طنزومزاح: چائے: اشرف المشروبات

اسپیشل فیچر
مشروب سے مراد پی جانے والی رقیق چیزہے جوشُرب ـبمعنی پینا سے مشتق ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ کچھ پئے بغیر زندگی ممکن نہیں۔اہم ترین مشروب پانی ہے جسے ہر جاندار،ہر وقت اور ہر جگہ استعمال کرتا ہے۔چین جیسے ترقی یافتہ ملک کا قومی مشروب سادہ پانی ہے، جسے سرکاری وغیر سرکاری اداروں میں بڑے فخر سے پیش کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں غریب سے غریب شخص یا ادارہ مہمانوں کی سادہ پانی سے تواضع کو خلاف آداب سمجھتا ہے۔سافٹ ڈرنکس یا چائے دو ہی توچیزیں ہیں جو ہمارا بھرم رکھے ہوئے ہیں۔ڈرنکس سے بوجوہ کبھی کبھار سرد مہری ممکن ہے مگر چائے کی شان میں گستاخی یا انکار گناہِ صغیرہ کی حدود تک جاتا ہے۔
فی زمانہ کوئی چیز چائے کی مثل اور ثانی نہیں۔چائے کو تمام ڈرنکس پہ ڈھیروں فضیلتیں حاصل ہیں۔یہ سیاسی،مذہبی اور سماجی تقریبات کی شان اور جزوِ لاینفک ہے۔سرکاری اداروں میں تو جیسے SOPs کاحصہ ہے کہ احباب اپنے فرائض کی انجام دہی کریں یا نہ کریں، چائے نوشی کے ناغے کا تصور بھی ممکن نہیں۔کسی مہمان یا آفیسر کی آمد کی صورت میں چائے کا آ نابھی ناگزیر ہو جاتا ہے۔نہیںتو مہمان کی عزت افزائی اور آفیسر کے پروٹوکول پہ حرف بلکہ حروف آنے کے اندیشے جنم لے سکتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ چائے کی بابت یاروں کا عقیدہ غالب کے آموں کی مثل ہے کہ چائے ہو، میٹھی ہو اور ڈھیر ساری ہو۔ چائے کے ادوار میں تو ایسے ذیا بیطسی دوست بھی روبہ صحت نظر آتے ہیں جو اوقاتِ کار میں شوگر اور امراضِ جگر ومعدہ کا شکار ہوتے ہیں۔جبکہ حکماء انہیں باور کرا چکے ہوتے ہیں کہ چائے کی پتی سے بندے کا جگر تک کٹ سکتا ہے۔ بعض دوست تو چائے کے ایسے رسیا ہوتے ہیں جیسے چائے کا چمچہ منہ میں لئے پیدا ہوئے ہوں۔
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ سو سال قبل چائے ہماری خوراک کا حصہ ہرگز نہ تھی اور صرف اطِبّاء کے ہاں بطور درد کُش( پین کلر) دوا دستیاب ہوتی تھی۔ شاید اسی لئے انگریزی میں چائے پینے کے عمل میں '' ڈرنک ٹی‘‘ کی بجائے '' ٹیک ٹی‘‘ استعمال ہوتا ہے۔
اگر یہ پرانے دور میں اسی شان و شوکت سے پائی جاتی تو شعرو ادب کی دنیا میں ہمیں چائے کے قصیدے بھی پڑھنے کوملتے۔ ساغرو مینا کے ہمراہ کیتلی و کپ کے اذکار چلتے اور اکثر بسیار نوش شعراء شوگر اور پیلیا کے باعث مرتے ۔ جہاں مئے خانوں کا ذکرِخیر ہوتا تو ساتھ ہی ٹی ہائوسز کے گن بھی گائے جاتے ۔ آج ٹی ہائوسز ، مئے خانوں کی جگہ لے چکے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مئے نوشی، مدہوشی کا موجب بنتی تھی جبکہ چائے سستی اور خمار کو بھگا کرکم خوابی کا باعث ہے۔ اب معلوم ہواکہ ساغر صدیقی اپنی تخلیقات چائے کی پیالی کے عوض کیوں قربان کر دیتے تھے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ شعراء مفتیا ن اور زاہدانِ تنگ نظر کے عتاب کا شکار ہونے سے بھی محفوظ رہتے کیونکہ چائے انہیں خود مرغوب ہوتی۔
آج زندگی چائے کے بغیر ادھوری اور بے کیف ہے۔اب یہ بات طے ہے کہ چائے اظہارِ محبت اور چاہت کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ ناراضگیاں اور گلے شکوے ایک کپ چائے سے دور ہو سکتے ہیںاور دوست چائے کے ساتھ ساتھ غصہ بھی پی سکتے ہیں۔اگر آپ چائے کے پینے پلانے کے گر سے واقف ہیں تو بلا شبہ کامیاب انسان ہیںکیونکہ یہ حل المشکلات اور قاضی ا لحاجات بھی ثابت ہو تی ہے۔
پی جانے والی چائے سے ہٹ کر چائے پانی کی اصطلاح تو سونے پہ سہاگہ کی تاثیر رکھتی ہے جس سے کام نہ نکلنے کی شرح کم ہو جاتی ہے۔ رشتوں کے دیکھنے دکھانے کے عمل میں بھی چائے کا ہی کلیدی کردار کار فرما ہوتا ہے۔کسی کی ممی کسی کو چائے پہ بلاتی ہے تو کبھی کسی کے ممی پاپا چائے پہ بلائے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں رومانوی سرگرمیاں بھی چائے کی مرہونِ منت ہیں۔ رت جَگوں کیلئے تو ڈھیروں مفید ہے۔ پڑھاکو سٹوڈنٹس رات کو نیند کے غلبوں سے بچنے کیلئے چائے کا ہی سہارا لیتے ہیں۔ کچھ کی رائے میں چائے مل بیٹھنے کا بہانہ ہے۔بعض اسے اعصاب کا چابک کہتے ہیں۔
اگر چائے نوشوں کو چائے کے مضر اثرات اور گرم مزاجی کا بتایا جائے تو فرماتے ہیں کہ چائے کے ہمراہ دیگر لوازمات یعنی بسکٹ وغیرہ کے تکلفات سے چائے معتدل ہو جاتی ہے۔ان کا ماننا ہے کہ دنیا کی عظیم نعمتوں میں چائے سرِفہرست ہے۔کچھ کی تمنا ہے کہ جنت میں بھی میسر ہو۔ہم نے بڑوں سے سنا ہے کہ جنت میں جس چیز کی خواہش کی جائے گی اس کا ذائقہ نصیب ہو گا ۔ اب تسلیم کرنا ہی ہو گا کہ انسان اگر اشرف ا لمخلوقات ہے تو اس کیلئے یہاں مشروبات میں چائے ''اشرف ا لمشروبات‘‘ ہے۔