9اکتوبر : ڈاک کا عالمی دن
اسپیشل فیچر
ڈاک کا مطلب ایک ایسا نظام ہے جس کے ذریعے خطوط،دستاویزات ودیگر ایسی اشیاء جو لفافے میں بند ہوں ،ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجی جاتی ہیں ،اسے ڈاک کہتے ہیں۔ آج سے سات ہزارسال پہلے فرعون مصر میں ڈاک کا حوالہ ملتا ہے۔ بابلی دور میں تازہ دم اونٹوں اور گھوڑوں کے ذریعے ڈاک کا نظام قائم ہوا۔ حضرت عمر فاروق ؓنے ڈاک کے نظام پر خصوصی توجہ دی۔ ایک ہزار سالہ اسلامی دور حکومت میں ڈاک کی ترسیل کا تیزترین نظام کام کرتا رہا۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے مختلف مقامات پر چوکیاں بنائیں، جہاں گزشتہ چوکی کا ہرکارہ ڈاک لے کر پہنچتاتو اگلا ہرکارہ تازہ دم گھوڑالیے تیار ہوتا۔ اسی طرح یہ سلسلہ قائم رہتا اور بنا کسی تاخیر کے ڈاک ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتی۔وقت کیساتھ اس میں تبدیلیاں آئیں اور موجودہ ڈاک کا نظام قائم ہوا ۔
ہر سال 9 اکتوبر کوپاکستان سمیت دنیا بھر میں ''ڈاک کا عالمی دن‘‘ منایا جاتا ہے ،جس کا مقصد ڈاک کے نظام کو بہتر بنانا ہے۔ محکمہ ڈاک کی اہمیت اور اس کی کارکردگی کو اجاگر کرنا ہے۔ اس عالمی دن کے موقع پر تمام ممالک ڈاک ٹکٹ کا اجرا کرتے ہیں ۔'' یونیورسل پوسٹل یونین ‘‘(یو پی یو) کا قیام 9 اکتوبر 1847ء کو عمل میں آیا۔ اِس دن سوئٹزر لینڈ کے شہر برن کے مقام پر عالمی ڈاک سے متعلق کانفرنس ہوئی۔ جس میں ''جنرل پوسٹل یونین‘‘ نامی تنظیم کی بنیاد ڈالی گئی۔ اِس معاہدے کو 22ملکوں نے منظور کیا اور یکم جولائی1875ء سے نافذالعمل ہوا۔ یونین یکم جولائی1948ء کو اقوام متحدہ کی خصوصی ایجنسی بنی۔ اِس کا مقصد تمام ممالک میں ڈاک کی ترسیل کی ترقی اور ڈاک کے نظام کی بہتری ہے ۔
پہلے تو یہ صرف خط پارسل وصول کرنے اور اس پر اٹھنے والے اخراجات کی ایک رسید تھی مگر 1969ء میں ٹوکیو کانگریس نے یہ طے کیا کہ ترقی پذیر ممالک کو ترقی یافتہ ممالک سے جس قدر مقدار میں ڈاک وصول ہو گی، اس اضافی وزن کا معاوضہ انہیں 0.50 گولڈ فرانک فی کلوگرام کے حساب سے ادا کیا جائے ۔ اس لین دین کے حساب کو ادارہ یونیورسل پوسٹل یونین دیکھ رہا ہے۔ ڈاک کا نظام دنیا بھر کی معاشی ترقی و اقتصادی سرگرمیوں میں اضافے اور عوام کو خطوط کے ذریعے آپس میں ملانے کے حوالہ سے موثر کردار ادا کر تا رہا ہے، جس کی افادیت کو برقرار رکھنے کیلئے دنیا میں پہلا ڈاک کا عالمی دن 9 اکتو بر 1980 ء کو منایا گیا۔
خط جسے آدھی ملاقات کہا جاتا ہے کسی دور میں پیغام رسانی کا اہم ترین ذریعہ تھا،لیکن دنیا جیسے جیسے ترقی کے زینے طے کرتی گئی فاصلے سمٹتے چلے گئے۔ خط کی جگہ پہلے تار نے لی پھر ٹیلی گرام اور فیکس کا دور آیا، لیکن موبائل فون کی آمد کے بعد ڈاک کا نظام بھی اپنی افادیت کھوبیٹھا اور رہی سہی کسر انٹرنیٹ نے پوری کردی۔یونیورسل پوسٹل یونین ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھرمیں ڈاک کے ذریعے بھیجے جانے والے کل خطوط کی تعداد کا 5 سے 11 فیصد حصہ عام لوگوں کی جانب سے کیا جاتا ہے،جبکہ80فیصد ڈاک حکومتی عہدیداروں کی جانب سے بھیجے گئے خطوط اور کاغذات پر مشتمل ہوتی ہے۔
ڈاک ٹکٹ جمع کرنا ایک مشغلہ ہے ۔یہ ایک مہنگا شوق ہے۔ پہلے نواب و بادشاہوں کا شوق تھا،ا ب یہ عوامی شوق ہو گیا ہے ۔ ایک وقت تھا ڈاک ،ڈاکیا کو ہمارے معاشرے میں محبت کا پیغام بر ،قاصد سمجھا جاتا تھا۔،ڈاکیے کے کردار پر کہانیاں لکھی جاتی تھیں، شاعری کی جاتی تھی، ڈاکیا خوشی و غم کی علامت تھا۔ڈاکیا اور ڈاک بچھڑوں کو ملانے ،اس کی خیر خبر پہنچانے کا ذریعے تھا ۔اب دور بدل گیا ہے، اب ٹیلی فون، موبائل، انٹرنیٹ وغیرہ نے اس کی جگہ لے لی ہے ۔اب وہ انتظار کی لذت و بے چینی ختم ہو چکی ہے، جو پہلے ڈاک کے انتظار میں اٹھانی پڑتی تھی۔اب ڈاک کا نظام کسی حد تک اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے ۔
اب آپ کو پاکستان کے ڈاک ٹکٹ کے بارے میں حیرت انگیز بات بتاتے ہیں۔ پاکستان میں اب تک ایک اندازے کے مطابق 15 سو سے زائد ڈاک ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں۔ یہ تعداد (2006 ء تک 1200 تھے)۔ ان پر بادشاہوں اور مشہور شخصیات کی، عمارتوں کی تصویریں ہیں۔ملک کا عام آدمی، کسان اور مزدور کہیں،کہیں نظر آتا ہے ۔ پاکستان کے پہلے ڈاک ٹکٹ پر یومِ آزادی 15 اگست درج ہے۔ پاکستان میں جوپہلا ڈاک ٹکٹ چلایا گیا، اس میں بادشاہ کنگ جارج کی تصویر پر پاکستان چھاپا گیا)۔
11 ستمبر1949ء میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کی وفات پر ٹکٹ جاری کیا گیا ،جس پر قائداعظمؒ لکھا ہوا ہے، لیکن ان کی تصویر نہیں ہے ۔ایسے ہی علامہ اقبال ؒکے نام کا ٹکٹ پاکستان بننے کے گیارہ سال بعد شائع ہوا (علامہ اقبالؒ کی 20 ویں برسی پر ) اس میں بھی علامہ اقبالؒ کی تصویر نہیں تھی ۔ ملیریا کی بیخ کنی کیلئے حکومت نے 7 اپریل 1961ء میں مچھر کی تصویروں والی دو ٹکٹیں جاری ہوئیں ۔فوجی جوانوں کے چہرے وہ پہلے انسانی چہرے ہیں، جو ڈاک ٹکٹوں پر ظاہر ہوئے جو 1965ء کی جنگ کے بعد اسی سال دسمبر میں جاری کیے گئے۔ نومبر 1966 ء میں کسی شخص کی تصویر پہلی بار دو ڈاک ٹکٹوں پر شائع کی گئی اور وہ تھے فوجی حکمران جنرل ایوب خان۔ اس وقت تک قائداعظم محمد علی جناحؒ اور علامہ اقبالؒ کی تصویریں بھی ٹکٹوں پر نہیں آئی تھیں۔31 دسمبر1966 ء کو پہلی بار قائد اعظمؒ کی تصویر والے ٹکٹ جاری ہوئے ۔
ایک سال بعد علامہ اقبالؒ کی تصویر ٹکٹوں کی زینت بنی ۔جنرل محمد ضیا الحق نے ملک میں عید میلادالنبی کے موقع پر اپنے دور حکومت میں ایک ڈاک ٹکٹ کا اجرا ء کیا، جس میں روضہ رسول اور قرآن کریم کو اوپر دکھایا درمیان میں لکھا کہ ''اور کہہ دو حق آیا اور باطل مٹ گیا‘‘ یعنی اس ڈاک ٹکٹ کے ذریعے پورے عالم اسلام کو یہ پیغام دیا گیا کہ ہمارا ایمان قرآن پر ہے وہی سب سے اعلیٰ نظام ہے ۔