بہادر شاہ ظفر مغلیہ خاندان کا آخری چشم وچراغ
اسپیشل فیچر
مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی، جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت، اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر ان کا دور دورہ تھا۔1857ء کی پہلی جنگ آزادی کے وقت بہادر شاہ ظفر کی عمر 82 سال تھی جب ان کے چار بچوں کا سر قلم کرکے ان کے سامنے انگریز تھال میں سجا کر تحفے کی شکل میں لائے تھے۔
بہادرشاہ ظفر مغل خاندان کے آخری بادشاہ تھے۔ان کا سلسلہ نسب گیارھویں پشت میں شہنشاہ بابر سے ملتا ہے۔ انہوں نے اُردو، عربی، فارسی، زبان کے ساتھ گھڑسواری، تلوار بازی، تیراندازی اور بندوق چلانے کی کافی مہارت حاصل کرلی تھی۔شاعری میں ابراہیم ذوق کے شاگرد تھے۔ ذوق کی وفات کے بعد مرزا غالب سے شاعری میں رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ وہ ایک اچھے صوفی ادیب وشاعر تھے۔ وہ 1857ء تک حکومت کے کام کاج سنبھالتے رہے۔ انگریزوں نے ان پر حکومتی مجرم اور فوجیوںکے قتل کے الزام میں عدالت کے ذریعہ مقدمہ چلایا۔ ایک خودساختہ عدالت کے ذریعے بہادرشاہ ظفر کو جنگ و جدل کا ذمہ دار قرار دیا گیا (خود ہی جج، خود ہی مدعی، خود ہی گواہ) بادشاہ کے دو ملازمین ماکھن چند اور بسنت خواجہ سرا کو گواہ بنایاگیا۔ ان گواہوں کے بیانات کی بادشاہ نے سختی سے تردید کی۔یہ مقدمہ اکیس دن چلتا رہا مارچ کی 9 تاریخ کو فیصلہ ہوا، قریب اٹھارہ مشتبہ چشم دید گواہ پیش کیے گئے، دو سو کے قریب عصری دستاویزات پیش کی گئیں جن کا تعلق بہادرشاہ ظفر سے تھا ۔29 مارچ 1857 ء کو بہادر شاہ ظفر کو قومی مجرم قرار دے کر بدترین مثال قائم کی گئی اور رنگوں بھیج دیا گیا۔
آخری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو لے کر بحری جہاز 17 اکتوبر 1858ء کو رنگون پہنچا۔ شاہی خاندان کے 35 مرد اور خواتین بھی تاجدار ہند کے ساتھ تھیں۔کیپٹن نیلسن ڈیوس رنگون کا انچارج تھا۔بہادر شاہ ظفر قیدی ہونے کے باوجود شہنشاہ تھا اور نیلسن کا ضمیر گوارا نہیں کر رہا تھاکہ وہ بیمار اور بوڑھے شہنشاہ کو جیل میں ڈالے مگر رنگون میں کوئی ایسا مقام نہیں تھا جہاں انہیں رکھا جا سکتا۔وہ رنگون میں پہلا جلا وطن شہنشاہ تھا۔نیلسن ڈیوس نے چند لمحے سوچا اور مسئلے کا دلچسپ حل نکال لیااور شہنشاہ ہندستان ، تیموری لہو کے آخری چشم و چراغ کو اپنے گیراج میں قید کر دیا۔بہادر شاہ ظفر17 اکتوبر 1858ء کو اس گیراج میں پہنچے اور 7 نومبر 1862ء تک وہاں رہے۔بہادر شاہ ظفر نے اپنی مشہور زمانہ غزل اسی گیراج میں لکھی تھی :
لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائدار میں
کتنا بدنصیب ہے ظفردفن کے لئے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
یہ 7 نومبر کا خنک دن تھا اور سن تھا 1862ء بدنصیب شہنشاہ کی خادمہ نے شدید پریشانی میں کیپٹن نیلسن ڈیوس کے دروازے پر دستک دی۔اندر سے اردلی نے بَرمی زبان میں اس بدتمیزی کی وجہ پوچھی۔خادمہ نے ٹوٹی پھوٹی بَرمی میں جواب دیاکہ شہنشاہ ہندوستان کا سانس اُکھڑ رہا ہے۔نیلسن نے اپنا پسٹل اُٹھایا، گارڈز کو ساتھ لیا اور گیراج میں داخل ہو گیا۔ بہادر شاہ کی آخری آرام گاہ کے اندر بَدبو، موت کا سکوت اور اندھیرا تھا۔ اردلی لیمپ لے کر شہنشاہ کے سرہانے کھڑا ہو گیا۔نیلسن آگے بڑھا۔بادشاہ کا کمبل آدھا بستر پر تھا اور آدھا فرش پر۔اس کا ننگا سر تکیے پر تھا لیکن گردن ڈھلکی ہوئی تھی۔ آنکھوں کے ڈھیلے پپوٹوں کی حدوں سے باہر اُبل رہے تھے۔ گردن کی رگیں پھولی ہوئی تھیں اور خشک زرد ہونٹوں پر مکھّیاں بھنبھنا رہی تھیں۔
کیپٹن نیلسن نے شہنشاہ کی گردن پر ہاتھ رکھا۔ ہندوستان کا آخری شہنشاہ زندگی کی حد عبور کر چکا تھا۔نیلسن نے لواحقین کو بلانے کا حکم دیا۔لواحقین تھے ہی کتنے، ایک شہزادہ جوان بخت اور دوسرا اس کا استاد حافظ محمد ابراہیم دہلوی، وہ دونوں آئے۔انہوں نے شہنشاہ کو غسل دیا۔ کفن پہنایا اور جیسے تیسے نمازِ جنازہ پڑھی۔نیلسن نے سرکاری رہائش کے احاطے میں قبر کھدوائی اورلاش کو دفن کر دیا۔آہ کیسا وقت آیا تھا یہ ایک وہ وقت تھا ۔30 ستمبر 1837ء کو جب دہلی کے لال قلعے میں 62 برس کے بہادر شاہ ظفر کو تاج پہنایاگیا۔ بہادر شاہ ظفر کی تاج پوشی کا جشن 7 دن جاری رہا اور ان 7 دنوں میں دِلّی کے لوگوں کو شاہی محل سے کھانا کھلایا گیا ۔ایک یہ وقت تھا 7 نومبر 1862ء کی اس ٹھنڈی اور بے مہر صبح شہنشاہ کی قبر کو کوئی ایک فرد نصیب نہیں تھا۔