یادرفتگاں: راشد منہاس شہید
اسپیشل فیچر
پاکستان کی تاریخ ،جرات ،بہادری اورسنہرا باب رقم کرنے والے وطن کے عظیم سپوت پائلٹ آفیسرراشد منہاس شہید (نشان حیدر) کا 53 واں یوم شہادت آج منایا جارہا ہے۔ قومی ہیرو راشد منہاس شہید کی بہادری اورعظیم قربانی کے 53 سال مکمل ہونے پر پوری قوم پاکستان کے اِس بہادربیٹے کو سلام ِعقیدت پیش کرتی ہے۔
راشد منہاس کے خاندان کا تعلق گرداس پور جموں کشمیر سے تھا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد ان کا خاندان پاکستان آ گیا اور سیالکوٹ کے قریب قیام پذیر ہوئے۔ کچھ عرصہ لاہور اور راولپنڈی میں قیام کیا اور پھرکراچی شفٹ ہو گئے۔ راشد منہاس 17 فروری 1951ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔
جب 6 ستمبر 1965ء کی جنگ میں راشد منہاس کی عمر 14 سال تھی۔ اس جنگ میں ایم ایم عالم نے سرگودھا کے محاذ پر پانچ بھارتی جنگی طیارے ایک منٹ کے اندر گرا کر عالمی ریکارڈ بنایا تھا۔ راشد منہاس نے اسی وقت فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ بڑے ہو کر اقبال کے شاہین کی طرح دشمنوں کا فضائوں میں مقابلہ کریں گے۔ راشد منہاس کی ڈائری سے پتا چلتا ہے کہ 6ستمبر کی جنگ نے راشد منہاس کے مقصد حیات کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سولہ سال کی عمر میں انہوں نے او لیول کیا اور پھر جامعہ کراچی سے ملٹری اینڈ ایوی ایشن ہسٹری کی تعلیم حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے پاکستان ایئر فورس میں شمولیت اختیار کرنے کا ارادہ کیا۔
ان کے خاندان کے بہت سے افراد مسلح افواج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ ان کے ماموں ونگ کمانڈر سعید نے راشد منہاس کا جذبہ، شوق کو سامنے رکھتے ہوئے کوشش کی اور راشد منہاس نے 1968ء میں پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کر لی۔ انہیںتربیت کیلئے کوہاٹ اور کچھ عرصہ بعد رسالپور بھیج دیا گیا۔13 مارچ 1971ء کو انہو ں نے پاک فضائیہ میں کمیشن حاصل کیا۔
20 اگست 1971ء کی بات ہے کہ راشد منہاس مسرور ایئر بیس سے اپنی تیسری تنہا پرواز کیلئے ''ٹی۔33‘‘جیٹ سے روانہ ہونے لگے تو اچانک ان کے بنگالی انسٹرکٹرمطیع الرحمان نے انہیں رکنے کا اشارہ دیا اور طیارے میں سوار ہوگئے حالانکہ ایسی پروازیں تنہا کی جاتی ہیں۔ نہ صرف مطیع الرحمن طیارے میں سوار ہوئے بلکہ انہوں نے طیارہ خود کنٹرول کرنا شروع کر دیا۔ خیر جب راشد منہاس نے محسوس کیا کہ مطیع الرحمان طیارے کو اڑا کر بھارت لے جانا چاہتے ہیں تو راشد منہاس نے اس موقع پرپی اے ایف مسرور بیس میں صبح ساڑھے گیارہ بجے کے قریب رابطہ کیا اور طیارے کے اغوا ہونے سے متعلق آگاہ کیا۔ کنٹر ول ٹاور پر نشر ہونے والے راشد منہاس شہید کے آخری پیغام، ان کی چیختی ہوئی آوازیں، اس بات کی گواہ ہیں کہ ان پیغامات کو نشر کرتے وقت وہ کسی سے دست و گریبان تھے۔ وہ کہہ رہے تھے '' میں۔۔ میں طیارے کو دشمن کے ہاتھوں میں نہیں جانے دوں گا۔۔آپ انسٹرکٹر کے۔۔ ساتھیوں کا پتا چلوائیں‘‘ یہ آخری الفاظ تھے۔ اس وقت طیارہ بھارت کی سرحد سے 64 کلو میٹر دور تھا۔
جب راشد منہاس شہید کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ اب طیارے پر قابو پانا ان کے بس میں نہیں رہا تو ان کے سامنے دو راستے تھے۔ اوّل یہ کہ طیارہ اغوا ہونے دیا جائے۔ اس سے ایک تو وہ قیدی بن جاتے۔ ایک طیارے کا ملک کو نقصان ہوتا اور مطیع الرحمن جو پاکستان کے راز اپنے ساتھ لے جا رہا تھا وہ بھی دشمن کے ہاتھ لگ جاتے۔ دوسرا راستہ طیارہ اور پاکستان کے قیمتی راز دشمن کے ہاتھوں لگنے سے بچایا جا سکتا تھا اور یہ راستہ شہادت کا تھا۔
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
''میں جنگی قیدی بننے سے مرجانا بہتر سمجھتا ہوں‘‘۔ راشد منہاس نے اپنی شہادت سے چند دن پہلے اپنی چھوٹی بہن سے کہا تھا۔ ان سب باتوں پر خوبصورت آنکھوں والے، دبلے پتلے،چست بدن کے بیس سالہ نوجوان نے سوچا تو ہو گا۔ پھر اس نے طیارے کا رخ زمین کی طرف کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے طیارہ گرکر تباہ ہو گیا۔ اس وقت انڈین بارڈر سے 32میل کے فاصلے پرطیارہ گر کر تباہ ہوا تھا۔ جس جگہ طیارہ گرا تھا اسے اب ''شہید ڈیرہ‘‘ کا نام دے دیا گیا ہے۔ پہلے اس کا نام ''جنڈے ‘‘ تھا۔ یہ علاقہ کراچی سے شمال مشرق کی طرف دریائے سندھ کے کنارے تھوڑے فاصلے پر واقع ہے۔ قوم وطن کے اس ہونہار فرزند کو سلام پیش کرتی ہے۔ جب تک ملک کے دفاع کرنے والے ایسے اقبالؒ کے شاہین سلامت ہیں، دشمن اس ملک کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔
حکومت پاکستان نے راشد منہاس کو اعلیٰ ترین فوجی اعزاز ''نشانِ حیدر‘‘ سے نوازا۔ وہ اعلیٰ ترین فوجی اعزاز حاصل کرنے والے مسلح افواج کے کم عمر ترین اور پاک فضائیہ کے واحد افسر ہیں۔ ''نشان ِحیدر‘‘ پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے اور اس کے علاوہ اٹک میں قائم کامرہ ایئر بیس کو ان کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہے۔