اکثر طالب علموں کا شکوہ اونگھ اور نیند پڑھنے نہیں دیتی !

اکثر طالب علموں کا شکوہ اونگھ اور نیند پڑھنے نہیں دیتی !

اسپیشل فیچر

تحریر : ڈاکٹر آصف محمود جاہ


''جب بھی میں کتاب کھولتا ہوں فوراً سستی چھا جاتی ہے۔ ذرا سی دیر میں سارا بدن تھکا تھکا سا محسوس ہوتا ہے اور فوراً اونگھ آنے لگتی ہے۔ یوں کتاب کھلی کی کھلی رہ جاتی ہے‘‘۔ اکثر طالب علم اس بات کی شکایت کرتے ہیں اور ڈاکٹروں اور حکیموں کے پاس اس کے مداوے کیلئے حاضر ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں!
علاج اس کا بھی کچھ اے
چارہ گراں ہے کہ نہیں......
وجوہات
موقع بے موقع اونگھ اور نیند کا آنا اس وقت ہوتا ہے جب آدمی کو ایسا کام کرنے پر مجبور کر دیا جائے جس میں نہ کوئی دلچسپی ہو اور نہ لگائو اور ذہنی و جسمانی طور پر وہ اس سے رتی بھر مطمئن نہ ہو۔
اس کے علاوہ موقع بے موقع ہر وقت کچھ نہ کچھ کھانے پینے، ورزش کی کمی یا بعض بیماریوں مثلاً ذیابیطس وغیرہ میں بھی بندہ ہر وقت بہت سستی محسوس کرتا ہے اور سویا سویا رہتا ہے۔ نوجوانوں میں ایسا اس وقت ہوتا ہے جب انہیں ان کی پسند کا کام نہ ملے۔ انہیں ایسے مضامین پڑھنے پر مجبور کر دیا جائے جن میں ان کی ذرا دلچسپی نہ ہو۔ اس کے علاوہ وہ طالب علم جو باقاعدگی سے اپنا کام نہیں کرتے اور امتحان کے دنوں میں افراتفری میں پڑھائی شروع کرتے ہیں، ان میں اس کی خاصی شکایت ہوتی ہے کیونکہ جب پلاننگ کے بغیر اور بے قاعدگی سے کوئی کام شروع کیا جائے تو ذہن جسم کا ساتھ نہیں دیتا اس لیے وہ کام شروع کرتے وقت بندہ سست اور پژمردہ ہو تا ہے اور کام یا پڑھائی شروع کرتے ہی نیند آ جاتی ہے۔
علاج اور بچائو
جو طالب علم زیادہ اونگھ اور پڑھائی کے دوران نیند آنے کے مسئلہ کا شکار رہتے ہیں انہیں چاہیے کہ مندرجہ ذیل باتوں پہ عمل کریں۔ اس سے اس طرح کے مسائل پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔
(1)۔ذہن اور جسم ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جسم کو صحت مند رکھنے کیلئے تازہ ہوا، مناسب آرام، باقاعدہ ورزش وغیرہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ جسم صحت مند ہوگا تو ذہن بھی اس کے ساتھ ساتھ چلے گا اور آپ جو کام کریں گے آپ کا ذہن آپ کا پورا ساتھ دے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ جسمانی صحت کو برقرار رکھنے کیلئے مندرجہ بالا امور کا خیال رکھا جائے۔ ان میں کوئی چیز کم ہے تو اس کمی کو پورا کر نے کی کوشش کریں۔
(2)۔روزانہ اور وقت پر کام کرنے سے بہت سی پریشانیوں سے نجات ملتی ہے۔ جو اپنا کام باقاعدگی سے کرتے ہیں وہ بہت کم پریشانیوں اور ناکامیوں کا شکار ہوتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ باقاعدگی کو زندگی کا شعار بنائیں۔ جو کام آج کرنا ہے اسے آج ہی کریں۔ اس سے آپ ہمیشہ کامیاب ہوں گے اور کامیابیاں آپ کا مقدر بنیں گی اور کبھی بھی پڑھائی کرتے وقت اونگھ یا نیند آپ کو تنگ نہیں کرے گی۔
(3)۔بعض نوجوانوں میں خواہ مخواہ کا ''سٹڈی فوبیا‘‘ ہوتا ہے جسے پڑھائی سے ڈر کہتے ہیں۔ جب کبھی ایسا مسئلہ در پیش ہو، صدق دل سے اللہ سے مدد مانگیں اور ذہن خالی کر کے اپنی پڑھائی میں لگ جائیں۔ انشاء اللہ کسی قسم کا خوف محسوس نہیں ہوگا۔
(4)۔ایک سنہری اصول یہ ہے کہ جب کبھی بھی آپ بہت زیادہ پریشانی اور ذہنی دبائو کا شکار ہوں تو اس دوران ذہن پر مزید بوجھ نہ ڈالیں بلکہ اپنے آپ کو بالکل فارغ چھوڑ دیں۔ کچھ دیر کیلئے آرام کریں، باہر گھومیں پھریں۔ چائے کا ایک کپ نوش کریں اور اس کے بعد جسم کو بالکل ڈھیلا چھوڑ کر Relax کریں اور اب ذہن کو فریش کر کے کام کی طرف لگیں۔
(5)۔بعض طالب علم زیادہ تر جاگنے کیلئے بعض دوائوں کا بھی استعمال کرتے ہیں، جن کا الٹا اثر ہوتا ہے۔ اصل میں تمام دوائیں کیمیکل اجزاء پر مشتمل ہوتی ہیں اور جب یہ جسم میں داخل ہوتی ہیں تو جسم پر کوئی نہ کوئی مضر اثر ضرور چھوڑتی ہیں اس لیے ان سے پرہیز بہت ضروری ہے۔
(6)۔اس بات کا بھی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ بعض طالب علم امتحان کے دنوں میں کھاتے پیتے بہت ہیں اور فکر و پریشانی کی صورت میں زیادہ کھا یا پی کر سکون اور فرار ڈھونڈتے ہیں اور یوں ہر وقت سسترہتے ہیں اور اونگھتے رہتے ہیں۔
(7)۔امتحان کے دنوں میں بالخصوص اور عام دنوں میں بالعموم اپنی خوراک کو صحیح رکھیں۔ زیادہ چٹ پٹے اور مصالحہ دار کھانوں سے پرہیز کریں۔ ہمیشہ بھوک رکھ کر کھائیں۔ اس سے آپ تندرست اور توانا اور فریش رہیں گے اور اونگھ یا نیند کبھی تنگ نہیں کرے گی۔
٭...٭...٭

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور صنفی تفریق اور تضادات

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور صنفی تفریق اور تضادات

اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو) نے خبردار کیا ہے کہ اگرچہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے سیکھنے سکھانے کے عمل کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے لیکن اس سے صارفین کی معلومات کے غلط استعمال اور تعلیم سے توجہ ہٹنے کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے۔یونیسکو کی جاری کردہ ایک نئی رپورٹ ''ٹیکنالوجی آن ہر ٹرمز 2024ء‘‘ (Technology on her terms-2024)کے مطابق الگورتھم کے ذریعے چلائے جانے والے ڈیجیٹل پلیٹ فارم صنفی حوالے سے منفی تصورات کو پھیلاتے اور خاص طور پر لڑکیوں کی ترقی کو منفی طور سے متاثر کرتے ہیں۔یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آدرے آزولے نے کہا ہے کہ ایسے پلیٹ فارم کی تیاری میں اخلاقی پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ سوشل میڈیا کو تعلیم اور کریئر کے حوالے سے لڑکیوں کی خواہشات اور امکانات کو محدود کرنے کا ذریعہ نہیں ہونا چاہیے۔ انسٹا گرام اور ٹک ٹاک کا مسئلہ ''ٹیکنالوجی آن ہر ٹرمز 2024ء‘‘ (Technology on her terms-2024 ) رپورٹ کے مطابق الگورتھم کے ذریعے خاص طور پر سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے تصویری مواد سے لڑکیوں کیلئے غیرصحتمند طرزعمل یا غیر حقیقی جسمانی تصورات کو قبول کرنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ اس سے ان کی عزت نفس اور اپنی جسمانی شبیہ کے بارے میں سوچ کو نقصان ہوتا ہے۔رپورٹ میں فیس بک کی اپنی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 20 سال سے کم عمر کی 32 فیصد لڑکیوں نے بتایا کہ جب وہ اپنے بارے میں برا محسوس کرتی ہیں تو انسٹاگرام انہیں اس کی مزید بری شبیہ دکھاتا ہے۔ دوسری جانب ٹک ٹاک پر مختصر اور دلفریب ویڈیوز سے صارفین کا وقت ضائع ہوتا ہے اور ان کی سیکھنے کی عادات متاثر ہوتی ہیں۔ اس طرح متواتر توجہ کے طالب تعلیمی اور غیرنصابی اہداف کا حصول مزید مشکل ہو جاتا ہے۔سائبرہراسگی اور ڈیپ فیکرپورٹ کے مطابق لڑکیوں کو آن لائن ہراساں کئے جانے کا سامنا لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ معاشی تعاون و ترقی کی تنظیم (OECD) میں شامل ممالک سے متعلق دستیاب اعدادوشمار کے مطابق 12 سے 15 سال تک کی لڑکیوں نے بتایا کہ انہیں کبھی نہ کبھی سائبر غنڈہ گردی کا سامنا ہو چکا ہے۔ یہ اطلاع دینے والے لڑکیوں کی تعداد آٹھ فیصد تھی۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے بنائی جانے والی جعلی تصویروں، ویڈیوز اور جنسی خاکوں کے آن لائن اور کمرہ ہائے جماعت میں پھیلاؤ نے اس مسئلے کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔اس رپورٹ کی تیاری کے عمل میں بہت سے ممالک کی طالبات نے بتایا کہ انہیں آن لائن تصاویر یا ویڈیوز سے واسطہ پڑتا ہے جنہیں وہ دیکھنا نہیں چاہتیں۔اس جائزے کے نتائج سے تعلیم بشمول میڈیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس سے گزشتہ نومبر میں ڈیجیٹل سماج کے انتظام سے متعلق یونیسکو کی رہنمائی کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیجیٹل سماجی رابطوں کو بہتر اور باضابطہ بنانے کی ضرورت بھی سامنے آتی ہے۔خواتین کی ترقی میں ڈیجیٹل رکاوٹ''گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ رپورٹ‘‘ (Global education monitoring report) میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلنے والے منفی صنفی تصورات لڑکیوں کیلئے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کی تعلیم میں بھی رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ان شعبوں پر زیادہ تر مردوں کا اجارہ ہے، جس کے باعث لڑکیاں ایسے ڈیجیٹل ذرائع کی تخلیق کے مواقع سے محروم رہتی ہیں جو ان دقیانوسی تصورات کے خاتمے میں مدد دے سکتے ہیں۔یونیسکو کے مطابق 10 برس سے دنیا بھر میں سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے مضامین میں گریجویٹ خواتین کی شرح 35 فیصد پر برقرار رہی۔ حالیہ رپورٹ بتاتی ہے کہ رائج صنفی تعصبات خواتین کو ان شعبہ جات میں کریئر بنانے سے روکتے ہیں اور اس طرح ٹیکنالوجی کے شعبے کی افرادی قوت میں خواتین کا تناسب بہت کم رہ جاتا ہے۔دنیا بھر میں سائنس، انجینئرنگ اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی سے متعلق نوکریوں میں خواتین کا تناسب 25 فیصد سے بھی کم ہے۔ دنیا کی بڑی معیشتوں کو دیکھا جائے تو ڈیٹا اور مصنوعی ذہانت کے شعبوں میں ان کی تعداد 26 فیصد، انجینئرنگ میں 15 فیصد اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ میں 12 فیصد ہے۔ اسی طرح نئی ایجادات کے حقوق ملکیت کی درخواست دینے والوں میں خواتین کا تناسب صرف 17 فیصد ہے۔پالیسی سازی کی ضرورتاس جائزے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں آنے والی ڈیجیٹل تبدیلی میں مردوں کا کردار نمایاں ہے۔ اگرچہ 68 فیصد ممالک نے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبوں کی ترقی کیلئے پالیسیاں بنا رکھی ہیں لیکن ان میںآدھی کے قریب لڑکیوں اور خواتین کیلئے مددگار نہیں۔یونیسکو کا کہنا ہے کہ ان پالیسیوں میں کامیابی کی نمایاں مثالوں کو اجاگر کرنا ضروری ہے جس کیلئے سوشل میڈیا سے بھی کام لیا جانا چاہیے۔ لڑکیوں کی سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبے اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ معاشروں کی ڈیجیٹل تبدیلی میں خواتین کا مساوی کردار یقینی بنانے اور ٹیکنالوجی کی تیاری کیلئے ایسا کئے بغیر اب کوئی چارہ نہیں۔ ''ٹیکنالوجی آن ہر ٹرمز2024ء‘‘ (Technology on her terms 2024ء‘‘ رپورٹ کے مطابق تعلیم میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے متعلق ڈیزائن، رسائی، تدریس اور مہارتوں میں عدم مساوات کو دور کیا جانا چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہر لڑکی ان مواقع سے مستفید ہو سکے جو اس طرح کی ٹیکنالوجی فراہم کر سکتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے فوائد کو ان طریقوں سے استعمال کیا جانا چاہیے جو واضح طور پر صنفی تفریق کو دور کریں۔رپورٹ کے مطابق خواتین اور لڑکیوں کیلئے ڈیجیٹل ٹولز کی ملکیت اور انہیں استعمال کرنے اورٹیکنالوجی میں کریئر کو آگے بڑھانے کیلئے ایک معاون ماحول کو یقینی بنانا ایک ایسی ڈیجیٹل تبدیلی کا باعث بنے گا جو تعلیم اور اس سے آگے صنفی معیار کو فروغ دے گا اور اس میں اضافی رکاوٹیں پیدا نہیں کرے گا۔  

وادی ڈومیل اور رینبو جھیل

وادی ڈومیل اور رینبو جھیل

استور سے چھ گھنٹے کی جیپ مسافت گوری کوٹ سے ہوتے ہوئے چلم چوکی اور برزل پاس کی 13500 فٹ بلندی کے بعد ہمیں منی مرگ لے گئی۔ اور منی مرگ کی وادی ڈومیل میں رینبو جھیل کے لمس سے آشنا کیا۔ اس پاک سرزمین پر کہیں وادی ڈومیل بھی ہے ؟ہے بھی یا نہیں کہ ایسی وادیاں صرف کہانیوں میں ہی ہوتی ہیں جہاں بلند درختوں سے کھیلتی ہوائیں پہاڑی درے سے گزرتی ہیں تو جنات کی طرح بے شمار کنکر اڑاتی جاتی ہیں۔ انگنت ندیاں گمنام چشموں سے پھوٹ کر پہلے جوان ہوتی ہیں اور پھر بے نام دریاؤں کا رزق بن جاتی ہیں۔کائنات کی سانس کی طرح دریا بھی بہتے چلے جاتے ہیں۔ چاند راتوں میں آسمان کی طرف اٹھنے کی ناکام کوشش میں ہلکان ہوتے ہیں اور پھر کسی اور دریا کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان دریاؤں کا ایک ایک قطرہ وقت کی اکائی کی طرح زندگی بھر ایک مقام سے صرف ایک ہی بار گزرتا ہے اور آگے بڑھ جاتا ہے۔وادیٔ ڈومیل ہے بھی یا نہیں؟ یہی دیکھنے کیلئے کتنی بے شمار وادیوں سے گزرے اور کتنے سورج ہمارے سامنے پہلے تانبے کے تھال بنے اور پھر برف کے پاتال میں اتر گئے۔۔ سفر بہر حال جاری رہا۔ ڈومیل سے پہلے پرستان میں داخل ہونے جیسی مشکلات کئی ندیوں اور سفید جہانوں کی صورت میں جھیلنی پڑیں۔ برزل کے سفید معبد کو عبور کیا تو یقین ہوا کہ اس کے پار جو کچھ بھی ہے وہ قدرت کا ایسا عجوبہ ہے جس سے ڈومیل کے حسن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہمارا مقصد بھی سفر کرنا تھا۔ منزل کی جستجو میں تمام کشش تھی۔ ڈومیل کا ہونا یا نہ ہونا اہم نہیں تھا ، اس لئے ہم آگے بڑھتے چلے گئے۔دو جیپوں پر مشتمل ہمارا قافلہ منی مرگ سے نکل کر سبز قالین بچھے فرش والے رستوں کے بیچ بنی پختہ راہداری پر چل نکلا۔ قدم قدم حیرت تھی، حسن تھا، فطرت تھی۔ درخت آسمان کو چھونے کی کوشش میں نیم رقصاں تھے اور ہوا میں نمی تھی۔ ڈومیل نالے کے اس پار بلندی تھی۔ ڈھلوان سطح پر جو پھول تھے ان کا کوئی نام نہ تھا ، خود رو پھولوں کا کوئی نام ہوتا بھی نہیں۔ منی مرگ سے ڈومیل جاتے ہوئے پھر ایک رکاوٹ آ گئی۔ ایک ندی دیوسائی کے بلند میدانوں سے یا منی مرگ کی آبشاروں سے ادھر آ نکلی تھی اور ڈومیل نالے میں خود کشی کئے جاتی تھی۔ ڈومیل نالے میں ضم ہونے سے پہلے وہ ہمارا راستہ بھی بہا لے گئی تھی۔ ہم رک گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اک جہان ہمارے ساتھ رک گیا۔ شام سے پہلے کچھ سیاح واپس منی مرگ چلے گئے اور کچھ منتظر تھے مگر ہم ہر قیمت پر رینبو جھیل تک جانا چاہتے تھے۔ راستہ کاٹتے پانی کی شدت تو کم نہ ہوئی مگر جیپیں نکل گئیں۔ہمارے اطراف میں جنگل تھا، ندیاں تھیں اور ڈوبتے سورج کی شکست کھاتی تپش تھی۔ پھر ہم ایک فوجی علاقے میں داخل ہوئے۔ خوش آمدید ڈومیل ، والے بورڈ کے ساتھ بہت سارے تعارفی تختے اور استقبالی جملے نمایاں تھے۔ چھوٹے چھوٹے پتھروں پر سفید اور نیم سرخ رنگ کا چھڑکاؤ اس پورے علاقے کو سرکاری رعب عطا کرتا تھا۔یہ وادی لائن آف کنٹرول پر واقع ہے، جس پر سفر کرنے والے سری نگر کشمیر اور گلگت تک، براستہ استور اپنا سفر کرتے تھے۔ ڈومیل میں فوجی چھاؤنی اور چند دفاتر ہیں جن کا مقصد وطن عزیز کی حفاظت کیلئے چوکس رہنا ہے۔ ہم جب ڈومیل کی آخری ندی پر ایستادہ پل عبور کر رہے تھے تو حیرتوں کا جہان کھلتا جا رہا تھا۔ شام سے کچھ پہلے کا منظر ، ہوا میں نمی، درختوں کی بھیگی خوشبو اور پس منظر سے اٹھتی آبشاروں کی مدھر آواز، وادی ڈومیل کو ہماری یادداشت میں امر کرتی جاتی تھی۔ ہم برزل پاس کے برفیلے جہانوں کو پیچھے چھوڑ کر جس حسن کا لمس لینے آئے تھے وہ اس قابل تھا کہ اس کیلئے ایسی مشکلات جھیلی جائیں۔ سامنے ایک راستہ رینبو جھیل کی طرف جاتا تھا۔ پارکنگ کے ساتھ یادگار شہدا تعمیر کی گئی تھی۔ حوالدار لالک جان شہید اور کیپٹن کمال شیر خان شہید کی تعارفی تختیاں نصب تھیں اور 80 برگیڈ 2016 کی افتتاحی پلیٹ بھی بہت اہتمام سے بنائی گئی تھی۔ ہم جھیل کی طرف جانے لگے تو پاک فوج کے ایک جوان نے شائستہ لہجے میں فرمایا کہ ‘‘ اندھیرا ہونے سے پہلے واپس چلے جائیے گا ، رات کو جنگلی جانور حملہ آور ہو سکتے ہیں ‘‘۔ہم ہمالیہ رینج میں وادیٔ ڈومیل کی بارہ ہزار تین سو پچاسی فٹ بلند رینبو جھیل کے کنارے پر کھڑے تھے اور نیلگوں سبزی مائل رنگ والی یہ گول جھیل کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ کچھ لوگ اس جھیل کو مصنوعی جھیل کا الزام دے کر حاسدین فطرت میں شمار ہوتے ہیں مگر رینبو لیک کہیں سے بھی مصنوعی نہ تھی۔ اس میں جو پانی تھے وہ کسی ٹیوب ویل سے بھر کر نہیں لائے تھے۔ جھیل کے اطراف میں جو دیواریں اور بند تھے وہ ہمالیہ کے پتھروں کے تھے۔ ایک طرف سے داخل ہونے والا پانی دوسری جانب ایک نالے کی نذر ہوتا تھا جو اس جھیل کو زندہ لیک کی گواہی دیتا تھا۔ اگر کچھ مصنوعی تھا تو وہ کیفے تھا اور بیٹھنے کیلئے اوپن ایریا تھا۔ رینبو جھیل قدرتی حسن کا منبع تھی۔ ہم نے اس جھیل کے کنوارے پانی کو چھوا تو ایک لمحے میں سر سے پاؤں تک سردی کی لہر دوڑ گئی۔جھیل کا طواف مکمل کیا اور وہیں پہنچ گئے جہاں سے چلے تھے۔   

29اپریل رقص کا عالمی دن

29اپریل رقص کا عالمی دن

آج سے کئی ہزار سال قبل اس خطے میں آباد ، موہن جو دڑو کے شہری بھی رقص کے شوقین تھے جس کا ثبوت کھدائی میں برآمد ہونے والا رقاصہ کا ایک کانسی کا مجسمہ ہے۔ بعض قوموں کے نزدیک رقص ایک دینی فریضہ تھا بلکہ اب بھی ہے ۔اس کا ایک محرک ''روحانی جذبہ‘‘ بھی ہے ۔ ہمارے ہاں یہ صوفیاء میں ''وجد‘‘ کی شکل میں ملتا ہے۔پوری دنیا میں درجنوں اقسام کے رقص ہیں۔ ہمارے ملک میں کلاسیکی اور لوک رقص کا ایک خاص مقام ہے ۔ حقیقت میں دیگر بہت سے فنون کی طرح '' اصل رقص‘‘ خاتمہ کے قریب ہے اور رقاص (جو رقص کر رہے ہیں وہ اصل میں) اس کی اس حالت پر نوحہ کناں ہیں۔ہماری فلموں خاص کر پاکستان ا ور بھارت کی فلموں میں رقص(ڈانس) کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔دیگر ملکوں میں ڈانس یا گانے کے بغیر فلم بن سکتی ہے لیکن یہاں کامیاب ہونا مشکل ہے ۔بلکہ موسیقی ،رقص فلموں کی کامیابی کا ضامن سمجھا جاتا ہے ۔ اب جو پاکستانی فلموں میں رقص ہو رہا ہے وہ ہماری تہذیب اور ثقافت سے مطابقت نہیں رکھتا بلکہ اسے رقص کہنا ہی نہیں چائیے ۔یہ کوئی بے ہنگم سی چیز ہے جسے کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔صرف بے حیائی کا فروغ ہے اور کچھ بھی نہیں ہے ۔پاکستانی معاشرے میں اگرچہ رقص کو اتنی پذیرائی نہیں مل سکی ۔(حالانکہ رقص کے نام پر مجروں میں جو بے ہودگی پائی جاتی ہے اس سے کون واقف نہیں ۔ رقص کو پاکستان میں مقبولیت نہ ملنے کے اسباب میں شائد سب سے بڑا سبب بے روزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوںذلیل ہوتی عوام، دفتروں، سڑکوں، پٹرول پمپوںپر ''حالت رقص ‘‘ میں ہی ہیں۔ رہنما بدل بدل کر عوام،جلسے جلوس میں،کبھی انقلاب،کبھی جمہوریت،کبھی آمریت، کبھی خوشحال اور کبھی نیا پاکستان بنانے کیلئے ''محو رقص ‘‘ ہیں۔ حبیب جالب کے بقول!تو کہ ناواقف آداب غلامی ہے ابھیرقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے رقص کا عالمی دن29اپریل 1982ء کو انٹرنیشنل ڈانس کمیٹی آف دی انٹرنیشنل تھیٹر انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے پہلی بار منایا گیا تھا۔ بعدازاںیونیسکو نے اس کی تائید کی ۔اب یہ دنیا بھر میں ہر سال29اپریل کو بھر پور طریقے سے منایا جاتا ہے ۔اس دن کو منانے کا مقصد مختلف قوموں کے علاقائی ،ثقافتی سرمائے (رقص ) کو محفوظ کرنا ہے کیونکہ ہر ملک میں رقص کے طریقے الگ الگ ہیں۔رقص مختلف قسم کی بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت بڑھانے میں مدد بھی دیتا ہے ۔ارسطو نے اس کو فنونِ لطیفہ میں شمار کیا ہے ۔رقص کو اعضاء کی شاعری بھی کہا جاتا ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ رقص تو پوری کائنات میں ہے ۔''ہم چلتے ہیں، دوڑتے ہیں ، مختلف کام کرتے ہیں تو اس میں ایک ردھم ہوتا ہے ، ہوائیں چلتی ہیں اور پیڑ پودے اس پر جھومتے ہیں تو یہ سب ایک طرح کا رقص ہی تو ہے‘‘۔ پاکستان میں ہر صوبے میں کئی کئی اقسام کے لوک رقص مقبول ہیں اور وہ بھی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں ۔پنجاب کے لوک رقص میں، بھنگڑا، لڈی، سمی، گدا شامل ہیں ۔بھنگڑایہ پاکستان بھر میں عام رقص ہے جس کی ابتدا پنجاب کے خطے سے شروع ہوئی اور یہ اب ملک کے مقبول ترین لوک رقصوں میں سے ایک ہے۔لڈی پاکستان بھر میں شادی بیاہ کی تقریبات میں کیا جانے والا رقص ہے۔یہ آج کا نہیں صدیوں پرانا لوک رقص ہے ۔سمی پوٹھوہاری خطے سے شروع ہونے والا یہ لوک رقص بنیادی طور پر پنجاب کی قبائلی برادریوں کا روایتی ڈانس ہے۔ گدایہ بھنگڑے کی طرح انتہائی پرجوش رقص ہے، رقص کرنے والا عام طور پر تالیوں کی آواز کے ساتھ تیز ہوتا چلا جاتا ہے۔بلوچستان کے لوک رقص میںلیوا، چاپ، جھومرشامل ہے۔لیوا نامی رقص عام طور پر شادی بیاہ کے موقع پر لوگوں کی خوشی کے اظہار کے طور پر کیا جاتا ہے۔چاپ یہ بھی شادی بیاہ کے موقع پر کیا جانے والا لوک رقص ہے۔ اس میں ایک قدم آگے بڑھا کر پیچھے کیا جاتا ہے ۔ جھومرکو سرائیکی رقص بھی مانا جاتا ہے اور بلوچستان میں بھی بہت عام ہے ۔خیبر پختونخوا کے لوک رقص میں اٹن ،خٹک ،چترالی ڈانس قابل ذکر ہیں۔اٹن یہ ایسا لوک رقص ہے جو افغانستان اور پاکستان کے پشتون علاقوں میں عام ہے ۔عام طور پر ایک ہی دھن پر یہ رقص 5 سے25 منٹ تک جاری رہتا ہے۔ خٹک ڈانس تلواروں کے ساتھ انتہائی تیز رفتاری سے کیا جانے والا یہ ڈانس مقبول ترین ہے ۔چترالی ڈانس یہ خیبرپختونخوا کے ساتھ گلگت بلتستان میں کیا جاتا ہے اور یہ کچھ لوگوں کے گروپ میں کیا جاتا ہے ، جس میں سے ہر ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس رقص کا مظاہرہ کرتا ہے ۔سندھ کے لوک رقص، دھمال اور ہو جمالو ہیں۔ دھمال یہ عام طور پر صوفی بزرگوں کے مزارات یا درگاہ پر کیا جانے والا رقص ہے ۔جو انتہائی مستی کے عالم میں کیا جاتا ہے ۔ہو جمالویہ سندھ کا مشہور ترین لوک رقص ہے ، درحقیقت ہو جمالو ایک بہت پرانا گیت بھی ہے۔

شہنشاہ میجی کا مقبرہ

شہنشاہ میجی کا مقبرہ

جاپان کے طاقتور شہنشاہ میجی کا مقبرہ ٹوکیو شہر کے وسط میں ایک پارک میں بنایا گیا ہے۔ 175 ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے اس پارک میں جاپانیوں نے اپنے محبوب شہنشاہ سے قربت اور اُنسیت کی مناسبت سے 365 اقسام کے سوالاکھ پودے لگائے جو اب تن آور درخت بن چکے ہیں۔مزار کا داخلی دروازہ چالیس فٹ بلند ہے جو پندرہ سو سال پرانے صنوبر کے درخت کی لکڑی سے بنایا گیا ہے۔ شہنشاہ اور اُس کی ملکہ کا مقبرہ نہایت سادگی کا مظہر ہے۔ مزار میں داخل ہونے سے قبل زائرین ایک مخصوص تالاب میں ہاتھ اور منہ دھوتے ہیں۔ مقبرہ کے اندر جا کر دو دفعہ رکوع کی حالت میں جھکتے ہیںاور دُعا مانگتے ہیں۔شہنشاہ میجی جاپان کے قدیم شنتو مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے جولائی 1912ء میں وفات پائی، یہ مقبرہ 1915ء میں بننا شروع ہوا اور 1921ء میں مکمل ہوا۔ یہ مقبرہ اس باغ میں بنایا گیا ہے جس میں شہنشاہ میجی اور اُس کی ملکہ سیر کرنے آیا کرتے تھے۔ مقبرے کے دو حصے ہیں،ایک میں میوزیم بنایا گیا ہے۔ وہاںشہنشاہ اور اس کی ملکہ کی ذاتی استعمال کی اشیاء رکھی گئی ہیں اور دوسرے حصے میں بنائی گئی پکچر گیلری میں شہنشاہ کی زندگی کے بارے میں 80 پینٹنگ اورتصاویر آویزاں کی گئی ہیں۔ شہنشاہ کی عالمی لیڈروں سے ملاقاتوں کی تصاویر بھی یہیںرکھی گئی ہیں۔ امریکہ کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن صدر بارک اوبامہ کے دور میں جب پہلی دفعہ جاپان آئی تو جاپانی راہنمائوں سے ملاقات سے قبل جاپانی قوم سے قربت کے اظہار اور اُن کے کلچر کا احترام کرتے ہوئے شہنشاہ میجی کے مزارپر حاضری دی۔ ہیلری کلنٹن کے اس عمل کا مقصد جنگ عظیم دوم کے اختتام پر پیدا ہونے والی دوریوں کوکم کرنا تھا۔ جنوری 2010 ء میں جرمن وزیر خارجہ نے اپنے دورے کا اختتام شہنشاہ میجی کے مقبرہ پر حاضری سے کیا تھا۔ شہنشاہ میجی 1852ء میں اُس وقت کے شہنشاہ کومی (KOMEI ) کے ہاں پیدا ہوا، والد کے انتقال کے بعد فروری 1867ء میں پرنس میجی صرف پندرہ برس کی عمر میںجاپان کا شہنشاہ بن گیا۔ میجی کے دور میں جاپان ایک جاگیرداری نظام سے نکل کر دُنیا کی بڑی طاقت بن کر اُبھرا۔ اہل مغرب کو چھوٹے چھوٹے جزیروں پر مشتمل ملک جاپان سے شناسائی ہوئی اور شہنشاہ میجی نے اپنے 45 سالہ دورِ شہنشاہیت میں جاپان کو فرش سے عرش تک پہنچا دیا۔ اُسی طاقت کی بدولت جاپان نے جنگ عظیم دوم میں نہ صرف آنکھیں دکھائیں بلکہ تمام اتحادیوں کو ناکوں چنے چبوائے اور اُن کو تگنی کا ناچ نچایا۔ مجبوراً اپنے دفاع کی خاطر امریکہ نے جاپان کو ایٹم بم کا نشانہ بنایا۔

امریکہ کی حفاظت کا ضامن واشنگٹن ڈی سی

امریکہ کی حفاظت کا ضامن واشنگٹن ڈی سی

امریکہ کی دو مشرقی ریاستوں، میری لینڈ اور ورجینیا نے جس خوبصورت شہر کو اپنے حصار میں لیا ہوا ہے اس شہر کا نام واشنگٹن ڈی سی ہے۔ واشنگٹن ڈی سی کا شہر ہی پورے امریکہ کی حفاظت کا ضامن بھی ہے۔ واشنگٹن ڈی سی دنیا کے ایک بڑے ملک ریاستہائے متحدہ امریکہ کا دارالخلافہ ہے۔ یوں تو کسی شہر میں ایک دریا کا وجود ہی اس شہر کی خوبصورتی میں اضافے کا سبب ہوتا ہے لیکن واشنگٹن ایک ایسا شہر ہے جس میں دریائے انا کو سٹیا شمال سے آنے والے دریائے پوٹامک میں شامل ہو جاتا ہے۔ یعنی واشنگٹن کا شہر ہی دونوں دریائوں کا نقطہ اتصال ہے۔ ان دونوں دریائوں نے واشنگٹن شہر کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ اس شہر میں یوں تو فلک بوس عمارتیں نظر نہیں آتیں لیکن وائٹ ہائوس، کیپٹل بلڈنگ، واشنگٹن میموریل، گنکن میموریل اور نیشنل مال جیسی دیدہ زیب عمارتوں نے ان کو بھی اس شہر کو ''بقعۂ نور‘‘ بنا دیا ہے۔ یہ وہ شہر ہے جس میں دنیا کے 180 ممالک کے سفارتخانے قائم ہیں۔واشنگٹن ڈی سی نہ تو کوئی ریاست ہے اور نہ کسی ریاست کا حصہ، بلکہ یہ ایک وفاقی ضلع اور خود مختار شہر ہے)۔1776ء میں آزادی کے بعد1785ء میں امریکہ کے بانی صدر جارج واشنگٹن نے جب ملک کے دارالخلافہ کے متعلق غورو خوض شروع کیا تو مناسب جگہ کا انتخاب ایک مشکل مرحلہ تھا۔ کیونکہ ملک کی کئی ریاستوں نے اپنے ہاں دارالخلافہ قائم کرنے کی تجویز پیش کی۔ لیکن قرعہ فال ایک ریاست کے نام نہیں بلکہ دو ریاستوں کے نام نکلا اور ریاست میری لینڈ اور ریاست ورجینیا کا درمیانی علاقہ دارالخلافہ کیلئے آئیڈیل سمجھا گیا۔ جارج واشنگٹن کیونکہ اس دھرتی( ورجینیا) کا سپوت تھا لہٰذا اس نے بذات خود اس موجودہ جگہ کا معائنہ کیا۔ ریاست میری لینڈ اور ریاست ورجینیا نے اپنی زمینیں تحفتاً پیش کیں۔ اس کے بعد 16جولائی 1790ء کو دارالخلافہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور واشنگٹن کے ساتھ ''ڈسٹرکٹ آف کولمبیا‘‘ (DC) کا اضافہ کیا گیا۔ کیونکہ کولمبس ہی وہ جہازراں تھا، جس نے امریکہ کو دوسری دنیا سے متعارف کروایا تھا لہٰذاا اس کی مناسبت سے اس علاقہ کو '' ڈسٹرکٹ آف کولمبیا‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اس شہر کا پورا نام واشنگٹن ڈی سی رکھا گیا ہے۔ واشنگٹن ڈی سی کے دارالخلافہ بننے سے قبل امریکی حکومت کے دفاتر نیویارک فلاڈلفیا اور اناپولس میں بکھرے ہوئے تھے۔اس شہر کو اضافے کے ساتھ (DC)لکھنا اور کہنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ واشنگٹن نام کی ایک بڑی ریاست امریکہ کے مغرب میں بحرالکاہل کے ساحل پر موجود ہے۔ اس کے علاوہ پورے امریکہ میں18شہر، تین کاونٹیز،نیوی کا ایک طیارہ بردار بحری جہاز، نیویارک میں جارج واشنگٹن برج کے نام سے تاریخی معلق پل اور واشنگٹن ہی میں ایک یونیورسٹی جارج واشنگٹن کے نام سے منسوب ہیں۔ اس وضاحت سے قارئین سمجھ گئے ہوں گے کہ اس شہر کو واشنگٹن ڈی سی کیوں کہا جاتا ہے۔واشنگٹن ڈی سی کا ایک وقت کل رقبہ68مربع میل ہے۔ جب 1790ء میں اس شہر کی بنیاد رکھی گئی تھی تو اس وقت اس شہر کا کل رقبہ 100 (10X10) مربع میل تھا لیکن بعد میں دریائے پوٹامک کے مغربی کنارے کی طرف واقع ریاست ورجینیا کا سارا علاقہ ریاست کو واپس کر دیا گیا اور اب 68مربع میل کا سارا رقبہ ریاست میری لینڈ کا ہی دارالخلافہ کیلئے وقف کیا ہوا علاقہ ہے۔ جس پر یہ پورا واشنگٹن کا شہر آباد ہے اور یہ بھی بتا دینا ضروری ہے کہ واشنگٹن شہر سے جانب شمال مغرب 60میل اور صدر امریکہ کا مشہور سمر پیلس کیمپ ڈیوڈ بھی میری لینڈ ریاست ہی کی سرزمین پر بنایا گیا ہے۔واشنگٹن شہر کی کل آبادی چھ لاکھ ہے۔ دریائے پوٹامک اور دریائے انا کوسٹیا کا ملاپ اسی شہر میں ہوتا ہے۔ بارش کی سالانہ اوسط39انچ اور برف پڑنے کی سالانہ اوسط18انچ ہے۔ موسم گرما کا پہلا دن21جون تصور کیا جاتا ہے، جبکہ یہاں گرمیوں میں درجہ حرارت اوسطاً 31 ڈگری سینٹی گریڈ اور سردیوں میں اوسطاً کم از کم درجہ حرارت منفی تین (-3)سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ واشنگٹن سے جانب مشرق میری لینڈ ریاست کے اس پار بحراوقیانوس ہے جو کہ شہر سے تقریباً 90میل کے فاصلہ پر ہے۔ جب کہ واشنگٹن سے نیویارک شہر کا فاصلہ 233میل ہے۔ مغرب میں ریاست ورجینیا اور بائیں جانب اور جنوب میں میری لینڈ اور ورجینیا کی ریاستیں بالکل متصل ہیں۔ اس لئے میری لینڈ یا ورجینیا سے واشنگٹن شہر میں داخل ہوتے وقت یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ہم واشنگٹن شہر کی حدود میں داخل ہو چکے ہیں۔ خصوصاً جب آپ میٹرو میں سفر کر رہے ہوں۔ یہ شہر تین اطراف سے میری لینڈ سے ملا ہوا ہے اور مغرب کی سمت ورجینیا سے ملا ہوا ہے۔ یہ ایک بڑی مزے کی بات ہے کہ واشنگٹن کی اصلی آبادی میں دن کے وقت دو لاکھ افراد کا اضافہ ہو جاتا ہے اور شام کے بعد واشنگٹن کی آبادی اصلی چھ لاکھ رہ جاتی ہے۔ وہ اس طرح کے صبح کے وقت ریاست میری لینڈ اور ورجینیا سے ملازم پیشہ اور کاروباری لوگ واشنگٹن آتے ہیں اور شام کو واپس اپنے اپنے گھروں کی راہ لیتے ہیں جو کہ واشنگٹن شہر کی حدود سے باہر واقع ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ میری لینڈ واشنگٹن اور ورجینیا آپس میں کس قدر ملے ہوئے ہیں۔ فقیراللہ خان سیاح اور لکھاری ہیں، ملک کے ممتاز جرائد میں ان کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں،زیر نظر مضمون ان کی کتاب''امریکہ جیسے میں نے دیکھا‘‘ سے مقتبس ہے 

حکایات سعدیؒ

حکایات سعدیؒ

علم لازوال دولتایک دانا اپنے بیٹوں کو نصیحت کرتا تھا کہ اے میرے جگر کے ٹکڑو علم و ہنر حاصل کرو کیوں کہ دنیاوی مال و دولت اعتماد کے قابل نہیں ہے۔ چاندی سوناچورہ ہو سکتا ہے سفر میں تلف ہو سکتا ہے یا خرچ ہو سکتا ہے لیکن علم ایک لازوال اور بڑھنے والی دولت ہے۔ صاحب علم اگر دنیا کی دولت سے محروم ہو جائے تو پروا نہیں کیوں کہ وہ علم جیسی لازوال دولت کا مالک ہوتا ہے جہاں جاتا ہے عزت پاتا ہے۔ اس کے برعکس بے علم مفلس بھیک مانگتا ہے اور ذلت اٹھاتا ہے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ملک شام پر کوئی افتاد پڑی۔ لوگ گھروں سے بھاگ نکلے اور پھر یوں ہو اکہ علم و ہنر سے بہرور کسان زادے بادشاہ کے وزیر بن گئے اور وزیر کے جاہل لڑکے دیہات میں بھیک مانگنے لگے۔ مال سے محبتایک درویش حج کے سفر میں ہمارے ساتھ تھا۔ جس کو عرب امیروں سے کسی نے سو اشرفیاں بخشی تھیں کہ قربانی وغیرہ کے بعد جو کچھ بچ جائے بال بچوں کے خرچ میں لائے۔ راستے میں قافلے پر ڈاکہ پڑا اور جس کے پاس جو کچھ بھی تھا، ڈاکو سب کی صفائی کر گئے۔ سوداگر اور مال داروں کے ہاں تو ماتم برپا ہو گیا مگر اس نیک بخت درویش کی حالت میں کوئی تبدیلی واقعہ نہ ہوئی۔ میں نے پوچھا کیا تمہارا مال بچ گیا ہے؟ اس نے کہا ''ہرگزنہیں۔ لینے کو تو میرا بھی سب کچھ لے گئے ہیں مگر مجھے اس سے اتنی محبت نہ تھی کہ جاتے رہنے سے کچھ پریشانی ہوتی۔‘‘