زلزلے :اقسام و وجوہات
اسپیشل فیچر
آسان ترین الفاظ میں بیان کیا جائے تو زمین کی تھرتھراہٹ کو زلزلہ کہا جاتا ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ہر روز سیکڑوں زلزلے آتے رہتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ اتنی کم شدت کے ہوتے ہیں کہ ہم انہیں محسوس ہی نہیں کر پاتے۔ کبھی کبھار ہی بہت خطرناک نوعیت کے زلزلے آتے ہیں جو بڑے پیمانے پر تباہی اور اموات کا سبب بنتے ہیں۔خشکی کے علاوہ سمندر میں بھی زلزلے آتے ہیں۔ ہر دو سطحوں پر آنے والے زلزلوں کی ایک سے زائد اقسام ہیں جن کا مختصر احوال درج ذیل ہے۔
فور شاک(Foreshock)
فورشاک وہ زلزلہ ہوتا ہے جو بڑے زلزلے (مین شاک) سے پہلے آتا ہے۔کسی بھی بڑے زلزلے میں فور شاک، مین شاک اور آفٹر شاک تین اہم مرحلے ہوتے ہیں۔فور شاک اور مین شاک کے درمیان چند منٹوں سے لے کر دنوں اور بعض حالات میں اس سے بھی زیادہ وقفہ ہو سکتاہے۔
آفٹر شاک(Aftershock)
آفٹر شاک وہ چھوٹا زلزلہ ہوتا ہے جو مین شاک کے بعد اسی علاقے میں آتا ہے۔ اگر آفٹر شاک کا علاقہ مین شاک کے علاقے سے بڑا ہوتو اصطلاح میں آفٹر شاک کو مین شاک کہا جائے گا اور مین شاک، فور شاک میں تبدیل ہو جائے گا۔
انسانی سرگرمیوں کے نتیجے
میں آنے والا زلزلہ
بعض زلزلے انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے آتے ہیں۔ ایٹم بم پھٹنے یا ایٹمی تجربے سے بھی سیسمک لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ اگرچہ یہ لہریں زیادہ طاقتور نہیں ہوتیں تاہم ان میں آتش فشاں پھٹنے سے پیدا ہونے والی لہروں کی نسبت زیادہ قوت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ اور انسانی سرگرمیاں بھی زلزلیاتی کیفیت کا باعث ہو سکتی ہیں۔ یہ کیفیت زمین پر بے جا بوجھ ڈالنے، آبی گزرگاہوں میں رکاوٹ پیدا کرنے، بلاوجہ ڈیم بنانے اور زمین سے بڑے پیمانے پر پانی حاصل کرنے کیلئے بھاری مشینری کے مستقل استعمال سے پیدا ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ زلزلے نسبتاً کم شدت کے ہوتے ہیں مگر ان کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا ہی زلزلہ ماضی میں ہالینڈ میں آیا جہاں گیس کے دھماکے نے سیسمک لہریں پیدا کردیں۔ اسی طرح گہرے کنوؤں میں پانی ڈالنے (پانی جمع کرنے کیلئے) اور زمین سے تیل نکالنے کی وجہ سے بھی چٹانوں کی حرکت میں خلل پڑتا ہے۔ 1967ء میں امریکی ریاست کولوراڈو میں ڈینور کے مقام پر زمین میں پانی داخل کرنے کے نتیجے میں زلزلہ آیا جس کی شدت 5.5 تھی۔زمین پر بلند و بالا عمارتوں کی شکل میں بے تحاشہ بوجھ ڈال دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں زیرزمین خاموش فالٹ پنپنا شروع کر دیتی ہیں۔
چٹانی زلزلہ
اکثر زلزلے زمین میں موجود چٹانی پلیٹوں کی حرکت کی بدولت آتے ہیں۔ یہ پلیٹیں زمین کی پرت بناتی ہیں۔ ان پلیٹوں کی زیادہ تر حرکت اس قدر خفیف ہوتی ہے کہ ہم اسے محسوس نہیں کر سکتے۔ اسے صرف سیسموگراف پر ہی ریکارڈ کیا جا سکتا ہے۔ زمینی پلیٹوں میں سے اکثر ایک دوسرے سے قریب ہوتی ہیں اور حرکت نہیں کرتیں۔ کچھ پلیٹیں آپس میں جڑ کر بڑی پلیٹوں کی شکل اختیار کیے ہوئے ہیں، یہ پلیٹیں بعض اوقات اچانک حرکت کرتی ہیں جس کی بنا پر زمینی پرت میں تھرتھراہٹ پیدا ہوتی ہے جسے ہم زلزلے کی صورت میں محسوس کر سکتے ہیں۔ چٹانی پلیٹیں آپس میں ٹکرا بھی سکتی ہیں اور ان کا ایک دوسرے پر پھسلنا بھی ممکن ہے۔ ان دونوں واقعات کے نتیجے میں نئے پہاڑی سلسلے وجود میں آتے ہیں۔ یہ وقوعہ زمین کی سطح سے کئی کلومیٹر نیچے ہوتا ہے اور اسی مقام کو ''ہائیپو سینٹر‘‘ کہا جاتا ہے۔
سمندری زلزلے
سمندری زلزلے بھی زمین پر آنے والے زلزلوں جیسے ہوتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ زلزلے سمندر کی تہہ یا اس سے بھی نیچے چٹانی پلیٹوں کے ٹکراؤ کے نتیجے میں آتے ہیں۔ جب پلیٹیں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں تو یہ ابھر کر سطح سمندر کے قریب بھی آ سکتی ہیں۔ اسی عمل کے نتیجے میں جزیرے وجود میں آتے ہیں۔ جزائر ہوائی اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ خیال رہے کہ سمندری زلزلوں کے نتیجے میں جہاں جزیرے ابھر آتے ہیں وہیں غائب بھی ہو سکتے ہیں۔ ایسا ہونے سے اس مقام پر سمندر کی گہرائی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اکثر سمندری زلزلے ہمیں محسوس نہیں ہوتے۔ ہم انہیں صرف سمندر میں جزیرہ ابھرنے سے پہچان سکتے ہیں۔
سونامی
سمندری زلزلے میں ہمیں براہ راست نقصان نہیں پہنچاتے، البتہ بالواسطہ طور پر یہ انسانی آبادیوں کیلئے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ زلزلے کے نتیجے میں جب سمندری پیندا حرکت کرتا ہے تو اس پر موجود پانی بھی اوپر نیچے اور دائیں بائیں حرکت میں آ جاتا ہے۔ پانی کی اس بے ترتیب حرکت کے نتیجے میں بڑی بڑی لہریں خشکی کا رخ کر لیتی ہیں اور ان کی راہ میں آنے والی ہر شے ملیامیٹ ہو جاتی ہے۔ اس زلزلے کو سونامی کہا جاتا ہے جو کہ جاپانی زبان کی اصطلاح ہے۔ سونامی کی سب سے بڑی مثال 26 دسمبر 2005ء کو انڈونیشیا اور ملحقہ ممالک میں آنے والا سمندری زلزلہ ہے جس کے نتیجے میں ڈھائی لاکھ سے زائد انسان لقمہ اجل بن گئے۔ سونامی کے نتیجے میں 30 میٹر سے بھی زائد بلند سمندری لہریں اٹھتی ہیں۔ مشرقی ایشیائی خطہ سونامی کے حوالے سے سرگرم علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ بحرالکاہل سونامی کا مرکز ہے۔ عموماً سونامی کو مدوجزر کے نتیجے میں پیدا ہونے والی لہریں سمجھا جاتا ہے جو کہ درست نہیں۔ سونامی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی لہریں بہت زیادہ اونچی بھی ہو سکتی ہیں۔ یہ لہریں ساحلوں سے ٹکرانے کے بعد خشکی پر ہولناک تباہی پھیلاتی ہیں۔
آتش فشاں
چھوٹے زلزلے زمین کی تہہ میں موجود مادے ''میگما‘‘ کی حرکت سے آتے ہیں جو اپنے اردگرد موجود اشیا کو پرے دھکیل کر راستہ بناتا ہے۔ زندہ آتش فشاں کے قریب یہ چھوٹے زلزلے اکثر و بیشتر آتے رہتے ہیں اور کسی قابل ذکر نقصان کا سبب نہیں بنتے۔ 1883ء میں ''کراکاتو‘‘ نامی آتش فشاں پھٹنے کی آواز پانچ ہزار کلومیٹر دور تک سنی گئی تاہم اس سے قابل ذکر سیسمک لہریں پیدا نہ ہوئیں۔
یہ پلیٹیں حرکت کیوں کرتی ہیں؟ دراصل یہ سب کچھ زمین کے اندر گرم اور نسبتاً کم گرم چٹانوں اور مادے کے بہاؤ کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ گرم مادہ حرکت کرنا چاہتا ہے (جیسا کہ گرم ہوا اوپر اٹھتی ہے اور ٹھنڈی نیچے آ جاتی ہے) چنانچہ یہ دیگر مادوں کو پرے دھکیل کر اپنا راستہ بناتا ہے جس کے نتیجے میں تھرتھراہت پیدا ہوتی ہے۔ چٹانی زلزلے آتش فشاں پھٹنے سے پیدا ہونے والے زلزلوں کی نسبت کہیں زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ 4.8 سے زیادہ شدت کے تمام زلزلے انہی چٹانی پلیٹوں کی حرکت کے سبب آتے ہیں۔ زلزلے کا مرکز سطح زمین سے جتنا قریب ہوگا اس کی لہریں اتنی ہی شدت سے اثر انداز ہوں گی۔