5دسمبر: رضاکاروں کا عالمی دن
![5دسمبر: رضاکاروں کا عالمی دن](https://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/27146_33913770.jpg)
اسپیشل فیچر
رضاکارمعاشرے کا ایسا فرد جو کسی لالچ یا مالی مفاد کے بغیر دوسرے لوگوں کی مدد کرتا ہے/ کرتی ہے۔ ایک لمحہ کیلئے اپنی سوچ کے گھوڑے دوڑائیں تو ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ موجودہ خود غرض، مفاد پرست، اقرباء پروری، رشوت ستانی، نااہلی، کام چوری اور بھی بے تحاشہ معاشرتی برائیوں کی موجودگی میں ایسا کوئی بھی شخص جو رضاکار کی تعریف پر پورا اترے تو اسے بلند و بالا مقام ملنا چاہیے لیکن کیا ایسا ہے؟
اگر ہم پاکستانی معاشرے کا بہ نظر غائر جائزہ لیں تو ہمیں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں نظر آئے گی کہ ہم من حیث القوم اوپر بیان کی گئی برائیوں کے گڑھے میں غرق ہونے کے قریب قریب ہیں۔کیا ہمیں اس گڑھے سے نکلنے کیلئے کچھ کرنا چاہئے تو ہمیں اپنی دینی اساس کو سامنے رکھنا ہوگا۔ اس سلسلے میں، میں ہجرت مدینہ کے موقع پر کئے گئے رضا کاری اور بھائی چارے کے مظاہرے کا ذکر ضرور کروںگا۔ جب مہاجرین کا قافلہ ہمارے نبی مکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی قیادت میں مکہ سے مدینہ پہنچا تومہاجرین کے حالات سب کے سامنے تھے۔ ہمارے رسول ﷺ اس وقت صرف اور صرف انصار مدینہ کی طرف دیکھ رہے تھے کہ وہ اپنے مسلمان مہاجر بھائیوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اور پھر زمانے نے بھی دیکھا اور انسانی آنکھ سے بھی یہ چیز پوشیدہ نہیں رہی کہ انصار مدینہ نے رضاکاری اور بھائی چارے کی ایسی مثال قائم کی جو تا قیامت دوبارہ نہیں ہو سکتی۔ انصار مدینہ نے اپنی ملکیت میں موجود ہر چیز میں مہاجر بھائی کو حصہ دار بنایا، یہاں تک کہ جس انصار مدینہ کی دو بیویاں تھیں (عرب میں ایک سے زائد شادیوں کا رواج عام تھا)ا س نے اپنی زیادہ خوبصورت بیوی کو طلاق دی تا کہ مہاجر بھائی اس کے ساتھ نکاح ثانی کر سکے(یہاں اس مثال کو بتانے کا مقصد یہ تھا کہ اگرانصار مدینہ نے اس حد تک مہاجرین کے ساتھ نباہ کیا تو باقی مالی او ر دنیاوی چیزوں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے)۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رضاکاری اور دوسروں کی بے لو ث مدد بھی مومن کی گمشدہ میراث ہے۔اگر ہماری قوم میں یہ جذبہ مکمل طور پر بیدار ہوجائے تو ہمارے 95فیصدمعاشرتی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
اب ہم آجاتے ہیں 5 دسمبر کے دن کی طرف۔ یہ دن ہر سال رضاکاروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس کی منظوری اقوام متحدہ نے 1985ء میں دی تھی۔اسے عالمی منظر نامہ پر اس وقت جانا اور مانا گیا جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 52ویں اجلاس منعقدہ 20 نومبر 1997ء میں ایک قرارداد اس حوالے سے منظور کی گئی جس میں 2001ء کو رضاکاروں کا سال بھی قرار دیا گیا۔ اس کے بعد سے ہر سال یہ دن 5دسمبر کو ''رضاکاروں کے عالمی دن‘‘ (International Volunteer Day) کے طور پر منایا جاتا ہے ۔
آج کل کے تیز رفتار دور میں جب سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے چند سر پھرے ایسے ہوتے ہیں جو بے لوث کسی کی مدد کرنا اپنا فرض اوّلین سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں بھی پوری دنیا کی طرح اس عالمی دن کو منایا جاتا ہے اور مٹھی بھر افراد حتی المقدور کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ رضاکاری کا جذبہ معاشرے میں پروان چڑھ سکے۔ حیران کن حد تک یہ بات دیکھی گئی ہے کہ یہ جذبہ 10سے 14سال کی عمر کے بچوں میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ ''بوائز سکائوٹس‘‘، ''گرلز گائید‘‘ ناموں سے کچھ ادارے پاکستان میں رضاکاری کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں مصروف ہیں لیکن (مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق) وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سمت میں ہماری سوسائٹی کا رجحان بہت کم ہوتا جا رہا ہے۔ شائد پچھلے کچھ سالوں سے ملکی اور بین الاقوامی حالات نے بھی معاشرے کو کافی حد تک خود غرض بنا دیاہے۔
پاکستان میں ''پاکستان گرلز گائیڈ ایسوسی ایشن‘‘ اس سلسلے میںکام کررہی ہے۔ دو سال قبل بیگم ثمینہ عارف علوی (بیگم صدرپاکستان) نے چیف گائیڈ پاکستان کا حلف اٹھایا تھا ۔ اگر ہمارے لیڈران اور ان کے اہل خانہ ایکٹیو رول ادا کریں تو کوئی ایسی بات نہیں کہ پاکستان میں بھی رضاکارانہ خدمت کا جذبہ پروان چڑھ سکتا ہے۔ معاشرے میں اس چیز کوپروموٹ کرنے کیلئے اداروں کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی اپنا فرض ادا کرنا ہوگا۔
ایک تحقیق کے مطابق پوری دنیا میں 70 فیصد رضاکارانہ کاموں کا کریڈٹ کسی ادارے کو نہیں لیکن معاشرے کے افراد کو انفرادی طور پر جاتا ہے کیونکہ لوگ ایسے کاموں کی شہرت بھی پسند نہیں کرتے۔
اقوام متحدہ کی ایک اور تحقیق کے مطابق یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ امریکہ اور یورپ میں جو افراد رضاکارانہ کاموں میں زیادہ شرکت کرتے ہیں ان کی آمدنی میں دوسرے لوگوں کی نسبت 5فیصدزیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ۔ اس سلسلے میں یہاں ایک اسلامی بات کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ''رزق کی کشادگی بچت میں نہیں بلکہ سخاوت میں ہے‘‘۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان ان پچاس ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے جن کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ رضاکار موجود ہیں۔اللہ پاک ہمارے نوجوانوں اور رضا کاروں کو ہمت اور حوصلہ عطا کرے تاکہ وہ اسی طرح پاکستان کی خدمت کرتے رہیں۔
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو