استاد دامن:عوامی شاعر
اسپیشل فیچر
اری سرسری نظر جہان اْتے
تے ورق زندگی دا تھلیا میں
دامن رفیق نہ ملیا جہان اندر۔۔
ماری کفن دی بْکل تے چلیا میں !
یہ کلام ہے پنجابی کے مشہور شاعر استاد دامن کا۔ان کا اصل نام چراغ دین تھا۔ دامن تخلص تھا جبکہ اہل علم و فن افراد نے استاد کا خطاب دیا۔ اس لیے استاد دامن کے نام سے معروف ہوئے۔ استاد دامن ایک عجیب و غریب شخصیت تھے۔ وہ تھے تو پنجابی کے عوامی شاعر لیکن ایسے شاعر جن کا ان کی زندگی میں کبھی کوئی شعری مجموعہ شائع نہیں ہوا، جب کبھی ان سے استفسار کیا جاتا کہ وہ شعری مجموعہ کیوں نہیں شائع کراتے تو ان کا جواب ہوتا'' جب میرا کلام عوام کو زبانی یاد ہے تو پھر مجھے شعری مجموعہ چھپوانے کی کیا ضرورت ہے‘‘۔
4 ستمبر 1911ء کو لاہور میں پیدا ہونے والے استاد دامن کا اصل نام چراغ دین تھا۔1947ء میں تقسیم ہند کے وقت وہ پنجابی کے سب سے مشہور شاعر تھے۔ انہوں نے کیا شعر کہا تھا:
ایہہ دنیا منڈی پیسے دی، ہر چیز وکندی بھاسجنا
ایتھے روندے چہرے وکدے نئیں، ہسنے دی عادت پا سجنا
استاد دامن پیشے کے اعتبار سے درزی تھے۔ 1930ء میں انہوں نے میاں افتخار الدین کا ایک سوٹ تیار کیا جو ان کی شاعری سن کر بڑے متاثر ہوئے۔ انہوں نے استاد دامن کو دعوت دی کہ وہ انڈین نیشنل کانگریس کے زیر اہتمام جلسے میں اپنی نظم پڑھیں۔ جب استاد دامن نے نظم پڑھ کر سنائی تو ان کے نام کا ڈنکا ہر طرف بجنے لگا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو اس جلسے میں موجود تھے۔ انہوں نے استاد دامن کی انقلابی اور سامراج کے خلاف نظم سن کر انہیں''شاعر آزادی‘‘ قرار دیا۔
1947ء کے افسادات میں استاد دامن کی دکان اور گھر کو فسادیوں نے نذر آتش کردیا۔ ان کی اہلیہ اور جوان بیٹی کو بھی موت کی نیند سلا دیا۔ تاہم استاد دامن نے لاہور میں ہی قیام پذیر ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ تمام زندگی آمریت، منافقت اور کرپشن سے نفرت کرتے رہے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ ان کی وفات کے بعد ان کے مداحین نے ان کا شعری مجموعہ ''دامن دے موتی‘‘ شائع کیا۔ ان کی نظموں کا آج بھی پنجاب کے مختلف علاقوں میں حوالہ دیا جاتا ہے۔ وہ پہلے ''ہمدم‘‘ کے قلمی نام سے لکھتے رہے۔ یہ قلمی نام بعد ازاں ''دامن‘‘ ہو گیا۔ استاد کا خطاب انہیں مقامی لوگوں نے دیا۔
اس کے بعد استاد دامن سیاسی اور عوامی جلسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرنے لگے۔ وہ اکثر اس رائے کا اظہار کرتے رہتے تھے کہ جدوجہد آزادی اس وقت تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی جب تک ہندو،مسلمان اور سکھوں میں اتحاد نہیں ہو جاتا۔
استاد دامن کی شاعری میں لوک رنگ، تصوف، سیاسی موضوعات، روایتی موضوعات کے علاوہ روز مرہ زندگی کا ہر رنگ ملتا ہے۔ ان کی شاعری حقیقت نگاری اور فطرت نگاری کی خوبیوں سے مالامال ہے اور انسانی زندگی کی خوبصوت عکاس ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں انہوں نے ایک نظم لکھی جس پر انہیں گرفتار کر لیا گیا، ان کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ عوام کے جذبات انہی کی زبان میں بیان کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ عوامی شاعر کہلائے۔ اس کے علاوہ وہ رجائیت پسند تھے اور انہوں نے اپنے مداحین کو کبھی یاسیت اور قنوطیت کی دلدل میں نہیں دھکیلا۔ ذرا ان کی یہ شاعری ملاحظہ کیجئے:
ساڈے ہتھاں دیاں ریکھاں پیراں نال مٹین والیو
اوئے موئیاں ہویا دیاں صفاں ولیٹن والیو
کرلو کوٹھیاں وچ چاننا
کھو کے ساڈیاں اکھیاں دا نور
ایتھے انقلاب آئے گا ضرور
سانوں کوئی شکست نہیں دے سکدا
بھانویں کوئی کڈ ادم خم نکلے
استاد دامن دے گھر ویکھیا جے
دو ریوالور تے تن دستی بم نکلے
استاد دامن نے پنجاب اور پنجابی زبان سے اپنی محبت کا اظہار بھی بڑے واضح انداز میں کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں!
میں پنجابی پنجاب دے رہن والا سدا خیر پنجابی دی منگ داہاں
موتی کسے سہاگن دی نتھ داہاں ٹکڑا کسے پنجابن دی ونگ داہاں
اس کے بعد وہ اس بات کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ وہ اردو اور انگریزی کے دشمن نہیں لیکن ان کی منہ بولی زبان پنجابی کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا جائے۔ وہ کہتے ہیں !
زندگی کیہ اے پتن سیاپیاں دیر وندے آئے ساں پیٹ دے گزر چلے خون جگر دا تلی تے رکھ کے تے دھرتی پوچدے پوچدے گزر
چلے ایتھے کیوں گزاریئے زندگی نوں
ایہو سوچدے سوچدے گزر چلے
اب ذرا ان ا شعار کو دیکھیں، جہاں وہ دلیل سے کہتے ہیں کہ کم عقلوں اور نادانوں کو اشعار سنانا بے سود ہے۔
کم عقلی تے تیری کوئی شک نہیں
دانش مورکھاں توں پیا وارناں ایں
دامن شعر سنائونا ایں مور کھاں نوں
موتی پتھراں تے پیا مارناں ایں
استاد دامن حبیب جالب کو اپنا '' اردو ایڈیشن‘‘ کہتے تھے۔ وہ کہتے تھے وہ اردو کا عوامی شاعر ہے اور میں پنجابی کا عوامی شاعر ہوں۔ اگرچہ بعض نقاد حبیب جالب اور استاد دامن کو نعرے بازکہتے ہیں لیکن یہ ایک رائے ہے۔ ویسے تو ڈاکٹر وزیر آغا جیسے جید نقاد نے فیض احمد فیض کو بھی نعرے باز کہا تھا۔ ان نقادوں کے نزدیک معروضی صداقتوں اور عصری کرب کو عوام کی زبان میں بیان کرنا نعرے بازی ہے اور ایسا کلام شعری طرز احساس سے خالی ہوتا ہے۔ بقول حسن عسکری یہ نفس کی نہیں آفاق کی شاعری ہے۔''وقت کی راگنی‘‘ میں انہوں نے بڑی صرافت سے ایسی شاعر کو رد کیا ہے لیکن کیا یہی حرف آخر ہے؟ اس پر بحث کے دروازے کھل سکتے ہیں۔
1984ء ایک ایسا سال تھا جب بڑی معروف ہستیاں عالم جاوداں کو سدھار گئیں۔ ان میں راجندر سنگھ بیدی، خواجہ خورشید انور اور فیض احمد فیض شامل ہیں۔ اسی سال کے آخر میں (تین دسمبر1984ء کو) استاد دامن بھی یہ جہاں چھوڑ گئے۔