ناصر الدین محمود:درویش صفت بادشاہ
آج سے تقریباً سات سو پچھتر سال قبل دہلی میں غلام خاندان کا ایک شخص تھا جسے 1246ء میں ناصر الدین محمود کے نام سے امراء نے تخت پر بٹھایا جو کہ دراصل شمس الدین التتمش کا پوتا تھا۔ جب التتمش کا بیٹا شہزادہ ناصر الدین لکھنائونی میں منگولوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوا تو اس کی موت کے بعد اس کے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا تھا، جو اس کا سب سے چھوٹا لڑکا تھا، التتمش نے اپنے مرحوم بیٹے سلطان ناصر الدین کی محبت میں اپنے نوزائیدہ پوتے کا نام بھی وہی رکھا۔
خاندانی اسباب کی بنا پر التتمش نے یہی چاہا کہ بچے کو اس کا پوتا نہیں بلکہ اس کا بیٹا شمار کیا جائے۔ وہ ایک درویش صفت بادشاہ تھا۔ اس کی خوبی یہ تھی کہ اپنے عہد حکومت میں کبھی سرکاری خزانے کو ہاتھ نہیں لگایا اور قرآن شریف لکھ کر روزی کماتا تھا، اس کی پوری زندگی اولیا اور صالحین کا نمونہ تھی۔ زیادہ تر وقت عبادت اور تلاوت کلام پاک میں صرف کرتا۔ جس وقت دربار لگتا اس وقت وہ شاہی لباس زیب تن کرتا تھا اور دربار برخاست ہونے کے بعد اپنا سادہ لباس پہنتا۔ وہ خاص طور سے اس بات کا خیال رکھتا تھا کہ اس کے لکھے ہوئے قرآن کے نسخے معمولی قیمت پر فروخت ہوں اور کسی کو یہ پتا نہ چلے کہ وہ بادشاہ کے لکھے ہوئے ہیں۔
ایک روایت کے مطابق ایک بار اس کی ملکہ کھانا پکا رہی تھی۔ توے سے روٹی اتارتے وقت اس کا ہاتھ جل گیا۔ تکلیف کی وجہ سے وہ سلطان کے پاس حاضر ہوئی بادشاہ اس وقت قرآن کی کتابت کر رہا تھا۔ ملکہ کو تکلیف میں دیکھ کر پوچھا: ''کیا بات ہے ملکہ! ہاتھ میں کیا ہوا‘‘؟
بادشاہ نے کتابت چھوڑ دی اور دوا لے کر ملکہ کے جلے ہوئے ہاتھ پر لگا دی۔
''جہاں پناہ! گھر میں کوئی نہیں ہے۔ دوسرے کام بھی کرنے ہیں۔ اب کھانا کون پکائے گا؟‘‘ ملکہ نے سوال کیا؟تم فکر نہ کرو، جب تک تمہارا ہاتھ ٹھیک نہیں ہوتا تمہارا ہاتھ میں بٹائوں گا‘‘۔
''اپنے آپ پر یہ ظلم نہ کیجئے۔ میری مانیے۔ کچھ عرصے کیلئے ایک خادمہ رکھ لیجئے۔ جب میرا ہاتھ ٹھیک ہو جائے گا تو پھر سارا کام میں خود ہی کر لیا کروں گی‘‘۔
''تم جان بوجھ کر انجان بنتی ہو۔ میں اتنی آمدنی کا مالک نہیں ہوں کہ خادمہ رکھ سکوں‘‘ حکومت کے کام سے ہی فرحت کم ملتی ہے۔ چھ ماہ میں مشکل سے ایک کلام پاک کی کتابت کر پاتا ہوں۔ اس ہدیے سے مشکل سے گھر کا خرچ چلتا ہے۔ اب ایسے میں خادمہ کیلئے گنجائش کہاں سے نکالوں‘‘؟
''آپ یہ کیا فرما رہے ہیں؟ آپ بادشاہ وقت ہیں۔ شاہی خزانہ آپ کے قبضے میں ہے۔ اگر آپ اپنی واجب ضرورت کیلئے کچھ رقم لے لیں تو اس میں کیا حرج ہے؟‘‘۔
''بیگم: شاہی خزانہ رعایا کی امانت ہے۔ اسے خرچ کرنے کا حق مجھے نہیں یہ تو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کیلئے ہے، میں تو صرف ان کا امین ہوں‘‘۔
سلطان کا جواب سن کر ملکہ خاموش ہو گئی۔
کوئی افسانہ نہیں بلکہ ہندوستان کے ایک نیک دل بادشاہ ناصر الدین محمود کی زندگی کی وہ حقیقت ہے، جس کا بیس سالہ دور حکومت تاریخ ہند میں سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ اس نے شاہی میں فقیری کی مثال پیش کی۔ اس نے دوسرے بادشاہوں کی طرح اپنے منصب سے ناجائز فائدہ کبھی نہیں اٹھایا۔ وہ تقویٰ،پرہیزگاری، خوش اخلاقی اور سادگی کا پیکر تھا۔ ایک روایت مشہور ہے کہ ایک بار کوئی امیر اس سے ملنے آیا۔ بادشاہ نے اسے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی ایک کتاب دکھائی۔ امیر نے اس میں کچھ غلطیاں نکالیں اور درست کرنے کی التجا کی۔ بادشاہ نے اس کے مشورے پر ان الفاظ کے گرد حلقے بنا دیئے، لیکن جب امیر چلا گیا تو بادشاہ نے وہ حلقے مٹا دیے۔ درباریوں میں سے کسی نے حلقوں کے مٹانے کا سبب پوچھا توبادشاہ نے جواب دیا: ''دراصل یہ غلطیاں نہ تھیں، میرے دوست کو خود غلط فہمی ہوئی۔ چونکہ ایک خیر خواہ کا دل دکھانا مجھے پسند نہ تھا اس لئے ان کے کہنے پر میں نے الفاظ کے گرد حلقے بنا دیئے تھے۔ اب انہیں مٹا دیا‘‘
اس دور کے سلطان کے خوش اخلاقی کا یہ حال تھا کہ اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ نبی کریم ﷺ کا احترام اس قدر کرتا تھا کہ بلا وضو آپﷺ کا نام لینا بھی بے ادبی سمجھتا تھا۔ ایک بار اپنے درباری کو جس کا نام محمد تاج الدین تھا، صرف تاج الدین کہہ کر پکارا۔ درباری نے سمجھا کہ لگتا ہے سلطان مجھ سے خفا ہیں۔ اس لئے خوف سے کئی دن دربار میں حاضر نہ ہوا۔ سلطان کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو اسے یقین دلایا کہ میں تم سے بالکل خفا نہیں ہوں۔ اس دن تمہارا پورا نام نہ لینے کی وجہ یہ تھی میں باوضو نہ تھا اور بغیر طہارت کامل کے لفظ''محمد‘‘ میں اپنی زبان سے ادا نہیں کر سکتا تھا۔
التتمش کے مرنے کے بعد اس کے بیٹوں، بیٹیوں، پوتوں اور دوسرے دعوے داروں میں تخت و تاج کیلئے کافی کشمکش رہی۔ ناصر الدین محمود طبیعت کا نیک تھا۔ حکومت کی ذمہ داریوں کا پورا احساس رکھتا تھا۔ چنانچہ ان ہنگاموں سے بالکل الگ تھا۔ اس کے باوجود خود غرضوں کے بے جا انتقام کا شکار بنا اور قید کر دیا گیا۔قیدو بند کا زمانہ بھی اس نے صبرو استقلال سے گزارا۔
اس معذوری میں بھی اپنی معاش کیلئے اس نے کسی کا احسان لینا گوارا نہ کیا اور نہ اپنا وقت ہی ضائع ہونے دیا۔ اس تنہائی اور یکسوئی سے فائدہ اٹھا کر اس نے اپنی علمی لیاقت بڑھائی اور خوش نویسی سیکھ لی۔ اس کے بعد کتابیں لکھ کر گزر اوقات کرنے لگا۔ رعایا ایسے پرہیز گار اور خدا ترس بادشاہ سے خوش ہوئی۔ اللہ نے بھی اس کے تقویٰ کی لاج رکھی، اس پر اپنا فضل کیا اور حکومت کے فرائض کو بہتر طریقے سے انجام دینے کے لئے۔ بلبن جیسا مدبر اور فرض شناس وزیر عطا فرمایا۔
1266ء میں ہندوستان کا یہ درویش صفت، متقی،عبادت گزار اور سادہ لوح فرماں روا اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اس کو مروانے میں غیاث الدین بلبن کا ہی ہاتھ تھا۔ اس کا مزار دہلی میں یہی پال پور کے پاس سلطان غازی کے نام سے مشہور ہے۔