بدوقبائل:دنیا کے قدیم ترین خانہ بدوش
سائنس کی ترقی نے دنیا کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔دنیا جو ایک ''گلوبل ولیج‘‘ کا روپ دھار چکی ہے ، اس کی روایات بدل گئیں ، اس کے اطوار، اس کا کھانا پینا اس کا رہن سہن ، حتی کہ سب کچھ ہی بدل گیا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ اب بھی دنیا کے کونے کھدروں میں چند ایک ایسے قبیلے موجود ہیں ، صدیاں بیتنے کے بعد بھی انہوں نے اپنے آپ کو ذرہ برابر بھی نہیں بدلا۔ اگرچہ ایسے علاقے آٹے میں شاید نمک سے بھی کم ہوں گے لیکن اردن کے گردونواح میں واقع ''وادیٔ رم‘‘ کے بدو معدودے ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو جوں کے توں رہے۔ وہ آج بھی خانہ بدوشوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔یہاں یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ آج کا سعودی عرب صدیوں پہلے خانہ بدوش بدوں کا گڑھ ہوا کرتا تھا ۔اسلام سے پہلے کے معاشرے میں بدو قبائل کے لوگ کئی گروہوںاورذاتوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ان سب کے رسم و رواج ، رہن سہن اور طرز حکمرانی جدا جدا تھے۔ تیسری صدی کے بعد ان میں معاشرتی شعور اجاگر ہوا تو تمام بدو گروہوں نے مل کر ایک اتحاد بنا لیا اور یوں یہ ایک قبائلی کنفیڈریشن کی صورت میں منظر عام پر آئے جس نے ان کی طاقت میں اضافہ کردیا۔
اس دور میں خطہ عرب جغرافیائی لحاظ سے دو حصوں، حجاز اور نجد پر مشتمل تھا۔مغربی ساحلی علاقہ حجاز کہلاتا تھا جس میں مکہ ، مدینہ اور جدہ جیسے شہر شامل تھے جبکہ دوسرا علاقہ نجد کہلاتا تھا۔جس میں صحرائی اور پہاڑی علاقے شامل تھے، آج کل کا شہر ریاض بھی اسی خطے کا حصہ تھا۔ اس وسیع و عریض علاقے میں صدیوں سے خانہ بدوش اور جنگ پسند بدو قبائل کے لوگ آباد تھے۔اس علاقے کو یہ انفرادیت حاصل تھی کہ یہاں کبھی کسی غیر ملکی طاقت کا راج نہیں رہا بلکہ یہاں بدو قبائل ہی آباد چلے آ رہے تھے جو خود کو آزاد اور خود مختار سمجھتے تھے۔
آخری پیغمبر حضرت محمدﷺ کی رحلت تک تقریباً پورا خطہ عرب دائرہ اسلام میں داخل ہو چکا تھا اور اس وقت تک عرب کے تمام بدوؤں کے گروہ اسلام کے پرچم تلے آچکے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بدوؤں کی شناخت ثانوی حیثیت اختیار کرتی گئی ماسوائے بدوؤں کے ان قبائل کے جنہوں نے اپنی روایات اور اپنے مسکن کو تبدیل کرنے سے انکار کر دیا۔ ان میں وادیٔ رم سب سے نمایاں ہے، جہاں آج بھی دنیا سے بے نیاز بدو، خانہ بدوشوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔
خانہ بدوش بدو کیسے رہتے ہیں
وادیٔ رم کے خانہ بدوش بدوؤں کا شاید یہ سب سے قدیم قصبہ ہے جس کا رہن سہن، رسم و رواج ، کھانا پینا بالخصوص مہمان نوازی کا اعلیٰ وصف ذرہ برابر بھی نہیں بدلا۔ وادیٔ رم عرب دنیا میں بدوؤں کا اب سب سے بڑا مرکز ہے۔ ایک بات جو بدوؤں کو دوسری اقوام سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کے نام ہیں ، جس میں ان کے پردادا سے لے کر ان کے باپ اور قبیلے تک کا نام شامل ہوتا ہے ، جسے یاد کرنا یا روانی میں دہرانا آسان نہیں ہوتا۔
وادی رم کی مہمان نوازی دنیا بھر میں ایک مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ صدیوں سے ان کا عقیدہ ہے کہ ان کے در پر آیا ہر شخص ان کا مہمان ہے ، اسی لئے گھر پر آئے فرد یا افراد کی خاطر مدارت کرنا صدیوں سے ان کی روایات کا حصہ چلا آ رہا ہے ۔یہی حال ان کے لباس کا ہے جو صدیوں سے جوں کا توں چلا آرہا ہے۔ یہ لوگ آج بھی سر پر ایک مخصوص عمامہ پہنتے ہیں جسے مقامی زبان میں ''شماغ‘‘ کہتے ہیں جبکہ اس کے ساتھ یہ سفید رنگ کا ایک لمبا روائتی کرتا پہنتے ہیں جسے مقامی زبان میں '' ثوب‘‘ کہا جاتا ہے۔
یہاں پر چاروں طرف پھیلی پہاڑیاں اور چٹانیں انتہائی ناہموار ہیں جن پر چڑھنا عام انسانوں کیلئے مشکل ہوتا ہے جبکہ مقامی افراد گلہری کی مانند ان پر باآسانی چڑھ جاتے ہیں۔یہاں کے لوگوں نے دس میٹر سے بلند ہر پہاڑی کا نام رکھا ہوتا ہے۔ وادیٔ رم بظاہر اس علاقے کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے لیکن حیرت انگیز طور پر اس کا رقبہ 720 مربع کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔
بدوں کا روائتی طرز زندگی ابھی تک صدیوں پرانا ہی ہے جبکہ مرد و زن اپنے اپنے خیموں میں الگ رہتے ہیں۔ گھر پر آئے مرد مہمان نہ تو گھر کے زنان خانے تک جا سکتے ہیں اور نہ ہی گھر کی خواتین ان کے سامنے آ سکتی ہیں ، البتہ باہر سے آئی خواتین یہاں کے مردوں سے مل سکتی ہیں۔ مہمان نوازی کی ابتدا یہاں قہوے سے ہوتی ہے جبکہ دور سے آئے مہمانوں کو کھانا بھی پیش کیا جاتا ہے۔اگر مہمان مختصر عرصے کیلئے آیا ہو تو اسے مقامی ڈش '' زرب‘‘ پیش کی جاتی ہے جو بکری کے گوشت اور سبزی پر مشتمل ہوتی ہے جبکہ خاص مہمان کیلئے روائتی کھانا '' منسف‘‘ تیار کیا جاتا ہے جو بکری کے گوشت اور پنیر کے ساتھ بنتا ہے۔ رات بسر کرنے والے مہمانوں کو یہ رباب کے ذریعے مقامی موسیقی سے محظوظ بھی کرتے ہیں۔
وادیٔ رم کہاں ہے اور
کتنی قدیم ہے ؟
سعودی عرب کی سرحد سے ملحق عقبہ کے مشرق میں لگ بھگ 60 کلومیٹر کے فاصلے پر جنوبی اردن میں ریت، پتھر اور گرینائٹ کی چٹانوں پر مشتمل ایک وادی ہے جسے '' وادی رم‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ اردن کی سب سے بڑی وادی ہے۔اس وادی کا قریب ترین شہر واڑی ہے جو بحرہ احمر پر واقع بندرگاہ شہر عقبہ سے ایک گھنٹے کی دوری پر واقع ہے۔ یہاں پر اردن کی دوسری بلند ترین پہاڑی ''جبل رم‘‘ موجود ہے جس کی بلندی 5689 فٹ ہے ، جبکہ اردن کی بلند ترین چوٹی ''جبل امعد رمی‘‘ ہے جس کی بلندی 6040 فٹ ہے۔ وادی رم صحرا کو ''چاند کی وادی‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔یہ چونکہ کرۂ ارض کے سب سے متاثر کن مناظر میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے یونیسکو نے اسے عالمی ثقافتی ورثے کے طور پر اپنی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔
صحرائے رم کی ایک طویل قدیم تاریخ ہے جو کبھی اس خطے کا اہم تجارتی راستہ ہوا کرتا تھا۔یہ آثارقدیمہ کی دریافتوں سے مالا مال خطہ ہے جس میں پیٹروگلیف اور نوشتہ جات شامل ہیں جو ہزاروں سال پہلے انسانوں کی موجودگی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ وادیٔ رم کو دنیا کے سامنے سب سے پہلے 1917ء میں متعارف کرانے والا برطانوی فوج کا ایک کرنل ٹی ای لارنس تھا جس کا اکثر وادی ٔ رم سے گزر ہوتا تھا۔ اس نے اپنی شاطرانہ چالوں سے عربوں کے دلوں میں ترکوں کے خلاف نفرت کو ہوا دی۔ اسی وجہ سے اس کی شہرت '' لارنس آف عریبیا‘‘ کے لقب سے ہونے لگی۔ بعد میں متعدد انگلش فلموں کی شوٹنگز بھی اسی وادی میں ہوتی رہیں، جن میں ''لارنس آف عریبیا‘‘ نامی فلم قابل ذکرہے۔
قدیم تاریخی حوالوں سے اس امر کے واضح شواہد ملتے ہیں کہ موجودہ خطہ عرب میں انسانی آبادکاری برفانی دور ختم ہونے کے بعد یعنی لگ بھگ 13000قبل مسیح سے لے کر 18000قبل مسیح کے دوران شروع ہوئی۔ تاریخی حوالوں سے یہاں سب سے پہلے '' دلمن‘‘ نامی ایک تہذیب کا ذکر ملتا ہے۔اس زمانے میں یمن کو ''سبا‘‘، موجودہ عمان کو ''میگن‘‘ جبکہ اردن کو '' نباطین‘‘ کہا جاتا تھا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ وادی عرب کے لوگ شروع سے اپنے آپ کو '' العرب‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ جہاں تک وادی ٔ رم میں انسانی آبادکاری کا تعلق ہے ، اگرچہ ماہرین ابھی تک اس کی صحیح تاریخ کا تعین تو نہیں کر سکے تاہم گمان غالب یہی ہے کہ یہ دو سے تین ہزار سال قدیم کا عرصہ ہو سکتا ہے۔