ماسٹر عبداللہ باکمال فلمی موسیقار
اسپیشل فیچر
پاکستان کی فلمی صنعت کو جو صاحب طرز موسیقار ملے اور ان کی دھنیں لازوال ثابت ہوئیں، ان میں ایک ماسٹر عبداللہ بھی تھے۔ 31 جنوری 1994ء کو ماسٹر عبداللہ لاہور میں وفات پاگئے تھے، آج اس عظیم موسیقار کی 30ویں برسی ہے۔
ماسٹر عبداللہ فلم انڈسٹری کی ایک بڑی میوزیکل شخصیت تھے جنہوں نے اپنے ہمعصر موسیقاروں کے مقابلے میں جداگانہ انداز کا میوزک تخلیق کیا۔وہ نہ صرف عوامی سطح پر بلکہ میوزک سے وابستہ شخصیات کے نزدیک بھی ایک پسندیدہ موسیقار تھے۔ اپنے 30سالہ فلمی کریئرمیں ماسٹر عبداللہ نے 51 فلموں میں میوزک کمپوز کیا تھا جن میں 10 اردو اور 41 پنجابی فلمیں تھیں۔
ماسٹر عبداللہ نے زیادہ تر پنجابی فلموں کی موسیقی دی اور ان کے بے شمار گیتوں نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ انہوں نے سب سے پہلے پاکستان کے صف اوّل کے فلمساز اور ہدایتکار انور کمال پاشا نے 1962ء میں اپنی فلم ''سورج مکھی‘‘ میں موقع دیا۔ اس فلم کا ایک نغمہ ''اومرے گورے گورے راجہ‘‘ بہت ہٹ ہوا۔ اس گیت کو آئرن پروین اور باتش نے گایا تھا۔ پھر 1964ء میں فلم ''واہ بھئی واہ‘‘ کی موسیقی بھی انہوں نے ترتیب دی۔ اس فلم کے دو نغمات نے تو بہت مقبولیت حاصل کی جن میں ''یہ جینا کیا جینا ہے‘‘ اور'' جانے والی چیز کا غم کیا کریں‘‘ شامل ہیں۔
فلمساز چودھری محمد اسلم المعروف اچھا شوکر والا کی تمام فلموں کی موسیقی ماسٹر عبداللہ نے ترتیب دی جن میں سب سے مشہور فلم ''ملنگی‘‘ تھی۔ ''ملنگی‘‘ 1965ء میں ریلیز ہوئی اور اسے آج تک شاہکار پنجابی فلم کا درجہ حاصل ہے جو سپرہٹ ثابت ہوئی تھی۔ اس فلم کی زبردست کامیابی میں ماسٹر عبداللہ کے شاندار سنگیت کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔ خاص طور پر میڈم نور جہاں کا گیا ہوا یہ نغمہ ''ماہی وے سانوں بھل نہ جانویں‘‘ آج تک اپنی مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ''ملنگی‘‘ کے ایک گانے میں رنگیلا، منور ظریف، زلفی اور ماسٹر عبداللہ نے بھی حصہ لیا تھا۔
1968ء میں انہوں نے فلم ''زندگی‘‘ کی موسیقی دی اور اس فلم کے گیتوں نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ خاص طور پر یہ دو گیت ''کچھ آہیں کچھ آنسو لے کر‘‘ اور ''مل گئی ٹھنڈک نگاہوں کو تیرے دیدار سے‘‘ بہت پسند کیے گئے۔ ماسٹر عبداللہ نے ثابت کیا کہ وہ صرف پنجابی گیتوں کیلئے ہی نہیں بلکہ اردو نغمات کیلئے بھی لاجواب موسیقی دے سکتے ہیں۔ 1968ء میں ہی انہوں نے فلم ''کمانڈر‘‘ کی موسیقی ترتیب دی جس میں رونا لیلیٰ کا گیا ہوا یہ گیت بہت مقبول ہوا ''جان من اتنا بتادو محبت، محبت ہے کیا‘‘۔
شریف نیئر کی مشہور پنجابی فلم ''لاڈو‘‘ میں بھی ان کی موسیقی کو بہت پسند کیا گیا اور اس فلم کے گیت کلاسک کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔ یہ دو نغمات ''شکر دوپہرے پپلی دے تھلے‘‘ اور '' ڈنگ پیار دا سینے تے کھا کے‘‘ انتہائی مشہور ہوئے۔ اقبال کشمیری کی اکثر فلموں کی موسیقی بھی ماسٹر عبداللہ نے ترتیب دی۔ ان فلموں میں خاص طور پر ''بابل، ٹیکسی ڈرائیور اور ضدی‘‘ شامل ہیں۔ ان سب فلموں کی موسیقی اعلیٰ درجے کی تھی۔ ان تمام فلموں کے گیت آج بھی لوگوں کو یاد ہیں۔ فلم ''ضدی‘‘ کا یہ گیت کون بھول سکتاہے ''تیرے نال نال نال وے میں رہنا‘‘۔ ''ضدی‘‘ کا خوبصورت میوزک دینے پر ماسٹر عبداللہ کو نگار ایوارڈ سے بھی نوازاگیا۔
1975ء میں اقبال کشمیری کی ایک اور فلم ''شریف بدمعاش‘‘ کی موسیقی بھی ماسٹر عبداللہ نے دی اور اس فلم کے بھی تمام نغمات سپرہٹ ہوئے۔ ''میری ٹور کبوترورگی ‘‘اور'' میں نے جمدی‘‘ نہ صرف اپنے دور میں بلکہ آج بھی اس طرح مقبول ہیں۔ ماسٹر عبداللہ کی دیگر قابل ذکر فلموں میں''دنیا پیسے دی، امام دین گوہاویہ، رنگی، وارث، ہرفن مولا، دل ناں دا، کش مکش، بدلہ اور نظام‘‘ شامل ہیں۔ ہم یہاں ان کی دو فلموں ''دنیا پیسے دی‘‘ اور '' بدلہ‘‘ کا ذکر خصوصی طور پر کریں گے۔ ان دونوں فلموں کی موسیقی انتہائی اعلیٰ اور ارفع تھی۔ ''دنیا پیسے دی‘‘ کے گیت''چل چلئے دنیا دے اوس نکرے‘‘ اور '' جدوں وی کوئی پیار کرن دی کسے نوں حامی بھردا‘‘ آج بھی انتہائی مقبول ہیں۔ اسی طرح ''بدلہ‘‘ کے گیت ''جیڑے توڑ دے نیں دل برباد ہون گے‘‘ اور ''راہے راہے جاندیا راہیا‘‘ اپنی مثال آپ ہیں۔
ان کی آخری فلم ''قسمت‘‘ تھی۔ اس سپرہٹ فلم کے ہدایتکار بھی اقبال کشمیری تھے۔ اس فلم کی موسیقی آج بھی مسحور کر دیتی ہے۔ خاص طور پر یہ گیت ''بابل تیری میری چھو‘‘ اتنا پسند کیا گیا کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماسٹر عبداللہ کا اسلوب موسیقی سب سے جدا تھا۔ ان کی یہی انفرادیت ان کی سب سے بڑی خوبی بن گئی۔ ماسٹر عبداللہ کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بڑے صاف گو اور کھرے سچے آدمی تھے۔ ان کی بے باکی اور اصول پسندی کا اعتراف فلمی صنعت کے تمام افراد کرتے تھے۔ ایک دفعہ ان کا میڈم نور جہاں سے بھی جھگڑا بھی ہوگیا تھا۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ اپنے اصولوں پر ڈٹ گئے تھے۔
ان کی حس ظرافت اور بذلہ سنجی کے بھی بہت قصے سنائے جاتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک شوقیہ گلوکار مراتب علی نے لتا منگیتکر کے گائے ہوئے 15گیتوں کو اپنی آواز دی اور ایک آڈیو کیسٹ کی شکل میں اسے مارکیٹ میں لایاگیا۔ یہ مراتب علی کی خوش قسمتی تھی کہ یہ کیسٹ سپرہٹ ہوگئی۔ اس کے بعد مراتب علی وہ کیسٹ لے کر ماسٹر عبداللہ کے پاس آئے اور انہیںاپنی کیسٹ دے کر کہا کہ وہ اس پر اپنی ماہرانہ رائے دیں۔ اس پر ماسٹر عبداللہ نے ایک تاریخی فقرہ کہا۔ وہ کچھ یوں تھا ''مراتب علی کیا تمہیں لتا پر یقین نہیں‘‘ مراتب علی کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔
مشہور گلوکار اسدامانت علی خان کو ماسٹر عبداللہ نے ہی بریک دیا تھا۔ ان کی موسیقی میں اسد امانت علی خان نے یہ گیت گایا تھا ''تیرے روپ کا پجاری‘‘ اس گیت کی مقبولیت نے اسد امانت علی خان کا کریئر بنانے میں اہم کردارادا کیا۔
31 جنوری1994ء کو پاکستان کا یہ بے مثل سنگیت کار موت کی وادی میں اتر گیا ۔کیا ان کا متبادل پاکستانی فلمی صنعت کو مل سکے گا؟ اس سوال کا جواب بہت مشکل ہے۔