کیچووے دنیا کے پہلے ماحولیاتی انجینئر
![کیچووے دنیا کے پہلے ماحولیاتی انجینئر](https://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/27595_96992407.jpg)
اسپیشل فیچر
ذرا غور کریں تو معلوم ہو گا کہ نظام قدرت کا استحکام بلاسبب نہیں ہے۔ انسان تو انسان کوئی بھی کیڑا مکوڑا، چرند، پرند قدرت نے بلاسبب پیدا نہیں کیا۔ ہر مخلوق کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ یہ الگ بات ہے تاحال انسانی تحقیق وہاں تک نہ پہنچ سکی ہو۔ بہت سارے حشرات الارض ایسے ہیں، بادی النظر میں جنہیں ہم کراہت اور نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن درحقیقت، درپردہ یہ انسانی زندگی کے محسن ہیں۔
یہ انکشاف شاید بہت سارے لوگوں کیلئے نیا ہو کہ اس روئے زمین پر 24 گھنٹے کام کرنے والا ''دنیا کا سب سے پہلا ماحولیاتی انجینئر‘‘ ایک ایسا کیڑا تھا جو عمومی طور پر مٹی کے اندر رہتا ہے۔ اس کی سب سے پہلی گواہی قدیم مصریوں نے دی تھی۔ جنہوں نے اس کیڑے کو ''چھوٹے خدا‘‘ کا درجہ دیا ہوا تھا۔ قدیم مصریوں کا یہ لقب بلاسبب نہیں تھا انہوں نے جب دیکھا کہ یہ ننھے کیڑے دریائے نیل میں سیلاب کے بعد زرخیز مٹی زمین تک لاتے رہتے ہیں تو انہوں نے انہیں اپنا محسن گردانتے ہوئے ''چھوٹا خدا‘‘ کا لقب دے ڈالا۔ قدیم مصریوں کیلئے دریائے نیل ایک مقدس دریا یوں تھا جو ان کی زراعت اور تجارت کے ساتھ ساتھ نقل و حمل کا اہم ذریعہ بھی تھا۔ جدید سائنس بھی اس نقطے پر متفق ہے کہ ''دریائے نیل میں سیلاب کے بعد زرخیز مٹی زمین تک لانے کا سہرا ان زیر زمین کیڑوں کے سر تھا جنہیں عرف عام میں ''کیچوے‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ مصر کی زمینوں کی زرخیزی کیچووں کے بغیر ویسی قطعاً نہ ہوتی جو عام طور پر ہوا کرتی ہے‘‘۔
کیچووں کی اہمیت کا اندازہ چارلس ڈارون کی 1881ء کی اس تحقیق سے بخوبی ہو جاتا ہے جس میں اس نے کہا تھا، ''اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ دنیا کی تاریخ میں اس سادہ سی مخلوق (کیچووں) سے زیادہ انسانوں کیلئے اہم کردارکسی اور جانور نے ادا کیا ہو‘‘۔
کیچوے دراصل ہیں کیا ؟
کیچوا، جسے انگریزی میں ''ارتھ ورم‘‘ کہتے ہیں بنیادی طور پر سرخ رنگ کا کیڑا ہوتا ہے جو عمومی طور پر برسات میں گیلی زمین میں پیدا ہوتے ہیں۔ عام طور پرزمین کے اندر چھپے اس کیڑے بارے لوگوں کی بیشتر تعداد انہیں مچھلیوں کی غذا سمجھ کر نظر انداز کر دیتی ہے یا مچھلی کے شکاری اس معصوم کیڑے کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر استعمال کرتے ہیں۔
کیچوے اتنے اہم کیوں ہیں
کیچوے زیر زمین اپنی رہائشی کالونیاں بنا کر مٹی کی ساخت کو بہتر بناتے ہیں۔یہ نامیاتی مواد اور مٹی کو اپنی خوراک کا حصہ بنا کر ایک طرف تو خوردبینی جرثوموں کا کام آسان بناتے رہتے ہیں جبکہ دوسری طرف یہ پودوں کے غذائی اجزا پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ پودے بھی وہاں بہتر پرورش پاتے ہیں جہاں زیر زمین کیچووں کی کالونیاں ہوتی ہیں۔
جرمن سنٹر فار انٹیگریٹیو بائیو ڈائیورسٹی ریسرچ سنٹر سے وابستہ ڈاکٹر ہیلن فلپس کا کہنا ہے کہ بہت کم لوگوں کو اس حقیقت کا علم ہے کہ کیچوے زرعی پیداوار بڑھانے اور زمین کو ہوادار رکھنے میں انتہائی مددگار ہیں، بدقسمتی سے اس انسان دوست کیڑے کو بری طرح نظر انداز کیاجارہا ہے۔
کیچوے چوبیس گھنٹے مٹی کھاتے رہتے ہیں اور بدلے میں انسانوں کو کمپوسٹ (نامیاتی کھاد)، جسے ماہرین '' بلیک گولڈ ‘‘ کہتے ہیں مہیا کرتے ہیں۔کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ایک طرف تو نم مٹی میں بل بنا کر رہنے والی یہ مخلوق زمین کی زرخیزی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف عالمی طور پر اس انسان دوست مخلوق بارے نہ صرف معلومات محدود ہیں بلکہ ان کی بقا کیلئے آج تک کبھی غور ہی نہیں کیا گیا۔
اب سے کچھ عرصہ پہلے ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ سمندری جڑی بوٹیوں کی مدد سے تیار کی گئی نامیاتی کھاد زمین میں کیچوے پیدا کرتے ہیں ، جو بنجر اور کمزور زمین کی مٹی کو اپنی خوراک کا حصہ بنا کر ایسا مواد خارج کرتے ہیں جو زمین کی زرخیزی بڑھا دیتے ہیں۔کیچوے زمین کی چند انچ کی اوپری سطح سے نیچے جاتے ہیں اور زمین کو نرم کرتے رہتے ہیں جس سے زمین کی قدرتی اور پیداواری صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔جس سے بنجر اور ناکارہ زمینیں بھی قابل کاشت بن جاتی ہیں۔
اسی تحقیق میں سائنس دانوں نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ کیچوے زمین کے اندر چار فٹ کی گہرائی تک پہنچ جاتے ہیں اور اپنا کام بلا تعطل جاری رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں یہ زمین دس انچ کی بجائے چالیس سے پچاس انچ تک قابل استعمال ہو جاتی ہے ، نتیجتاً اس قدرتی کھاد سے فصل میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔
کیچووں بارے جدید تحقیق
کچھ عرصہ پہلے دنیا بھر کے سائنسدانوں کی طرف سے کیچووں پر ایک تحقیقاتی رپورٹ میگزین '' سائنس‘‘ میں شائع ہوئی تھی ، جس میں دنیا بھر کے 57 ممالک میں کیچووں کی موجودگی کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا تھا۔یہ تحقیق دراصل ممکنہ طور پر 14 عشرے قبل ڈارون کے نظرئیے کے تناظر میں کی گئی تھی۔ تحقیق میں انٹارکٹکا کے علاوہ تمام براعظموں کے 57 ممالک کے 140 محققین نے حصہ لیا۔ اس میں 7000 سے زائد مقامات سے کیچووں کا ڈیٹا ، موسمیاتی اور ماحولیاتی صورتحال کاجائزہ لیا گیا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دنیا میں پہلا موقع تھا کہ ایک چھوٹے سے کیڑے کی خاطر دنیا بھر میں اس وسیع پیمانے پر اس قدر منظم تحقیق کا اہتمام کیا گیا ہو۔جس سے اس کیڑے (کینچوا ) کی اہمیت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ ان کی حیاتیاتی تنوع معتدل موسموں والے علاقوں میں گرم موسم والے علاقوں کی نسبت زیادہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسری دریافت یہ سامنے آئی کہ عالمی طور پر کیچوے زیر زمین اپنی کالونیاں بارش اور زمینی درجہ حرارت کو مدنظر رکھ کر بناتے ہیں۔
اسی تحقیق میں سائنسدانوں نے دنیا بھر کے انسانوں سے اپیل کی تھی کہ وہ زیر زمین اس انسان دوست معصوم کیڑے کی بقا کیلئے اپنا کردار اداکریں جو خاموشی سے بلاتعطل انسانی فلاح کیلئے مصروف کار رہتا ہے۔جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کیچووں کی 6 ہزار اقسام پائی جاتی ہیں۔ایک مربع میٹر زمین پر اوسطاً 150 کیچوے پائے جاتے ہیں۔جہاں تک ان کی لمبائی کا تعلق ہے عام طور پر یہ چند سنٹی میٹرلمبے ہوتے ہیں جبکہ اکثر علاقوں میں ان کی لمبائی تین میٹر تک بھی دیکھی گئی۔