تاریخی حادثہ سان فرانسسکو جل اٹھا

تاریخی حادثہ سان فرانسسکو جل اٹھا

اسپیشل فیچر

تحریر : طاہر جاوید مغل


یہ 14اپریل 1906ء کا واقعہ ہے۔ صبح کے 5بج کر 14منٹ ہوئے تھے جب سان فرانسسکو کا شہر زلزلے کے خوفناک جھٹکوں سے لرز اٹھا۔ ماہرین بتاتے ہیں کسی بھی بڑے زلزلے سے چند روز پیشتر اس کی علامات اور نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں لیکن سان فرانسسکو کے اس زلزلے سے پیشتر ایسی کوئی چیز دیکھنے میں نہیں آئی۔ بعد کی تحقیقات کے مطابق اس قسم کے صرف دو واقعات کا علم ہوا۔
ابتدائی علامات
شہر کے جنوبی علاقے میں رہنے والے ایک سٹار نے 14اپریل کو پولیس میں رپورٹ درج کروائی کہ اس کے شو روم کی ایک کھڑکی کا شیشہ کسی اٹھائی گیر نے توڑ دیا ہے۔ پولیس کی تفتیش کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ کھڑکی ٹوٹنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ جس عمارت میں یہ دکان واقع تھی وہ عمارت غیر محسوس طور پر زمین میں دھنس رہی تھی۔ اس کے علاوہ شہر کے نشیبی علاقے میں آباد ایک محلے کے مکینوں نے یہ محسوس کیا کہ ان کے گھروں کے دروازے سہولت سے حرکت نہیں کر رہے ہیں۔ ان دو واقعات کے علاوہ سان فرانسسکو اور ارد گرد کے پورے علاقے میں کسی شخص نے کوئی غیر معمولی تبدیلی محسوس نہیں کی۔
زلزلہ آیا تو بیشتر شہری اپنی خواب گاہوں میں خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ صرف وہ لوگ بستروں سے اٹھے تھے جنہیں بہت صبح جاگنے کی عادت تھی یا وہ لوگ جو علی الصبح ورزش وغیرہ کے شوقین تھے۔ کہیں کہیں اخبار اور دودھ بیچنے والے بھی نظر آ رہے تھے لیکن شہر کی آبادی کا بہت بڑا حصہ ابھی سو رہا تھا۔
جب زمین لرز اٹھی!
مشہور مصنفہ کیتھرائن ہیوم اپنی خود نوشت سوانح عمری میں لکھتی ہیں: ''ایک خوفناک گونج کے ساتھ زمین پتے کی طرح لرزنے لگی تھی۔ ہمارے گھر کی ایک دیوار دھماکے کے ساتھ زمین بوس ہو گئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ گھر کے سارے افراد کس طرح خود بخود ایک کمرے میں اکٹھے ہو گئے تھے۔ دور کہیں سے ایک گونج دار آواز سنائی دے رہی تھی۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے سامنے دیوار پر ایک دراڑ نمودار ہوئی اور ہمارے قدموں تک پھیل گئی۔ ہم نے وہ کمرہ چھوڑا اور دوسرے کمرے کی طرف بھاگے لیکن اس کمرے کے فرش میں بھی ایک خوفناک گڑھا نظر آ رہا تھا۔ اب گھر کے تمام افراد نے باہر کا رخ کیا۔ گھر سے نکلتے وقت جس شخص کے ہاتھ میں جو چیز آئی تھی اس نے اٹھا لی لیکن حیرت کی بات تھی کہ کسی شخص نے بھی کوئی کار آمد چیز اٹھانے کی زحمت نہیں کی تھی۔ ایک عورت نے ہاتھ میں چابیوں کا گچھا پکڑا ہوا تھا۔ کسی نے تکیہ اٹھا رکھا تھا، کسی نے ٹائم پیس اور کسی نے برتن۔
زلزلہ ناقابل فراموش کیسے بنا؟
18اپریل 1906ء کو سان فرانسسکو میں آنے والا یہ زلزلہ بہت زیادہ شدت کا حامل نہیں تھا۔ اس سے پہلے مغربی کیلیفورنیا میں اس سے زیادہ طاقتور اور تباہ کن زلزلے آ چکے تھے لیکن وہ تمام واقعات لوگوں کے ذہنوں سے محو ہو چکے ہیں۔ پھر اپریل1906ء کا زلزلہ کیوں ایک ناقابل فراموش واقعہ کی حیثیت اختیار کر گیا؟ اس کی وجہ وہ خوفناک آگ ہے جو زلزلے کے بعد سان فرانسسکو کے مختلف حصوں میں بھڑک اٹھی اور جس سے زبردست جانی و مالی نقصان ہوا۔
18اپریل کو محسوس کئے جانے والے زلزلے کے جھٹکے صرف اڑھائی منٹ تک جاری رہے لیکن ان جھٹکوں کی وجہ سے جو آگ بھڑکی وہ پورے تین دن تک شہر میں تباہی پھیلاتی رہی۔ زلزلے کے صرف چند منٹ بعد شہر میں تقریباً پچیس جگہوں پر آگ بھڑک اٹھی۔ سان فرانسسکو ایک ترقی یافتہ صنعتی شہر تھا اور اس کی دیہی ترقی اس کے لئے وبال جان بن گئی۔ پورے شہر میں بجلی کے تار اور گیس پائپوں کا جال بچھا ہوا تھا۔ زلزلے کی وجہ سے تار ٹوٹ گئے اور گیس پائپ جگہ جگہ سے پھٹ گئے۔ شہر میں کئی جگہوں پر جلتے ہوئے چولہوں کے اُلٹنے اور آتش گیر کیمیکلز کے جار ٹوٹنے کے واقعات ہوئے۔ اس قسم کے واقعات نے آتشزدگی کی شدت میں مزید اضافہ کیا۔دوسرے روز یعنی 19اپریل کی صبح تک شہر کا نشیبی علاقہ پوری طرح آگ کی لپیٹ میں آ چکا تھا۔ ایک مکان کے بعد دوسرا مکان اور ایک محلے کے بعد دوسرا محلہ آگ کی زد میں آ رہا تھا اور سان فرانسسکو کے لاکھوں شہری بے چارگی سے کھڑے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔
''سان فرانسسکو بلیٹن‘‘ کا ایک رپورٹر خلیج سان فرانسسکو میں ایک لانچ کے اوپر کھڑا تھا اور شہر پر ٹوٹنے والی قیامت کا منظر دیکھ رہا تھا۔ اس کا کہنا ہے ''اس سارے منظر کا سب سے ایذدہ پہلو یہ تھا کہ تمام شہر میں انتہا درجے کی بھاگ دوڑ کے باوجود انتہا درجے کی خاموشی چھائی ہوئی تھی، آسمان دھوئیں کے تاریک بادلوں کے پیچھے چھپا ہوا تھا اور شام یا صبح کا تعین کرنا دشوار تھا‘‘۔
20اپریل تک شہر کا پانچ مربع میل گنجان آباد علاقہ جل کر بھسم ہو چکا تھا۔ 28 ہزار مکانات تباہ اور کم از کم پانچ سو افراد ہلاک ہو چکے تھے۔ اس کے علاوہ ان گنت تھیڑ، ہوٹل، بینک، واقعہ کی یاد دلاتی رہتی ہے۔
سینما ہال اور پھر اخباروں کے دفاتر جل چکے تھے۔ سرکاری دفاتر کا بیش قیمت ریکارڈ خاکستر ہو چکا تھا۔ پیدائش، موت اور شادی کے تمام ثبوت مٹ گئے تھے۔ حکومت کی نہایت خفیہ فائلوں کے پرزے دھوئیں کے دوش پر اڑتے پھر رہے تھے۔ اندرون شہر قیامت کا سماں تھا۔ مصیبت کے مارے لوگ فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر ڈیرے ڈالے بیٹھے تھے، سہمی ہوئی عورتیں اور بھوک سے روتے ہوئے بچے بے سرو سامانی کی حالت میں کھلے آسمان تلے پڑے تھے۔ ڈاکوئوں اور لٹیروں کے لئے یہ ایک سنہری موقع تھا۔ انہوں نے اس موقع سے بڑا فائدہ اٹھایا، شہر میں لوٹ مار شروع ہو گئی دونوں کے دوران چوری، ڈاکہ، عصمت دری اور اغوا کی بے شمار وارداتیں ہوئیں۔ قریب تھا کہ حالات مکمل طور پر قابو سے باہر ہو جاتے اور پورے شہر پر لٹیروں کا قبضہ ہو جاتا کہ شہر کے میئر سکمز نے ایک نہایت بروقت راست اقدام کیا اس نے فوری طور پر پچاس سرکردہ افراد کی ایک کمیٹی تشکیل دی اور اس کمیٹی کے ہنگامی اجلاس کے بعد ایک ہینڈ بل جاری کیا جس کا مضمون یہ تھا ''تمام فیڈرل دستوں باقاعدہ پولیس اور سپیشل پولیس افسران کو اس بات کا اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ جہاں کسی کو لوٹ مار یا اس نوعیت کے کسی دوسرے جرم میں ملوث پائیں فوراً گولی مار دیں‘‘ ۔اس حکم کے تحت 19اپریل کو 12افراد کو موقع پر گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔ اس کے علاوہ بیس افراد ایسے تھے جنہیں گرفتار کیا گیا اور اسی روز موت کی سزا دے دی گئی۔
یہاں پر ایک دلخراش واقعہ کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ 19اپریل کو جن افراد کو گولی ماری گئی ان میں ایک بائیس سالہ نوجوان بھی شامل تھا۔ بعد کی تحقیقات سے پتا چلا کہ یہ نوجوان اپنے اہل خانہ کیلئے ایک خالی برتن حاصل کرنے کے واسطے ایک مسمار شدہ مکان میں داخل ہوا تھا کہ گشتی دستے کے ہاتھوں پکڑا گیا۔ اس کے گھر والے سامان خورونوش سامنے رکھے اس کا انتظار کرتے رہے اور اس کی لاش ایک گلی میں تڑپ تڑپ کر ٹھنڈی ہو گئی۔
تباہی کی وجوہات
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سان فرانسسکو جب ایک ترقی یافتہ شہر تھا تو پھر اس شہر کو آگ سے محفوظ رکھنے کا ترقی یافتہ نظام کیوں موجود نہ تھا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ
٭...شہر کو بچانے کے تمام امکانات زلزلے کے صرف28 سیکنڈ بعد ختم ہو چکے تھے۔
٭...سان فرانسسکو کو پانی مہیا کرنے والے تمام ذرائع ناکارہ ہو چکے تھے۔
٭... شہر کی تقریباً23ہزار پائپ لائنیں ٹوٹ پھوٹ گئی تھیں اور نلوں میں پانی کا دبائو صفر ہو کر رہ گیا تھا۔
٭...سان فرانسسکو کیلئے اس وقت صرف اور صرف خلیج کا پانی دستیاب تھا اور اس کو پوری طرح استعمال کیا جا رہا تھا۔ فائر بریگیڈ کی لانچیں ساحل کے ساتھ ساتھ کھڑی تھیں اور آگ پر مسلسل پانی پھینک رہی تھیں۔
٭... فائر بریگیڈ کے بے دست وپا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ محکمے کے چیف آفیسر ڈینس سلی دان زلزلے کے دوران ہلاک ہو چکے تھے۔ ان کا واقعہ یوں ہے کہ وہ اپنے بیڈ روم میں آرام سے سو رہے تھے اچانک ایک زور دار دھماکہ ہوا اور مکان کا کچھ حصہ گر پڑا، وہ بھاگتے ہوئے دوسرے کمرے میں پہنچے۔ خواب گاہ کے اندر داخل ہوتے ہی وہ فرش میں نمودار ہونے والے ایک سوراخ کے اندر گر پڑے۔ یہ سوراخ عمارت میں تین منزل نیچے تک چلا گیا تھا۔ اتنی بلندی سے گرنے کے نتیجے میں وہ ہلاک ہو گئے۔چیف ڈینس کے ہلاک ہونے کے سبب فائر بریگیڈ کی مجموعی کارکردگی پر نہایت برا اثر پڑا اور محکمے کی استعداد کار کم ہو گئی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
عرب دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ نما

عرب دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ نما

شاید بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جنہیں ''جزیرہ‘‘ اور ''جزیرہ نما‘‘ کا فرق پتہ نہ ہو۔ بہرحال آپ کی یاد کو تازہ کرنے کیلئے بتاتے چلیں کہ جزیرہ چاروں طرف پانی سے گھرا قطعۂ زمین ہوتا ہے جبکہ جزیرہ نما، تین اطرف پانی سے گھرا ہوتا ہے جبکہ چوتھی طرف خشکی ہوتی ہے۔ کرۂ ارض پر سب سے بڑا جزیرہ نما ''خطہ عرب‘‘ ہے جسے ایک زمانے میں جزیرہ العرب یا عربستان بھی کہا جاتا رہا ہے۔یہ جزیرہ نما تین براعظموں یورپ ، افریقہ اور ایشیاء کے سنگم پر واقع ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ جزیرہ نما ان خطوں سے خشکی اور سمندری دونوں راستوں سے جڑا ہوا ہے۔اس جزیرہ نما کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا کل رقبہ تقریباً 31 لاکھ مربع کلومیٹر بنتا ہے جو بالحاظ ہجم براعظم یورپ کے کل رقبے کے ایک تہائی کے برابر ہے۔ اس کے مغرب میں بحر احمر، مشرق میں خلیج عربی خلیج فارس اور جنوب میں بحیرہ عرب واقع ہیں۔ اگر آپ جزیرہ نما عرب کے نقشے پر نظر دوڑائیں تو یہ ایک بے ترتیب مستطیل کی شکل نظر آئے گا۔ جس کے شمالی حصے میں سر زمین فلسطین، شام کا صحرائی علاقہ اور عراق کے کچھ علاقے نظر آئیں گے جبکہ اس کے مشرقی اطراف دریائے دجلہ اور فرات کے درمیان وادی میسوپیٹیما اور خلیج فارس کے کچھ علاقے نظر آتے ہیں۔اسی طرح اس کے جنوبی حصے میں بحیرہ ہند اور خلیج عدن واقع ہیں۔خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفےﷺ کی بعثت کے وقت عرب کے شمال مغرب میں سلطنت روم کی حدودملتی تھیں ، جبکہ شمال مشرق میں سلطنت فارس اور عرب کے مشرق میں الحیرہ کی بادشاہت قائم تھی۔ اگر بات دنیا کے موجودہ نقشے کی، کی جائے تو جزیرہ نما عرب کو ایک عظیم صحرائی پٹی کا ایک ایسا حصہ سمجھا جاتا ہے جو بحیرہ اوقیانوس سے شمال مغربی افریقہ کے ساحل کے قریب سے ہوتے ہوئے جنوب مغربی ہندوستان کے صحرائے تھر تک پھیلا ہوا ہے۔ جغرافیائی صورت حال زمانۂ قدیم میں لوگ مکہ مکرمہ کو ''ناف ارض‘‘ یعنی زمین کا مرکز کہا کرتے تھے۔یہ لقب بلا سبب نہیں تھا بلکہ خطۂ عرب کو اپنے محل وقوع اور تجارتی اعتبار سے بھی مرکزیت حاصل تھی۔جغرافیائی لحاظ سے جزیرہ نما عرب اور صحرائے شام ایک ہی سلسلے کی ایک ایسی کڑی دکھائی دیتے ہیں جو شمال میں بغیر کسی سرحدی لکیر کے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ البتہ ان دونوں خطوں کے درمیان یہاں ایک تصوراتی لکیر مغرب میں خلیج عقبہ سے مشرق میں وادی دجلہ وفرات تک ہے ، جسے عرب کی شمالی سرحد سمجھا جاتا ہے جبکہ صدیوں سے یہاں آباد لوگ سعودی عرب اور کویت کی شمالی سرحدوں کو بھی عرب کہ حد سمجھتے ہیں۔ ارضیاتی علوم اور ماہرین آثارقدیمہ کہتے ہیں جزیرہ نما عرب، دراصل جنوب مغربی ایشیا کی ایک ارضیاتی تشکیل ہے، قدیم جوراسک دور (145.5ملین سال سے199.6 ملین سال قبل کا دور) میں ہی بحر ہند کے گہرے سمندر اور خلیج فارس کی۔پٹی نے عرب کو خطۂ ہند اور خطۂ فارس سے جدا کر کے ایک جزیرہ نما کی شکل دے دی تھی۔اس دور کی پہاڑی تشکیل آج بھی عمان کی ساحلی پٹی پر موجود ہے۔تہذیب و تمدن جزیرہ نما عرب بنیادی طور پر ایک وسیع و عریض صحرا، لق و دق اور بے آب و گیاہ ریتلے چٹیل میدانوں،پہاڑوں اور بیابانوں پر مشتمل ایک تہذیب کا نام تھا۔ جس میں آپ کو کہیں کہیں بہت کم سرسبز و شاداب لہلہاتے کھیت جبکہ مغربی اور جنوبی سمت بلند و بالا پہاڑی سلسلے بھی سر اٹھائے نظر آتے ہیں۔یہ خطہ دنیا بھر میں اپنے گرم ترین درجۂ حرارت کی الگ ہی شہرت رکھتا تھا کیونکہ حد نگاہ ہزاروں میل پھیلے ریت کے صحرائی سلسلے کے علاوہ یہاں کچھ نظر نہیں آتا تھا ۔مورخین کے مطابق شاید یہاں کا سخت اور خشک موسم اور آب وہوا کی وجہ سے عربوں کے علاوہ یہاں باہر سے کوئی اور آ کر آباد ہونا پسند ہی نہیں کرتا تھا۔ ابتدائی ادوار میں یہاں کے لوگ صحرائی خانہ بدوش کہلاتے تھے۔جس کی وجہ سے کبھی کسی ریاست نے عرب کے ان صحرائی لوگوں پر زیادہ توجہ ہی نہیں دی۔دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ یہاں غربت نے بھی پنجے گاڑھے ہوئے تھے،جس کی وجہ سے یہاں ترقی اور خواندگی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ اس خطے میں یہی وہ پراسرار صحرا ہیں جہاں ان کی خاک تلے ہزاروں سالوں سے اپنے وقتوں کی شاندار تہذیبیں دفن ہی نہیں بلکہ دنیا کیلئے نشان عبرت بن چکی ہیں۔جن میں عرب بائدہ کے قبائل(قدیم ترین عرب قبائل )، عاد ، ثمود ، طسم، جدیس، عمالقہ اور جرہم جیسی بڑی قومیں شامل ہیں جنہیں گردش دوراں نے نیست و نابود کر ڈالا تھا۔ مورخین کے مطابق یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام سے پہلے کی عرب تہذیب و تمدن نے انسانی تہذیب کی ترقی اور نشوونما میں کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا۔اس کے مقابلے میں اس زمانے میں یونان کی تہذیب انسانی اقدار کی نشوونما میں اہم کردار ادا کررہی تھی۔مورخین اس حقیقت پر بھی متفق ہیں کہ اسلام سے پہلے عرب میں جہالت کا دور دورہ تھا۔ عرب کلچر اور ثقافت کو جہالت کی دنیا سے نکالنے میں اسلام کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے ۔دراصل اسلام سے پہلے کے عرب میں قبائلی سماج تھا ، ہر قبیلے کا اپنا بت تھا اور ہر قبیلہ اپنے اپنے بتوں کی پوجا کیا کرتا تھا۔جہالت کا یہ عالم تھا کہ ہر قبیلہ اکثر دوسرے قبیلے سے برسر پیکار رہتا تھا جس کی وجہ سے ان قبائل میں اتحاد یا اتفاق کا تصور نہ ہونے کے سبب یہ علاقہ ایک لمبے عرصے تک مکمل ریاست کی شکل اختیار نہ کر سکا۔خطہ عرب میں تجارت کی شروعاترفتہ رفتہ عربوں نے تجارت کو رواج دیا اور پھر تجارت ہی اس خطے کا سب سے بڑا ذریعۂ معاش بن گیا۔ قدیم عرب قبائل خشک اور بے آب و گیاہ صحرا کے باسی تھے اس لئے وہ محدود معاشی اور تجارتی وسائل رکھتے تھے۔جس کیلئے انہیں دور دراز علاقوں کا سفر اختیار کرنا پڑتا تھا۔ عربوں کے بارے مشہور ہے کہ یہ تجارت کیلئے کرہ ٔارض کے ہر اس حصے تک گئے جہاں تک ان کی رسائی ممکن ہو سکتی تھی۔یہ زمینی اور بحری دونوں راستوں سے سفر کیا کرتے تھے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ بحرہ روم کی بحری تجارت مکمل طور پر عربوں کے ہاتھ میں تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کی تجارت چین ، سری لنکا ، ہندوستان ، مصر ، یونان اور افریقہ تک پھیل چکی تھی۔ قدیم زمانے کے حوالے سے تاریخ کی کتابوں میں عربوں کی تجارت کا ذکر متعدد جگہوں پر ملتا ہے۔ عربوں کی تجارت کا سراغ حضرت عیسی علیہ السلام کے دور سے بھی پہلے کے ادوار میں ملتا ہے۔ایک قدیم روایت کے مطابق 2096 قبل مسیح میں جن تاجروں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں سے خرید کر مصر کے رئیس کے ہاتھ فروخت کیا تھا وہ عرب کے اسماعیلی قبائل کے تاجروں کا قافلہ تھا جن کا تعلق مدین سے تھا۔

’’ویلکم 2025ء‘‘نئے سال سے جڑی رسومات

’’ویلکم 2025ء‘‘نئے سال سے جڑی رسومات

سال نو، نیا سال یا نئے سال کا دن، اس دن کو کہا جاتا ہے جس دن کسی تقویم یا کیلنڈر میں نئے سال کا آغاز ہوتا ہے۔ عصر حاضر میں گریگوری کیلنڈر یا انگریزی کیلنڈر عام ہے، اس لیے یہ یکم جنوری کو منایا جاتا ہے۔ دیگر کیلنڈرز میں الگ الگ نئے سال بھی منائے جاتے ہیں۔نئے سال کو لوگ اس ا ُمید پر مناتے ہیں کہ آنے والے دن گزشتہ برس کی نسبت اچھے گزریں گے۔چیننئے سال کی خوشیاں منانے کیلئے ہمارے ہاں جو فضول خرچی ہوتی ہے، اس سے غریب بچوں کیلئے کتابیں خریدی جاسکتی ہیں،کسی کو ایک وقت کا کھانا کھلایا جاسکتا ہے، غربت اور مہنگائی کے اس دور میںکسی سفید پوش فیملی کی مدد کی جاسکتی ہے ۔جو لوگ جشن مناتے ہیں، ان کو یہ معلوم ہی نہیں کہ غربت کس بلا کا نام ہے۔بے شک نئے سال کی خوشی منانی چاہیے ،لیکن یہ یاد رکھیں ایک سال ہماری زندگی سے کم ہوا ہے۔بقول شاعرغافل تجھے گھڑیا ل یہ دیتا ہے منادیگردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹادیدنیا بھر میں نئے سال کی آمد پر ہر جگہ خوشیاں منائی جاتی ہیں تاہم ممالک میں نئے سال کی آمد سے کچھ رسوم و رواج وابستہ یہ رسمیں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں بھی ادا کی جاتی ہیں۔نئے سال کو چین میں ''جشن بہاراں‘‘ بھی کہا جاتا ہے جو شمسی اور قمری کلینڈر کے حساب سے ہوتا ہے۔ نئے سال شروع ہوتے ہی چین میں خصوصی تقاریب منعقد کی جاتی ہیں جو جنوری کے آخر اور فروری کے وسط میںشروع ہوتی ہیں۔ خصوصی تقاریب شروع ہوتے ہی چین کے لوگ اپنے گھروں کو صاف کرنے کا اہتمام کرتے ہیں، جمع ہونے والی گرد کو گھر کے پچھلے دروازے سے باہر پھینکتے ہیں۔برازیلبرازیل میں نئے سال کی پہلی صبح سمندر میں سفید پھول چھوڑے جاتے ہیں، جس کا مقصد فرضی دیوی ''یمانجہ‘‘ کو نئے سال کا تحفہ پیش کرنا ہوتا ہے۔ایسا کرنے والوں کا ماننا ہے کہ نئے سال پر دیوی کو یاد رکھنے سے پورا سال مسائل اور مصیبتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔جنوبی افریقہجنوبی افریقہ میں نئے سال کی آمد ہوتے ہی لوگ پرانے فرنیچر کو گھروں کی کھڑکیوں سے باہر پھینک دیتے ہیں۔ جوہانسبرگ میں بلند و بالا عمارتوں میں رہائش پذیر گھرانے بھی یہی عمل کرتے ہیں، جس کے باعث نیو ائیر کے موقع پر ہر سال سیکٹروں افراد زخمی بھی ہوتے ہیں اور ہرسال پولیس و امدادی اداروں کو طلب کرنا پڑتا ہے۔ڈنمارک ڈنمارک میں نیا سال شروع ہوتے ہی لوگ اپنے گھر کے برتن (پلیٹیں) توڑ کر پڑوسی کے گھر پر پھینکتے ہیں۔ اس کام میں دونوں پڑوسیوں کی رضا مندی بھی شامل ہوتی ہے۔ اس عمل کا مقصد بھی پورے سال مسائل سے بچنا ہوتا ہے۔سپینسپین اور لاطینی امریکا میں 31 دسمبر کی رات کو انگور کھانے کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے اور جیسے ہی یکم جنوری کی تاریخ شروع ہوتی ہے اس کام کو ختم کردیا جاتا ہے۔ ایسا کرنے والے لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ عمل کرنے سے پورے سال خوراک کے حصول میں مدد ملتی ہے۔لاطینی امریکہلاطینی امریکہ کے کئی ممالک میں نئے سال کی آمد ہوتے ہی لوگ رات کو خالی سوٹ کیس گھر کے کونے میں رکھ دیتے ہیں جبکہ بعض افراد خالی سوٹ کیس کو گھروں میں گھماتے بھی ہیں ۔جس کا مقصد نئے سال میں رزق اور سفر کی بہترین مواقع حاصل کرنا ہوتا ہے۔ایکواڈورنیا سال شروع ہوتے ہی لوگ رات کے درمیانی پہر اپنے گھروں سے باہر نکلتے ہیں اور ایک پتلے کو نذآتش کرتے ہیں۔ جس کا مقصد پرانی سال کی تلخ یادوں کا خاتمہ اور نئے سال میں مصیبتوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوتا ہے۔بیلا روسنیا سال شروع ہوتے ہی کنواری لڑکیاں ایک میدان میں دائرے کی صورت میں اپنے سامنے مکئی کے دانے رکھ کر بیٹھ جاتی ہیں پھر اس کے درمیان ایک مرغا چھوڑا جاتا ہے اور وہ جس لڑکی کے سامنے جاکر مکئی چگتا ہے، اسے نئے سال میں دلہن بننے کی ایڈوانس مبارک باد دی جاتی ہے۔رومانیہ رومانیہ میں کرسمس اور نئے سال کی آمد کے درمیان کسی بھی وقت ریچھ کی کھال پہن کر رقص کرنے کی رسم ادا کی جاتی ہے، جس کا مقصد پورے سال نحوست سے محفوظ رہنا ہے۔   

آج کا دن

آج کا دن

اقوام متحدہ کا اعلامیہاقوام متحدہ کا اعلامیہ وہ اہم معاہدہ تھا جس نے دوسری عالمی جنگ کے اتحادیوں کے درمیان رسمی تعلقات کو بحال کیا ۔ 1942ء اور 1945ء کے درمیان 47قومی حکومتوں نے اس پر دستخط کئے۔ یکم جنوری1942ء کو آرکیڈ کانفرنس کے دوران اتحادی''بگ فور‘‘ برطانیہ، ریاستہائے متحدہ امریکہ،روس اور چائنا نے ایک مختصر دستاویز پر دستخط کئے جو بعد میں اقوام متحدہ کے اعلامیے کے نام سے مشہور ہوا۔ ایک روز بعد اس پر دیگر 22 ممالک کے نمائندوں نے اس پر دستخط کئے جن میں آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ بھی شامل تھے۔اقوام متحدہ کا یہ اعلامیہ (UNO) کی بنیاد بن گیا جس پر 26جون1945ء کو 50ممالک نے دستخط کئے۔یورو کرنسی کا آغازیورو کا نام سرکاری طور پر 16 دسمبر 1995ء کو میڈرڈ میں اپنایا گیا تھا۔ یورو کو عالمی مالیاتی منڈیوں میں یکم جنوری 1999ء کو ایک اکاؤنٹنگ کرنسی کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ یورو سکے اور بینک نوٹ یکم جنوری 2002ء کو گردش میں آئے، اس کے بعد یہ یورپی یونین اور اس کے ارکان کی روز مرہ آپریٹنگ کرنسی بن گیا اور مارچ 2002ء تک اس نے سابقہ کرنسیوں کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔ آج یورو کو دنیا کی طاقتور ترین کرنسیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا قیام ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) ایک بین الحکومتی تنظیم ہے جو بین الاقوامی تجارت کو منظم اور سہولت فراہم کرتی ہے۔اقوام متحدہ کے نظام میں مؤثر تعاون کے ساتھ حکومتیں تنظیم کا استعمال بین الاقوامی تجارت کو کنٹرول کرنے والے قوانین کو قائم کرنے،ان پر نظر ثانی کرنے اور ان کو نافذ کرنے کیلئے کرتی ہیں۔ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن نے باضابطہ طورپریکم جنوری1995ء کو اپنے آپریشنز کا آغاز کیا۔ جس کے بعد اس نے 1994ء کے ماراکش معاہدے کے مطابق 1948ء میں قائم ہونے والے ٹیرف اور تجارت کے عمومی معاہدے (GATT) کی جگہ لے لی۔یورپی یونین کی توسیع1995ء میں یورپی یونین کی توسیع کی گئی جس کے نتیجے میں آسٹریا، فن لینڈ اور سویڈن نے یورپی یونین سے الحاق کیا۔یہ یورپی یونین کی چوتھی توسیع تھی اور یہ یکم جنوری 1995ء کو نافذ ہوئی۔یہ تمام ریاستیں یورپی فری ٹریڈ ایسوسی ایشن کی سابقہ رکن ریاستیں تھیں لیکن روایتی طور پر یورپی یونین میں شامل ہونے میں دیگر ممالک کی نسبت زیادہ دلچسپی رکھتی تھیں۔ناروے نے بھی دیگر تینوں ریاستوںکے ساتھ یورپی یونین میں شامل ہونے کیلئے معاہدے پر دستخط کئے لیکن ، 1994ء کے قومی ریفرنڈم میں ناروے کے ووٹروں نے رکنیت کو مسترد کر دیا ۔  

کافی۔۔۔جادوئی مشروب کی سرگزشت

کافی۔۔۔جادوئی مشروب کی سرگزشت

دنیا میں روزانہ دو ارب 25 کروڑ کپ کافی پی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ دنیا میں سب سے زیادہ پیا جانے والا مشروب ہے۔دنیا کی سماجی تاریخ پر کافی کے انمٹ اثرات ہیں۔ کہیں اس کا تعلق سماجی انقلاب سے ملتا ہے اور کہیں ترک تعلق اور اپنے آپ میں مگن ہونے کے ساتھ۔ یہ دونوں صورتیں اگرچہ متضاد ہیں مگر ان میں ایک طرز مشترک ہے ‘ کافی۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ کافی کی تاریخ کیا ہے اور یہ کن ادوار سے ہوتی ہوئی ہم تک پہنچی ۔ اس تحریر میں ہم اسی کا جائزہ لیں گے اور دنیا میں کافی کی سرگزشت اور روایت کو کھوجنے کی کوشش کریں گے۔کافی کی حقیقت ،ایتھوپیا کا افسانہایتھوپیا کوکافی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ اگر آپ نے کی کافی کی سرگزشت کو گوگل کیا ہے تو آپ کو یہ مشہور کہانی ضرور ملے گی کہ کس طرح ایتھوپیا میں کلدی نامی ایک چرواہے نے 800 عیسوی کے قریب کافی تلاش کی تھی۔کہتے ہیں کہ وہ اپنی بکریوں کے ساتھ تھا کہ اس نے انہیں عجیب و غریب سی حرکتیں کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ ایک درخت سے کچھ بیر جیسا پھل کھانے کے بعد توانا اور پرجوش ہو گئی تھیں۔کلدی نے خود بھی ان بیروں کا ذائقہ چکھا توخود بھی توانا محسوس کرنے لگا۔کلدی ان بیروں کو ایک راہب کے پاس لے کرگیا۔راہبوں نیاسے 'شیطان کا کام‘ قرار دے دیااور اُن بیروں کو آگ میں پھینک دیا۔ ایسا کرتے ہوئے بھینی بھینی اور خوش ذائقہ خوشبو آنے لگی تو ان بیروں کو آگ سے نکال کر انگاروں میں کچل دیا گیا۔ راہبوں نے کچلے ہوئے بیروں پر پانی چھڑکا توخوشبو کا احساس مزید زور پکڑ گیا تو راہب اس پانی کا ذائقہ چکھنے پر مجبور ہو گئے۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا کیونکہ یہ سفوف ملا پانی جو دراصل کافی تھا،راہبوں کو رات کی عبادتوں اور دعاؤں کیلئے بیدار رہنے میں مدد دے رہا تھا۔مگریہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ایک حیرت انگیز افسانہ ہو کیونکہ کافی کی تاریخ کواورومو/گال(Oromo/Galla)کے خانہ بدوش قبیلے سے بھی ملایا جاتا ہے۔کافی کی تاریخ یمن سے شروع ؟کافی کی روایت میں یمن کے بارے بھی کچھ مشہور کہانیاں ہیں۔ کافی کی ابتدا کے بارے میں یمن کا سب سے مشہور افسانہ ایتھوپیا کی کہانی سے کچھ کچھ ملتا ہے۔وہ اس طرح کہ ایک یمنی صوفی ایتھوپیا کا سفر کر رہا تھا جہاں اسے کچھ بہت متحرک اور پرجوش پرندے دکھائی دیے جو ایک پودے سے پھل کھا رہے تھے۔ سفر کے تھکے ہوئے صوفی نے بھی ان بیروں کو کھانے کافیصلہ کیا اور اسے محسوس ہوا کہ ان سے خاصی توانا ئی ملتی ہے۔تاہم عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کافی کی پھلیاں اصل میں ایتھوپیا سے یمن برآمد کی گئی تھیں۔ یمنی تاجر کافی کے پودوں کو اپنے وطن لائے اور وہاں ان کی کاشت شروع کی۔جیسا کہ خیال کیا جاتا ہے کہ کافی کی ابتدا ایتھوپیا میں ہوئی تھی، یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے 15 ویں صدی میں بحیرہ احمر کے پار شمال کی طرف یمن کی جانب اپنا راستہ بنایا اورپھر یہ یمنی علاقے میں بھی اگائی جانے لگی اور 16 ویں صدی تک یہ فارس، مصر، شام اور ترکی تک پہنچ چکی تھی۔یہ مشروب چوکنا رہنے میں مدد کرنے کیلئے اپنی خصوصیات کیلئے بے حد مقبول ہوا، جس سے لوگوں کو روحانی معاملات اور دعا ؤںمیں زیادہ وقت لگانے کی آسانی بھی ملی۔دنیا کا پہلا کافی ہاؤس 1475ء میں قسطنطنیہ(استنبول) میں کھولا گیا تھا۔ کافی روزانہ کے معمول کے طور پر گھر میں اور مہمان نوازی کیلئے پیش کی جانے لگی۔ بیرون ِخانہ لوگوں نے نہ صرف کافی پینے بلکہ گپ شپ، موسیقی ، شطرنج کھیلنے اور اطلاعات حاصل کرنے کیلئے کافی ہاؤسز کا دورہ کرنا شروع کر دیا۔ کافی ہاؤسز تیزی سے معلومات کے تبادلے اور حصول کا مرکز بن گئے۔ انہیں اکثر ''دانشمندوں کے مدرسے‘‘ کہا جاتا تھا۔کافی یورپ کیسے پہنچی ؟پھر کافی کی تاریخ کا رْخ بدلنا شروع ہوا۔دراصل اس مشروب نے یورپی مسافروں میں کافی مقبولیت حاصل کر لی تھی۔17 ویں صدی تک کافی نے یورپ کا راستہ بنا لیا تھا اور پورے یورپی براعظم میں تیزی سے مقبول ہو رہی تھی۔یورپی کافی کی تاریخ اٹلی سے شروع ہوتی ہیجہاں اسے سلطنت ِعثمانیہ سے درآمد کیا گیا تھا۔وینس کے تاجروں نے یورپی علاقوں میں کافی کی وسیع پیمانے پر مقبولیت میں اہم کردار ادا کیا اور 1645ء میں وینس میں پہلا یورپی کافی ہاؤس کھولا گیا۔ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے انگلینڈ میں بھی کافی بہت مقبول ہوئی۔ انگلینڈ میں پہلا کافی ہاؤس 1651ء میں آکسفورڈ میں کھولا گیا۔ یہ کافی ہاؤسز صرف مردوں کیلئے ہوا کرتے تھے جہاں وہ کاروبار اور خبروں پر تبادلۂ خیال کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ بہت سے کاروباری منصوبے اور آئیڈیاز لندن کے کافی ہاؤسز میں تخلیق ہوئے۔ اس کے بعد فرانس کے بادشاہ لوئس XIV کے دربار میں ترک سفیر سلیمان آغا نے 1669ء میں فرانس میں کافی متعارف کروائی۔ وہاں کافی کو ''جادوئی مشروب‘‘کا نام دیا گیا۔ دو سال بعد، 1671ء میں پاسکل نامی ایک آرمینیائی باشندے نے سینٹ گرمین کے میلے میں کافی کا ڈھابہ کھولا۔ اگلے 30 سالوں میں کافی آسٹریا، جرمنی، سپین اور باقی یورپ میں ثقافتی مشرو ب بن چکی تھی۔ کافی کا بحر اوقیانوس کو عبور کرنا ورجینیا کی کالونی کے بانی کیپٹن جان سمتھ نے 1607 میں جیمز ٹاؤن کے دیگر آباد کاروں کو کافی متعارف کروائی۔ تاہم پہلے اسے خوشدلی سے قبول نہیں کیا گیا اور اس کے مقابلے میں چائے کو ترجیح دی گئی۔1670 میں، ڈوروتی جونز بوسٹن میں کافی فروخت کرنے کا لائسنس حاصل کرنے والی پہلی دکاندار تھیں۔ 1700 کی دہائی کے وسط تک بہت سے شراب خانوں کو بھی کافی ہاؤس کہا جاتا تھا لیکن چائے اب بھی لوگوں کا پسندیدہ مشروب تھی۔ چائے پر زوال اُس وقت آ یا جب برطانیہ کے خلاف بغاوت کی وجہ سے اسے پینا غیر محب وطن ہونے کی علامت سمجھا جانے لگا اور چائے سمندر میں پھینکی جانے لگی۔ اس کے بعد کافی تیزی سے مقبول ہوئی۔''نئی دنیا‘‘ کا گرم مرطوب موسم کافی کی کاشت کیلئے آئیڈئیل خیال کیاگیا اور کافی کے پودے تیزی سے پورے وسطی امریکہ میں پھیل گئے۔امریکہ میں کافی کی پہلی فصل کی چنائی 1726 میں ہوئی۔لاطینی امریکی ممالک میں بھی کافی کی کاشت کیلئے مثالی حالات تھے، جیسا کہ دھوپ اور بارش کا اچھا توازن اور مرطوب درجہ حرارت۔ اٹھارہویں صدی کے وسط تک لاطینی امریکہ کے ممالک جنگلات کو صاف کر کے کافی اگانے والے کچھ سرکردہ ممالک بن گئے۔ آج بھی برازیل دنیا کا سب سے بڑا کافی پروڈیوسر ہے۔(محمد علی تاریخی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کے مضامین مختلف جرائد اور ویب سائٹوں پر شائع ہوتے ہیں)

سلطان الہندرضیہ عظیم تاریخی جانباز خاتون

سلطان الہندرضیہ عظیم تاریخی جانباز خاتون

ہندوستان کی تاریخ میں عظیم اور جانباز خواتین میں سے ایک رضیہ سلطان حیرت انگیز بہادری اور بے مثال خوبیوں سے بھرپور نادر الوجود شخصیت کی حامل خاتون سلطان، پردہ نشین معاشرہ کا نایاب ہیرا تھیں۔ جس نے تخت سلطانی پر رونق افروز ہو کر اس عہد میں مرد سلطان کے ہم پلہ اپنی صلاحیتوں کا ثبوت پیش کیا اور تقریباً سات سو پچاسی سال پہلے اس سماج میں جس میں عورت کا پردے میں رہنا مستحسن سمجھا جاتا تھا، یہ ثابت کردیا کہ جب اس سماج کی بیٹی پر سلطان ہند کی ذمہ داری آئی تو اس نے سلطنت کی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دیا اور پورے طبقۂ نسواں کیلئے اس کی شخصیت کشش کا سرچشمہ بنی۔ رضیہ سلطان کی شخصیت اور کارناموں سے تمام ہندوستانی خواتین کو تحریک ملتی ہے۔ رضیہ سلطان نے ہندوستان پر تین سال چھ مہینے اور چھ دن حکومت کی۔ اس مختصر عرصے میں اس نے اپنی لیاقت اور عظمت کے جوہر، دوست اور دشمن دونوں سے تسلیم کرائے۔ تخت دہلی پر رضیہ کے فائز ہونے کے سلسلے میں مندرجہ ذیل امور پر توجہ دینا ضروری ہے۔ سلطنت دہلی کی تاریخ میں دہلی کے عوام نے پہلی بار کسی کو اپنی مرضی کے مطابق تخت پر بٹھایا تھا۔ اس کے بعد سے دہلی کے عوام کی حمایت رضیہ کے استحکام کا خاص ذریعہ بنی رہی۔ جب تک وہ دہلی سے باہر نہیں نکلیں اس وقت تک کوئی بھی بغاوت اس کے خلاف کامیاب نہ ہو سکی اور نہ محل کے اندر کوئی انقلاب برپا ہوا۔ اس نے اپنی تخت نشینی کو ایک معاہدے کی شکل میں یہ کہہ کر دے دی کہ اگر وہ عوام کے توقعات پر پوری نہ اتری تو عوام کو حق ہوگا کہ وہ اسے تخت سے برطرف کر دیں۔ اس واقعہ سے التمش کا انتخاب صحیح ثابت ہوتا ہے۔دہلی کی فوج اور افسران نے رضیہ کو تخت پر بٹھایا تھا چنانچہ صوبائی گونر جو عام طور سے ترک حکمراں طبقے کے ایک طاقت ور جزو ہوا کرتے تھے، فطری طور پر خود کو ذلیل اور نظر انداز کردہ محسوس کرنے لگے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت کے آغاز ہی سے رضیہ کو ان کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ رضیہ نے یہ ثابت کردیا کہ وہ صورتحال کا مقابلہ کامیابی کے ساتھ کر سکتی تھیں۔ اقتدار پر قابض ہونے کیلئے اس کا پہلا قدم ہی اس کی سیاسی شخصیت کی دلیل ہے۔ رضیہ کے اندر وہ تمام قابل ذکر خوبیاں موجود تھیں جن کا بادشاہوں کے اندر پایا جانا ضروری ہے، لیکن اس کا عورت ہونا اس کی سب سے بڑی دشواری تھی۔ یہ دشواری اس کے دل و دماغ کی پوری صلاحیتوں کے آزادانہ عمل کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی تھی۔رضیہ نے تخت نشین ہونے کے بعد تدبر سے کام لیا۔ بدایو، ملتان، جھانسی اور لاہور کے اقطاع دار، جو اس کے مخالف ہو گئے تھے ان کے درمیان میں ایسا اختلاف پیدا کیا کہ وہ آپس میں ہی لڑنے جھگڑنے لگے۔ اور ان کی یکجہتی ختم ہو گئی۔ رضیہ کی اس ہوش مندانہ تدبیر سے اس کا وقار بڑھ گیا۔ اس نے حکومت کے نظام کی نئی تشکیل کرکے خواجہ مہذب الدین کو وزیر بنایا اور نئے نئے اقطاع دار مقرر کئے۔ اس کے بعد شاہی دربار کے افسران کی تقرری ہوئی۔ ملک جمال الدین یاقوت کو امیر آخور (گھوڑے کے اصطبل کا داروغہ) مقرر کیا۔ ترکوں نے جمال الدین یاقوت کی تقرری کی مخالفت کی کیوں کہ وہ ایک حبشی غلام تھا اور اس سے پہلے اس عہدے پر صرف ترک افسران ہی مقرر کیے جاتے تھے۔وفادار اور قابل اعتماد انتظامیہ کا عملہ مقرر کرنے کے بعد رضیہ نے معاملات پر براہ راست کنٹرول رکھنے کیلئے توجہ کی۔ وہ سارے اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی تھیں، جبکہ امرا رضیہ کی مخالفت کر رہے تھے، کیونکہ وہ ایک مضبوط اور مطلق العنان حکمراں کو تخت پر دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ رضیہ اگر پردہ میں رہتیں تو ایسا ممکن نہیں تھا، جس تخت پر بیٹھتی تھیں درباریوں اور عوام کے حصے سے ایک پردہ کے ذریعے علیحدہ رکھا جاتا تھا۔ اس طرح کا بھی انتظام تھا کہ محافظ خواتین اس کے پاس کھڑی رہتیں اور ان لوگوں کے بعد رضیہ کے خونی رشتہ دار ہوتے۔ انتظام غیر مناسب ثابت ہو رہا تھا لہٰذا اس نے زنانہ لباس ترک کردیا اور قباو کلاہ پہن کر عوام کے سامنے حاضر ہوئی۔ کھلے بند گھوڑے پر سواری کرتی اور دربار میں موجود رہ کر حکومت کو مستحکم بنانے کی کوشش کرتی۔ بہادر اور دلیر ہونے کے علاوہ، وہ ایک کامیاب سپاہی اور جنرل بھی تھیں۔ سیاسی سازشوں اور جوڑ توڑ میں مشاق تھیں۔ اس کی وجہ سے ترکوں کی سلطنت کا وقار ہندوستان میں بڑھ گیا۔قطب الدین ایبک سے لے کر التتمش تک تمام سلاطین اپنے امراء کے سامنے تخت پر بیٹھنے سے جھجھکتے تھے، یعنی رضیہ سے پہلے اور اس کے بعد بھی التتمش کے خاندان کے اور افراد اپنی شخصیت اور کردار کے لحاظ سے کمزور تھے، لیکن یہ صرف تنہا رضیہ ہی تھیں جو اپنی صلاحیت اور لیاقت کی بنا پر سلطنت دہلی کی سیاست پر حاوی رہنے کی کوشش کرتی رہتی تھیں۔ طبقات ناصری کے مصنف نے لکھا ہے کہ وہ جلیل القدر، عاقل، عادل، کریم، رعیت پرور اور لشکر کش حکمراں تھیں۔ اس میں وہ تمام خوبیاں تھیں جو ایک حکمراں میں ہونی چاہئیں۔ مورخین کا خیال ہے کہ جب رضیہ نے پردہ ترک کیا تو شرع کے پابند امراء بھڑک اٹھے۔ دراصل وہ ایک عورت کی اطاعت کرنا اپنے لئے باعث توہین سمجھتے تھے۔ فرشتہ نے رضیہ کے متعلق لکھا ہے کہ ''رضیہ بیگم میں ہر قسم کی نیکی موجود تھی اور جو لوگ اس پر معترض تھے ان کے پاس سوائے اس کے اور کوئی وجہ نہیں تھی کہ رضیہ بیگم عورت تھیں‘‘۔

آج کا دن

آج کا دن

سلطان احمد جامع مسجد کی بنیاد رکھی گئی 31 دسمبر 1609ء کو استنبول میں سلطان احمد جامع مسجد کی بنیاد رکھی گئی۔8 سال میں مکمل ہونے والی اس مسجد کو بیرونی دیواروں کے نیلے رنگ کے باعث نیلی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ تعمیر کے وقت یہ ترکی کی واحد مسجد تھی جس کے چھ مینار تھے ۔تعمیر مکمل ہونے پر سلطان کو اس کا علم ہوا تو اس نے سخت ناراضی کا اظہار کیا کیونکہ اُس وقت صرف مسجد حرام کے 6مینارتھے۔مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ مسجد حرام میں ایک مینار کا اضافہ کر دیا گیا۔کووڈ 19کا آغاز31دسمبر2019ء کو عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پہلے کووڈ کیس کی تصدیق کی گئی جس کے بعد یکم جنوری2020ء کو دنیا بھر میں صحت ایمرجنسی کا اعلان کر دیا گیا۔ اسی دوران چائنہ سمیت دنیا بھرمیں تیزی سے کیسز رپورٹ ہونے لگے جس کے بعد11مارچ2020ء کو کووڈ 19کو عالمی وباء قرار دے دیا گیا۔ اب کورونا کو کافی حد تک کنٹرول کر لیا گیا ہے اور اس کی ویکسین بھی موجود ہے۔چیکو سلواکیہ کی تحلیلچیکو سلواکیہ کی تحلیل 31دسمبر1992ء کوعمل میں آئی جس کے بعد یہ جمہوریہ چیک اورجمہوریہ سلواکیہ کے آزاد ممالک میں تقسیم کردیا گیا۔ دونوں نے چیک سوشلسٹ ریپبلک اور سلواک سوشلسٹ ریپبلک کی عکاسی کی جو 1969ء اور 1989ء کے آخر تک چیکو سلواکیہ سوشلسٹ ریپبلک کے طور پر پہچانی جاتی تھیں۔ اس تحلیل کو کئی جگہ1989ء میں Blodless ویلوٹ انقلاب کے حوالے سے ویلوٹ ڈائیورس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔جزوی چاند گرہن31دسمبر2009ء کو ایک جزوی چاند گرہن نظرآیا۔یہ چاند گرہن زیادہ قابل ذکر اس لئے ہے کہ یہ نیلے چاند (دسمبر میں دوسرا پورا چاند) کے دوران رونما ہوا تھا۔ نئے سال کی شام اور نیلے چاند پر اگلا چاند گرہن 31 دسمبر 2028ء کو ہو گا۔اسے جزوی چاند گرن اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ اس دوران چاند کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ زمین کی چھتری کے سائے میں داخل ہوا لیکن چاند گرہن کے وقت چاند کی جنوبی سطح پر ایک واضح سیاہی نظر آ رہی تھی۔چن یی سکوائر بھگدڑ31دسمبر2014ء کو شنگھائی میں چن یی سکوائر پر ایک تقریب کے دوران بھگدڑ کا خوفناک واقعہ پیش آیا۔ اس تقریب میں تقریباً3لاکھ افراد شریک تھے۔بھگدڑ کے نتیجے میں 36افراد ہلاک جبکہ 40 شدید زخمی ہوئے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب لوگ دریا کو دیکھنے والے پلیٹ فارم پر چڑھنے اور بہت سے لوگ نیچے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔بھگدڑ سے پلیٹ فارم کی سیڑھیوں پر لوگ ایک دوسرے سے ٹکرا کر سیڑھیوں سے نیچے گرنے لگے۔