8اکتوبر2005پاکستان کی تاریخ کا بدترین زلزلہ!
آج سے 19 سال قبل 8 اکتوبر2005 ء کو آنے والے زلزلے نے صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقوں ایبٹ آباد، مانسہرہ، بالاکوٹ اور آزاد کشمیر کے چار اضلاع نیلم، مظفر آباد، باغ اور پونچھ کو نیست و نابود کر دیا تھا۔ ماہ مقدس رمضان کے مبارک دن تھے اور صبح سویرے کا وقت تھا۔وہاں کے باسی اپنے اپنے روزمرہ کاموں کا آغاز کر چکے تھے کہ ایسے میں اچانک زمین شدت سے لرزنے لگی، عمارتیں زمین بوس ہونے لگیں۔چند لمحوں میں ہی وہاں قیامت گزر گئی۔اسلام آباد جیسے شہر میں مارگلہ ٹاورز، دکانات، سرکاری عمارات اور سیکڑوں گھر دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ اس قیامت خیز زلزلے کی نذر ہوگیا۔ بالاکوٹ مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ گیا تھا۔ دیہات میں کوئی مکان نہیں بچ پایا۔کسی کا کوئی اثاثہ محفوظ نہیں رہا۔ اس زلزلہ میں آزاد جموں و کشمیر اور صوبہ خیبر پختونخوا کی 15 سے زائد تحصیلیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔
ایک محتاظ اندازے کے مطابق ایک لاکھ کے قریب لوگ اس خوفناک زلزلے کی نذر ہوگئے تھے۔اس زلزلہ نے جو تباہی پھیلائی اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ چھ ماہ سے زائد کے عرصہ میں ملبے کا ڈھیر بنی ہوئی عمارتوں کے نیچے دبی لاشیں نکالنے میں لگے۔ اس دن درجنوں مقامات پر تو پوری پوری آبادیاں اورگائوںلقمہ اجل بن گئے۔ ہزاروں لوگوں کو کفن اور قبریں بھی نصیب نہ ہوئیں۔ یہ اتنی خوفناک قدرتی آفت تھی کہ اس سے بچ جانے والے لوگ آج بھی سکتے کے عالم میں ہیں۔اس سانحہ کے زخم انیس برس گزرنے کے بعد آج بھی تازہ ہیں۔ہزاروں ایسے بدقسمت افراد اب بھی زندہ ہیں،جو اس زلزلے میں معذور ہو گئے تھے وہ آج بھی سسک سسک کر زندگی گزار رہے ہیں ۔
زلزلہ کے دوران سب سے پہلے ایک فلاحی جماعت کی طرف سے ریسکیو و ریلیف آپریشن شروع کیا گیا۔زلزلہ کے چند منٹ بعد ہی ریسکیو آپریشن شروع کرنے پر اس ادارے کی امدادی سرگرمیوں کو پوری دنیا میں سراہا گیا۔ان کے رضاکار خچروں اور ربڑ بوٹس کے ذریعہ دریائے نیلم عبور کر کے دور دراز پہاڑی علاقوں میں پہنچ کر متاثرین کو خوراک اور دیگر امدادی اشیاء پہنچاتے رہے ۔دوسری جماعت جس نے سب سے زیادہ زلزلہ متاثرین کی مدد کی وہ جماعت اسلامی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی نام نہاد سیاسی جماعتوں نے سوائے بیانات دینے کے متاثرین کی کوئی خاص مدد نہیں کی تھی۔ اس سے ان کی عوام سے کتنی ہمدردی ہے صاف ظاہر ہوتی ہے۔ قیامت خیز زلزلے کو19 سال گزر گئے لیکن حکومتی وعدوں اور دعوئوں کے باوجود نیو بالا کوٹ سٹی ابھی تک نہ بن سکا، سڑکوں سکولوں اور دیگر سہولیات حتیٰ کے تمام سرکاری اداروں کے دفاتر اور عدالتیں بھی شلٹرز میں چل رہی ہیں۔ نہ اولڈ سٹی بن سکا اورنہ ہی نیو سٹی ۔ حکومتوں کی بے حسی اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے بہت سارے منصوبے تاخیر کا شکارر ہے ۔یہ ہی حال دیگر تمام زلزلہ سے متاثرہ مقامات کا بھی ہے ۔
قیامت خیززلزلہ کے بعد پاکستان کی عوام کے علاوہ دنیا بھر سے اربوں ڈالرز کی امداد پاکستان کو ملی تھی۔سوال یہ ہے کہ اتنی امداد ملنے کے باوجود (حالانکہ امداد نہ بھی ملتی تو بھی حکومت کی ذمہ داری تھی کہ متاثرین کی بحالی کیلئے مدد کرتی) اربوں ڈالرز کی وہ امداد کہاں گئی؟ بے شمار ملکی اور غیرملکی رضاکار ادارے اور کارکن بھی دن رات زلزلہ متاثرین کی مدد میں مصروف رہے تھے، سوال یہ ہے کہ کیااس سب کے باوجود زلزلہ متاثرین اورزلزلہ زدہ علاقوں کی صورتحال کیوں نہ بدلی۔ انہیں کیوں نہیں ریلیف ملا؟
اس وقت کی حکومت کے بعد نئی آنے والی حکومتوں نے ان زلزلہ متاثرین کی بحالی کے منصوبوں کو جاری کیوں نہیں رکھا؟۔ مثلاًحکومت نے زلزلے کے فوری بعدبالا کوٹ میں دوبارہ پختہ تعمیر پر پابندی عائد کر دی تھی اور اعلان کیا تھاکہ موجودہ شہر سے23کلومیٹر دور ''بکریال‘‘ کے مقام پر ''نیو بالاکوٹ سٹی‘‘ تعمیر کیا جائے گا اورمتاثرین کو وہاں بسایا جائے گا۔ اس نئے شہر کااس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے افتتاح بھی کیا ،کام بھی شروع ہوا لیکن 19 سال گزرے ''نیو بالاکوٹ سٹی‘‘ کیا تعمیر ہوتا؟ اس کی طرف جانے والی سڑک بھی نہ بن سکی اوراب یہ منصوبہ مکمل طور بند ہی ہوچکا ہے ۔اس منصوبے پر اب تک 4 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں ۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ حکومت بدل جانے سے کیا ایسے عوامی،فلاحی منصوبوں کو ترک کر دینا چاہیے ۔کیونکہ بہت سارے وعدے پرویز مشرف مرحوم نے بھی کیے تھے اس کے بعد ان کی حکومت نہیں رہی انہوں نے جو وعدے عوام سے کیے تھے یا منصوبے شروع کیے تھے وہ آنے والی حکومت نے بند کر دیئے ،کسی حد تک یہ ہی حال گزشتہ اور موجودہ حکومت کا بھی ہے۔ ایسی سوچ کو ،ایسی پالیسی کو ،عوام دشمنی کے علاوہ کیا نام دیا جائے۔اْس وقت کی حکومت نے عوام سے آبادکاری کے جو وعدے کیے موجودہ اور اس سے قبل کی حکومت ان کو پوراکرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آرہی ہے ۔ان کو عوام سے غرض نہیں اپنے نام سے غرض ہے۔
مظفرآباد زلزلے میں سب سے زیادہ تباہ ہونے والے علاقوں میں سے ایک تھا۔سنا ہے اس شہر میں ترکی نے ایک عالیشان مسجد ،سعودی عرب نے یونیورسٹی اور ہسپتال،متحدہ عرب امارات نے ہسپتال اس کے علاوہ سکول وکالج بھی یہ ہی ممالک بنا رہے ہیں ۔عوام الناس کی جانب سے دی ہوئی امداد بھی انہی جماعتوں نے زلزلہ متاثرین تک پہنچائی ہے ۔
سوال یہ بھی ہے کہ ہماری حکومتوں نے اپنے اپنے ادوار میں کیا کیا ہے؟سیاسی جماعتوں نے کیا کیا ہے؟ اربوں ڈالرز کی ملنے والی امداد کو ہڑپ کرنے کے علاوہ ،بیانات دینے کے علاوہ حکومت کو چاہیے تھاعوام کو رہائش،روزگار ہی فراہم کرنے میں مدد کرتی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ابھی تک یعنی 19 سال گزر جانے کے بعد بھی سیکڑوں زلزلہ متاثرین عارضی گھروں میں رہائش رکھے ہوئے کسی غیبی امداد کے منتظر ہیں!