موسمیاتی تبدیلی سے معیشت کو اربوں کا نقصان
اسپیشل فیچر
دنیاکے کئی ممالک کو گزشتہ برسوں کے دوران شدید موسمی حالات اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اربوں ڈالر کے معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ۔ ''Christian Aid‘‘ کی ایک رپورٹ میں 2022ء کی 20 سب سے تباہ کن موسمیاتی آفات کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ان میں سے دس سب سے زیادہ مالی طور پر تباہ کن موسمیاتی آفات کا معاشی اثر اربوں ڈالر میں تھا۔ ان میں سے زیادہ تر معاشی تباہی کے تخمینے صرف بیمہ شدہ نقصانات پر مبنی ہیں، یعنی حقیقی مالی نقصانات اس سے کہیں زیادہ ہونے کا امکان ہے، جبکہ انسانی نوعیت کے نقصانات اکثر معاشی اثرات سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔
ان میں سمندری طوفان ''آیان‘‘ بھی ہے جو گزشتہ برس ستمبر میں امریکہ اور کیوبا سے ٹکرایا تھا جس کی تباہی کے اثرات کا معاشی حجم 100 ارب ڈالر تھا اور 40ہزار افراد اس میں بے گھر ہوئے تھے۔ یورپ میں خشک سالی سے ہیٹ ویو سے 20 ارب ڈالر کا نقصان ہوا جبکہ پاکستان میں گزشتہ برس کے سیلاب سے 1700 سے زائد افراد جاں بحق اور 70 لاکھ سے زائد بے گھر ہوئے۔ عالمی بینک کے اندازوں کے مطابق ان سیلابوں سے پاکستان کو 30 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا تھا۔
امریکہ کی یونیورسٹی آف ڈیلاوئیر کی رپورٹ ''Loss and Damage Today: How climate change is impacting output and capital‘‘ کے مطابق ''آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے دنیا کے 1.5 ٹریلین ڈالر سے زیادہ غریب ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے‘‘۔ رپورٹ کے مطابق کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے 2.1 ٹریلین ڈالر کے سرمائے کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے جنوب مشرقی ایشیا اور جنوبی افریقہ کے ممالک خاص طور پر متاثرہوئے ،جن میں سے اکثر کو جی ڈی پی کے 8.3 فیصد سے زیادہ کا نقصان اٹھاناپڑا جبکہ بعض ممالک کو اپنی جی ڈی پی کے 14.1 فیصد اور 11.2 فیصد کے برابر نقصان ہوا۔
اگرچہ رپورٹ میں مالی اخراجات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، جو عام طور پر امیر ممالک میں زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ ان کی جائیداد کی قیمتیں زیادہ ہوتی ہیں اور وہ انشورنس کے متحمل بھی ہوسکتے ہیں،تاہم 2022ء میں کچھ انتہائی تباہ کن موسمی تغیرات نے غریب ممالک کو شدید متاثر کیا۔ جنہوں نے موسمیاتی بحران کو جنم دینے میں بہت کم کردار ادا کیا ہے اور ان تبدیلیوں کے اثرات کے جھٹکے برداشت کرنے کے بھی کم متحمل ہیں۔
رپورٹ میں 10 موسمیاتی آفات کی فہرست 2022 ء کے ان موسمیاتی واقعات میں سے کچھ کو نمایاں کرتی ہے جو کمیونٹیز کیلئے شدید نقصان دہ تھے۔ رپورٹ کے مطابق یہ انتہائی واقعات آب و ہوا کے حوالے سے مزید اور فوری کارروائی کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔ رپورٹ میں نقصان کے ازالے کیلئے ایک عالمی فنڈ کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے تاکہ ترقی پذیر ممالک میں ایسے لوگوں کو مالی مدد فراہم کی جا سکے جنہیں موسمیاتی بحران کی وجہ سے بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
گزشتہ سال مصر میں ہونے والے ''COP27‘‘ کے مذاکرات میں تمام ممالک نے موسمیاتی آفات کے نقصان سے نمٹنے کے لیے غریب ممالک کی مدد کے لیے ایک فنڈ قائم کرنے پر اتفاق کیا تھا اور اس بار 30 نومبر سے دبئی میں شروع ہونے والے ''COP28‘‘ میں مرکزی اہمیت کا موضوع یہی ہے کہ اس فنڈ میں کونسا ملک کتنی رقم دینے پر آمادہ ہے۔ خوش آئند بات ہے کہ ''COP28‘‘ کے پہلے دن ہی دنیا کے غریب ترین اور سب سے زیادہ کمزور ممالک کو موسمیاتی تباہی کے ناقابل تلافی نقصانات سے نمٹنے میں مدد فراہم کرنے کے لیے ایک تاریخی معاہدے پر اتفاق ہو گیا۔ میزبان ملک متحدہ عرب امارات اور جرمنی دونوں نے اس کے لیے سٹارٹ اپ فنڈ کے طور پر 100 ملین ڈالر دینے کا وعدہ کیاجبکہ ابتدائی فنڈنگ کا مجموعی حجم 429 ملین ڈالر کے قریب ہے۔ اس میں سے 225 ملین ڈالر یورپین یونین دے گا اور برطانیہ نے 75 ملین ڈالر کے برابر رقم کا وعدہ کیا ہے۔ اب دیگر امیر ممالک پر بھی دباؤ ڈالا جانا چاہیے کہ وہ بھی اس فنڈ میں کھلے دل سے حصہ ڈالیں۔
یاد رہے کہ ترقی پذیر ممالک میں موسمیاتی نقصان کا تخمینہ کچھ مطالعات کے مطابق 400 بلین ڈالرسالانہ سے زیادہ ہے ،اور اس میں اضافہ متوقع ہے،اس لیے وقت کی اہمیت ہے۔ بڑھتے ہوئے موسمیاتی نقصانات اور نقصان کے معاشی اثرات کا انحصار موسمیاتی تخفیف اور موافقت کی کوششوں پر ہے۔ نئے معاہدے کے تحت عالمی بینک کی سرپرستی میں ایک فنڈ قائم کرنا مقصود ہے ، جو امیر صنعتی ممالک، ابھرتی ہوئی معیشتوں اور فوسل فیول پیدا کرنے اور زیادہ صرف کرنے والے ممالک، جیسا چین، خلیجی ریاستیں سے فنڈز کی وصولی اور ترقی پذیر ممالک کورقوم کی فراہمی کا ذمہ دار ہو گا۔