دنیا کا پہلا ان پڑھ سرجن
اسپیشل فیچر
کیپ ٹاؤن، جنوبی افریقہ کا ایک مشہور اور خوبصورت ساحلی شہر ہے، جسے متعدد معاملات میں انفرادیت حاصل ہے۔ یہاں کے '' رابن جزیرہ‘‘ پر نسل پرست مخالف رہنما اور نوبل انعام یافتہ نیلسن منڈیلا کو 18سال پابند سلاسل رکھا گیا تھا۔کیپ ٹاؤن کو نباتات کا گھر اور سیاحوں کی جنت بھی کہا جاتا ہے۔اس شہر کو یہ سعادت بھی حاصل ہے کہ 1967ء میں دنیا کا سب سے پہلا بائی پاس آپریشن یہیں پر ''کیپ ٹاؤن میڈیکل یونیورسٹی ‘‘ میں کیا گیا تھا۔ ذکر کیپ ٹاؤن میڈیکل یونیورسٹی کا چھڑا ہے تو آپ کو اسی سے جڑا ایک منفرد اور حیرت انگیز واقعہ سناتے ہیں۔
یہ ذکر ہے ایک ایسے سرجن ڈاکٹر کا جس نے آج تک کبھی کسی سکول کی شکل تک نہیں دیکھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ نہ تو انگریزی کا کوئی لفظ پڑھ سکتا تھا اور نہ ہی لکھ سکتا تھا ۔ لیکن اسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے جنوبی افریقہ کی نامور ''کیپ ٹاؤن میڈیکل یونیورسٹی ‘‘ کے تیس ہزار طالبعلوں کو تربیت دی اور وہ بھی سرجری جیسے اہم شعبے کی۔یادرہے کہ یہ وہی یونیورسٹی ہے جہاں دنیا کا سب سے پہلا ''بائی پاس‘‘ آپریشن کیا گیا تھا۔
ہملٹن نامی اس ان پڑھ سرجن کو جسے کیپ ٹاؤن میڈیکل یونیورسٹی میں بعد ازاں ماسٹر آف میڈیسن کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا تھا کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ یہ دنیا میں سب سے زیادہ سرجن تیار کرنے والا استاد تھا۔
2003ء کا ایک دن تھا،کیپ ٹاؤن میڈیکل یونیورسٹی کے مرکزی آڈیٹوریم میں معمول سے ہٹ کر چہل پہل تھی۔ یونیورسٹی کا آڈیٹوریم طلبا،تدریسی عملے اور انتظامیہ سے کھچا کچھ بھرا ہوا تھا۔اس دوران سٹیج پر نمودار ہو کر دنیا کے معروف اور نامور سرجن ڈاکٹر پروفیسر ڈیوڈ ڈینٹ نے اعلان کیا کہ یونیورسٹی آج ایک ایسے شخص کو میڈیسن کی اعزازی ڈگری دے رہی ہے جسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے دنیا میں سب سے زیادہ سرجن تیار کئے ہیں۔یہ ایک غیر معمولی استاد ، ایک حیران کن ماہر سرجن ہے۔ جس نے انسانی دماغ کو حیران کر دیا ہے۔ حاضرین کی حیرت میں اس وقت اور بھی اضافہ ہوا جب پروفیسر ڈیوڈ ڈینٹ نے سٹیج پر ہیملٹن کانام پکارا۔ یہ اعلان سنتے ہی پورے آڈیٹوریم نے کھڑے ہو کر ہیملٹن کو خراج تحسین پیش کیا اور کافی دیر تک ہال تالیوں سے گونجتا رہا۔ مورخین کہتے ہیں یہ اس یونیورسٹی کی تاریخ کا سب سے بڑا استقبال تھا۔
ایک طرف جہاں دنیا میں یہ واقعہ حیران کن ہے، وہیں دوسری طرف ہیملٹن کی ذات ہم سب کیلئے ایک مثال ہے۔ہیملٹن کا تعلق بنیادی طور پر کیپ ٹاؤن سے دور دراز ایک چھوٹے سے گاؤں سنیٹانی سے تھا۔اس کے والدین بھیڑ بکریاں پال کر اپنا گزر بسر کرتے تھے۔یہ بھی شروع شروع میں والدین کے ساتھ مل کر بکریاں چرایا کرتا تھا ۔ اس دوران اس کا والد صاحب فراش ہوا تو کنبے کا سارا بوجھ اس کے کندھوں پر آن پڑا۔ جب اس کام میں گزر بسر مشکل ہوا تو یہ کیپ ٹاؤن آگیا تاکہ محنت مزدوری کر کے اپنا اور خاندان والوں کا پیٹ پال سکے۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب کیپ ٹاؤن میڈیکل یونیورسٹی کا تعمیراتی کام ہو رہا تھا۔وہ یونیورسٹی میں مزدور بھرتی ہو گیا۔یہ اپنے گزر بسر کے پیسے رکھ کر اضافی رقم گھر والوں کو بھجواتا رہا۔ جب تعمیراتی کام اختتام کو پہنچا تو یہ یونیورسٹی میں مالی بھرتی ہو گیا۔اس کی ذمہ داریوں میں سائنس لیبارٹری کے سامنے پارک میں گھاس کاٹنا تھا۔یہ اسی جگہ تین سال تک کام کرتا رہا۔ پھر اس کی قسمت نے اسے ایک ایسے مقام تک پہنچا دیا جسے بادی النظر میں عقل بھی تسلیم کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔
بڑوں سے سنتے آئے ہیں کہ قدرت جب کسی کو عروج دینا چاہتی ہے تو اسباب بھی وہ خود ہی پیدا کر لیتی ہے۔ اس کے پارک کے عین سامنے اسی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر رابرٹ جوئز اپنی لیبارٹری میں ایک انوکھا تجربہ کر رہے تھے۔ ان کی تحقیق ایک زرافے پر تھی جسے انہوں نے آپریشن ٹیبل پر بے ہوش کر رکھا تھا۔جونہی انہوں نے آپریشن شروع کیا تو زرافہ نیم بے ہوشی میں حرکت کرنے لگ گیا جسے فوری سنبھالنے کیلئے انہیں ایک مددگار کی ضرورت پڑی۔ اچانک ان کی نظر سامنے پارک میں کام کرتے ہیملٹن پر پڑی۔پروفیسر نے اسے بلا کر مضبوطی سے زرافے کی گردن تھامنے کی ہدایت کی۔یہ آپریشن 8 گھنٹے پر محیط تھا۔ اس دوران پروفیسر اور ان کی ٹیم کے لوگ چائے کافی کے وقفے کرتے رہے لیکن ہیملٹن مضبوطی سے زرافے کو تھامے کھڑا رہا۔ اگلے دن پھر پروفیسر نے اسے بلا لیا۔ وہ آیا اور پھر زرافے کو پکڑ کر کھڑا رہا۔یہ عمل کئی ماہ تک جاری رہا۔ یہ آتا آپریشن تھیٹر میں پروفیسر اور اس کی ٹیم کی مدد کرتا اور پھر واپس پارک میں جا کر اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتا۔ اس دوران اس نے نہ تو اپنی ڈیوٹی اور نہ ہی پروفیسر کی ڈیوٹی سے کبھی کوئی کوتاہی برتی،نہ ہی کبھی کسی معاوضے کا مطالبہ کیا۔
پروفیسر رابرٹ اس کے اندر چھپی صلاحیتوں کو بھانپ چکے تھے۔ اس لئے انہوں نے اسے مالی سے '' لیبارٹری معاون مددگار‘‘ بنا دیا۔ ہیملٹن یہاں بھی اپنی ذمہ داریوں کو انتہائی احسن طریقے سے نبھاتا رہا اور لیبارٹری میں موجود سرجنوں کے اعتماد میں اضافہ کرتا چلا گیا۔ 1958ء کا سال طب کی دنیا میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا، جب اسی یونیورسٹی میں ڈاکٹر کرسچن برنارڈ آئے اور انہوں نے دل کے امراض کے آپریشن کا آغاز کیا۔یہاں بھی ان کی نظر ہیملٹن پر پڑی جو اس لیبارٹری میں اپنی صلاحیتوں کا سکہ منوا چکے تھے۔ڈاکٹر برنارڈ کے ہر آپریشن میں ہیملٹن ہی ان کے مددگار ہوتے۔ ڈاکٹر برنارڈ انہیں آپریشن کے بعد کچھ دیر کیلئے مریض کو ٹانکے لگانے کا کام سونپتے۔اس کے بعد رفتہ رفتہ سب ڈاکٹروں نے انہیں ٹانکے لگانے کا کام سونپنا شروع کر دیا۔ہیملٹن کے لگائے ہوئے ٹانکے اس قدر صفائی اور مہارت سے لگے ہوتے کہ ڈاکٹر خود ششدر رہ جاتے۔
اب ڈاکٹر برنارڈ نے انہیں ترقی دے کر اپنا ''آپریشن اسسٹنٹ‘‘ بنا دیا کیونکہ وہ جان چکے تھے کہ ہیملٹن پر دوران آپریشن ہر طرح کا اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر برنارڈ نے جلد ہی اسے اپنے آپریشن اسسٹنٹ سے'' ایڈیشنل سرجن‘‘ بنا دیا۔ اب ڈاکٹر آپریشن کر کے مریض اس کے حوالے کرتے اور یہ ٹانکے لگاتا۔ اس کے ہاتھوں میں اس قدر مہارت اور صفائی تھی کہ خود ڈاکٹر بھی داد دئیے بغیر نہ رہتے۔ یہ دن میں درجنوں مریضوں کو ٹانکے لگاتا۔یہ رفتہ رفتہ انسانی جسم کو بڑے بڑے سرجنوں سے زیادہ بہتر سمجھنے لگا تو یونیورسٹی انتظامیہ نے اسے جونیئر ڈاکٹروں کو آپریشن تھیٹر کی تکنیک بارے تربیت دینے پر مامور کر دیا۔ یہ بہت جلدیونیورسٹی کی ہر دل عزیز شخصیت بن چکا تھا اور سرجری کے شعبے کے ڈاکٹر اس بات کے معترف تھے کہ یہ ایک بہترین سرجن ہے۔
یہ اپنے شعبے سے اس قدر مخلص تھا کہ اس کا دن کا بیشتر حصہ یونیورسٹی کے آپریشن تھیٹر میں گزرتا۔یہ ہر لمحہ کچھ نہ کچھ کھوجنے میں لگا رہتا۔ ایسے میں جب 1970ء میں اسی یونیورسٹی میں جگر پر تحقیق کا سلسلہ وسیع ہوا تو اس نے دوران آپریشن ایک ایسی شریان کا پتہ لگا لیا جس کے باعث جگر کی منتقلی آسان ہو گئی۔اس کی اس نشاندہی نے میڈیکل کے بڑے بڑے دماغوں کو حیرت میں ڈال دیا۔
ا س کی کامیابی کا راز کیا تھا؟
ہیملٹن طب کی دنیا کا پہلا اور واحد ان پڑھ استاد اور سرجن تھا۔ یہ اس لحاظ سے بھی یکتا تھا کہ اس نے ان پڑھ ہوتے ہوئے بھی تیس ہزار سے زائد سرجنوں کو تربیت دی اور '' سرجنوں کا سرجن‘‘ کہلایا۔ یہ 2005ء میں فوت ہوا تو اسے یونیورسٹی کے احاطے میں پورے اعزاز سے دفن کیا گیا۔ اس کے بعد یہ روایت قائم کی گئی کہ ہر طالبعلم اسے خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ڈگری لینے کے بعد اس کی قبر پر حاضری دیتا ہے۔
آخر ایسا کیوں نہ ہو
پچاس سالہ خدمات کے دوران اس نے کبھی ایک چھٹی بھی نہیں کی۔ یہ رات تین بجے گھر سے نکلتا اور 14 میل کی مسافت پیدل طے کرتا۔اس کا معمول تھا یہ صبح ٹھیک 6 بجے تھیٹر میں داخل ہو رہا ہوتا تھا۔پچاس سالہ خدمات کے دوران اس نے کبھی تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ نہیں کیا۔ اس کی زبان سے کبھی اوقات کار کی طوالت کا شکوہ بھی نہیں سنا گیا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس کی تنخواہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے بھی زیادہ تھی۔