں کا ایک سکواڈرن بھی وہاں موجود تھا۔ میجر شبیر نے اپنے ساتھیوں کو آگے بڑھنے کا حکم دیا تو تمام ساتھی دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ وہاں متعین 43 بھارتی فوجی مارے گئے جبکہ28 قیدی بنا لیے گئے۔نہر پر بنا ہوا انتہائی اہم پل بھی پاکستان کے قبضے میں آگیا۔میجر شبیر شریف دشمن کے علاقے میں موجود تھے۔ دشمن نے اس محاذ پر مزید فوجی کمک بھیج دی۔ رات بھر بھاری ہتھیاروں سے دشمن کا حملہ جاری رہا۔ دوسری صبح بھارت نے پہلے سے کئی گنا زیادہ فوج کے ساتھ حملہ کر دیا اس معرکے میں ہلکی اور بھاری توپوں کے علاوہ اسے ٹینکوں کی بھی مدد حاصل تھی ۔بہت سے ٹینکوں اور توپوں کو خاموش کرا دیا گیا۔ اسی دوران دشمن کا کمپنی کمانڈر کسی نہ کسی طرح میجر شبیر کے مورچے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ میجر شبیر نے چابکدستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے دبوچ لیا اور اس سے انتہائی قیمتی دستاویزات چھین لیں جن میں بہت سے فوجی راز موجود تھے۔ میجر شبیر کی یہ بہت بڑی کامیابی تھی۔ اگلے دن 6 دسمبر کی سہ پہر بھارتی فوج نے ٹینکوں اور فضائیہ کے ساتھ ایک اور حملہ کر دیا۔ ٹینک اور توپیں دیوانہ وار گولہ باری کر رہی تھیں ایک نازک موقع پر جب ان کا توپچی شہید ہو گیا تو انہیں یہ کام بھی خود سنبھالنا پڑا۔ وہ بڑی مستعدی سے دشمن پر گولہ باری کروا رہے تھے۔یہ ان کی زندگی کا آخری معرکہ تھا۔ بھارتی ٹینکوں کی طرف سے ایک گولہ ان کیلئے شہادت کا پیغام لے کر آیا اور میجر شبیر شریف کے سینے میں کاری زخم لگا گیا جس سے وہ نڈھال ہو کر زمین پر گر پڑے۔ بے ساختہ ان کی زبان پر کلمہ شہادت جاری ہو گیا جیسے ہی جوان ان کے قریب پہنچے تو وہ جامِ شہادت نوش کر چکے تھے۔ یہ 6 دسمبر 1971ء کا دن تھا، شہادت کے وقت میجر شبیر شریف کے آخری الفاظ یہ تھے: ''میرے جوانو! اس بند اور پل کو کسی قیمت پر نہ چھوڑنا ۔یاد رکھنا کہ دشمن کے ناپاک قدم اس پل پر نہ پڑیں۔ ثابت قدمی اور مستقل مزاجی سے ڈٹے رہنا۔ خدا تمہارا حامی و ناصر ہو‘‘۔ میجر شبیر شریف 28 اپریل 1943ء کو کنجاہ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم راولپنڈی، مری اور کوئٹہ کے سکولوں سے حاصل کی پھر جب والد کا تبادلہ کوئٹہ سے لاہور ہو گیا تو آپ کو سینٹ انتھونی سکول لاہور میں داخل کرا دیا گیا۔سینئر کیمبرج کے بعد آپ گورنمنٹ کالج میں داخل ہو گئے۔ یہاں سائیکل ریس میں اوّل انعام حاصل کیا۔ یہیں سے آپ کیڈٹ کی حیثیت سے فوج میں بھرتی ہوئے۔میجر محمد شبیر شریف اپریل 1961ء پاک فوج کے 29 ویں لانگ کورس کا حصہ بنے،اعزازی شمشیر کے ساتھ پاس آئوٹ ہوئے اور 19 اپریل 1964ء کو 6 فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا، انہیں یکم اکتوبر 1965 ء کو لیفٹیننٹ، 19 اپریل 1966 ء کوکیپٹن اور 19 اپریل 1970 ء کو میجر کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں چھمب جوڑیاں سیکٹر میں حصہ لیا اور آپ کی قیادت میں یونٹ منادر اور چھمب کو روندتے ہوئے 4 ستمبر کو جوڑیاں سے کچھ فاصلے پر پہنچ گئی اس محاذ جنگ پر ناقابلِ یقین بہادری کے جوہر دِکھانے پر آپ کو ستارہ جرأت‘ تمغہ حرب اور تمغہ دفاع سے بھی نوازا گیا۔میجرشبیر کا تعلق فوجی ہیروز کے خاندان سے تھا۔ ان کے والد محمد شریف ایک ریٹائر میجر تھے۔ میجر عزیز بھٹی جنہیں نشانِ حیدر سے بھی نوازا گیا، شبیر شریف کے ماموں تھے اور ان کے چھوٹے بھائی جنرل راحیل شریف، پاکستانی افواج کے نویں سپہ سالار بنے۔میجر شبیر شریف کی وصیت جو لیفٹیننٹ کرنل (ر)اشفاق حسین کی شبیر شریف کے حالات زندگی پرلکھی گئی کتاب ''فاتح سبونہ''میں درج ہے۔ شبیر شریف کے بچپن کاایک بہت گہرا دوست تنویر تھاوالدین نے اُس کی پسند کی جگہ پر شادی کرنے سے انکار کیاتوتنویر نے خودکشی کر لی۔شبیر کو اس کی موت کادیر سے علم ہواتو غم کی انتہا نہ رہی ۔شبیر جب بھی فوج سے چھٹی پر لاہورآتے تو تنویر کی قبر پر دعا کرنے ضرور جاتے۔ ایک دن قبرستان میں مرحوم کی والدہ سے ملاقات ہوئی۔ماں اپنے بیٹے کی موت کے بعد ٹوٹ چکی تھی۔شبیر کو کہنے لگیں بیٹا خواب میں ملتا ہے تو بہت تکلیف میں ہوتا ہے۔علما ء نے کہاہے کہ اگرکوئی باعمل عالم یا شہیدتنویر کے پہلو میںدفن ہو تواُمید ہے حرام موت کی وجہ سے اس پر ہونے والی سختی کم ہو جائے۔شبیر یہ سن کر چپ چاپ چلا آئے۔جانے کس وقت وصیت لکھ دی کہ میں جنگ میں کام آجائوںتو دوست کے ساتھ دفنا دیاجائے۔بعد ازشہادت شبیر کی وصیت کے مطابق دوست کو دوست کے پہلو میں دفنا یا گیا۔ 

بے پناہ خوبیوں کا حامل سائبر ٹرک

بے پناہ خوبیوں کا حامل سائبر ٹرک

''لاس اینجلس آٹو شو 2023ء‘‘ میں جب سے ٹیسلا نے اپنے الیکٹرک سائبر ٹرک کو عام عوام کے سامنے پیش کیا تھا اس وقت سے اس کے چرچے ہر سو تھے اور ہر کوئی اس کا بے چینی سے منتظر تھا۔ گزشتہ ایک سال کے دوران اس کے مختلف ٹیسٹ کئے گئے، جن میں سے ایک ٹیسٹ کے دوران ایلون مسک کو شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا لیکن اس کے باوجود کمپنی نے ہار نہیں مانی اور اس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بہتری کرنے کے بعد آخرکار ٹیسلا نے سائبر ٹرک کی پہلی سیریز صارفین کیلئے لانچ کر دی ہے۔ پہلے ماڈل کو ''سائبر بیسٹ‘‘ کا نام دیا گیا ہے جبکہ کمپنی کے مطابق اس کے تین ماڈل تیار کیے جائیں گے۔ٹیسلا نے چار سال قبل سائبر ٹرک کا تصور پیش کیا تھا جبکہ اس کی پیداوار 2021ء میں شروع ہونا تھی۔ سائبر ٹرک کی ظاہری شکل اور پیداوار کے طریقہ کار میں جدت اتنی زیادہ تھی کہ کمپنی کو اس کی لانچنگ میں تاخیر کرنا پڑی۔ٹیسلا کا سائبر ٹرک بے پناہ خوبیوں کا حامل ہے۔ سب سے پہلے اس کی ظاہری شکل اور باڈی کی بات کرتے ہیں جو سٹین لیس سٹیل کے خصوصی مرکب سے بنائی گئی ہے۔ گاڑیوں کی صنعت میں یہ پہلا موقع ہے کہ کار کی باڈی کو سٹین لیس سٹیل سے بنایا گیا ہے۔ ٹیسلا نے پچھلے ہفتے ایک ویڈیو نشر کر کے دکھایا تھا کہ سائبر ٹرک کی باڈی بلٹ پروف ہے۔ اس دھات کے انتخاب کی وجہ سے کچھ تجزیہ کاروں کو سائبر ٹرک کی بڑے پیمانے پر پیداوار کے امکان پر شک ہے۔ سائبر ٹرک کے پہلے ورژن ''سائبر بیسٹ‘‘ میں تین الیکٹرک موٹریں نصب ہیں جو 845 ہارس پاور کی بجلی پیدا کرتی ہیں۔ ان انتہائی طاقتورموٹروں کی بدولت ''سائبر بیسٹ‘‘ ایک ہی چارج پر 515 کلومیٹر تک سفر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اپنی پک اپ پاور کی بدولت یہ ٹرک صرف 2اعشاریہ 6 سیکنڈ میں صفر سے 60 میل فی گھنٹہ کی رفتار پکڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔سائبر ٹرک کا اسٹیئرنگ وہیل عام گاڑیوں سے بالکل مختلف ہے۔ اسٹیئرنگ وہیل صرف اگلے پہوں کی سمت کو نہیں بدلتا بلکہ اس سے پچلے پہیوں کی ڈائریکشن کو بھی بدلا جا سکتا ہے۔ سائبر ٹرک کے اسٹیئرنگ وہیل کی خوبیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ براہ راست پہیوں سے منسلک نہیں ہے۔ اسٹیئرنگ وہیل کو گھمایا جائے تو گاڑی میں شامل مصنوعی ذہانت کے ذریعے یہ برقی موٹریں ضرورت کے مطابق پہیوں کو حرکت دیتی ہیں۔ کم رفتار پر گاڑی کی سمت کو بہتر طور پر تبدیل کرنے کیلئے پہیے زیادہ زاویہ کے ساتھ سمت بدلتے ہیں۔ تیز رفتاری پر، سٹیئرنگ وہیل کو موڑنے سے، پہیوں کی سمت کی تبدیلی کا زاویہ کم ہو جاتا ہے۔ کار کا اسٹیئرنگ وہیل پچھلے پہیوں کا زاویہ بھی بدلتا ہے جس کی وجہ سے سائبر ٹرک کو چلانا مزید آسان ہوجاتا ہے۔سائبر ٹرک کا اندرونی کیبن پرتعیش رکھنے کی بجائے انتہائی سادہ بنایا گیا ہے۔ ڈرائیور تمام معلومات 18 انچ کی سکرین پر دیکھتا ہے اور ایک ہی ٹچ اسکرین سے گاڑی کے مختلف حصوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ دوسری چیزوں کے علاوہ'' ریئر ویو مرر‘‘ کے بجائے اسی اسکرین پر کار کے پچھلے حصے کی تصویر دکھائی گئی ہے۔کمپنی کے مطابق تمام صارفین کو کاریں بغیر پینٹ کے (یعنی سٹیل کے کلر میں)فراہم کی جائیں گی۔ صارفین رنگ تبدیل کر کے اسے اپنا من پسند رنگ دے سکتے ہیں، اس کیلئے انہیںاضافی رقم قیمت سے ہٹ کر ادا کرنا ہو گی۔ ''سائبر بیسٹ‘‘ کی تعارفی قیمت 99ہزار990 ڈالر رکھی گئی ہے۔آئندہ برس یعنی 2024ء میں ٹیسلا سائبر ٹرک سیریز کا سیکنڈ ماڈل پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ ماڈل اپنے پہلے ماڈل سے تھوڑا سا مختلف ہو گا۔ اس میں تین کے بجائے دو الیکٹرک موٹریں نصب کی جائیں گی، جن کی طاقت 600 ہارس پاور ہو گی۔ یہ سائبر ٹرک ایک چارج پر 547 کلومیٹر کا سفر طے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو گا یعنی اپنے پہلے ماڈل سے 32کلومیٹر زیادہ۔ یہ ماڈل صفر سے 96 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار 4.1 سیکنڈ میں پکڑے گا۔ اس ماڈل کی قیمت 79,990 ڈالر ہو گی۔اس سیریز کا سب سے سستا ماڈل جو 60,990 ڈالر کی قیمت میں فروخت ہو گا، وہ 2025ء میں منظر عام پر لایا جائے گا۔ ٹیسلا کے سی ای او ایلون مسک نے ''سائبر بیسٹ‘‘ کی ٹیکساس میں واقع فیکٹری میں منعقدہ تقریب میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس ٹرک کی آمد سے امریکی سڑکوں کا چہرہ ہمیشہ کیلئے بدل جائے گا۔ سائبر ٹرک بنانے کا مقصد ایک ایسی کار تخلیق کرنا تھا جو پک اپ ٹرک کی طرح مضبوط اور سپورٹس کار کی طرح تیز رفتار ہو۔ انہوں نے کہا کہ سائبر ٹرک اپنی منفرد شکل و صورت کے باوجود کام کیلئے بالکل ٹھیک بنایا گیا ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس ٹرک کو خریدنے والے اسے کام کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔ زیادہ تر تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کی ہے کہ سائبر ٹرک یوٹیلیٹی گاڑی سے زیادہ ایک سماجی رجحان بن جائے گا اور کم از کم پہلے سالوں میں اس کے صارفین ٹیسلا کے پرستار ہوں گے۔چار برس پہلے جب ٹیسلا کے باس ایلون مسک نے الیکٹرک کار کمپنی کے ''سائبر ٹرک‘‘ کی تشہیر کے لیے نمائش کی تو اس کی کھڑکی ٹوٹ گئی۔یہ گاڑی کے لیے ایک تباہ کن ڈیبیو تھا، جس نے منافع بخش امریکی ٹرک مارکیٹ میں ٹیسلا کے دعوے کو داؤ پر لگادیا۔چار سال بعد، جب کمپنی خریداروں کو مستقبل کی مصنوعات کی فراہمی شروع کرنے جا رہی ہے، تو سوال یہ کہ کیا یہ مسئلہ حل ہو گیا ہے؟ 

آج کا دن

آج کا دن

بابری مسجد کی شہادت6دسمبر1992ء کو انتہا پسند ہندوؤں کے ایک گروہ کی جانب سے غیر قانونی طور پر بابری مسجد کو شہید کیا گیا۔ اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں 16ویں صدی کی بابری مسجد کے خلاف ایک طویل عرصے سے انتہا پسند ہندوؤں نے سازش شروع کر رکھی تھی۔ ایک سیاسی ریلی کے پرتشدد ہونے پر ان انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے بابری مسجد پر حملہ کیا گیا۔ انتہا پسندہندو تنظیم کا کہنا تھا کہ ایودھیا رام کی جنم بھومی یعنی جائے پیدائش ہے اور جہاں مسجد بنائی گئی وہ ان کی زمین ہے۔ ایک سازش کے تحت بابری مسجد کو شہید کرنے کیلئے احتجاج شروع کیا گیا اور اسی ریلی کے دوران مسجد کو شہید کیا گیا۔چمکور کی جنگ''چمکور کی جنگ‘‘ جسے ''چمکور صاحب کی لڑائی‘‘ یا ''چمکور کی دوسری جنگ‘‘ بھی کہا جاتا ہے 1704ء میں آج کے دن شروع ہوئی۔ سکھوں کی خالصہ کی قیادت گرو گوبند سنگھ نے کی جبکہ وزیر خان کی قیادت میں مغلوں کی اتحادی افواج میدان میں اتری۔ اس جنگ میں مغل فوج کو شکست ہوئی۔ گرو گوبند سنگھ نے اپنے خط ظفر نامہ میں اس جنگ کا حوالہ دیا ہے۔بحری جہازوںکا تصادم6دسمبر1917ء کی صبح فرانسیسی کارگو جہاز ''ایس ایس مونٹ بلینک‘‘ ہیلی فیکس، نوواسکوشیا،کینیڈا میں ناروے کے جہازایس ایس ایموکے ساتھ ٹکرا گیا۔ مونٹ بلینک بارود سے لیس تھا جس کی وجہ سے بھیانک آگ بھڑک اٹھی اورپورا ڈسٹرک تباہ ہو گیا۔ہیلی فیکس اور ڈارٹ ماؤتھ میں دھماکوں ،ملبے ،آگ اور منہدم ہونے والی عمارتوں کی وجہ سے تقریباًایک ہزار782افراد ہلاک ، 9ہزار افراد زخمی ہوئے۔یہ دھماکہ اس وقت کا سب سے بڑا دھماکہ تھا۔فن لینڈ کا اعلان آزادیفن لینڈ کی آزادی کا اعلان 6دسمبر 1917ء کو فن لینڈ کی پارلیمنٹ نے منظوری کے بعد کیا۔ جس کے مطابق فن لینڈ کو ایک آزاد ملک قرار دیا گیا۔آزادی کا بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تاکہ فن لینڈ کی آزادی کو قانونی حیثیت حاصل ہو سکے ۔ اس دن کو فن لینڈ میں یوم آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ایکول پولی تکنیک قتل عامایکول پولی تکنیک قتل عام جسے مونٹریال قتل عام کے نام سے بھی جانا جاتا ہے شوٹنگ کاایک بڑا واقعہ تھا جو 6دسمبر1989ء کو مونٹریال کیوبیک میں ایکول پولی تکنیک میں پیش آیا۔ اس قتل عام میں 14خواتین ہلاک ہوئیں جبکہ فائرنگ سے دس خواتین اور چار مرد شدید زخمی ہوئے۔حملہ آور خواتین کے کلاس روم میں داخل ہوا اور کمرے میں موجود تمام خواتین کو گولی مار کرہلاک کردیا۔بعدازاں حملہ آور نے خودکشی کر لی۔  

روس،کینیڈا،ڈنمارک ان دیکھے زیر آب علاقے کے دعویدار

روس،کینیڈا،ڈنمارک ان دیکھے زیر آب علاقے کے دعویدار

آرکٹک کے بے پناہ معدنی ذخائر اپنے ارد گرد کے ممالک کے لیے تنازعے کا سبب بنے ہوئے ہیں، لومناسو رِج(Lomonosov Ridge) کا علاقائی تنازعہ بھی ان میں سے ایک ہے ، جس پر روس،ڈنمارک اور کینیڈا ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ کسی متنازعہ علاقے کے دعویدار دو ملک ہوتے ہیں لیکن آپ کو سن کر حیرت ہو گی کہ اس روئے زمین پر ایک ایسا زیر آب علاقہ بھی ہے جس کے دعویدار تین ملک ہیں۔ اس سہ ملکی قدیم تنازعہ کو سمجھنے کیلئے اس کا مختصر جغرافیائی محل وقوع ذہن میں رکھنا ضروری ہو گا۔ بنیادی طور پر یہ متنازعہ علاقہ قطب شمالی کا حصہ ہے۔ جسے آرکٹک بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں بحر منجمد شمالی، کینیڈا، روس، گرین لینڈ، آئس لینڈ، ناروے، امریکہ (الاسکا)، سویڈن اور فن لینڈ کے کچھ حصے شامل ہیں۔ملکیت کا دعوی ہے کیا؟ڈنمارک کا دعویٰ ہے کہ یہ پہاڑی سلسلہ اس کے خودمختار علاقے گرین لینڈ کا حصہ ہے۔ روس کے مطابق یہ پہاڑی سلسلہ سائبیریا کے ایک جزیرے کا حصہ ہے جبکہ کینیڈا کا دعویٰ ہے کہ یہ ایلزمئیر جزیرے کا حصہ ہے۔ لومانسو نام کا یہ پہاڑی سلسلہ گرین لینڈ سے شروع ہو کر کینیڈا پر جا کر ختم ہوتا ہے۔Lomonosov Ridge لگ بھگ 1700 کلومیٹر پر محیط ہے۔ زیر زمین اس پہاڑی سلسلے کا بلند ترین مقام سمندر کی تہہ سے صرف تین، چار کلومیٹر بلند ہے۔ اگرچہ لومانسو کوئی قابل ذکر پہاڑی سلسلہ نہیں ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ مذکورہ بالا تینوں ممالک قطب شمالی کے اردگرد 54850 مربع ناٹیکل میل کے اس متنازعہ علاقے کی ملکیت کے دعویدار ہیں۔ عالمی قواعد کے مطابق مذکورہ دعویدار ممالک کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ متعلقہ سطح سمندر ان کے براعظم ہی کا حصہ ہے۔ اس کیلئے ان ممالک کو یہ شواہد سامنے لانے ہیں کہ یہ ان کے ممالک کا وہ حصہ ہے جو پانی میں ہے۔ باالفاظ دیگر یہ کہ یہ علاقہ سطح سمندر ہے، سمندری چٹان نہیں۔ بصورت دیگر ان کا اس ملک کے زمینی رقبے کے دعوے کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ یہی وہ تکنیکی نکتہ ہے جس کیلئے تینوں ممالک کے درمیان ملکیت کی دعویداری کی رسہ کشی جاری ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ کب اور کیسے دریافت ہوا؟لومانسوِ کی دن بدن بڑھتی اہمیت اور روس، کینیڈا سمیت گرین لینڈ (ڈنمارک) کے مابین پھیلتے تنازعہ نے ماہرین کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ صدیوں سے موجود اس علاقے کو 1948ء سے پہلے کیوں نہ کھوجا گیا۔1948ء میں یہ پہاڑی علاقہ آرکٹک کے مرکز میں سوویت یونین کی جانب سے سروے کیلئے لگائے ایک کیمپ کے دوران دریافت ہوا تھا۔ دراصل آرکٹک کی برف کے اوپر لگائے گئے خیموں کے دوران سوویت ماہرین کو معلوم ہوا کہ شمال کی جانب سائبیرین جزیروں پر پانی کی گہرائی دوسرے ملحقہ علاقوں کی نسبت کم ہے۔ اس کے علاوہ ماہرین کو یہ بھی پتہ چلا کہ اس مقام پر سمندر ایک پہاڑ کی وجہ سے دو حصوں میں منقسم ہے ، اس سے پہلے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ سمندر کا مسلسل ایک ہی طاس ہے؛ چنانچہ اس کے بعد سائنسدانوں کی دلچسپی اس علاقے میں بڑھنا شروع ہوئی تو اس علاقے کی مزید تحقیق کیلئے نقشوں کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اس علاقے بارے سب سے پہلے 1954ء میں ماہرین نے ایک نقشہ تیار کیا جس میں پہلی بار زیر آب اس پہاڑی سلسلے کو دیکھا جاسکتا تھا۔ اس پہاڑی سلسلے کی دریافت کے بعد ماہرین اب اس نقطے پر یکسو ہیں کہ زیر سمندر یہ پہاڑی سلسلہ کیسے بنا ہو گا؟ ماہرین کے مطابق سائنسدانوں کو اس سلسلے میں پہاڑ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا حاصل کرنا ہو گا جس سے اس معمے کی گتھیاں سلجھنے کی امید پیدا ہو جائے گی اور اسکی ارضیاتی اساس بارے معلوم ہو سکے گا۔اس سے پہلے روس کے سائنسدان بھی اس پہاڑی سلسلے کے پتھروں کا جائزہ لیتے رہے ہیں۔ بیشتر عالمی ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ یہ جاننا انتہائی مشکل ہے کہ آیا انہوں نے جو پتھرتحقیق کیلئے حاصل کیا ہے، وہ کسی اور پہاڑ کا تو نہیں، کیونکہ آرکٹک کے ساحلوں پر اکثر دور دراز جیسے سائبیریا کے برف کے پہاڑوں سے آیا ہوا پتھر بھی ہو سکتا ہے؛ چنانچہ اس طرح تحقیق غلط سمت میں بھی جا سکتی ہے۔اسی طرح کچھ عرصہ پہلے ڈنمارک میں ارضیات کے سروے کے ایک ماہر کرسٹین نڈسن نے اپنی تحقیقی کے دوران کہا تھا کہ ہو سکتا ہے یہ چٹان گرین لینڈ کا حصہ ہو، لیکن اگر آپ اس کا دوسرا رخ دیکھیں گے تو یہ آپ کو روس کا تسلسل نظر آئے گا کیونکہ ایسے پتھر روسی جزیروں پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحقیق کو اور آگے لے جائیں تو کینیڈا سے ملنے والے شواہد کا بھی جائزہ لینا ہو گا جن کے مطابق یہ پہاڑی سلسلہ کینیڈا کے جزیرے کا تسلسل بھی لگتا ہے۔ ماہرین یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ یہ بھی ممکن ہے کہLomonosov Ridge ایک ہی وقت میں روس،کینیڈا اور گرین لینڈ کا حصہ رہا ہو۔ ڈنمارک، کینیڈا اور روس نے اگرچہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے حدودبراعظم میں اپنے ملکیتی دعوے دائر کر رکھے ہیںمگر یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اس منفرد کیس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ متنازعہ علاقہ اتنا اہم کیوں؟اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس پوشیدہ زیر زمین پہاڑی سلسلے میں کیا کشش ہے کہ ایک عرصے سے تین ممالک اس کی ملکیت کے دعویدار چلے آ رہے ہیں۔سب سے پہلے ہمیں اس دعوے کے پس پردہ چھپی تینوں مذکورہ ممالک کی ترجیحات کو مد نظر رکھنا ہو گا۔اقوام متحدہ کے سمندری قوانین کے مطابق ہر وہ ملک جو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک 370 کلومیٹر کے برابر فاصلے کا مالک ہے وہ وہاںاکنامک زون قائم کرنے کااہل ہو گا۔اس زون کے قیام سے اس ملک کو مچھلیاں پکڑنے،قدرتی وسائل تک رسائی اور عمارتوں کی تعمیر کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ دور جدید میں چونکہ گیس،تیل اور معدنیات کی دستیابی اس طرح کے خطوں کی کشش کا سبب بنتی ہے لیکن بیشتر عالمی ماہرین جغرافیائی علوم کے مطابق چونکہ زیر بحث علاقہ ایک طویل عرصہ سے متنازعہ چلا آرہا ہے جس کے سبب یہاں کسی قسم کاسروے نہ ہونے کے باعث وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ علاقہ قدرتی وسائل کا خزانہ ثابت ہوگا۔  

5دسمبر: رضاکاروں کا عالمی دن

5دسمبر: رضاکاروں کا عالمی دن

رضاکارمعاشرے کا ایسا فرد جو کسی لالچ یا مالی مفاد کے بغیر دوسرے لوگوں کی مدد کرتا ہے/ کرتی ہے۔ ایک لمحہ کیلئے اپنی سوچ کے گھوڑے دوڑائیں تو ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ موجودہ خود غرض، مفاد پرست، اقرباء پروری، رشوت ستانی، نااہلی، کام چوری اور بھی بے تحاشہ معاشرتی برائیوں کی موجودگی میں ایسا کوئی بھی شخص جو رضاکار کی تعریف پر پورا اترے تو اسے بلند و بالا مقام ملنا چاہیے لیکن کیا ایسا ہے؟اگر ہم پاکستانی معاشرے کا بہ نظر غائر جائزہ لیں تو ہمیں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں نظر آئے گی کہ ہم من حیث القوم اوپر بیان کی گئی برائیوں کے گڑھے میں غرق ہونے کے قریب قریب ہیں۔کیا ہمیں اس گڑھے سے نکلنے کیلئے کچھ کرنا چاہئے تو ہمیں اپنی دینی اساس کو سامنے رکھنا ہوگا۔ اس سلسلے میں، میں ہجرت مدینہ کے موقع پر کئے گئے رضا کاری اور بھائی چارے کے مظاہرے کا ذکر ضرور کروںگا۔ جب مہاجرین کا قافلہ ہمارے نبی مکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی قیادت میں مکہ سے مدینہ پہنچا تومہاجرین کے حالات سب کے سامنے تھے۔ ہمارے رسول ﷺ اس وقت صرف اور صرف انصار مدینہ کی طرف دیکھ رہے تھے کہ وہ اپنے مسلمان مہاجر بھائیوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اور پھر زمانے نے بھی دیکھا اور انسانی آنکھ سے بھی یہ چیز پوشیدہ نہیں رہی کہ انصار مدینہ نے رضاکاری اور بھائی چارے کی ایسی مثال قائم کی جو تا قیامت دوبارہ نہیں ہو سکتی۔ انصار مدینہ نے اپنی ملکیت میں موجود ہر چیز میں مہاجر بھائی کو حصہ دار بنایا، یہاں تک کہ جس انصار مدینہ کی دو بیویاں تھیں (عرب میں ایک سے زائد شادیوں کا رواج عام تھا)ا س نے اپنی زیادہ خوبصورت بیوی کو طلاق دی تا کہ مہاجر بھائی اس کے ساتھ نکاح ثانی کر سکے(یہاں اس مثال کو بتانے کا مقصد یہ تھا کہ اگرانصار مدینہ نے اس حد تک مہاجرین کے ساتھ نباہ کیا تو باقی مالی او ر دنیاوی چیزوں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے)۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رضاکاری اور دوسروں کی بے لو ث مدد بھی مومن کی گمشدہ میراث ہے۔اگر ہماری قوم میں یہ جذبہ مکمل طور پر بیدار ہوجائے تو ہمارے 95فیصدمعاشرتی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اب ہم آجاتے ہیں 5 دسمبر کے دن کی طرف۔ یہ دن ہر سال رضاکاروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس کی منظوری اقوام متحدہ نے 1985ء میں دی تھی۔اسے عالمی منظر نامہ پر اس وقت جانا اور مانا گیا جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 52ویں اجلاس منعقدہ 20 نومبر 1997ء میں ایک قرارداد اس حوالے سے منظور کی گئی جس میں 2001ء کو رضاکاروں کا سال بھی قرار دیا گیا۔ اس کے بعد سے ہر سال یہ دن 5دسمبر کو ''رضاکاروں کے عالمی دن‘‘ (International Volunteer Day) کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ آج کل کے تیز رفتار دور میں جب سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے چند سر پھرے ایسے ہوتے ہیں جو بے لوث کسی کی مدد کرنا اپنا فرض اوّلین سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں بھی پوری دنیا کی طرح اس عالمی دن کو منایا جاتا ہے اور مٹھی بھر افراد حتی المقدور کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ رضاکاری کا جذبہ معاشرے میں پروان چڑھ سکے۔ حیران کن حد تک یہ بات دیکھی گئی ہے کہ یہ جذبہ 10سے 14سال کی عمر کے بچوں میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ ''بوائز سکائوٹس‘‘، ''گرلز گائید‘‘ ناموں سے کچھ ادارے پاکستان میں رضاکاری کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں مصروف ہیں لیکن (مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق) وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سمت میں ہماری سوسائٹی کا رجحان بہت کم ہوتا جا رہا ہے۔ شائد پچھلے کچھ سالوں سے ملکی اور بین الاقوامی حالات نے بھی معاشرے کو کافی حد تک خود غرض بنا دیاہے۔ پاکستان میں ''پاکستان گرلز گائیڈ ایسوسی ایشن‘‘ اس سلسلے میںکام کررہی ہے۔ دو سال قبل بیگم ثمینہ عارف علوی (بیگم صدرپاکستان) نے چیف گائیڈ پاکستان کا حلف اٹھایا تھا ۔ اگر ہمارے لیڈران اور ان کے اہل خانہ ایکٹیو رول ادا کریں تو کوئی ایسی بات نہیں کہ پاکستان میں بھی رضاکارانہ خدمت کا جذبہ پروان چڑھ سکتا ہے۔ معاشرے میں اس چیز کوپروموٹ کرنے کیلئے اداروں کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی اپنا فرض ادا کرنا ہوگا۔ایک تحقیق کے مطابق پوری دنیا میں 70 فیصد رضاکارانہ کاموں کا کریڈٹ کسی ادارے کو نہیں لیکن معاشرے کے افراد کو انفرادی طور پر جاتا ہے کیونکہ لوگ ایسے کاموں کی شہرت بھی پسند نہیں کرتے۔ اقوام متحدہ کی ایک اور تحقیق کے مطابق یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ امریکہ اور یورپ میں جو افراد رضاکارانہ کاموں میں زیادہ شرکت کرتے ہیں ان کی آمدنی میں دوسرے لوگوں کی نسبت 5فیصدزیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ۔ اس سلسلے میں یہاں ایک اسلامی بات کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ''رزق کی کشادگی بچت میں نہیں بلکہ سخاوت میں ہے‘‘۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان ان پچاس ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے جن کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ رضاکار موجود ہیں۔اللہ پاک ہمارے نوجوانوں اور رضا کاروں کو ہمت اور حوصلہ عطا کرے تاکہ وہ اسی طرح پاکستان کی خدمت کرتے رہیں۔خدا کرے میری ارض پاک پر اترےوہ فصل گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو

آج کا دن

آج کا دن

''لندن سموگ‘‘''لندن سموگ‘‘ ایک شدید فضائی آلودگی کا واقعہ تھا جس نے لندن کوشدید متاثر کیا۔ اس شدید سموگ کا آغاز 5 دسمبر 1952ء کوہوا جو 9 دسمبر 1952ء تک جاری رہی۔ سرکاری طبی رپورٹس میں بتایا گیا کہ سموگ کے نتیجے میں براہ راست 4ہزار افراد ہلاک ہوئے جبکہ ہزاروں افراد مختلف طبی مسائل کا شکار ہوئے۔اسے ''لندن کی عظیم دھند‘‘ یا ''1952ء کی سموگ ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ترکی : خواتین کیلئے خصوصی قانون کی منظوری5دسمبر1934ء کوترکی میں خواتین کو رکن پارلیمان بننے اور حق رائے دہی کے استعمال کا قانون منظور ہوا۔ اس قانون کے تحت 22سال سے بڑی خواتین کو حق رائے دہی اور رکن پارلیمان بننے کیلئے 30 سال عمر کی حد مقرر کی گئی۔ اس قانون کی منظوری کے بعد 1935 ء کے عام انتخابات میں پہلی بار 18 خواتین بطور رکن پارلیمان منتخب ہوئیں۔ادارہ عالمی مہاجرین کا قیام اقوام متحدہ کے تحت عالمی مہاجرین کا ادارہ ''آئی او ایم‘‘ (انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن) کا قیام 5دسمبر1951ء کو عمل میں آیا۔ یہ ہجرت کے مسائل پر کام کرنے والی اوّلین بین الحکومتی تنظیم ہے جو حکومتی، بین الحکومتی اور غیر حکومتی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔برمودا ٹرائی اینگل اور ''فلائٹ19‘‘''فلائٹ 19‘‘ پانچ جنرل موٹرز ٹی بی ایم ایونجر ٹارپیڈو بمباروں کے ایک گروپ کا نام تھا جو 5 دسمبر 1945ء کو برمودا ٹرائی اینگل کے اوپر سے غائب ہو گیاتھا۔ ''فلائٹ 19‘‘ کا تعلق نیوی ایئر سٹیشن فورٹ لاؤڈرڈیل، فلوریڈا سے تھااور وہ امریکی نیوی کے مشن ''اوور واٹر نیوی گیشن ٹریننگ فلائٹ‘‘ پر تھا۔ اچانک تمام 14 ایئر مین لاپتہ ہوگئے۔''فلائٹ 19‘‘کی تلاش میں جانے والے مارٹن پی بی ایم میرینر فلائنگ بوٹ کے عملے کے 13 ارکان بھی اسی مقام کے قریب غائب ہو گئے۔پہلے یوکرینی صدرکاانتخابلیونیڈمیکروخ یوکرین کے معروف سیاستدان اور پہلے صدر تھے۔ وہ 5 دسمبر 1991ء کو صدر منتخب ہوئے اور19جولائی 1994ء تک اپنے عہدے پر فائز رہے۔ 1992ء میں انہوں نے یوکرین کے جوہری ہتھیاروں کو ترک کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے۔ صدر اور وزیر اعظم کے درمیان سیاسی بحران کے بعد لیونیڈ نے صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ اپنی صدارت کے بعد لیونیڈ یوکرائن کی سیاست میں سرگرم رہے۔