مچھر:انسانوں کا سب سے بڑا قاتل

مچھر:انسانوں کا سب سے بڑا قاتل

اسپیشل فیچر

تحریر : خاور نیازی


32 سال کی عمر میں آدھی سے زیادہ دنیا فتح کرنے والے فاتح سکندراعظم کو '' فاتح عالم‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ۔تاریخ اس کے کارناموں اور فتوحات کے قصوں سے بھری پڑی ہے۔تاریخ کی کتابوں سے مروی ہے کہ 12 سال کی عمر میں اس نے ایک ایسے جنگلی بدمست گھوڑے کو قابو کر لیا تھا جو بڑے بڑے شہسواروں اور گھوڑے سدھارنے والوں کو اپنے قریب پھٹکنے تک نہیں دیتا تھا۔''بیو سیفیلس‘‘ نامی یہ گھوڑا اس کے بعد ساری عمر اس کے ساتھ رہا۔

اس کی بہادری اور طاقت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ اس سے کسی نے پوچھا کہ اتنی چھوٹی عمر میں اتنی بڑی دنیا کیسے فتح کر ڈالی ؟۔سکندر اعظم کا جواب تھا '' دشمنوں کو مجبور کیا کہ وہ میرے ساتھ دوستی کر لیں ، اور دوستوں کو یہ جرات ہی نہیں دی کی وہ میرے ساتھ دشمنی کر سکیں ‘‘۔ جہاں تک فاتح عالم سکندر اعظم کی موت کی توجیح کا تعلق ہے،مورخین اس کی مختلف وجوہات بتاتے ہیں۔روایات کے مطابق اس کی موت ایک مچھر کے کاٹنے اور پھر ملیریا بخار میں مبتلا ہونے کے باعث ہوئی تھی۔ کیا یہ مقام حیرت اورمقام عبرت نہیں کہ ایک مچھر جو بظاہر ایک انسانی ناخن سے بھی چھوٹا ہوتا ہے ، چند دنوں کے اندر اندر فاتح عالم کو ، جس کے نام سے دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں کانپ جایا کرتی تھیں، کو بے بس کر کے لقمہ اجل بنا دیتا ہے۔
نیشنل جیو گرافک کی ویب سائٹ نے بھی اس امکان کا اظہار کیا ہے کہ سکندر اعظم کی موت مچھر کے کاٹنے کے باعث ہوئی تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسی ویب سائیٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ تین امریکی صدور جارج واشنگٹن ، ابراہم لنکن اور یولیسس گرانٹ کا بھی مچھر کاٹنے اور ملیریا کے باعث انتقال ہوا تھا۔
مچھر انسانی زندگی کیلئے کتنا خطرناک ؟
اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں انسانوں کی ہلاکت کا باعث یہی مچھر ہیں۔اب سے کچھ عرصہ پہلے ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ مچھر دنیا میں انسانوں کا سب سے بڑا قاتل ہے۔سالانہ اس سے متاثرہ افراد کی تعداد کروڑوں تک جا پہنچتی ہے۔اسی تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ ایک اندازے کے مطابق ہر سال تقریباًبیس لاکھ افراد مچھروں سے پیدا ہونے والی بیماریوں ڈینگی، ملیریا اور پیلا بخار سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق مچھروں کی 3500 اقسام پائی جاتی ہیں۔ان میں سے بیشتر اقسام انسانی زندگی کیلئے بے ضرر ہیں کیونکہ یہ پودوں پر رہتے ہیں اور ان کی خوراک پھلوں اور پھولوں کا رس ہوتاہے۔اسی تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ ان میں سے صرف 6 فیصد مچھروں کی مادہ مچھر ہی اپنے انڈوں کی بڑھوتری کیلئے انسانی خون چوستی ہے۔جبکہ اس تعداد کے نصف کے برابر انسان مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ آگے چل کر اس تحقیق میں یہ وضاحت بھی کی گئی کی اس کے باوجود بھی اس کی 100کے لگ بھگ اقسام ایسی ہیں جو انسانی صحت اور زندگی کیلئے خطرے کا سب بن سکتی ہیں۔
ماہرین اس نقطے پر متفق ہیں کہ دنیا میں پائے جانے والے حشرات میں انسانوں کو سب سے زیادہ خطرات مچھروں سے ہیں۔ ایک تحقیق میں مچھروں کو سب سے زیادہ انسانی ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ان میں سب سے زیادہ تعداد بچوں کی ہوتی ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق زیکا وائرس کا سب سے زیادہ نشانہ کمسن بچے بنتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے2015ء میں ملیریا وائرس کا باعث بننے والی مچھروں کی ایک خطرناک قسم ''انو فیلیس گینس‘‘ کی نشاندہی کی تھی جو چھ لاکھ انسانوں کی ہلاکت کا باعث بنی تھی۔ اسی طرح مچھروں کی ایک اور خطرناک '' ایڈیس گینس‘‘ نامی قسم کے بارے پتہ چلا ہے کہ یہ قسم بہت تیزی سے مغربی نیل وائرس ، ڈینگی وائرس ، پیلا بخار اور چیکونگونیا وائرس پھیلا رہے ہیں۔ محققین کے مطابق پچھلے تین عشروں کے دوران''ایڈیس البو پیکٹس‘‘نامی مچھروں نے یورپ کے بیس سے زائد ممالک میں بڑی تیزی سے اپنے قدم جمائے ہیں جس کا سبب تیزی سے بڑھتے زمینی درجہ حرارت کو قرار دیا گیا ہے۔
گرنیچ یونیورسٹی کے ماہر کا کہنا ہے کہ دنیا کی نصف آبادی کو مچھروں سے پیدا ہونیوالی بیماریوں سے خطرہ ہے۔مچھروں سے جنم لینے والے امراض ہر سال دس لاکھ اموات کا سبب بنتے ہیں۔
مچھروں سے کیسے بچا جائے
آسٹریلیا کے ایک جریدے ''دی کنفرمیشن‘‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ مچھر ہمارے خون سے اہم غذائی اجزاء حاصل کرنے کیلئے انسانوں اور دیگر حیوانوں کو کاٹتے ہیں۔ پھر وہ ان غذائی اجزاء کو اپنے انڈے بنانے کے عمل میں استعمال کرتے ہیں۔ایک خون کی خوراک سے ایک مادہ مچھر تقریباً 100 انڈے دیتی ہے۔درج ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کرکے ممکنہ حد تک مچھروں سے بچا جا سکتا ہے۔
٭...اپنے گھروں کے آس پاس اور اندر پانی کو کھڑا نہ ہونے دیں۔یہ مچھروں کی افزائش کا سب سے موزوں اور ترجیحی مقام ہوتا ہے۔
٭...مچھروں کے موسم میں بلاضرورت گھر سے باہر نکلنے سے گریز کریں،بالخصوض اندھیرے میں باہر کم سے کم نکلیں۔اس کے علاوہ گھر کے دروازے اور کھڑکیوں پر جالی لگوائیں۔
ایک جدید ریسرچ میں اس حوالے سے بتایا گیا ہے کہ گہرے اور سیاہ رنگ کے ملبوسات مچھروں کو اپنی طرف جلدی متوجہ کرتے ہیں۔ہلکے رنگ مچھروں کو تذبذب میں ڈال دیتے ہیں کہ آیا ان کا شکار آسان ثابت ہو سکے گا یا نہیں۔وہ ہلکے رنگ کی طرف لپکنے سے گریز کرتے ہیں۔
٭...مچھروں کے موسم میں بغیر آستین یا نصف آستین پہننے سے اجتناب برتیں۔
مچھر بھگانے کانسخہ
حال ہی میں میکسیکو سٹیٹ یونیورسٹی کی مالیکیولر ویکٹر فزیالوجی لیبارٹری کی ایک ٹیم نے مچھروں کو بھگانے کے طریقوں بارے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ کی تحقیق کے بعد مندرجہ ذیل تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔مچھر صدیوں سے بلکہ قبل از مسیح دور سے انسان کیلئے وبال جان بنا ہوا ہے۔اس بات کا ثبوت تاریخ کی کتابوں میں رومی ، مصری اور میسوپیٹیمیا ادوار میں ملتا ہے جہاں اس دور کے لوگ مچھروں سے بچائو کیلئے دھواں پھیلا کر اور بعض جگہوں پر جسم پر کڑوا تیل ملنے کا طریقہ اختیار کرتے تھے۔ لیکن جدید دور میں مچھروں کو بھگانے کیلئے اگرچہ متعدد نسخے آزمائے جاتے ہیں تاہم سب سے موثر طریقہ مختلف قسم کے ریپیلنٹس ہیں۔جو کوائل، سپرے ، لوشن اور کینڈلز پر مشتمل ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ ریپیلنٹس مچھروں کی سونگھنے اور چکھنے کی حس کو قابو کرلیتے ہیں جس سے مچھر سست اور نڈھال ہو جاتے ہیں۔
''پیکار یڈن‘‘ ( Picaridin)
یہ ایک کیمیکل کمپاؤنڈ ہے جس کا استعمال چھ گھنٹے تک مچھروں کو دور رکھتا ہے۔ یہ لوشن کی شکل میں جسم کے نمایاں حصوں یا کپڑوں پر لگایا جاتا ہے جس کی بو سے مچھر کچھ وقت کیلئے بے حس ہو جاتے ہیں۔ یہ کیمیکل سب سے پہلے 1980ء میں متعارف ہوا تھا۔
ڈی ای ای ٹی
یہ ایک کیمیائی مادے کا نام ہے جسے سب سے پہلے 1950ء میں امریکہ نے اپنی فوج کیلئے استعمال کیا تھا جسے ایک لمبے عرصہ تک جنگلوں میں رہنا تھا۔ یہ مچھر بھگانے کا ایک موثر طریقہ ہے اور اس کا دورانیہ بھی دوسرے کیمیائی مادوں کی نسبت طویل ہے۔ نیو میکسیکو سٹیٹ یونیورسٹی کی یہ رپورٹ تیار کرنے والی ٹیم نے بھی اس طریقہ کار کو زیادہ موثر قراردیا ہے۔
قدرتی تیل
مچھر بھگانے کے مصنوعی تیل اور دیگر طریقے جب تک ایجاد نہیں ہوئے تھے اس وقت تک دنیا کے مختلف علاقوں میں قدرتی تیل جسم پر مل کر مچھروں سے محفوظ رہا جاسکتا تھا لیکن ان تیلوں میں قباحت یہ ہوا کرتی تھی کہ یہ مختصر دورانیے تک کارآمد ہوتے تھے۔ ان تیلوں میں دار چینی کا تیل ، لونگ کا تیل اور لیموں کا تیل قابل ذکر ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
کامیاب افراد میں کیا خوبیاں ہوتی ہیں!

کامیاب افراد میں کیا خوبیاں ہوتی ہیں!

کامیابی کیلئے خود کو متحرک کرنا دراصل اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی شدید خواہش کا نتیجہ ہے۔ نپولین بل نے اپنی معروف کتاب Think and Grow Richمیں لکھا ہے: '' انسانی دماغ جو کچھ سوچ سکتا ہے، جس پر یقین رکھتا ہے وہ حاصل کر سکتا ہے۔‘‘شدید خواہش اس مقصد کے حصول کا افتتاحی عمل ہے جس کیلئے آپ نے قدم بڑھایا ہے، جس طرح تھوڑی سی آگ سے حرارت حاصل نہیں کی جا سکتی اسی طرح کمزور خواہش سے بڑے نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔ کامیاب افراد جانتے ہیں کہ زندگی میں وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان کے سامنے زندگی کا مقصد جتنا واضح ہوتا ہے اتنی ہی شدید اس مقصد کو حاصل کرنے کی لگن بھی ہوتی ہے۔کمٹمنٹدیانت اور دانائی دو ایسے ستون ہیں جن پر ذمہ داری اور کمٹمنٹ کی تعمیر ہوتی ہے۔ مکمل ذمہ داری اٹھائے بغیر کوئی مقصد اپنی تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ زندگی کیسے بھی حالات سے گزر رہی ہو کامیاب افراد اپنی کمٹمنٹ کبھی نہیں بھولتے۔احساسِ ذمہ داریبہترین کردار کے لوگ ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ وہ خود فیصلہ کرتے ہیں اور اپنی زندگی کی منزل خود متعین کرتے ہیں۔ ذمہ داریوں کو قبول کرنا کبھی کبھار رسک لینے کے مترادف ہو تا ہے اور ایسا کرنا زندگی میں مشکلات کاباعث بھی بن سکتا ہے۔ بعض اوقات حالات غیر مطمئن بھی ہو جاتے ہیں۔ جب ذمہ داری قبول کی جاتی ہے تو نپے تُلے انداز میں خطرے بھی مول لینے پڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت ذمہ داریاں قبول نہیں کرتی۔ وہ اپنے کمفرٹ زون میں رہنا پسند کرتے ہیں اور ایک غیر فعال زندگی گزارتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ بجائے چیزوں کو خود بنانے کے خود بخود سب کچھ ہو جانے کے انتظار میں ساری عمر گنوا دیتے ہیں۔ ذمہ داری لینا دراصل آنکھیں کھلی رکھنے کا نام ہے ،جہاں ایک ایک چیز ایک ایک حرکت پر نظر رکھنی پڑتی ہے تاکہ مناسب اور صحیح قدم اٹھایا جا سکے۔ ذمہ دار افراد دنیا سے توقعات نہیں رکھتے بلکہ وہ اپنی ضروریات کی ذمہ داری خود اٹھاتے اور پوری کرتے ہیں۔سخت محنتکامیابی کبھی بھی حادثاتی طور پر حاصل نہیں ہوتی۔ اس کیلئے بہت سی تیاری، ذہانت و محنت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ہر شخص جیتنا چاہتا ہے لیکن کتنے لوگ ہیں جو حقیقت میں اس جیت کیلئے محنت ، کوشش، وقت اور ہمت صرف کرتے ہیں؟ کامیابی کا سفر قربانی اور نظم و ضبط مانگتا ہے، جہاں سخت محنت کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ محنت کے بغیر کوئی بھی کام سرانجام نہیں دیا جا سکتا۔ کامیاب لوگ یہ نہیں کہتے کہ ہم تھوڑا کام کریں گے بلکہ وہ یہ پوچھتے ہیں کہ کتنا زیادہ کام کرنا ہے؟ جیتنے والوں کو جیتنے کیلئے بہت مدت تک محنت کرنی پڑتی ہے۔ اعلیٰ کارکردگی قسمت سے حاصل نہیں ہوتی یہ شدید محنت اور مشق کا نتیجہ ہوتی ہے اور ہمیں بہترین بنا دیتی ہے۔ بہترین خیالات اس وقت تک بے کار ہیں جب تک ان پر عمل نہ کیا جائے، محنت نہ کی جائے۔ انسان جتنی زیادہ محنت کرتا ہے اتنا اچھا محسوس کرتا ہے اور جتنا اچھا محسوس کرتا ہے اتنی ہی زیادہ محنت کرتا ہے۔بہترین کردارکردار دراصل کسی بھی انسان کی اقدار، یقین اور شخصیت کا نچوڑ ہوتا ہے۔ یہ ہمارے رویے اور حرکات و سکنات سے منعکس ہوتا ہے۔ اس کی حفاظت دنیا کے سب سے قیمتی لعل و جوہر سے بھی زیادہ کرنی پڑتی ہے۔ کامیابی کے راستے پر ثابت قدمی سے چلنے اور خود کو بچانے کیلئے خود ارادی اور کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ کامیابی کی راہ میں اہلیت اور کردار کا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ جہاں اہلیت کامیابی تک پہنچاتی ہے وہاں کردار اس کامیابی کو برقرار رکھتا ہے۔مثبت یقینمثبت سوچ اور مثبت یقین میں بہت فرق ہے۔ مثبت یقین، مثبت سوچ سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے۔ مثبت یقین، مثبت سوچ کو پروان چڑھانے کی وجہ مہیا کرتا ہے۔ مثبت یقین اپنی ذات پر کامل یقین اور بھروسہ کا نام ہے۔ یہ ایک با اعتماد رویہ ہوتا ہے۔ مثبت رویہ بغیر کوشش کے بالکل ایسا ہے جیسے آپ کا ایک من پسند خواب یا خواہش جس کو مکمل کرنے کیلئے ابھی تک آپ نے کوئی اقدام نہیں کیا۔ اس خواب کو پورا کرنے کیلئے آپ کو مثبت یقین کی ضرورت ہوتی ہے۔مستقل مزاجی کی طاقتکامیابی کا سفر آسان نہیں ہے۔ اس میں بہت مشکلات بھی ہیں لیکن کامیاب افراد میں ان تمام مشکلات کا سامنا کرنے اور حل کرنے کی ہمت اور اہلیت ہوتی ہے۔ ثابت قدمی کا مطلب کمٹمنٹ اور ارادہ ہے جہاں صبرو تحمل اور برداشت سے کام لینا پڑتا ہے۔ مستقل مزاجی اور کمٹمنٹ آپ کا فیصلہ ہے۔ ایک ایتھلیٹ صرف چند منٹوں کی ریس جیتنے کیلئے سال ہا سال مشق کرتا ہے۔مستقل مزاجی آپ کی کمٹمنٹ ہے اس کام کو پورا کرنے کی جو آپ نے شروع کیا ہے جب ہم تھک جاتے ہیں تو کام سے دستبردار ہو جانا بہت اچھا لگتا ہے لیکن کامیاب افراد برداشت کرتے ہیں اور اپنے کام میں ثابت قدم رہتے ہیں۔ ثابت قدمی کسی خاص مقصد سے جنم لیتی ہے۔ بے مقصد زندگی بے معنی ہو جاتی ہے کیونکہ جس شخص کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں تو نہ ہی اس کے اندر اس کو پورا کرنے کی خواہش اور لگن ہو گی اور نہ ہی وہ اپنی زندگی کو بھرپور طور پر انجوئے کر سکے گا۔اپنی کارکردگی پر فخراپنی کارکردگی پر خود کو شاباش دینا بھی خوشی کا ایک حصہ ہے کیونکہ سخت محنت، سچی لگن، ایمانداری اور مستقل مزاجی ہی کی وجہ سے آج آپ کو کوئی مخصوص کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ کام خواہ کوئی بھی ہو جب وہ بہترین انداز میں کیا گیا ہو تو اس کو سراہا جانا لازمی ہے۔ جیتنے والے کوئی مختلف کام نہیں کرتے بلکہ وہ تو مختلف انداز سے کام کرتے ہیں۔ 

ہیپا ٹائٹس سی ٹیسٹ کٹ کی منظوری

ہیپا ٹائٹس سی ٹیسٹ کٹ کی منظوری

عالمی ادارہ صحت (WHO) نے لوگوں کو ہیپا ٹائٹس سی وائرس کا خود ٹیسٹ کرنے کے لیے تیار کردہ کِٹ کے استعمال کی منظوری دے دی ہے۔ماہرین کا ماننا ہے کہ اس طرح بیماری کی تشخیص میں کافی مدد ملے گی ۔WHO میں ایچ آئی وی، ہیپا ٹائٹس اور ایس ٹی آئی پروگراموں کے شعبے کی ڈائریکٹر ڈاکٹر میگ ڈورتھی کے مطابق اس ٹیسٹ کٹ سے ایچ سی وی کی جانچ اور علاج کی جانب اہم پیش رفت ہو سکتی ہے اور اس سے کئی جانیں بچائی جاسکیں گی۔بقول ان کے '' بیماری کی تشخیص اور علاج یقینی بنانے سے بالآخر ایچ سی وی کے خاتمے کے عالمگیر ہدف کو حاصل کرنے کا محفوظ و موثر راستہ میسر آیا ہے‘‘۔ڈاکٹر ڈورتھی کا کہنا ہے کہ وائرس سے پھیلنے والے ہیپاٹائٹس سے روزانہ 3500 اموات ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں، ہیپا ٹائٹس سی میں مبتلا پانچ کروڑ لوگوں میں سے 36 فیصد میں ہی اس بیماری کی تشخیص ہو پاتی ہے۔ 2022ء کے اختتام تک ان میں سے صرف 20 فیصد لوگوں کو علاج معالجہ میسر آیا تھا۔ہیپا ٹائٹس سی جگر کو متاثر کرتا ہے اور شدید و طویل بیماری کا سبب بن سکتا ہے جس سے جان بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔یہ بیماری متاثرہ خون کے ذریعے پھیلتی ہے اور استعمال شدہ سوئیاں ‘ سرنجیں اور استرے اس کا بڑا ذریعہ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ جانچ کے بغیر خون کی منتقلی بھی اس بیماری کی ایک سے دوسرے فرد کو منتقلی کا باعث بن سکتی ہے۔ WHO کے مطابق اس وقت دنیا میں تقریباً پانچ کروڑ افراد شدید نوعیت کے ہیپا ٹائٹس سی میں مبتلا ہیں اور ہر سال اس بیماری کے تقریباً 10 لاکھ نئے مریض سامنے آتے ہیں۔ 2022 میں اس بیماری سے تقریباً 242,000 لوگوں کی اموات ہوئی تھیں جن میں بیشتر تعداد جگر کے بنیادی کینسر میں مبتلا تھی۔ WHOنے 2021 ء میں اس ٹیسٹ کی سفارش کی تھی تاکہ بیماری کی جانچ سے متعلق موجودہ خدمات کو مزید موثر بنایا جا سکے۔ یہ فیصلہ ایسی واضح شہادتوں کی بنیاد پر کیا گیا کہ اس سے بیماری کی جانچ اور تشخیص سے متعلق خدمات تک رسائی اور ان کے حصول میں بہتری آئے گی۔ خاص طور پر اس سے ایسے لوگوں کو فائدہ پہنچے گا جو وائرس کا ٹیسٹ نہیں کرواتے۔WHO میں شعبہ ضوابط و منظوری کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ ایچ سی وی ٹیسٹ کٹ کی دستیابی سے کم اور متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک کو محفوظ اور سستے انفرادی ٹیسٹ کی سہولت میسر آئے گی جو کہ اس بیماری میں مبتلا 90 فیصد لوگوں کی نشاندہی کا ہدف حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔وائرل ہیپاٹائٹس عالمی سطح پر اموات کی آٹھویں سب سے بڑی وجہ ہے اور 2015 میں ایک اندازے کے مطابق13 لاکھ سے زیادہ اموات کا ذمہ دار تھا۔ عالمی سطح پر تقریباً 25 کروڑ افراد ہیپاٹائٹس بی اور سات کروڑ ہیپاٹائٹس سی سے دائمی طور پر متاثر ہیں۔ اس شرح سے2015 اور 2030 کے درمیان ایک اندازے کے مطابق دو کروڑ اموات واقع ہوں گی۔ اس بیماری کے 80 فیصد مریض پاکستان اور مصر میں ہیں۔ پاکستان میں تقریباً ایک کروڑ سے زائد افراد ہیپاٹائٹس بی یا سی میں مبتلا ہیں اور ہر سال تقریباً ڈیڑھ لاکھ نئے کیسز سامنے آتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی 4.3 فیصدسے 11.5فیصد تک آبادی ہیپا ٹائتس سے متاثر ہے۔ اس طرح پاکستان ہیپاٹائٹس سی کے انفیکشن کے لیے دنیا میں دوسرے نمبر پر آتا ہے اور ہر 20 میں سے ایک پاکستانی اس مرض سے متاثر ہے۔اس بیماری کو خاموش قاتل کہا جاتا ہے کیونکہ بہت سے مریض پیچیدگیاں پیدا ہونے سے پہلے اس سے معاملے میں لاعلم ہوتے ہیں۔  

آج کا دن

آج کا دن

معاہدہ لوزان لوزان کا معاہدہ 1922-23ء کی لوزان کانفرنس کے دوران طے پایا اور 24 جولائی 1923ء کو پالیس ڈی رومین، لوزان، سوئٹزرلینڈ میں اس پر دستخط کیے گئے۔ اس معاہدے نے سلطنت عثمانیہ اور اتحادی فرانسیسی جمہوریہ، برطانوی سلطنت، سلطنت اٹلی، سلطنت جاپان، سلطنت یونان اور سلطنت رومانیہ کے درمیان پہلی جنگِ عظیم کے آغاز کے بعد سے موجود تنازعات کو باضابطہ طور پر طے کیا۔ معاہدے کا اصل متن فرانسیسی زبان میں ہے۔ یہ سیوریس کے ناکام اور غیر توثیق شدہ معاہدے کے بعد امن کی دوسری کوشش کا نتیجہ تھا۔ جس کا مقصد عثمانی زمینوں کو تقسیم کرنا تھا۔ اپالو 11 کی واپسی1969ء میں آج کے روز چاند کے کامیاب مشن سے واپسی پر اپالو 11 بحفاظت اوقیانوس میں اتارا گیا۔ اپالو 11 مشن16 جولائی 1969 کو فلوریڈا کے کینیڈی سپیس سنٹر سے Saturn V راکٹ کے ذریعے تین خلا بازوں کو لے کر چاندکے لیے روانہ ہوا۔ یہ تینوں خلاباز نیل آرم سٹرانگ، مائیکل کولنز، ایڈون ایلڈرن اپالو 11 کے تاریخ ساز مشن کے ذریعے چاند تک پہنچے۔یہ پورا مشن 8 دن جاری رہا اور 24 جولائی کو یہ امریکی خلائی جہاز ریاست ہوائی میں ہوائی میں بحر اوقیانوس میں بحفاظت زمین پر واپس اترآیا۔ماچو پچو کی دریافت 1911ء میں امریکی ایکسپلورر ہیرام بنگھم نے پیرو میں ایک مہم کے دوران ماچو پچو، انکاس کا کھویا ہوا شہر دریافت کیا۔ ماچو پچو ایک قدیم انکا قلعہ ہے جو اینڈیز پہاڑوں میں بلندی پر واقع ہے۔اس سائٹ کے قابل ذکر تحفظ اور شاندار فن تعمیر نے اسے دنیا کے سب سے مشہور آثار قدیمہ میں سے ایک بنا دیا ہے۔ ہیرام بنگھم کی اس دریافت نے انکا تہذیب کی طرف بین الاقوامی توجہ دلائی اور ان کی ثقافت اور کامیابیوں کے بارے میں لوگوں کی سمجھ بوجھ کو نمایاں طور پر آگے بڑھایا۔ائیر الجیریا حادثہ24جولائی 2014ء کو ائیر الجیریا کا جہاز گوسی مالی کے قریب گر کر تباہ ہو گیا۔اڑان بھرنے کے تقریباً50منٹ بعد جہاز کا رابطہ کنٹرول ٹاور سے منقطع ہو گیا۔ جہاز میں موجود تمام مسافر ہلاک ہو گئے۔ فرانسیسی بیورو آف انکوائری اینڈ اینالیسس فار سول ایوی ایشن سیفٹی نے مالی کے حکام کی مدد کرتے ہوئے اپریل 2016ء میں ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی جس میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ جب طیارہ آٹو پائلٹ پر سفر کر رہا تھا انجنوں پر برف پڑنے کی وجہ سے دباؤ میں کمی واقع ہوئی۔ اس حادثے کا ذمہ دار عملے کو بھی قرار دیا گیا جن کی لاپرواہی کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا۔  

ایموجی:دورجدید کی ڈیجیٹل زبان

ایموجی:دورجدید کی ڈیجیٹل زبان

زمانۂ قدیم میں پہلے پہل انسان نے غاروں ،جنگلوں اور پہاڑوں میں اکیلا رہنا شروع کیا تھا۔ رفتہ رفتہ جب اسنے اکٹھا رہنا شروع کیا تو اسے ایک دوسرے سے رابطے اور مخاطب کے لئے '' زبان ‘‘(لینگویج ) کی ضرورت محسوس ہوئی اور اسنے زبان (لینگویج) کو رواج دیا۔وقت کے ساتھ ساتھ اسنے بستیوں ، پھر شہروں کو رواج دیا تو ہر بستی اور ہر شہر کی زبان تھوڑی بہت مختلف ہوتی چلی گئی۔ پھر جب شہر، ملکوں اور خطوں میں بٹے تو سرحدوں کا رواج شروع ہوا اور یوں زبانوں کی تعداد بھی بدستور بڑھتی چلی گئی۔ آج اس روئے زمین پر پھیلے انسانوں کی زبانوں کی تعداد کروڑوں سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ ایک طرف زبانوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا تو دوسری طرف سائنسی ترقی کا پہیہ بھی تیز سے تیز ہوتا چلا گیا۔ سائنس نے ٹیکنالوجی کو جنم دیا تو ٹیکنالوجی نے انسان کا ہاتھ تھام لیا۔ ٹیکنالوجی انسان کی زندگی میں داخل کیا ہوئی کہ اس نے رفتہ رفتہ انسان کو ایسا سہل پسند بنا ڈالا کہ یہ انسانی زندگی کا جزو لا ینفک بن کر رہ گئی۔ اس جزو لاینفک کی ابتدائی جدید شکل کمپیوٹر کے نام سے شروع ہوئی۔ چنانچہ اس کمپیوٹر سے کام لینے اور مخاطب کرنے کے لئے انسان نے ایک مشینی زبان کو رواج دیا ۔ اور یوں آج یہی کمپیوٹر مختلف اشکال میں تقریباً ہر گھر اور ہرشخص کے ہاتھ میں نظر آتا ہے ۔ کمپیوٹر نے سب سے پہلے خطوط ، ٹیلی گرام ، عید کارڈ اور پرانے وقتوں کے رابطے کے دیگر ذرائع کو رخصت کیا۔سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے لوگوں کے مابین برقی رابطے کو نہایت مضبوط بنایا۔میسج یا ای میل کی ابتدائی تاریخ میں اپنے احساسات کو مؤثر طریقے سے بیان کرنا محال تھا۔ لیکن اس مشینی دور میں جب انسان کے پاس چند لائنیں ٹائپ کرنے کا بھی وقت نہ بچا تو اس نے اپنا مقصد ، اپنے جذبات اور اپنا پیغام کمپیوٹر یا موبائل فون کے کی بورڈ پر بنی مخصوص اشکال کے ذریعے صرف ایک کلک کے ذریعے بھیجنے کو رواج دیا۔ چنانچہ آج کی بورڈ پر بنی یہی اشکال اس کی پیغام رسانی اور ترجمانی کا ذریعہ بن چکی ہیں۔ سوشل میڈیا کی دنیا میں ان اشکال کو ایموجی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایموجی کیا ہے ، کہاں سے اور کیسے شروع ہوا ؟ایموجی بنیادی طور پر ایک جاپانی لفظ ہے۔ جاپانی لفظ '' ای ‘‘ کا مطلب تصویر ہے جبکہ ''موجی‘‘ کے معنی مطلب کا کردار، کے ہیں۔ لفظ ایموجی سب سے پہلے آکسفورڈ ڈکشنری میں 2017ء میں ظاہر ہوا تھا جس کے معنی کچھ اس طرح سے بیان کئے گئے تھے : ''ایک چھوٹی ڈیجیٹل تصویر یا آئیکان جو کسی خیال یا جذبات کو ظاہر کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے ‘‘۔شیگیٹاکا کوریٹا جو جاپان کی ایک انٹرنیٹ کمپنی کا ملازم تھا ۔ نے 1999 میں دنیا کا پہلا ایموجی تیار کیا تھا۔دراصل کوریٹا کا مقصد بہت زیادہ الفاظ ٹائپ کئے بغیر اپنا مقصد اپنے مخاطب تک محض ایک چھوٹی سی تصویر کے ذریعے پہنچانا تھا۔ پہلا ایموجی موسم کی ترجمانی کرنے والا ایموجی تھا۔ اس کے بعد یہ رفتہ رفتہ جاپانی موبائل فون اور کمپیوٹرز پر عام ہوتے چلے گئے۔یہ ایموجی انتہائی سادہ اور محدود ہوا کرتے تھے مثلاًسٹریٹ سائن ، بلب ، بادل ، سورج ، چاند اور بارش وغیرہ۔رفتہ رفتہ ایموجیز کا استعمال بڑھتا چلا گیا اور یوں یہ ایک نئی الیکٹرونک اور ڈیجیٹل زبان کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔ ان کی کامیابی کے پس پردہ ایک چھوٹی سی تصویر یا نشان کے ذریعے اپنے احساسات یا جذبات کی ترسیل تھا ۔مثلاً اب آپ کو یہ کہنے یا لکھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ مجھے ہنسی آ رہی ہے ، بس آپ کو اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر کی سکرین پر محض ہنسی والی ایموجی ڈالنا ہے ، آپ کا مخاطب آپ کی بات سمجھ جائے گا۔ چہرے کے ایموجی تو بہت پہلے ایجاد چکے ہو تھے مگر سب سے مقبول مسکراہٹ والا ایموجی 2017ء میں ہاروے راس نامی ایک گرافک ڈیزائنر نے ایجاد کیا تھا۔ چہرے کے تاثرات کے سب سے زیادہ ایموجیز ہاروے کے ایجاد کردہ ہیں۔ایموجی پیڈیا کے مطابق ، ایپل ، گوگل ، فیس بک ، ٹوئٹر ، انسٹا گرام ، وٹس ایپ ، وائبر ، چیٹ ایپلی کیشنز میسیجز سمیت موبائل کمپنیز کی جانب سے 2666 اقسام کے ایموجی دنیا بھر میں استعمال ہو رہے ہیں۔ اگرچہ ایموجی ویسے تو 1999ء سے استعمال ہو رہے ہیں لیکن موبائل فون میں سب سے پہلے سن 2011 میں ایپل کمپنی نے متعارف کرائے تھے۔ یہاں یہ بتانا ہوگا کہ ایموجیز کا اجرا بین الاقوامی طور پر باقاعدہ ایک ضابطے اور سسٹم کے تحت عمل میں آتا ہے جس کی منظوری ایک بین الاقوامی ادارہ '' یونی کوڈ کنسورشیم ‘‘ دیتا ہے۔ 2007ء میں گوگل نے یونی کوڈ کنسورشیم سے بین الاقوامی طور پر ایموجیز کی باقاعدہ طور پر منصوبہ بندی کی گزارش کی؛چنانچہ 2009ء میں ایپل کمپنی نے ایموجیز پر کام کرنا شروع کیا اور2011ء کے آس پاس ایپل کے انجینئرز 650 ایموجیز پر مشتمل پہلا کی بورڈ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ 2015ء میں برطانوی سافٹ وئیر کمپنی'' سوفٹ کی‘‘ (Swiftkey) کے انجینئرز نے مل بیٹھ کر ایموجیز کو عالمی استعمال میں سہل اور فعال بنانے میں نئی جہتیں متعارف کرائیں۔ انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کو وقت کی قلت کے پیش نظر اب الفاظ کی بجائے ایموجیز کا سہارا لینا پڑتا ہے کیونکہ طرح طرح کے ایموجیز اب ہر طرح کے جذبات کی بہترین ترجمانی کرنے کے لئے ہمارے کی بورڈز پر موجود ہیں۔مثلاًاگر کوئی خوش ہے ، بیمار ہے ، غصے کی حالت میں ہے یا افسوس کی حالت میں ہے تو انٹرنیٹ کی دنیا میں ہر قسم کے ایموجیز موجود ہیں جن کے استعمال کے بعد مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف فیس بک کے ذریعے ایک دن میں 6ارب سے زائد ایموجیز استعمال ہوتے ہیں جبکہ ٹوئٹر ، انسٹاگرام ، وٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا اکاونٹس اس کے علاوہ ہیں ۔گویا دنیا بھر میں ہر ایک سیکنڈ میں صرف فیس بک پر 70 ہزار ایموجیز استعمال ہوتے ہیں۔ایک اور سروے میں بتایا گیا ہے کہ سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ایموجی آنسووں کے ساتھ ہنستا ہوا چہرہ ہے۔جو دن میں کروڑوں کے حساب سے حرکت میں رہتا ہے۔ورلڈ ایموجی ڈے 17 جولائی کو دنیا بھر میں '' ورلڈ ایموجی ڈے ‘‘ ہر سال باقاعدگی سے منایا جاتا ہے۔ سب سے پہلا '' ورلڈ ایموجی ڈے ‘‘ 17 جولائی 2014ء کو منایا گیا۔اس مخصوص دن کو منانے کی وجہ یہ تھی کہ اگر ایموجی میں کیلنڈر کو استعمال کیا جائے تو اس میں 17 جولائی کی تاریخ درج ہوتی ہے۔ورلڈ ایموجی ڈے کے بانی ، جرمی برج ہیں جو ایموجی پیڈیا کے خالق ہونے کے ساتھ ساتھ یونی کوڈ کنسورشیم کمیٹی کے ممبر بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ خاص دن منانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہم سوشل میڈیا کی دنیا میں ایک نئی ایجاد کو خراج تحسین پیش کریں۔

مصنوعی ذہانت ڈیپ فیک کے توڑ میں مدد دے گی ؟

مصنوعی ذہانت ڈیپ فیک کے توڑ میں مدد دے گی ؟

گزشتہ ماہ جنیوا میں منعقد ہونے والی یو این کانفرنس آن آرٹیفشل انٹیلی جنس میں دنیا بھر کے ماہرین نے مصنوعی ذہانت کے انتظام کے موضوع پر تبادلہ خیال کیا اور جائزہ لیا کہ پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے اس ٹیکنالوجی سے کیسے کام لیا جا سکتا ہے۔اس موقع پر مصنوعی ذہانت کے ساتھ انسانوں کی بات چیت کے متعدد پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا گیا اورمصنوعی ذہانت کے فوائد اور نقصانات پر کئی طرح کے نقطہ نظر پیش کیے گئے۔ شرکا نے مصنوعی ذہانت کے حامل روبوٹس سے مل کر اس ٹیکنالوجی کی خوبیوں اور خامیوں کا اندازہ بھی لگایا۔ڈیپ فیک کا توڑانٹر نیشنل ٹیلی کمیونی کیشن یونین (ITU) میں شعبہ سٹریٹجک انگیجمنٹ کے سربراہ فریڈرک ورنر نے ایسے ضوابط تیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے جن سے گمراہ کن اطلاعات کے پھیلاؤ اور ڈیپ فیک کا مقابلہ کیا جا سکے۔ان کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے کئی طریقوں سے کام لیا جا سکتا ہے۔ ان میں واٹر مارکنگ بھی شامل ہے جو دراصل دکھائی نہ دینے والے دستخط یا ڈیجیٹل فنگر پرنٹ ہوتے ہیں۔ ان کی بدولت صارفین کو اندازہ ہو سکتا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کی کسی چیز یعنی تصویر، آڈیو اور ویڈیو وغیرہ میں کوئی ترمیم کی گئی ہے یا نہیں اور آیا یہ مصنوعی ذہانت سے تیار کی گئی ہے یا حقیقی ہے۔یو این نیوز نے اس کانفرنس میں ڈیسڈیمونا یا ''ڈیسی‘‘نامی روبوٹ سے ملاقات کی جو خود کو مصنوعی ذہانت کے ذریعے کام کرنے والا انسان نما روبوٹ کہتا اور بھلائی کو اپنا مقصد بتاتا ہے۔ اس روبوٹ کا کہنا تھا کہ وہ ڈیپ فیک کی نشاندہی اور اسے روکنے کا اہم کام انجام دے سکتا ہے لیکن انسانوں کو بھی چاہیے کہ وہ چوکس رہیں اور کوئی معلومات دوسروں تک پھیلانے سے پہلے اس سے متعلق حقائق کی چھان بین کر لیں۔اگرچہ ڈیپ فیک خوف زدہ کر دینے والی چیز ہے لیکن خوف کو خود پر غالب نہ آنے دیں۔ اس کے بجائے ایسے آلات کی تیاری اور ان سے کام لینے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جو ڈیپ فیک کی نشاندہی کریں اور ان کا مقابلہ کر سکیں۔ اس کے ساتھ لوگوں کو معلومات کی تصدیق کرنے کی اہمیت کے بارے میں بھی تعلیم دینا ہو گی۔مصنوعی ذہانت کے مخصوص نظام ایسے جدید الگورتھم سے آراستہ ہیں جو ڈیپ فیک کی نشاندہی کر سکتے ہیں اور گمراہ کن اطلاعات کے خلاف جنگ میں ان کی خاص اہمیت ہے۔مصنوعی ذہانت کی خوبیوں اور خامیوں پر بحث کرنے والے بہت سے لوگوں نے اس کانفرنس میں اتفاق کیا کہ اس ٹیکنالوجی کے غیرمعمولی امکانات کو ان لوگوں کے ہاتھ میں نہیں چھوڑا جا سکتا جو اس سے طاقت یا منافع حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لوگوں کو ٹیکنالوجی تک مساوی رسائی دینے کے لیے ضابطہ کاری کی ضرورت ہو گی۔اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو میں شعبہ سماجی و انسانی سائنس کی ڈائریکٹر جنرل گیبریلا راموس کا ماننا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو باضابطہ بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے حکومتوں کی صلاحیتوں میں بہتری لانے اور ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کیلئے لوگوں کی صلاحیتیں بڑھانے اور اسے رو بہ عمل لانے کیلئے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبارکی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح یہ ٹیکنالوجی سبھی کو مساوی فائدہ پہنچائے گی اور معاشرے میں عدم مساوات پھیلانے کا باعث نہیں بنے گی۔اس کانفرنس کا انعقاد اقوام متحدہ کی بین الاقوامی مواصلاتی یونین ( ITU) نے کیا تھا جو اطلاعات اور مواصلات کے حوالے سے اقوام متحدہ کا خصوصی ادارہ ہے۔گزشتہ سال کے دوران مصنوعی ذہانت کا استعمال خاصا بڑھ گیا ہے۔ حکومتیں اور ادارے بھی اس ٹیکنالوجی سے کام لینے لگے۔ اس لیے مصنوعی ذہانت کے ذمہ دارانہ استعمال کی ضرورت کا احساس بھی بڑھ گیا ہے۔ یونیسکو نے 2021 میں پہلی مرتبہ مصنوعی ذہانت کے اخلاقی اصولوں سے متعلق اپنی سفارشات تیار کی تھیں۔ ان سفارشات کی یونیسکو کے تمام 194 رکن ممالک نے منظوری دی ہے۔ یونیسکو کی سفارشات سے ہمیں مصنوعی ذہانت اور اس سے متعلق ضابطوں کے بارے میں سوچ بچار میں مدد ملی۔مصنوعی ذہانت کے استعمال میں جیسے جیسے اضافہ ہو رہا ہے ضروری ہے کہ حکومتی سطح پر اس حوالے سے خصوصی اقدامات کئے جائیں اور لوگوں کو ٹیکنالوجی کے ذمہ دارانہ استعمال سے آگاہی فراہم کی جائے۔ یہ ایک اہم سوال ہے کہ لوگوں کو مصنوعی ذہانت کے حوالے کیسے تربیت دی جا سکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ پروگرامنگ کی تربیت ہو بلکہ اس کا مقصد مصنوعی ذہانت کے ماڈل تیار کرنے اور ان سے کام لینے والوں کو سماجی تناظر میں مزید ذمہ دارانہ طریقے سے کام کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔اس حوالے سے ڈیجیٹل تقسیم کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔ہمارے معاشرے میں جہاں بہت سے لوگوں کو ڈیجیٹل آلات یا ذرائع تک رسائی نہیں ، یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ تمام لوگوں کو جدید ٹیکنالوجی کے ذرائع سے فائدہ پہنچے۔

آج کا دن

آج کا دن

''سرحدی معاہدہ‘‘23جولائی 1881ء کو ارجنٹائن اور چلی کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جسے ''سرحدی معاہدے‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس معاہدے کا مقصد زمین کی تقسیم پر ہونے والے تنازعات کو حل کرنا تھا۔دونوں ممالک کی سرحد پر ایسے کئی علاقے تھے جس پر دونوں حکمرانی کا دعویٰ کرتے تھے۔ ان متنازع علاقوں کی منصفانہ تقسیم کیلئے یہ معاہدہ کیا گیاجس کے نتیجے میں ارجنٹائن اور چلی کے درمیان 5ہزار 600 کلومیٹر طویل سرحد وجود میں آئی۔یہ معاہدہ ان تاریخی معاہدوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جس نے دوممالک کے درمیان جنگ کے امکانات کو کم کیا اورامن قائم ہوا۔ پہلی فورڈ گاڑی کی فروخت 23جولائی1903ء کو دنیا کی معروف کار ساز کمپنی فورڈ نے اپنی پہلی گاڑی فروخت کی۔ فورڈ موٹر کمپنی کو عام طور پر فورڈ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔یہ ایک امریکی آٹوموبائل بنانے والی کمپنی ہے جس کا صدر دفتر ڈیئربورن، مشی گن، ریاستہائے متحدہ امریکہ میں ہے۔ اس کی بنیاد ہنری فورڈ نے رکھی تھی اور اس کا آغاز 16 جون 1903ء کو ہوا تھا۔ کمپنی فورڈ برانڈ کے تحت آٹوموبائل اور تجارتی گاڑیاں اور اپنے لنکن لگژری برانڈ کے تحت لگژری کاریں فروخت کرتی ہے۔ کئی دیگر کار ساز کمپنیوں میں بھی اس کمپنی کا حصہ ہے۔ فورڈ کو دنیا کی قدیم ترین کارساز کمپنیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ٹرانس ایشیا ء حادثہٹرانس ایشیا کی فلائٹ222جو تائیوان سے بیگو جزیرہ جا رہی تھی۔23جولائی 2014ء کو حادثے کا شکار ہوئی۔جہاز گونگ ائیر پورٹ پر موسم خراب ہونے کی وجہ سے لینڈنگ کے دوران عمارتوں سے ٹکرا گیا۔جہاز میں 58افراد سوار تھے جس میں سے 10 زندہ بچ گئے ۔ تائیوان کی ایوی ایشن سیفٹی کونسل کی تحقیقات میں اس بات کا انکشاف کیا گیا کہ جہاز کے پائلٹ جہاز کو کم اونچائی پر رکھ کر اتار رہے تھے جس کی وجہ سے حادثہ پیش آیا۔ تحقیقاتی ٹیم نے حادثے کا ذمہ دار پائلٹ کو قرار دیاتھا۔طیارہ اغوا23 جولائی 1999ء کوآل نپون ایئرویز کے بوئنگ747 نے ٹوکیو ہنیدا ہوائی اڈے سے اڑان بھری اور اس کی منزل نیو چٹوز تھی۔ اس جہازمیں 14 بچے اور 14 عملے کے ارکان سوار تھے۔ چٹوز ہوائی اڈے پر لینڈنگ سے قبل اسے یوجی نیشیزکے کارکنوں نے اسے ہائی جیک کر لیا۔ اغوا کار کے پاس ایک چاقو تھا جس کی مدد سے وہ جہاز کے کاک پٹ میں داخل ہو نے میںکامیاب ہوا۔پائلٹ نے اس کی ہدایات ماننے سے انکار کیا تو یوجی نے اس کے سینے پر چاقو سے وار کر دیا اور جہاز کا کنٹرول خودسنبھال لیا۔کچھ دیر بعد جہاز کا عملہ اغوا کار پر قابوپانے میں کامیاب ہو گیا اور معاون پائلٹ نے جہاز کو حفاظت کے ساتھ زمین پر اتارا۔