مچھر:انسانوں کا سب سے بڑا قاتل
32 سال کی عمر میں آدھی سے زیادہ دنیا فتح کرنے والے فاتح سکندراعظم کو '' فاتح عالم‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ۔تاریخ اس کے کارناموں اور فتوحات کے قصوں سے بھری پڑی ہے۔تاریخ کی کتابوں سے مروی ہے کہ 12 سال کی عمر میں اس نے ایک ایسے جنگلی بدمست گھوڑے کو قابو کر لیا تھا جو بڑے بڑے شہسواروں اور گھوڑے سدھارنے والوں کو اپنے قریب پھٹکنے تک نہیں دیتا تھا۔''بیو سیفیلس‘‘ نامی یہ گھوڑا اس کے بعد ساری عمر اس کے ساتھ رہا۔
اس کی بہادری اور طاقت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ اس سے کسی نے پوچھا کہ اتنی چھوٹی عمر میں اتنی بڑی دنیا کیسے فتح کر ڈالی ؟۔سکندر اعظم کا جواب تھا '' دشمنوں کو مجبور کیا کہ وہ میرے ساتھ دوستی کر لیں ، اور دوستوں کو یہ جرات ہی نہیں دی کی وہ میرے ساتھ دشمنی کر سکیں ‘‘۔ جہاں تک فاتح عالم سکندر اعظم کی موت کی توجیح کا تعلق ہے،مورخین اس کی مختلف وجوہات بتاتے ہیں۔روایات کے مطابق اس کی موت ایک مچھر کے کاٹنے اور پھر ملیریا بخار میں مبتلا ہونے کے باعث ہوئی تھی۔ کیا یہ مقام حیرت اورمقام عبرت نہیں کہ ایک مچھر جو بظاہر ایک انسانی ناخن سے بھی چھوٹا ہوتا ہے ، چند دنوں کے اندر اندر فاتح عالم کو ، جس کے نام سے دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں کانپ جایا کرتی تھیں، کو بے بس کر کے لقمہ اجل بنا دیتا ہے۔
نیشنل جیو گرافک کی ویب سائٹ نے بھی اس امکان کا اظہار کیا ہے کہ سکندر اعظم کی موت مچھر کے کاٹنے کے باعث ہوئی تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسی ویب سائیٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ تین امریکی صدور جارج واشنگٹن ، ابراہم لنکن اور یولیسس گرانٹ کا بھی مچھر کاٹنے اور ملیریا کے باعث انتقال ہوا تھا۔
مچھر انسانی زندگی کیلئے کتنا خطرناک ؟
اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں انسانوں کی ہلاکت کا باعث یہی مچھر ہیں۔اب سے کچھ عرصہ پہلے ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ مچھر دنیا میں انسانوں کا سب سے بڑا قاتل ہے۔سالانہ اس سے متاثرہ افراد کی تعداد کروڑوں تک جا پہنچتی ہے۔اسی تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ ایک اندازے کے مطابق ہر سال تقریباًبیس لاکھ افراد مچھروں سے پیدا ہونے والی بیماریوں ڈینگی، ملیریا اور پیلا بخار سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق مچھروں کی 3500 اقسام پائی جاتی ہیں۔ان میں سے بیشتر اقسام انسانی زندگی کیلئے بے ضرر ہیں کیونکہ یہ پودوں پر رہتے ہیں اور ان کی خوراک پھلوں اور پھولوں کا رس ہوتاہے۔اسی تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ ان میں سے صرف 6 فیصد مچھروں کی مادہ مچھر ہی اپنے انڈوں کی بڑھوتری کیلئے انسانی خون چوستی ہے۔جبکہ اس تعداد کے نصف کے برابر انسان مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ آگے چل کر اس تحقیق میں یہ وضاحت بھی کی گئی کی اس کے باوجود بھی اس کی 100کے لگ بھگ اقسام ایسی ہیں جو انسانی صحت اور زندگی کیلئے خطرے کا سب بن سکتی ہیں۔
ماہرین اس نقطے پر متفق ہیں کہ دنیا میں پائے جانے والے حشرات میں انسانوں کو سب سے زیادہ خطرات مچھروں سے ہیں۔ ایک تحقیق میں مچھروں کو سب سے زیادہ انسانی ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ان میں سب سے زیادہ تعداد بچوں کی ہوتی ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق زیکا وائرس کا سب سے زیادہ نشانہ کمسن بچے بنتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے2015ء میں ملیریا وائرس کا باعث بننے والی مچھروں کی ایک خطرناک قسم ''انو فیلیس گینس‘‘ کی نشاندہی کی تھی جو چھ لاکھ انسانوں کی ہلاکت کا باعث بنی تھی۔ اسی طرح مچھروں کی ایک اور خطرناک '' ایڈیس گینس‘‘ نامی قسم کے بارے پتہ چلا ہے کہ یہ قسم بہت تیزی سے مغربی نیل وائرس ، ڈینگی وائرس ، پیلا بخار اور چیکونگونیا وائرس پھیلا رہے ہیں۔ محققین کے مطابق پچھلے تین عشروں کے دوران''ایڈیس البو پیکٹس‘‘نامی مچھروں نے یورپ کے بیس سے زائد ممالک میں بڑی تیزی سے اپنے قدم جمائے ہیں جس کا سبب تیزی سے بڑھتے زمینی درجہ حرارت کو قرار دیا گیا ہے۔
گرنیچ یونیورسٹی کے ماہر کا کہنا ہے کہ دنیا کی نصف آبادی کو مچھروں سے پیدا ہونیوالی بیماریوں سے خطرہ ہے۔مچھروں سے جنم لینے والے امراض ہر سال دس لاکھ اموات کا سبب بنتے ہیں۔
مچھروں سے کیسے بچا جائے
آسٹریلیا کے ایک جریدے ''دی کنفرمیشن‘‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ مچھر ہمارے خون سے اہم غذائی اجزاء حاصل کرنے کیلئے انسانوں اور دیگر حیوانوں کو کاٹتے ہیں۔ پھر وہ ان غذائی اجزاء کو اپنے انڈے بنانے کے عمل میں استعمال کرتے ہیں۔ایک خون کی خوراک سے ایک مادہ مچھر تقریباً 100 انڈے دیتی ہے۔درج ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کرکے ممکنہ حد تک مچھروں سے بچا جا سکتا ہے۔
٭...اپنے گھروں کے آس پاس اور اندر پانی کو کھڑا نہ ہونے دیں۔یہ مچھروں کی افزائش کا سب سے موزوں اور ترجیحی مقام ہوتا ہے۔
٭...مچھروں کے موسم میں بلاضرورت گھر سے باہر نکلنے سے گریز کریں،بالخصوض اندھیرے میں باہر کم سے کم نکلیں۔اس کے علاوہ گھر کے دروازے اور کھڑکیوں پر جالی لگوائیں۔
ایک جدید ریسرچ میں اس حوالے سے بتایا گیا ہے کہ گہرے اور سیاہ رنگ کے ملبوسات مچھروں کو اپنی طرف جلدی متوجہ کرتے ہیں۔ہلکے رنگ مچھروں کو تذبذب میں ڈال دیتے ہیں کہ آیا ان کا شکار آسان ثابت ہو سکے گا یا نہیں۔وہ ہلکے رنگ کی طرف لپکنے سے گریز کرتے ہیں۔
٭...مچھروں کے موسم میں بغیر آستین یا نصف آستین پہننے سے اجتناب برتیں۔
مچھر بھگانے کانسخہ
حال ہی میں میکسیکو سٹیٹ یونیورسٹی کی مالیکیولر ویکٹر فزیالوجی لیبارٹری کی ایک ٹیم نے مچھروں کو بھگانے کے طریقوں بارے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ کی تحقیق کے بعد مندرجہ ذیل تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔مچھر صدیوں سے بلکہ قبل از مسیح دور سے انسان کیلئے وبال جان بنا ہوا ہے۔اس بات کا ثبوت تاریخ کی کتابوں میں رومی ، مصری اور میسوپیٹیمیا ادوار میں ملتا ہے جہاں اس دور کے لوگ مچھروں سے بچائو کیلئے دھواں پھیلا کر اور بعض جگہوں پر جسم پر کڑوا تیل ملنے کا طریقہ اختیار کرتے تھے۔ لیکن جدید دور میں مچھروں کو بھگانے کیلئے اگرچہ متعدد نسخے آزمائے جاتے ہیں تاہم سب سے موثر طریقہ مختلف قسم کے ریپیلنٹس ہیں۔جو کوائل، سپرے ، لوشن اور کینڈلز پر مشتمل ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ ریپیلنٹس مچھروں کی سونگھنے اور چکھنے کی حس کو قابو کرلیتے ہیں جس سے مچھر سست اور نڈھال ہو جاتے ہیں۔
''پیکار یڈن‘‘ ( Picaridin)
یہ ایک کیمیکل کمپاؤنڈ ہے جس کا استعمال چھ گھنٹے تک مچھروں کو دور رکھتا ہے۔ یہ لوشن کی شکل میں جسم کے نمایاں حصوں یا کپڑوں پر لگایا جاتا ہے جس کی بو سے مچھر کچھ وقت کیلئے بے حس ہو جاتے ہیں۔ یہ کیمیکل سب سے پہلے 1980ء میں متعارف ہوا تھا۔
ڈی ای ای ٹی
یہ ایک کیمیائی مادے کا نام ہے جسے سب سے پہلے 1950ء میں امریکہ نے اپنی فوج کیلئے استعمال کیا تھا جسے ایک لمبے عرصہ تک جنگلوں میں رہنا تھا۔ یہ مچھر بھگانے کا ایک موثر طریقہ ہے اور اس کا دورانیہ بھی دوسرے کیمیائی مادوں کی نسبت طویل ہے۔ نیو میکسیکو سٹیٹ یونیورسٹی کی یہ رپورٹ تیار کرنے والی ٹیم نے بھی اس طریقہ کار کو زیادہ موثر قراردیا ہے۔
قدرتی تیل
مچھر بھگانے کے مصنوعی تیل اور دیگر طریقے جب تک ایجاد نہیں ہوئے تھے اس وقت تک دنیا کے مختلف علاقوں میں قدرتی تیل جسم پر مل کر مچھروں سے محفوظ رہا جاسکتا تھا لیکن ان تیلوں میں قباحت یہ ہوا کرتی تھی کہ یہ مختصر دورانیے تک کارآمد ہوتے تھے۔ ان تیلوں میں دار چینی کا تیل ، لونگ کا تیل اور لیموں کا تیل قابل ذکر ہیں۔