ہنی ٹریپنگ کیا ہے؟
اسپیشل فیچر
کہتے ہیں ہر کامیابی کے پیچھے کسی نہ کسی کردار کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔ اگر بات دور جدید میں تیزی سے بڑھتے جرائم کی، کی جائے تو بلاشبہ جدید ٹیکنالوجی، بالخصوص موبائل فون کا اس میں کلیدی کردار نظر آتا ہے۔ ہر کار آمد چیز کا جہاں مثبت پہلو ہوتا ہے، وہیں اس کا کوئی نہ کوئی منفی پہلو بھی ہوتا ہے۔اس میں تو کوئی دورائے نہیں کہ جدید ٹیکنالوجی اور موبائل فون دور جدید کی ایک اہم ضرورت بن چکا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ جرائم کو جدید خطوط پر استوار کرنا اور جرائم میں روز افزوں اضافہ بھی اسی موبائل فون ہی کے مرہون منت ہے۔
لگ بھگ دو عشرے پہلے کی بات ہے، موبائل فون ابھی اتنا عام نہیں تھا۔ جھنگ کے ایک مضافاتی علاقے کے ایک نوجوان شاہد علی کو اس کے موبائل فون پر نسوانی آواز میں ایک کال آئی، کال کرنے والی نے بظاہر اسے اتفاقیہ کال قرار دے کر بات آگے بڑھائی تو 22سالہ شاہد علی اس کی پرکشس اور رسیلی آواز کے سحر میں ایسا جکڑا کہ مکڑی کے جالے مانند اس میں پھنستا چلا گیا اور بات شادی کے عہد و پیمان تک آن پہنچی۔ ''لڑکی‘‘کا بظاہر تعلق جنوبی پنجاب کے کسی دور دراز گائوں سے تھا جس کے عشق میں شاہد علی وہاں جا پہنچا۔ پھر ایک منصوبہ بندی کے تحت ''لڑکی‘‘کے گھر والوں نے شاہد علی کو یہ کہہ کر کہ ان کی ''بیٹی ‘‘کو اس نے ورغلایا ہے، اسے یرغمال بنا لیا۔ دوران تشدد شاہد علی کا گھر والوں سے تاوان کیلئے رابطہ کرایا اور یوں بھاری رقم کے عوض شاہد علی کی جان بخشی ہوئی۔
یہ پاکستان میں غالباً ''ہنی ٹریپنگ‘‘ کی شروعات تھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہنی ٹریپ یا ہنی ٹریپنگ کیا ہے؟ جہاں تک ''ہنی ٹریپ‘‘ کے لفظی معنی کا تعلق ہے تو میٹھے بول کے جال میں اپنے مخاطب کو پھنسانے کے عمل کو ''ہنی ٹریپ‘‘ کہا جاتا ہے۔ درحقیقت ''ہنی ٹریپنگ‘‘ کا عمل رومانوی یا جسمانی تعلق بنا کر اپنے ہدف سے رقم بٹورنے یا اپنے دیگر مطالبات منوانے کو کہتے ہیں۔کیمبرج ڈکشنری میں اس لفظ کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے ''ہنی ٹریپ یا ''میٹھا جال‘‘ لوگوں کو پھنسانے کیلئے ایک پرکشس چیز ہے‘‘۔
سندھ کچے کے ڈاکوؤں نے بھی خود کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کر لیا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اب ان ڈاکووں کا طریقہ ٔواردات بھی بدلتا جا رہا ہے۔اب ہنی ٹریپنگ کیلئے یہ سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم استعمال کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل پولیس نے ایک گروہ کا سراغ لگایا تھا جس کی خواتین مالدار لوگوں کو دوستی کے جال میں پھنسا کر بلیک میل کرتیں اور بعض اوقات تاوان کیلئے اغوا بھی کرتی رہی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہنی ٹریپنگ کے انداز بھی بدلتے چلے گئے اور اب ڈاکووں نے باقاعدہ طور پر اپنی ساتھی لڑکیوں کا ایک گروپ بنا رکھا ہے جن کا کام لوگوں کو سستے ٹریکٹر و دیگر اشیاء اور لاٹری انعام کا لالچ دے کر بلاتی ہیں اور پھر انہیں اغوا کر کے کچے کے علاقے یا دوسرے علاقوں میں لاکر ان کے ورثاء سے تاوان کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
جاسوسی میں ہنی ٹریپنگ کا استعمال
بہت سارے لوگ ہنی ٹریپنگ کو دور جدید کی ایجاد قرار دیتے ہیں جبکہ اس کا استعمال زمانہ قدیم سے جاسوسی کیلئے کیا جاتا رہا ہے ۔جنگ میں فتح حاصل کرنے کیلئے اکثر حکومتیں عورتوں کے استعمال کو جائز سمجھتی ہیں۔ان کیلئے دشمن ملک کے اہم کارندوں سے دفاعی راز اگلوانے کیلئے عورت سب سے بہتر ہتھیار تصور کیا جاتا ہے۔ اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ نت نئی ٹیکنالوجی کی ایجاد نے جاسوسی کے طور طریقے بھی بدل ڈالے ہیں تاہم ملکوں کے درمیان دوطرفہ جاسوسی کیلئے ہنی ٹریپنگ کا طریقہ اب پہلے کی نسبت کم ہو گیا ہے۔جبکہ گئے وقتوں میں تو جنگوں کی ہار جیت کا دارومدار بہت حد تک ہنی ٹریپنگ کے مرہون منت ہوا کرتا تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد مشرقی جرمنی کی خفیہ ایجنسی کو مغربی جرمنی کی اہم سرکاری معلومات کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس نے ایک نئی حکمت عملی مرتب کرتے ہوئے محسوس کیا کہ جنگ کے بعد مغربی جرمنی کی تنہا عورتوں کی ایک کثیر تعداد دفتروں میں کام کرنے لگ گئی تھی۔ مشرقی جرمنی نے ''رومیو نیٹ ورک‘‘ کے نام سے خوبرو نوجوانوں کا ایک خصوصی دستہ تیار کیا جن کا کام مغربی جرمنی کے اہم سرکاری اداروں کی عورتوں سے دوستی کی آڑ میں اہم سرکاری راز اگلوانا تھا۔
80ء کی دہائی کی بات ہے جب انڈین خفیہ ایجنسی '' را‘‘ کے ایک افسر جو '' ایل ٹی ٹی ای‘‘ کے معاملات دیکھتے تھے ایک امریکی ائیر ہوسٹس کی زلف کے ایسے اسیر ہوئے کہ ان کے فرشتوں کو بھی پتہ نہ چلا کہ موصوفہ سی آئی اے ایجنٹ ہیںاور اب تک ان سے کئی راز اگلوا چکی ہیں۔ایسے ہی 2006ء میں ایک اور خوبرو امریکی دوشیزہ نے انڈین خفیہ ایجنسی را کے دو افسران پال اور داس گیتا کو اتنے اعتماد میں لے کر ان کی حساس معلومات سے بھرا لیپ ٹاپ چرا لیا تھاجوآج تک نہ مل سکا۔
اسی طرح اسرائیل کے ایک نیوکلیر سائنس دان بارے بتایا جاتا ہے کہ اس نے لندن کے ایک اخبار کے دفتر جا کر انہیں اپنے ملک کے جوہری پروگرام کی تفصیلات بیچنے کی پیشکش کی۔اسرائیل کو اپنے سائنس دان کے مذموم ارادوں کی خبر ہوئی تو موساد کیلئے اپنے سائنسدان کی لندن سے گرفتاری پریشان کن تھی جس کیلئے انہوں نے ایک خاتون ایجنٹ کو لندن روانہ کیا ،جس نے اس سائنس دان پر ڈورے ڈال کر اسے روم میں چھٹیاں گزارنے پر راضی کیا۔سائنس دان نے جونہی روم کی سرزمین پر قدم رکھا ، انہیں گرفتار کر لیا گیا۔
ہنی ٹریپنگ کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں ڈچ جاسوسہ ''ماتا ہاری‘‘ کے بغیر نامکمل رہتا ہے۔ جس نے جنگ عظیم اوّل میں جرمنی کیلئے جاسوسی کی تھی۔اس کی پر کشش اور سحر انگیز شخصیت کا یہ عالم تھا کہ فرانس کا ہر اہم جنرل اس پر جان چھڑکتا تھا۔ جب یہ گرفتار ہو کر عدالت پیش ہوئی تو اس نے یہ انکشاف کیا کہ وہ اپنے ایک دوست ملٹری اتاشی کی نوازشات کی وجہ سے ایک لمبے عرصہ سے فرانس میں رہ رہی ہے۔