گلوکارہ نازیہ حسن
موت اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور یہ ایک ایسا خوف ہے جو ہر زندہ آدمی کے ذہن پر مسلط رہتا ہے۔ جو بھی دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن واپس ضرور جانا ہے۔ یہی قانون فطرت ہے مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی زندگی میں کچھ نہ کچھ ایسا کر جاتے ہیں، یا ایسی یادیں چھوڑ جاتے ہیں کہ وہ مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنی خوبصورتی ، کچھ اپنے اخلاق اور کچھ اپنے فن کی بدولت نہ صرف اپنی زندگی میں بلکہ مرنے کے بعد بھی لوگوں کے درمیان موضوع بحث رہنے رہتے ہیں اور جب بات ہو خوبصورتی، اخلاق اور فن کی تو فوراً ایک ہی چہرہ نظروں کے سامنے آتا ہے جو نازیہ حسن کا ہے۔
24 سال قبل اس دنیا سے منہ موڑ کر سفر آخرت پر چلی جانے والی نازیہ حسن ایک ایسی خاتون تھیں کہ وہ جب منظر عام پر آئیں تو فوراً ہی لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیا کیونکہ وہ صرف خوبصورت ہی نہیں بلکہ اچھے اخلاق اور سریلی آواز کی بھی مالک تھیں۔کالے بالوں اور برائون آنکھوں والی گلو کارہ نازیہ حسن نے انتہائی مختصر عرصے میں موسیقی کی دنیا میں جو شہرت اور مقبولیت حاصل کی وہ بہت کم لوگوں کے حصہ میں آتی ہے۔ نازیہ نے نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت میں بھی پاپ میوزک کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔
نازیہ حسن 3اپریل1963ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں اور لندن میں تعلیم مکمل کی۔ نازیہ پولیٹیکل سائنس میں گریجویشن اور بار ایٹ لاء کرنے کے بعد اقوام متحدہ کے ایک ادارے میں سیاسی تجزیہ نگار کے عہدے پر فائز رہیں۔ نازیہ حسن انتہائی قابل اور ذہین خاتون تھیں۔ تعلیم کا میدان ہو، شعبہ گلو کاری یا اقوام متحدہ کی نوکری نازیہ نے ہر جگہ خود کو منوایا۔ جب تک وہ تعلیم کے حصول کیلئے سرگرداں رہیں ہر امتحان میں اچھے نمبروں اور اعلیٰ پوزیشن کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔جب گلو کاری کے میدان میں آئیں تو نا صرف پاکستان بلکہ بھارت اور انگلینڈ میں بھی اپنے چاہنے والوں کی ایک بڑی تعداد پیدا کی اور جب اقوام متحدہ کی نوکری کی تو منفرد کارنامے انجام دیئے۔
وہ لاکھوں افراد کی پسندیدہ گلو کارہ اور پاکستان میں بلاشبہ پاپ سنگنگ کی بلاشرکت غیر ملکہ تھیں۔ نازیہ حسن کو اس جہاں سے رخصت ہوئے 24 سال بیت چکے ہیں مگر وہ اپنی خوبصورت آواز اور گیتوں کی بدولت آج بھی اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ نازیہ حسن گلوکاری کے میدان میں کوئی منصوبہ بندی کرکے نہیں آئی تھیں۔ انہوں نے گلو کاری شوقیہ طور پر سیکھی مگر 1980ء میں ایک تقریب کے دوران بھارتی اداکار فیروز خان سے ہونے والی ملاقات انہیں پروفیشنل گلو کاری کی طرف لے آئی۔ جن کی فلم ''قربانی‘‘ کیلئے نازیہ نے اپنا مشہور گیت ''آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے تو بات بن جائے‘‘ ریکارڈ کروایا۔ یہ گیت جب ریلیز ہوا تو اس نے ہر طرف دھوم مچا کر رکھ دی اور اس گیت کو گانے والی یہ نو عمر لڑکی دیکھتے ہی دیکھتے شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگی۔ نازیہ نے جب یہ گیت گایا تو ان کی عمر 17برس تھی۔
پی ٹی وی کے پروگرام ''تمہارے دوست ہمارے‘‘ سے نازیہ حسن نے اپنے کریئر کا آغاز کیا جس کے میزبان سہیل رعنا ہوا کرتے تھے۔ نازیہ نے اپنے بھائی زوہیب کے ساتھ بے شمار پروگراموں میں شرکت کی اور جب باقاعدہ گلو کاری کے میدان میں قدم رکھا تو جلد ہی اپنے منفرد انداز کے باعث پاکستانی نوجوانوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اپنی تمام تر شہرت اور میڈیا کی محبوب ترین شخصیت ہونے کے باوجود ان کا میڈیا سے ہمیشہ ایک فاصلہ رہا مگر جتنا وہ میڈیا سے دور رہنا چاہتی تھیں اتنا ہی انہیں اخبارات میں جگہ ملتی۔ اسی شہرت کی وجہ سے لندن میں بھی نازیہ کا کہیں آنا جانا محال تھا۔ اسی لئے تعلیم مکمل کرتے ہی نازیہ نیویارک چلی گئیں۔
نازیہ حسن کی کراچی کے صنعتکار اشتیاق بیگ سے شادی ہوئی۔ نازیہ کی اشتیاق بیگ کی بہن آفرین بیگ مرحومہ سے دوستی تھی ، جس کی وجہ سے ان کے گھر آنا جانا ان کا معمول تھا۔ اس کے باوجود جب اشتیاق بیگ نے ان کے گھر شادی کا پیغام بھجوایا تو اسے نازیہ کے والدین نے مسترد کردیا، مگر جب نازیہ پر اس بات کا انکشاف ہوا کہ انہیں معدے کا کینسر ہے تو پورے خاندان پرگویا ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ اشتیاق بیگ نے اس حالت میں بھی نازیہ کو قبول کرنا پسند کیا اور گھر والوں کی مخالفت کے باوجود نازیہ کے گھر رشتہ بھجوایا جسے اس کے گھر والوں نے قبول کر لیا اور یوں دونوں ایک دوسرے کے ہو گئے۔
نازیہ حسن کے شوہر اشتیاق بیگ پاکستان کی معروف کاروباری شخصیت ہیں۔آج کل وہ پاک مراکو بزنس فورم کے صدر، پاکستان مسلم لیگ (ن)کے بزنس فورم کے صدر، مراکو کے اعزازی کونسل جنرل، کالم نگار اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔ اس کے ساتھ بین الاقوامی این جی او ''میک اے وش‘‘ کے پاکستان میں بانی ہیں۔ اشتیاق بیگ کے مطابق نازیہ کو گھومنے پھرنے کا بہت شوق تھا اور ہم نے 5سالہ ازدواجی زندگی میں تقریباً 25ممالک کی سیر کی۔ انہیں اٹلی کا شہر وینس بہت پسند تھا۔ وہ سوئمنگ، ایکسر سائز کرنے اور سمندر پر جانے کی بے حد شوقین تھیں۔ سوئمنگ اور ایکسر سائز کی اس قدر دلدادہ تھیں کہ انہوں نے گھر کے اندر بیسمنٹ میں جم، سوئمنگ پول بنوایا اور اس کے چاروں طرف دیواروں پر اپنے پسندیدہ شہر وینس کی پینٹنگز بنوائیں۔ پاکستان میں وہ دال چاول بہت شوق سے کھاتیں مگر بیرون ملک وہ تھائی فوڈز پسند کرتی تھیں۔مجھے نازیہ کا گیت ''ٹالی دے تھلے بہہ کے‘‘ بہت پسند ہے۔اشتیاق بیگ نے بتایا کہ نازیہ حسن ایک سلجھی ہوئی پڑھی لکھی اور تعاون کرنے والی لڑکی تھیں، وہ گھر کے کام کاج کرنے کے ساتھ ساتھ دفتری کاموں میں بھی میرا ہاتھ بٹاتیں۔وہ دفتر کے ملازمین کے ساتھ بھی بہت گھل مل جاتی تھیں۔نازیہ انتہائی نڈر لڑکی تھیں مگر چھپکلی سے وہ بہت ڈرتی تھیں۔
شادی کے دو سال بعد نازیہ کے گھر کے آنگن میں ایک پھول کھلا، بیٹے عارض کے اس دنیا میں آنے سے نازیہ کی دنیا سمٹ کر اپنے بیٹے تک محدود ہو گئی۔ بیٹے کی پرورش اپنے پاک وطن میں کرنے کی خواہش نے نازیہ کو لندن سے کراچی منتقل ہونے پر مجبور کیا۔ کینسر کی مریضہ کیلئے شادی اتنی خطرناک نہیں جتنی بچہ پیدا کرنا ہے۔ بھائی زوہیب کی شادی کے چند روز بعد انہیں علم ہوا کہ چار سال قبل ڈاکٹروں نے جس مرض سے نجات کا مژدہ سنایا تھا وہ ایک بار پھر پوری شدت سے ان پر حملہ آور ہوچکا ہے۔ اس مرتبہ اس کا نشانہ معدے کے ساتھ ساتھ پھیپھڑے بھی تھے۔ لندن میں دو سال اس بیماری کے ساتھ نبرد آزما رہنے کے بعد نازیہ13اگست2000ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔
نازیہ کی وفات کے بعد ان کے شوہر اور والدین کے مابین ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا جس کے باعث مرحومہ کے دو پوسٹ مارٹم ہوئے۔ بیوی کی میت کو مزید بے حرمتی سے بچانے کیلئے اشتیاق بیگ نے مقامی عدالت میں لکھ کر دے دیا کہ ان کی بیوی کی میت ان کے والدین کو دے دی جائے تاکہ اس کی تدفین ہو سکے۔ نازیہ کو موت کے سترہ دن بعد زمین کی گود نصیب ہوئی۔
چند مقبول گیت
(1) ڈسکو دیوانے
(2)بوم بوم
(3)آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے
(4)آنکھیں ملانے والے
(5)ٹالی دے تھلے بہہ کے
(6)دوستی
(7)ڈم ڈم ڈی ڈی
(8)کوئی نہیں
(9)دل کی لگی
(10)پیار کا جادو