نسیم بیگم:خداداد صلاحیتوں سے مالامال گلوکارہ
نسیم بیگم کا شمار پاکستان کی ان خاتون گلوکارائوں میں ہوتاہے جنہوں نے 60ء کی دہائی میں اپنی دل نشین آواز کا جادو بکھیرا اور بہت جلد عوام کے دلوں میں گھر کر گئیں۔50ء کی دہائی میں زبیدہ خانم چھائی رہیں۔ وہ بلاشبہ ایک بے مثل گلوکارہ تھیں۔ لیکن یہاں اس حقیقت کو مدنظر رکھا جائے کہ زبیدہ خانم نے زیادہ تر پنجابی نغمات گائے جبکہ نسیم بیگم نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں گیت گا کراپنی فنی عظمت کا سکہ جمایا۔ تیکھی آواز کی مالکہ نسیم بیگم نے اردو اور پنجابی گیتوں کے علاوہ کچھ ملی نغمات بھی گائے جنہوں نے ان کی شہرت میں مزید اضافہ کیا۔ یہ کہا جاتا تھا کہ غزل گائیکی میں صرف میڈم نور جہاں اور فریدہ خانم وہ خاتون گلوکارائیں ہیں جنہیں اس فن گائیکی میں کمال حاصل ہے۔ لیکن نسیم بیگم نے غزل بھی اتنی شاندار گائی کہ لوگ حیران رہ گئے۔ اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر نسیم بیگم نے بہت جلد منفرد مقام حاصل کرلیا۔
24 فروری 1936ء کو امرتسر میں پیدا ہونے والی نسیم بیگم کو اپنے دور کی نیم کلاسیکل گائیکہ مختار بیگم نے گائیکی کے اسرارو رموز سکھائے۔ شروع میں انہیں دوسری نور جہاں کہا جاتا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی ایک الگ پہچان بنائی اور کامیابی سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔1956ء میں پلے بیک گائیکی کا آغاز کرنے والی نسیم بیگم نے سب سے پہلے بابا جی اے چشتی کی موسیقی میں فلم ''گڈیگڈا‘‘ کیلئے گیت گایا۔ 1958ء میں موسیقار شہریار نے ان سے اپنی فلم ''بے گناہ‘‘ کیلئے گیت گوائے۔ اس فلم میں ان کا گایا ہوا گیت ''نینوں میں جل بھر آئے‘‘ بہت مشہور ہوا۔ انہوں نے مشہور گلوکار احمد رشدی کے ساتھ کئی مسحور کن دوگانے گائے۔
60ء کی دہائی میں انہوں نے ''سہیلی، شام ڈھلے، شہید، باجی، اک تیرا سہارا، حویلی، فرنگی، پائل کی جھنکار، زرقا اور پردیس‘‘ شامل ہیں۔ ان کی مشہور پنجابی فلموں میں ''کرتار سنگھ، تیس مار خان، جی دار، مکھڑا چن ورگا، جنٹرمین، چن پتر، میرا ویر اور لنگوٹیا‘‘ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ انہوں نے ''کون کسی کا، لٹیرا اور حویلی‘‘ کیلئے بھی شاندار گیت گائے۔ فلم ''کرتار سنگھ‘‘ میں ان کا گایا ہوا یہ گیت ''دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا‘‘ کو اتنی شہرت ملی کہ اسے لوک گیت کا درجہ حاصل ہوگیا۔ اس فلم کی موسیقی سلیم اقبال نے مرتب کی تھی جبکہ یہ گیت وارث لدھیانوی کے زور قلم کا نتیجہ تھا۔ اس فلم کا ایک اور گیت نسیم بیگم نے بڑی لگن سے گایا اور یہ بھی سپرہٹ ثابت ہوا۔ اس گیت کے بول تھے ''ماہی نے تینوں لے جانا لے جانا نی‘‘۔ انہوں نے فلم ''نیند‘‘ میں میڈم نور جہاں کے ساتھ دو دو گانے گائے۔ یہ گیت کچھ اس طرح تھے ''اکیلی مت جانا، زمانہ نازک ہے‘‘ اور جیا دھڑکے،سکھی اے زور سے‘‘۔ اس کی موسیقی رشید عطرے کی تھی۔ جنہوں نے نسیم بیگم سے بے شمار گیت گوائے۔
حبیب جالب کا لکھا ہوا گیت ''دے گا نہ کوئی سہارا ان بے درد فضائوں میں‘‘ انہوں نے فلم ''کون کسی کا‘‘ کیلئے مسعود رانا کے ساتھ مل کر گایا تھا۔ اس دوگانے میں انہوں نے اتنا سوز بھردیا تھا کہ سینما ہال میں بیٹھے ہوئے شائقین کی آنکھیں اشکبار ہو جاتی تھیں اور بعض انتہائی حساس لوگ تو زاروقطار رونے لگتے تھے۔ اسی طرح فلم ''اک تیرا سہارا‘‘ میں قتیل شفائی کے اس رومانوی گیت کو نسیم بیگم نے اتنی رغبت اور چاشنی سے گایا کہ اہل موسیقی جھوم اٹھے۔ ماسٹر عنایت حسین کی دلفریب موسیقی میں گایا ہوا یہ گیت آج بھی جب سماعت سے ٹکراتا ہے تو انسان پر وجد طاری ہو جاتا ہے۔بلاشبہ اس گیت کو وجد آفریں گیت کہا جاسکتا ہے۔ اس گیت کے بول تھے ''گھنگھور گھٹا لہراتی ہے، پھر یاد کسی کی آتی ہے‘‘۔1969ء میں فلم ''پرستان‘‘ میں ان کا گایا ہوا یہ نغمہ بھی بہت مشہور ہوا ''محبت کے دم سے یہ دنیا حسیں ہے‘‘۔
نسیم بیگم نے غزل گائیکی میں بھی کمال کر دیا۔1962ء میں منیر نیازی کی یادگار غزل ''اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘ گلوکارہ نسیم بیگم نے ریاض شاہد اور خلیل قیصر کی فلم ''شہید‘‘ کیلئے گائی تو اس غزل نے بھی بے پناہ شہرت حاصل کی۔ نسیم بیگم نے اس غزل کو انتہائی خوبصورتی سے گایا تھا اور منیر ینازی نے بھی نسیم بیگم کی تعریف میں بخل سے کام نہیں لیا۔ حالانکہ ان کے بارے میں یہ بات عام ہے کہ وہ کسی دوسرے کی تحسین شاذ ہی کرتے تھے۔ منیر نیازی کی مذکورہ بالا غزل کے علاوہ ان کی کچھ دیگر غزلوں نے بھی اہل موسیقی کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ میڈم نور جہاں کو بھی ان سے سخت مقابلہ کرنا پڑا۔ صوفی غلام مصطفی تبسم کی لکھی ہوئی فلم ''شام ڈھلے‘‘ کیلئے یہ غزل آج تک اپنی شہرت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ نسیم بیگم نے اس غزل کو انتہائی خوبصورتی سے گایا۔ یہ غزل تھی ''سوبار چمن مہکا، سو بار بہار آئی‘‘۔ حفیظ ہوشیارپوری کی اس معرکۃ آلارا غزل کو مہدی حسن اور نسیم بیگم نے الگ الگ گایا۔ اس غزل نے بھی مقبولیت کے تمام ریکارڈ پاش پاش کر دیئے تھے۔ غزل ملاحظہ فرمائیں ''محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے‘‘۔
انہوں نے ملی نغمات بھی گائے، ان کا گایا ہوا یہ نغمہ ''اے راہ حق کے شہیدو‘‘ انتہائی اثر انگیز ہے۔ مشیر کاظمی کے لکھے ہوئے اس گیت کوانہوں نے جس نفاست اور لگن سے گایا اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ نسیم بیگم فن گائیکی پر عبور حاصل تھا۔ انہوں نے اے حمید، بابا چشی، ناشاد، بخشی وزیر، نثار بزمی اور سلیم اقبال کی موسیقی میں نغمات گائے۔ وہ 1956ء سے 1971ء تک اپنی شاندار آواز کا جادو بکھیرتی رہیں۔29 ستمبر1971ء کو یہ ہمہ جہت گلوکار ہ صرف35سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔