تاریخی حادثہ سان فرانسسکو جل اٹھا
یہ 14اپریل 1906ء کا واقعہ ہے۔ صبح کے 5بج کر 14منٹ ہوئے تھے جب سان فرانسسکو کا شہر زلزلے کے خوفناک جھٹکوں سے لرز اٹھا۔ ماہرین بتاتے ہیں کسی بھی بڑے زلزلے سے چند روز پیشتر اس کی علامات اور نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں لیکن سان فرانسسکو کے اس زلزلے سے پیشتر ایسی کوئی چیز دیکھنے میں نہیں آئی۔ بعد کی تحقیقات کے مطابق اس قسم کے صرف دو واقعات کا علم ہوا۔
ابتدائی علامات
شہر کے جنوبی علاقے میں رہنے والے ایک سٹار نے 14اپریل کو پولیس میں رپورٹ درج کروائی کہ اس کے شو روم کی ایک کھڑکی کا شیشہ کسی اٹھائی گیر نے توڑ دیا ہے۔ پولیس کی تفتیش کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ کھڑکی ٹوٹنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ جس عمارت میں یہ دکان واقع تھی وہ عمارت غیر محسوس طور پر زمین میں دھنس رہی تھی۔ اس کے علاوہ شہر کے نشیبی علاقے میں آباد ایک محلے کے مکینوں نے یہ محسوس کیا کہ ان کے گھروں کے دروازے سہولت سے حرکت نہیں کر رہے ہیں۔ ان دو واقعات کے علاوہ سان فرانسسکو اور ارد گرد کے پورے علاقے میں کسی شخص نے کوئی غیر معمولی تبدیلی محسوس نہیں کی۔
زلزلہ آیا تو بیشتر شہری اپنی خواب گاہوں میں خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ صرف وہ لوگ بستروں سے اٹھے تھے جنہیں بہت صبح جاگنے کی عادت تھی یا وہ لوگ جو علی الصبح ورزش وغیرہ کے شوقین تھے۔ کہیں کہیں اخبار اور دودھ بیچنے والے بھی نظر آ رہے تھے لیکن شہر کی آبادی کا بہت بڑا حصہ ابھی سو رہا تھا۔
جب زمین لرز اٹھی!
مشہور مصنفہ کیتھرائن ہیوم اپنی خود نوشت سوانح عمری میں لکھتی ہیں: ''ایک خوفناک گونج کے ساتھ زمین پتے کی طرح لرزنے لگی تھی۔ ہمارے گھر کی ایک دیوار دھماکے کے ساتھ زمین بوس ہو گئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ گھر کے سارے افراد کس طرح خود بخود ایک کمرے میں اکٹھے ہو گئے تھے۔ دور کہیں سے ایک گونج دار آواز سنائی دے رہی تھی۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے سامنے دیوار پر ایک دراڑ نمودار ہوئی اور ہمارے قدموں تک پھیل گئی۔ ہم نے وہ کمرہ چھوڑا اور دوسرے کمرے کی طرف بھاگے لیکن اس کمرے کے فرش میں بھی ایک خوفناک گڑھا نظر آ رہا تھا۔ اب گھر کے تمام افراد نے باہر کا رخ کیا۔ گھر سے نکلتے وقت جس شخص کے ہاتھ میں جو چیز آئی تھی اس نے اٹھا لی لیکن حیرت کی بات تھی کہ کسی شخص نے بھی کوئی کار آمد چیز اٹھانے کی زحمت نہیں کی تھی۔ ایک عورت نے ہاتھ میں چابیوں کا گچھا پکڑا ہوا تھا۔ کسی نے تکیہ اٹھا رکھا تھا، کسی نے ٹائم پیس اور کسی نے برتن۔
زلزلہ ناقابل فراموش کیسے بنا؟
18اپریل 1906ء کو سان فرانسسکو میں آنے والا یہ زلزلہ بہت زیادہ شدت کا حامل نہیں تھا۔ اس سے پہلے مغربی کیلیفورنیا میں اس سے زیادہ طاقتور اور تباہ کن زلزلے آ چکے تھے لیکن وہ تمام واقعات لوگوں کے ذہنوں سے محو ہو چکے ہیں۔ پھر اپریل1906ء کا زلزلہ کیوں ایک ناقابل فراموش واقعہ کی حیثیت اختیار کر گیا؟ اس کی وجہ وہ خوفناک آگ ہے جو زلزلے کے بعد سان فرانسسکو کے مختلف حصوں میں بھڑک اٹھی اور جس سے زبردست جانی و مالی نقصان ہوا۔
18اپریل کو محسوس کئے جانے والے زلزلے کے جھٹکے صرف اڑھائی منٹ تک جاری رہے لیکن ان جھٹکوں کی وجہ سے جو آگ بھڑکی وہ پورے تین دن تک شہر میں تباہی پھیلاتی رہی۔ زلزلے کے صرف چند منٹ بعد شہر میں تقریباً پچیس جگہوں پر آگ بھڑک اٹھی۔ سان فرانسسکو ایک ترقی یافتہ صنعتی شہر تھا اور اس کی دیہی ترقی اس کے لئے وبال جان بن گئی۔ پورے شہر میں بجلی کے تار اور گیس پائپوں کا جال بچھا ہوا تھا۔ زلزلے کی وجہ سے تار ٹوٹ گئے اور گیس پائپ جگہ جگہ سے پھٹ گئے۔ شہر میں کئی جگہوں پر جلتے ہوئے چولہوں کے اُلٹنے اور آتش گیر کیمیکلز کے جار ٹوٹنے کے واقعات ہوئے۔ اس قسم کے واقعات نے آتشزدگی کی شدت میں مزید اضافہ کیا۔دوسرے روز یعنی 19اپریل کی صبح تک شہر کا نشیبی علاقہ پوری طرح آگ کی لپیٹ میں آ چکا تھا۔ ایک مکان کے بعد دوسرا مکان اور ایک محلے کے بعد دوسرا محلہ آگ کی زد میں آ رہا تھا اور سان فرانسسکو کے لاکھوں شہری بے چارگی سے کھڑے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔
''سان فرانسسکو بلیٹن‘‘ کا ایک رپورٹر خلیج سان فرانسسکو میں ایک لانچ کے اوپر کھڑا تھا اور شہر پر ٹوٹنے والی قیامت کا منظر دیکھ رہا تھا۔ اس کا کہنا ہے ''اس سارے منظر کا سب سے ایذدہ پہلو یہ تھا کہ تمام شہر میں انتہا درجے کی بھاگ دوڑ کے باوجود انتہا درجے کی خاموشی چھائی ہوئی تھی، آسمان دھوئیں کے تاریک بادلوں کے پیچھے چھپا ہوا تھا اور شام یا صبح کا تعین کرنا دشوار تھا‘‘۔
20اپریل تک شہر کا پانچ مربع میل گنجان آباد علاقہ جل کر بھسم ہو چکا تھا۔ 28 ہزار مکانات تباہ اور کم از کم پانچ سو افراد ہلاک ہو چکے تھے۔ اس کے علاوہ ان گنت تھیڑ، ہوٹل، بینک، واقعہ کی یاد دلاتی رہتی ہے۔
سینما ہال اور پھر اخباروں کے دفاتر جل چکے تھے۔ سرکاری دفاتر کا بیش قیمت ریکارڈ خاکستر ہو چکا تھا۔ پیدائش، موت اور شادی کے تمام ثبوت مٹ گئے تھے۔ حکومت کی نہایت خفیہ فائلوں کے پرزے دھوئیں کے دوش پر اڑتے پھر رہے تھے۔ اندرون شہر قیامت کا سماں تھا۔ مصیبت کے مارے لوگ فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر ڈیرے ڈالے بیٹھے تھے، سہمی ہوئی عورتیں اور بھوک سے روتے ہوئے بچے بے سرو سامانی کی حالت میں کھلے آسمان تلے پڑے تھے۔ ڈاکوئوں اور لٹیروں کے لئے یہ ایک سنہری موقع تھا۔ انہوں نے اس موقع سے بڑا فائدہ اٹھایا، شہر میں لوٹ مار شروع ہو گئی دونوں کے دوران چوری، ڈاکہ، عصمت دری اور اغوا کی بے شمار وارداتیں ہوئیں۔ قریب تھا کہ حالات مکمل طور پر قابو سے باہر ہو جاتے اور پورے شہر پر لٹیروں کا قبضہ ہو جاتا کہ شہر کے میئر سکمز نے ایک نہایت بروقت راست اقدام کیا اس نے فوری طور پر پچاس سرکردہ افراد کی ایک کمیٹی تشکیل دی اور اس کمیٹی کے ہنگامی اجلاس کے بعد ایک ہینڈ بل جاری کیا جس کا مضمون یہ تھا ''تمام فیڈرل دستوں باقاعدہ پولیس اور سپیشل پولیس افسران کو اس بات کا اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ جہاں کسی کو لوٹ مار یا اس نوعیت کے کسی دوسرے جرم میں ملوث پائیں فوراً گولی مار دیں‘‘ ۔اس حکم کے تحت 19اپریل کو 12افراد کو موقع پر گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔ اس کے علاوہ بیس افراد ایسے تھے جنہیں گرفتار کیا گیا اور اسی روز موت کی سزا دے دی گئی۔
یہاں پر ایک دلخراش واقعہ کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ 19اپریل کو جن افراد کو گولی ماری گئی ان میں ایک بائیس سالہ نوجوان بھی شامل تھا۔ بعد کی تحقیقات سے پتا چلا کہ یہ نوجوان اپنے اہل خانہ کیلئے ایک خالی برتن حاصل کرنے کے واسطے ایک مسمار شدہ مکان میں داخل ہوا تھا کہ گشتی دستے کے ہاتھوں پکڑا گیا۔ اس کے گھر والے سامان خورونوش سامنے رکھے اس کا انتظار کرتے رہے اور اس کی لاش ایک گلی میں تڑپ تڑپ کر ٹھنڈی ہو گئی۔
تباہی کی وجوہات
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سان فرانسسکو جب ایک ترقی یافتہ شہر تھا تو پھر اس شہر کو آگ سے محفوظ رکھنے کا ترقی یافتہ نظام کیوں موجود نہ تھا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ
٭...شہر کو بچانے کے تمام امکانات زلزلے کے صرف28 سیکنڈ بعد ختم ہو چکے تھے۔
٭...سان فرانسسکو کو پانی مہیا کرنے والے تمام ذرائع ناکارہ ہو چکے تھے۔
٭... شہر کی تقریباً23ہزار پائپ لائنیں ٹوٹ پھوٹ گئی تھیں اور نلوں میں پانی کا دبائو صفر ہو کر رہ گیا تھا۔
٭...سان فرانسسکو کیلئے اس وقت صرف اور صرف خلیج کا پانی دستیاب تھا اور اس کو پوری طرح استعمال کیا جا رہا تھا۔ فائر بریگیڈ کی لانچیں ساحل کے ساتھ ساتھ کھڑی تھیں اور آگ پر مسلسل پانی پھینک رہی تھیں۔
٭... فائر بریگیڈ کے بے دست وپا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ محکمے کے چیف آفیسر ڈینس سلی دان زلزلے کے دوران ہلاک ہو چکے تھے۔ ان کا واقعہ یوں ہے کہ وہ اپنے بیڈ روم میں آرام سے سو رہے تھے اچانک ایک زور دار دھماکہ ہوا اور مکان کا کچھ حصہ گر پڑا، وہ بھاگتے ہوئے دوسرے کمرے میں پہنچے۔ خواب گاہ کے اندر داخل ہوتے ہی وہ فرش میں نمودار ہونے والے ایک سوراخ کے اندر گر پڑے۔ یہ سوراخ عمارت میں تین منزل نیچے تک چلا گیا تھا۔ اتنی بلندی سے گرنے کے نتیجے میں وہ ہلاک ہو گئے۔چیف ڈینس کے ہلاک ہونے کے سبب فائر بریگیڈ کی مجموعی کارکردگی پر نہایت برا اثر پڑا اور محکمے کی استعداد کار کم ہو گئی۔