سترہویں صدی : ایجادات و نظریات کا دور
![سترہویں صدی : ایجادات و نظریات کا دور](https://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/27711_44588870.jpg)
اسپیشل فیچر
سترہویں صدی میں سائنس کی نشوؤنما اور ترقی پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس صدی میں بہت سا کام ہوا۔ اس صدی کی ابتداء میں گلیلیو نے ایسی دوربین تیار کی جو بہت دور واقع اجسام کو بہت بڑا کر کے دکھا سکتی تھی۔ جب گلیلیو نے اپنی دوربین کا رخ چاند کی طرف موڑا تو اس نے دیکھا کہ چاند کی سطح صاف و شفاف نہیں ہے، جیسا کہ زمین سے یہ دکھائی دیتا ہے بلکہ اس کی سطح پر بڑے بڑے پہاڑ ہیں۔ اس نے یہ بھی دیکھا کہ مشتری سیارہ کے خود اپنے چاند ہیںجو اس کے اطراف اسی طرح گھومتے رہتے ہیں جس طرح چاند زمین کے اطراف گھومتا ہے۔
گلیلیو اطالوی ماہر فلکیات اور فلسفی تھا۔ سائنسی انقلاب پیدا کرنے میں اس کا کردار اہم ہے۔ اس نے اشیا کی حرکات، دوربین، فلکیات کے بارے میں بیش قیمت معلومات فراہم کیں۔ اسے جدید طبیعیات کا بانی کہا جاتا ہے۔ گلیلیو نے مرکب خوردبین تیار کی۔ اس ایجاد کے بعد ایسے چھوٹے چھوٹے ذرات اور اجسام کو دیکھنا ممکن ہو گیا جن کو سادہ آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔
ارسطو کا نظریہ تھا کہ بھاری اجسام ہلکے اجسام کی نسبت زیادہ شتابی سے زمین کی طرف لپکتے ہیں۔ نسل درنسل ماہرین اور سکالر یونانی فلسفی پر اعتماد کرتے ہوئے اس نظریہ کو درست تسلیم کرتے رہے۔ گلیلیو نے اس کی آزمائش کافیصلہ کیا۔ آزمائشوں کے ایک سلسلہ کے ذریعے اس نے جلد ہی معلوم کرلیا کہ ارسطو کا خیال درست نہیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وزنی اور ہلکے اجسام ایک سی رفتار سے نیچے گرتے ہیں۔
جرمن ماہرفلکیات جوہانس کیپلر نے جو گلیلیو کا ہم عصر تھا، ریاضی کی مدد سے ثابت کیا کہ سورج کے اطراف سیارے بیضوی مدار میں گردش کرتے ہیں (کوپر نیکس کے نظریہ کے برخلاف)۔ سیاروں کی حرکت کے بارے میں بھی اس نے قوانین مدون کیے۔ یہ قوانین آج تک فلکیات کے مطالعہ میں استعمال ہوتے ہیں اور فی زمانہ مصنوعی سیاروں کے مداروں کے تعین کیلئے ان سے کام لیا جاتا ہے۔ کیپلر نے یہ بھی معلوم کیا کہ کہکشاں بہت سے تاروں کا ایک مجموعہ ہے۔
انگریز طبیب ولیم ہاروے نے سترہویں صدی کے اوائل میں سب سے پہلے اشکال کے ذریعہ انسانی جسم میں خون کے دوران کو وضاحت سے پیش کیا اور اس نے اپنی کتاب ''دل اور خون کی حرکت‘‘ شائع کی۔ ہاروے کی ان تحقیقات نے انسانی جسم کے مطالعہ میں انقلابی تبدیلی پیدا کر دی۔ یہ فعلیات کا باوا آدم سمجھا جاتا ہے۔ خوردبین کی ایجاد نے حیاتیات کے مطالعہ کو بہت ترقی دی۔
انتونی وان لیون ہوک نے خوردبین کی مدد سے نہایت چھوٹے جانداروں کا مطالعہ کیا۔ اس نے دیکھا کہ بظاہر صاف و شفاف پانی میں بہت سے چھوٹے چھوٹے حیوانات ہوتے ہیں جن کو اب پروٹوزوا کہتے ہیں۔ اس نے پہلی مرتبہ خوردبین میں دیکھا کہ خون میں سرخ خلیے یا جسیمے پائے جاتے ہیں۔
رابرٹ ہک نے خوردبین میں پودوں کی جانچ کر کے بتایا کہ نباتی جسم چھوٹی چھوٹی اکائیوں کے ایک سلسلہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان اکائیوں کو اس نے خلیوں کے نام سے موسوم کیا۔
سترہویں صدی کا سب سے مشہور سائنس دان سر آئزک نیوٹن ہے۔ اس کے مشہور کارناموں میں زمین کی کشش ثقل کا نظریہ، روشنی کا نظریہ، مادہ کی ذراتی ساخت کا نظریہ اور حرکت کے کلیے ہیں۔
نیوٹن نے اپنی سائنسی تحقیقات کا آغاز روشنی کے مطالعہ سے کیا تھا۔ اس نے منشور کے ذریعے سورج کی روشنی کا مطالعہ کر کے بتایا کہ سفید روشنی دراصل 7 مختلف روشنیوں کے ملنے سے بنتی ہے۔ نیوٹن کی مشہور تالیف ''طبیعی فلسفہ کے ریاضیاتی اصول‘‘ ہے یہ کتاب 1687ء میں طبع ہوئی تھی۔
سترہویں صدی کا مشہور کیمیا دان رابرٹ بوائل (1691-1627ء) تھا۔ وہ پہلا شخص تھا جس نے علم کی خاطر کیمیا کا مطالعہ کیا، نہ ادنیٰ دھاتوں کو سونے میں تبدیل کرنے کی نیت سے کیا اور نہ ہی اکسیرحیات اور دوائیں تیار کرنے کے ارادے سے کیا۔ اس نے کیمیا کے مطالعے کے لیے تجرباتی طریقوں پر سختی سے عمل کیا اور ارسطو کے نظریۂ عناصر اور کیمیاگروں کے عناصر اربعہ کے نظریوں کو غلط ثابت کر دکھایا۔ اس نے بتایا کہ دھاتوں سے کسی طریقہ سے بھی ان ''عناصر‘‘ کو حاصل نہیں کہا جا سکتا اور نہ سونے سے پارہ یا گندھک حاصل کی جا سکتی ہے۔
قدیم زمانہ میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ پارہ اور گندھک کے امتزاج سے سونا بنتا ہے۔ اس نے سب سے پہلے کیمیائی عنصر کی تعریف بیان کی۔ اس نے بتایا کہ عنصر ایک ایسی شے ہے جس کو کسی معلوم طریقہ سے دو یا دو سے زیادہ سادہ اشیاء میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ رابرٹ بوائل کا کام جدید کیمیا کا نقطۂ آغاز مانا جاتاہے۔
سترہویں صدی کی تحقیقات کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس صدی کے وسط تک ارسطو کی طبیعیات اورعلم کائنات کا خاتمہ ہو گیا۔ دور بین کی ایجاد نے اس تصور کو بھی غلط ثابت کر دیا کہ زمین اجرام فلکی میں مرکز کی حیثیت رکھتی ہے۔ مادہ کی ماہیئت کے بارے میں ایک نئے تصور نے جنم لیا۔ معدنیات کے بارے میں معلومات کے اضافہ اور فنّیات کی ترقی کے باعث کیمیا گری کی جگہ علم کیمیا نے لے لی۔ طبیعی علوم میں تجربوں اور مشاہدوں سے حاصل ہونے والے نتائج کو ریاضی کی شکلوں میں ظاہر کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا۔ حیاتیاتی علوم میں ارسطو کے طریقوں سے کام لے کر حیوانات اور نباتات کی جماعت بندی کی گئی۔
سترہویں صدی کے ختم ہونے تک سائنسی علوم نے اس قدر ترقی کر لی تھی کہ ان کو مختلف شعبوں میں تقسیم کرنا ناگزیر ہو گیا۔ ان کے دو بڑے شعبے بنائے گئے۔ طبیعی علوم اور حیاتیاتی علوم۔ یہ شعبے بھی خود اتنے وسیع ہیں کہ ان کی بھی تقسیم در تقسیم ضروری ہو جاتی ہے۔