خانہ بدوش
اسپیشل فیچر
خانہ بدوش جنہیں یورپ میں ''رومانی‘‘، سپین میں ''گیٹانو‘‘، ترکی میں ''چنگنے‘‘، اٹلی میں ''زنگارو‘‘، فرانس میں ''گیٹانو، زگیز اور مناؤچز‘‘ اور برصغیر میں ''بنجارے‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح دنیا کے مختلف علاقوں میں ان کے نام بھی اپنے کلچر کے مطابق مختلف ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں خانہ بدوشوں یا جپسیز کی تعداد ایک کروڑ سے زیادہ ہے۔ دنیا بھر میں 80فیصد خانہ بدوش یورپی ممالک جبکہ باقی 20فیصد امریکہ، لاطینی امریکہ اور دنیا کے دیگر خطوں میں بستے ہیں۔ خانہ بدوشوں کیلئے ''بسنے‘‘ کے لفظ سے مراد ان کا عارضی پڑاؤ ہوتا ہے۔
یہ خانہ بدوش لوگ کون ہیں، کہاں سے آئے اور کیسے وجود میں آئے؟ اس پر ایک عرصہ سے تحقیق ہو رہی ہے۔ جہاں تک خانہ بدوشی کی شروعات یا اس کے وجود کا تعلق ہے تو اس کیلئے ہمیں زمانہ قدیم کے انسان کے ساتھ چلنا ہو گا۔
انسان نے تلاش رزق کیلئے اس روئے زمین پر جب اپنا سفر شروع کیا تو وہ اپنا شکار پاتے ہی سرشام اپنے ٹھکانے پر واپس آجاتے تھے۔ پھر کچھ عرصہ بعد ان کا پڑاؤ کہیں اور منتقل ہو جاتا تھا۔ اس کے بعد ان کا اگلا قدم زراعت کی طرف اٹھا تو انہوں نے اپنا بسیرا بھی اپنے کھیتوں کے آس پاس کر لیا اور یوں ''بستیوں‘‘ کا رواج پڑنا شروع ہوا۔ بیشتر قبائل ایسے بھی تھے جو ایک جگہ ٹک کر بیٹھنے کے قائل نہ تھے بلکہ متحرک رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔چنانچہ بنیادی طور پر یہیں سے ''خانہ بدوشی‘‘ کا آغاز ہوا۔ بستیوں کے آباد کاروں نے شروع میں انہیں ''بار بیرین‘‘ یعنی وحشی کا خطاب دیا۔
زراعت پیشہ اپنانے والے آبادکار مہذب انداز میں اپنے گزر بسر کا اہتمام کرتے رہے جبکہ خانہ بدوش جب گزر بسر کیلئے روزمرہ ضروریات زندگی کو حاصل نہ کر پاتے تو وہ آبادیوں میں لوٹ مار اور بعض اوقات قتل و غارت کو اپنا ذریعہ معاش بنا لیتے۔ یہیں سے خانہ بدوشی دو واضح طبقات میں بدل گئی۔ ایک وہ طبقہ جو بذریعہ تجارت یا فن (گانا بجانا یا ثقافتی کھیل تماشہ) کے ذریعے عازم سفر رہتا اور دوسرا وہ طبقہ جو لوٹ مار یا غیر قانونی ذرائع سے گزر بسر کرتا۔ اوّل الذکر کو مہذب خانہ بدوش یا یورپ میں انہیں جپسی کہا گیا جبکہ آخر الذکر کو غیر مہذب خانہ بدوش یا باربیرین کہا جانے لگا۔
جپسی پُر امن خانہ بدوش ہیں جو لڑائی اور دنگا فساد سے دور رہتے ہیں۔ ان کا ذریعہ معاش میلے ٹھیلے لگا کر لوگوں کو موسیقی سے محظوظ کرنا، قسمت کا حال بتانے سے لے کر مختلف کرتب اور کھیل تماشے دکھانے کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھ کی بنائی ہوئی ثقافتی اشیاء کی تجارت کرنا بھی شامل ہے۔ جپسی رفتہ رفتہ امریکہ میں بھی پہنچ گئے ہیں، وہاں بھی انہیں جپسی ہی کہا جاتا ہے۔
خانہ بدوشی کا آغاز
ماہرین عمرانیات ایک طویل تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ خانہ بدوش قبائل پنجاب، راجستھان اور سندھ کے علاقوں سے غالباً کسی بڑی خشک سالی کے باعث نقل مکانی کر کے مختلف ممالک میں پھیلتے چلے گئے۔ شواہد سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ خانہ بدوش قبائل بذریعہ کوہ ہندو کش مشرق وسطی، یورپ اور پھر پوری دنیا میں پھیل گئے۔
جغرافیائی لحاظ سے کوہ ہندوکش کو برصغیر کی ایک عظیم حفاظتی فصیل سمجھا جاتا تھا۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ بڑے بڑے حملہ آوروں نے جب بھی اسے عبور کیا وہ تلواروں، نیزوں اور اسلحہ سے لیس ہوا کرتے تھے۔ اس کے برعکس خانہ بدوش اسلحہ کی بجائے اپنے ہاتھوں میں بانسریاں، ڈفلیاں، ڈھول، لے اور سُر لئے کوہ ہندوکش کے اس پار مشرق وسطی جا پہنچے اور پھر وہاں سے یورپ، امریکہ اور دنیا کے دوسرے علاقوں تک پھیل گئے۔ ان کی اپنی نہ تو کوئی تحریری تاریخ ہے اور نہ ہی انہیں اپنے ماضی بارے زیادہ معلومات ہیں، اس لئے ماہرین اس بارے کوئی مستند فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کہ آخر انہوں نے ہجرت کیوں کی اور خانہ بدوشی کا کٹھن راستہ اختیار کرنے پر کیوں مجبور ہوئے۔
ثقافت، روایات اور رہن سہن
خانہ بدوشی کی وجہ سے یہ لوگ نہ تو کہیں مستقل قیام کرتے تھے، نہ بستیاں بساتے، نہ دولت جمع کرتے اور نہ ہی جائیدادیں بناتے تھے۔ دنیا بھر میں ہر وقت متحرک ہونے کی وجہ سے اگرچہ یہ کئی زبانیں بولتے ہیں لیکن ان کی اپنی زبان ''روما‘‘ کہلاتی ہے، جس میں برصغیر پاک و ہند کے کئی الفاظ شامل ہیں۔ جہاں تک ان کی روایات کا تعلق ہے یہ دنیا بھر میں گھومنے کے باوجود دوسرے لوگوں سے بہت کم تعلقات بناتے ہیں۔ جس کی بڑی وجہ ان کا اقلیت میں ہونا ہے۔ اس کے علاوہ چونکہ ان کا پڑاؤ عام طور پر آبادیوں سے ہٹ کر ہوتا ہے اس لئے مقامی لوگوں سے ان کا ملنا جلنا دوسروں کی نسبت کم ہوتا ہے۔ اسی لئے یہ شادی بیاہ بھی اپنے لوگوں سے ہٹ کر نہیں کرتے۔
وقت کے ساتھ ساتھ زمانہ ترقی کرتا گیا لیکن انہوں نے اپنا رہن سہن، لباس اور طرز زندگی نہیں بدلا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی قدیم روائتی پوشاک، کانوں میں بالیاں اور اپنی مخصوص رنگت کی وجہ سے یہ دور سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔
یہ ملازمت نہیں کرتے کیونکہ پیدائشی طور پر یہ آزاد فطرت لوگ ہیں اس لئے گزر بسر کیلئے یہ کھیل تماشہ کرتے اور لوہے کے اوزار بنا کر فروخت کرتے تھے۔ ان کی خواتین دھاگا تیار کر کے کپڑا بناتیں اور روزمرہ کے کاموں میں مردوں کا ہاتھ بٹاتی تھیں۔ یہ لوگ خود بھی تعلیم سے عاری ہوتے اور اپنے بچوں کو بھی تعلیم سے دور رکھتے تھے۔
جدید دور میں بھی جب مشرقی یورپ کے ملکوں نے انہیں اپنے ہاں مستقل آباد کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے آزاد رہنے کو ترجیح دی۔ انہوں نے اس زمانے میں بھی زندگی گزارنے کا ایک متبادل طریقہ پیش کیا ہے اور وہ یہ کہ ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد رہ کر خوشی اور مسرت سے سادہ زندگی گزاری جائے۔
خانہ بدوشوں میں درجہ بندیاں
تاریخ میں جن خانہ بدوشوں کا ذکر ملتا ہے وہ چین، وسطی ایشیا، خراساں اور کوہ کاف تک پھیلے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ فرانس، اٹلی، سپین اور جرمنی میں مختلف خانہ بدوش قبائل کا ذکر ملتا ہے جن کی اکثریت غیر مہذب خانہ بدوشوں پر مشتمل تھی۔ یہ قبائل بڑی سلطنتوں کیلئے درد سر بنے ہوئے تھے کیونکہ ان ممالک کی سرحدوں پر لوٹ مار اور قتل و غارت ان کا معمول بن چکا تھا۔ چنانچہ اکثر سلطنتیں ان کی فوجی خدمات حاصل کرتی تھیں۔ 11ویں صدی عیسوی میں جب یہ سلطنتیں مضبوط و مستحکم ہونے لگیں تو ان حالات میں بہت سے خانہ بدوش قبائل ان ریاستی افواج کا حصہ بن گئے۔ ان میں کچھ خانہ بدوش قبائل ایسے تھے جنہوں نے جنگوں کے ذریعے اپنی حکومتیں قائم کیں، جیسے منگولوں نے فتوحات کے ذریعے وسیع سلطنت کی بنیاد رکھی۔ اسی طرح وسط ایشیا کے قبائل نے سلجوقوں اور عثمانی ترکوں سے فتوحات کے نتیجے میں سیاسی اقتدار حاصل کیا اور ریاستیں قائم کیں۔
جو قبائل کسی بڑی سلطنت کا حصہ ہو گئے یا انہوں نے خود بڑی حکومتیں قائم کر لیں تو وہ اپنے خانہ بدوشی کے کلچر سے باہر نکل آئے اور مہذب دنیا کا حصہ بن گئے۔ جیسے کشن قبیلہ جو چین سے آیا تھا اس نے ازبکستان، افغانستان اور ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کر لی۔ اسی طرح 12ویں صدی عیسوی میں چنگیز خان کی رہنمائی میں متحد ہونے والے منگولوں نے چین، وسطی ایشیا، ایران اور عراق تک اپنی حکومت قائم کر لی۔