8اکتوبر2005پاکستان کی تاریخ کا بدترین زلزلہ!

8اکتوبر2005پاکستان کی تاریخ کا بدترین زلزلہ!

اسپیشل فیچر

تحریر : اختر سردا رچودھری


آج سے 19 سال قبل 8 اکتوبر2005 ء کو آنے والے زلزلے نے صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقوں ایبٹ آباد، مانسہرہ، بالاکوٹ اور آزاد کشمیر کے چار اضلاع نیلم، مظفر آباد، باغ اور پونچھ کو نیست و نابود کر دیا تھا۔ ماہ مقدس رمضان کے مبارک دن تھے اور صبح سویرے کا وقت تھا۔وہاں کے باسی اپنے اپنے روزمرہ کاموں کا آغاز کر چکے تھے کہ ایسے میں اچانک زمین شدت سے لرزنے لگی، عمارتیں زمین بوس ہونے لگیں۔چند لمحوں میں ہی وہاں قیامت گزر گئی۔اسلام آباد جیسے شہر میں مارگلہ ٹاورز، دکانات، سرکاری عمارات اور سیکڑوں گھر دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ اس قیامت خیز زلزلے کی نذر ہوگیا۔ بالاکوٹ مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ گیا تھا۔ دیہات میں کوئی مکان نہیں بچ پایا۔کسی کا کوئی اثاثہ محفوظ نہیں رہا۔ اس زلزلہ میں آزاد جموں و کشمیر اور صوبہ خیبر پختونخوا کی 15 سے زائد تحصیلیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔
ایک محتاظ اندازے کے مطابق ایک لاکھ کے قریب لوگ اس خوفناک زلزلے کی نذر ہوگئے تھے۔اس زلزلہ نے جو تباہی پھیلائی اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ چھ ماہ سے زائد کے عرصہ میں ملبے کا ڈھیر بنی ہوئی عمارتوں کے نیچے دبی لاشیں نکالنے میں لگے۔ اس دن درجنوں مقامات پر تو پوری پوری آبادیاں اورگائوںلقمہ اجل بن گئے۔ ہزاروں لوگوں کو کفن اور قبریں بھی نصیب نہ ہوئیں۔ یہ اتنی خوفناک قدرتی آفت تھی کہ اس سے بچ جانے والے لوگ آج بھی سکتے کے عالم میں ہیں۔اس سانحہ کے زخم انیس برس گزرنے کے بعد آج بھی تازہ ہیں۔ہزاروں ایسے بدقسمت افراد اب بھی زندہ ہیں،جو اس زلزلے میں معذور ہو گئے تھے وہ آج بھی سسک سسک کر زندگی گزار رہے ہیں ۔
زلزلہ کے دوران سب سے پہلے ایک فلاحی جماعت کی طرف سے ریسکیو و ریلیف آپریشن شروع کیا گیا۔زلزلہ کے چند منٹ بعد ہی ریسکیو آپریشن شروع کرنے پر اس ادارے کی امدادی سرگرمیوں کو پوری دنیا میں سراہا گیا۔ان کے رضاکار خچروں اور ربڑ بوٹس کے ذریعہ دریائے نیلم عبور کر کے دور دراز پہاڑی علاقوں میں پہنچ کر متاثرین کو خوراک اور دیگر امدادی اشیاء پہنچاتے رہے ۔دوسری جماعت جس نے سب سے زیادہ زلزلہ متاثرین کی مدد کی وہ جماعت اسلامی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی نام نہاد سیاسی جماعتوں نے سوائے بیانات دینے کے متاثرین کی کوئی خاص مدد نہیں کی تھی۔ اس سے ان کی عوام سے کتنی ہمدردی ہے صاف ظاہر ہوتی ہے۔ قیامت خیز زلزلے کو19 سال گزر گئے لیکن حکومتی وعدوں اور دعوئوں کے باوجود نیو بالا کوٹ سٹی ابھی تک نہ بن سکا، سڑکوں سکولوں اور دیگر سہولیات حتیٰ کے تمام سرکاری اداروں کے دفاتر اور عدالتیں بھی شلٹرز میں چل رہی ہیں۔ نہ اولڈ سٹی بن سکا اورنہ ہی نیو سٹی ۔ حکومتوں کی بے حسی اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے بہت سارے منصوبے تاخیر کا شکارر ہے ۔یہ ہی حال دیگر تمام زلزلہ سے متاثرہ مقامات کا بھی ہے ۔
قیامت خیززلزلہ کے بعد پاکستان کی عوام کے علاوہ دنیا بھر سے اربوں ڈالرز کی امداد پاکستان کو ملی تھی۔سوال یہ ہے کہ اتنی امداد ملنے کے باوجود (حالانکہ امداد نہ بھی ملتی تو بھی حکومت کی ذمہ داری تھی کہ متاثرین کی بحالی کیلئے مدد کرتی) اربوں ڈالرز کی وہ امداد کہاں گئی؟ بے شمار ملکی اور غیرملکی رضاکار ادارے اور کارکن بھی دن رات زلزلہ متاثرین کی مدد میں مصروف رہے تھے، سوال یہ ہے کہ کیااس سب کے باوجود زلزلہ متاثرین اورزلزلہ زدہ علاقوں کی صورتحال کیوں نہ بدلی۔ انہیں کیوں نہیں ریلیف ملا؟
اس وقت کی حکومت کے بعد نئی آنے والی حکومتوں نے ان زلزلہ متاثرین کی بحالی کے منصوبوں کو جاری کیوں نہیں رکھا؟۔ مثلاًحکومت نے زلزلے کے فوری بعدبالا کوٹ میں دوبارہ پختہ تعمیر پر پابندی عائد کر دی تھی اور اعلان کیا تھاکہ موجودہ شہر سے23کلومیٹر دور ''بکریال‘‘ کے مقام پر ''نیو بالاکوٹ سٹی‘‘ تعمیر کیا جائے گا اورمتاثرین کو وہاں بسایا جائے گا۔ اس نئے شہر کااس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے افتتاح بھی کیا ،کام بھی شروع ہوا لیکن 19 سال گزرے ''نیو بالاکوٹ سٹی‘‘ کیا تعمیر ہوتا؟ اس کی طرف جانے والی سڑک بھی نہ بن سکی اوراب یہ منصوبہ مکمل طور بند ہی ہوچکا ہے ۔اس منصوبے پر اب تک 4 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں ۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ حکومت بدل جانے سے کیا ایسے عوامی،فلاحی منصوبوں کو ترک کر دینا چاہیے ۔کیونکہ بہت سارے وعدے پرویز مشرف مرحوم نے بھی کیے تھے اس کے بعد ان کی حکومت نہیں رہی انہوں نے جو وعدے عوام سے کیے تھے یا منصوبے شروع کیے تھے وہ آنے والی حکومت نے بند کر دیئے ،کسی حد تک یہ ہی حال گزشتہ اور موجودہ حکومت کا بھی ہے۔ ایسی سوچ کو ،ایسی پالیسی کو ،عوام دشمنی کے علاوہ کیا نام دیا جائے۔اْس وقت کی حکومت نے عوام سے آبادکاری کے جو وعدے کیے موجودہ اور اس سے قبل کی حکومت ان کو پوراکرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آرہی ہے ۔ان کو عوام سے غرض نہیں اپنے نام سے غرض ہے۔
مظفرآباد زلزلے میں سب سے زیادہ تباہ ہونے والے علاقوں میں سے ایک تھا۔سنا ہے اس شہر میں ترکی نے ایک عالیشان مسجد ،سعودی عرب نے یونیورسٹی اور ہسپتال،متحدہ عرب امارات نے ہسپتال اس کے علاوہ سکول وکالج بھی یہ ہی ممالک بنا رہے ہیں ۔عوام الناس کی جانب سے دی ہوئی امداد بھی انہی جماعتوں نے زلزلہ متاثرین تک پہنچائی ہے ۔
سوال یہ بھی ہے کہ ہماری حکومتوں نے اپنے اپنے ادوار میں کیا کیا ہے؟سیاسی جماعتوں نے کیا کیا ہے؟ اربوں ڈالرز کی ملنے والی امداد کو ہڑپ کرنے کے علاوہ ،بیانات دینے کے علاوہ حکومت کو چاہیے تھاعوام کو رہائش،روزگار ہی فراہم کرنے میں مدد کرتی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ابھی تک یعنی 19 سال گزر جانے کے بعد بھی سیکڑوں زلزلہ متاثرین عارضی گھروں میں رہائش رکھے ہوئے کسی غیبی امداد کے منتظر ہیں!

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
برنارڈبارچ بہرے پن نے جس کی زندگی بدل دی

برنارڈبارچ بہرے پن نے جس کی زندگی بدل دی

گزشتہ صدی کے اختتام کا ذکر ہے کہ نیویارک کے سٹی کالج کے میدان میں لڑکے بیس بال کھیل رہے تھے۔ اچانک ان میں لڑائی ہو گئی۔ ایک لڑکے نے بیس بال کا بلا دوسرے لڑکے کے سر پر دے مارا۔ جس لڑکے کے سر پر بلا لگا وہ برنارڈ بارچ تھا۔ بلا لگتے ہی وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑا۔ جب ہوش آیا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کے بائیں کان کا پردہ پھٹ چکا ہے اور وہ بہرہ ہو چکا ہے۔اس بہرے کان نے برنارڈ بارچ کی ساری زندگی بدل دی۔ اس نے ویسٹ پوائنٹ میں بھرتی ہونے اور باقاعدہ فوج میں فائٹر بننے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ وہ اس سلسلے میں امتحان بھی پاس کر چکا تھا۔ لیکن بہرہ ہو جانے کے باعث اسے ویسٹ پوائنٹ میں نہ لیا گیا۔ بہرے کان نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ فوج میں جانے کا خیال ترک کرکے کوئی کاروبار کرے۔ بعد میں اس نے کاروبار میں بے حد دولت کمائی اور اپنے لئے کاروباری حلقے میں ایک منفرد مقام حاصل کیا۔ صدر ووڈروولسن اس کی تجارتی ذہانت سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے اسے ایک بڑی تجارتی ذمہ داری سونپ دی جو اس سے پہلے امریکی تاریخ میں کسی شخص کو نہ سونپی گئی تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران میں امریکہ کی ساری صنعت کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے زمانے میں کسی صنعت کو چلانے یابند کرنے کا پورا اختیار اسے حاصل تھا۔ کوئی بھی تاجر یا کار خانہ دار اس کی رضامندی کے بغیر کسی دوسرے دھات یا چیز کا ایک پونڈ بھی حاصل نہ کر سکتا تھا۔جب ووڈوروولسن 1919ء میں معاہدہ امن پر دستخط کرنے کیلئے یورپ گیا تو وہ برنارڈ بارچ کو اقتصادی مشیر کی حیثیت سے اپنے ساتھ لے گیا۔ برنارڈ بارچ نے مابعد جنگ کے ایک مشکل اور پیچیدہ مسئلے کو بھی بڑی خوش اسلوبی سے حل کیا۔ یعنی امریکی قوم کو کسی قسم کی بے روزگاری اور مالی بحران کا شکار کئے بغیر اسے جنگی صنعت سے نکال کر دوبارہ زمانۂ امن کی صنعت میں داخل کرنے کا مسئلہ۔برنارڈ بارچ کی زندگی پر بیس بال کے بلّے کی ایک چوٹ ہی اثر انداز نہیں ہوئی بلکہ ایک نجومی کے پاس اس کا ایک دفعہ کا جانا بھی اس کی زندگی کو بدلنے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کی والدہ اسے ایک دفعہ ایک ایسے نجومی کے پاس لے گئی جس کا دعویٰ تھا کہ وہ ان کے سر کی نبض پرہاتھ رکھ کر بتا سکتا ہے کہ وہ آئندہ زندگی میں کیا کام کرے گا۔ اس نے برنارڈ کے سر کی نبض دیکھ کر بتایا کہ اسے تاجر بننا چاہئے لیکن برنارڈ بارچ اپنے والد کی طرح ایک سرجن بننا چاہتا تھا۔ اپنے والد کی طرح اس کے اندر بھی طب کا ولولہ موجود تھا اور وہ ایک برس تک علم طب کا مطالعہ بھی کرتا رہا۔ اس کی والدہ اسے کہا کرتی کہ نجومی کے مشورے کے مطابق اسے کاروبار کے متعلق علم حاصل کرنا چاہئے ۔اپنی والدہ کو خوش کرنے کی غرض سے وہ شیشے کا سامان بنانے والی ایک فیکٹری میں پندرہ شلنگ ہفتہ وار تنخواہ پر ملازم ہو گیا اور رات کے وقت قانون پڑھنے لگا۔ اس پر اس کی والدہ کو خدشہ پیدا ہو گیا کہ کہیں وہ وکیل نہ بن جائے۔ نجومی کی نصیحت کو ذہن پر رکھتے ہوئے وہ اکثر اپنے بیٹے سے کہتی رہتی، بارنی! ایسا کام کرو جس میں ڈھیروں روپیہ ہو۔ آخر ایک دن اس نے والدہ کا کہا مان لیا۔وہ وال سٹریٹ(امریکہ کی سٹاک مارکیٹ) گیا اور وہاں سٹہ کھیلا۔ یہ کھیلنے والوں کی ننانوے فیصد تعداد تباہ ہو گئی لیکن برنارڈ بارچ نے لاکھوں پونڈ کمائے۔ یہ ایک حیرت ناک ریکارڈ ہے۔اس سلسلے میں دو باتیں قابل ذکر ہیں اوّل اس نے تھوڑے عرصہ میں بڑے بڑے تاجروں کو اپنا دوست بنا لیا تھا وہ اس کی دلکش شخصیت، ایمانداری، سدا بہار مسکراہٹ اور چابک دستی سے بڑے متاثر ہوتے تھے۔ بڑے بڑے تاجر اسے اپنے ساتھ کھلاتے اور اسے کاروبار کے گر بتاتے، تھوڑے ہی عرصے میں وہ ترقی کرنے لگا۔ ابھی وہ ستائیس برس کا تھا کہ ٹامس فارچون ریار نے لیگٹ اینڈ میٹر تمباکو خریدنے کیلئے برنارڈ بارچ کو دو لاکھ چالیس ہزار پونڈ دے دیئے۔وال سٹریٹ میں برنارڈ بارچ کی کامیابی کا دوسرا اہم راز یہ تھا کہ وہ ہمیشہ حقائق کی تلاش میں رہتا تھا۔ بارچ ہر کام سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کرتا اور اس کے بارے میں ضروری حقائق پہلے ہی سے معلوم کر لیتا۔ کسی کام کا عملی جائزہ لئے بغیر وہ اس میں ہرگز ہاتھ نہ ڈالتا۔برنارڈ بارچ نے ایک دفعہ وال سٹریٹ میں اتفاقیہ طور پر بے حد روپیہ کمایا۔ واقعہ یوں ہے کہ کئی ماہ کی تحقیق کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ تانبے کی پیداوار ضرورت سے زیادہ ہو گئی ہے، اس کی قیمت گر جائے گی اور تانبے پر آٹھ فیصد نفع کم ہو جائے گا لہٰذا اس نے تانبے کے ہزاروں شیئر فروخت کر دیئے۔ نفع کم ہو گیا اور ایک گھنٹے کے اندر اندر سٹاک دس درجے کم ہو گیا۔ دوسرے دن صورت حالات پر غور کرنے کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ تانبے کے سٹاک کے بغیر ہی رہنا بہتر ہوگا۔ ایک سال کے اندر اندر تانبے کا سٹاک ایک سو درجے گر گیا اور اس کیلئے وہی سودا نفع بخش بن گیا۔اسے روپیہ کمانے اور روپیہ تقسیم کرنے دونوں باتوں سے محبت تھی۔ چند برس ہوئے اس نے امریکہ کی فوج کو بارود بنانے کیلئے مشینری خریدنے کی خاطر چھ لاکھ پونڈ دیئے۔ وہ دوسری جنگ عظیم کے آثار بھانپ گیا تھا اور امریکی فوج کی لاپرواہی نے اسے چوکنا کردیا تھا۔گزشتہ جنگ کے دوران میں اس نے اپنی جیب سے سترہ ہزار پونڈدے کر ماہرین کے ایک گروہ کو کچھ ایسے حقائق جن کی امریکی حکومت کو ضرورت تھی معلوم کرنے کیلئے بھیجا۔ یہ خرچ حکومت کو ادا کرنا چاہئے تھا کیونکہ یہ جنگی صنعت کے بارے میں خرچ ہونا تھا لیکن برنارڈ بارچ وہ خرچ خود برداشت کرنے پر مصر رہا۔1918ء میں جب واشنگٹن میں فلو کی خطر ناک وبا پھیلی تو برنارڈ بارچ نے غریبوں کو اس وباء سے بچانے کیلئے اپنی جیب سے ایک ہسپتال بنوایا۔دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر جب امریکہ میں جنگی سامان بننا بند ہو گیا تو اس سے ہزاروں مزدور بے روزگار ہو گئے۔ برنارڈ بارچ نے ان لوگوں کو ان کے گھروں تک پہنچانے کیلئے دس ہزار پونڈ بطور کرایہ دیا۔برنارڈ بارچ کو اپنے والد سے ایک نصیحت ورثے میں ملی تھی۔ یہ نعمت اس کی زندگی میں چراغ راہ رہی ہے۔ اس کے والد نے وہ نصیحت اپنی ایک تصویر کے نیچے لکھ کر اسے دی تھی۔ وہ تصویر برنارڈ بارچ کے کمرے میں اس طرح آویزاں ہے کہ آتے جاتے اس پر نظر پڑتی رہے، وہ نصیحت یہ ہے:''ہمیشہ ایک غیر متزلزل استقلالکو اپنا رہنما بنائو‘‘  

آج کا دن

آج کا دن

یوم کپور جنگ: اسرائیل کا ناقابل تلافی نقصان''جنگ یوم کپور‘‘ کے دوران 1973ء میں آج کے روز اسرائیل کو شدید نقصان اٹھانا پرا۔ مصر پر ایک حملے کے دوران اس کے 150 سے زائد ٹینک تباہ ہو گئے۔ اس جنگ کا آغاز 6 اکتوبر کو ہوا تھااور یہ 26 اکتوبر 1973ء تک جاری رہی۔ یہ جنگ مصر و شام کے عرب اتحاد اور اسرائیل کے درمیان لڑی گئی۔ اس جنگ کا آغاز یہودیوں کے تہوار یوم کپور کے موقع پر ہوا جب مصر اور شام نے جزیرہ نما سینا اور جولان کی پہاڑیوں پر حملہ کیا۔ جزیرہ نما سینا پر اسرائیل نے 1967ء میں ''جنگ شش روزہ‘‘ کے دوران قبضہ کر لیا تھا۔اس جنگ میں اسرائیل کو 1948ء کے بعد سب سے زیادہ نقصان جھیلنا پڑا۔ مجموعی طور پر اس کے 2,656 فوجی ہلاک ہوئے، 15ہزار زخمی جبکہ تقریباً 1ہزار جنگی قیدی بنائے گئے۔''گرینڈ شکاگو فائر‘‘8اکتوبر 1871ء کو شکاگو میں آگ بڑھک اٹھی۔ تاریخ میں ''گرینڈ شکاگو فائر‘‘ کے نام سے محفوظ اس آتشزدگی میں تقریباً پورا شہر جل گیا۔ آگ 3 دن تک لگی رہی اور اس میں 300 افراد ہلاک اور ایک لاکھ سے زائد بے گھر ہو گئے۔ آگ سے شہر کا تقریباً 3.3 مربع میل (9 کلومیٹر ) رقبہ تباہ ہو گیا۔ آگ شہر کے مرکز کے جنوب مغرب میں شروع ہوئی۔اٹلی فضائی حادثہ8 اکتوبر 2001ء کو اٹلی میں ایک افسوسناک فضائی حادثہ پیش آیا، جس میں دونوں طیاروں میں سوار 114 افراد اور زمین پر موجود 4 افراد ہلاک ہو گئے۔ اسکینڈی نیویئن ایئر لائنز سسٹم کی فلائٹ 686، 110 افراد کو کوپن ہیگن، ڈنمارک لے کر جا رہی تھی۔ طیارہ ٹیک آف کرتے ہی ایک ڈبل انجن بزنس جیٹ جو چار افراد کو لے کر فرانس جا رہا تھا سے ٹکرا گیا۔ تحقیق کے بعد شدید دھند کو حادثے کی وجہ قرار دیا گیا۔فرینکلن نیشنل بینک کا دیوالیہ 1974ء میں آج کے روز امریکی فرینکلن نیشنل بینک دیوالیہ ہوا۔ فرینکلن نیشنل بینک فرینکلن اسکوائر پر لانگ آئی لینڈ، نیو یارک میں واقع ہے۔ یہ کبھی ریاستہائے متحدہ کا 20 واں سب سے بڑا بینک تھا۔ 8 اکتوبر 1974ء کو یہ بدانتظامی کی وجہ سے دیوالیہ ہو گیا۔یہ ریاستہائے متحدہ کی تاریخ میں بینک کی سب سے بڑی ناکامی تصور کی جاتی ہے۔  

بدوقبائل:دنیا کے قدیم ترین خانہ بدوش

بدوقبائل:دنیا کے قدیم ترین خانہ بدوش

سائنس کی ترقی نے دنیا کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔دنیا جو ایک ''گلوبل ولیج‘‘ کا روپ دھار چکی ہے ، اس کی روایات بدل گئیں ، اس کے اطوار، اس کا کھانا پینا اس کا رہن سہن ، حتی کہ سب کچھ ہی بدل گیا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ اب بھی دنیا کے کونے کھدروں میں چند ایک ایسے قبیلے موجود ہیں ، صدیاں بیتنے کے بعد بھی انہوں نے اپنے آپ کو ذرہ برابر بھی نہیں بدلا۔ اگرچہ ایسے علاقے آٹے میں شاید نمک سے بھی کم ہوں گے لیکن اردن کے گردونواح میں واقع ''وادیٔ رم‘‘ کے بدو معدودے ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو جوں کے توں رہے۔ وہ آج بھی خانہ بدوشوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔یہاں یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ آج کا سعودی عرب صدیوں پہلے خانہ بدوش بدوں کا گڑھ ہوا کرتا تھا ۔اسلام سے پہلے کے معاشرے میں بدو قبائل کے لوگ کئی گروہوںاورذاتوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ان سب کے رسم و رواج ، رہن سہن اور طرز حکمرانی جدا جدا تھے۔ تیسری صدی کے بعد ان میں معاشرتی شعور اجاگر ہوا تو تمام بدو گروہوں نے مل کر ایک اتحاد بنا لیا اور یوں یہ ایک قبائلی کنفیڈریشن کی صورت میں منظر عام پر آئے جس نے ان کی طاقت میں اضافہ کردیا۔اس دور میں خطہ عرب جغرافیائی لحاظ سے دو حصوں، حجاز اور نجد پر مشتمل تھا۔مغربی ساحلی علاقہ حجاز کہلاتا تھا جس میں مکہ ، مدینہ اور جدہ جیسے شہر شامل تھے جبکہ دوسرا علاقہ نجد کہلاتا تھا۔جس میں صحرائی اور پہاڑی علاقے شامل تھے، آج کل کا شہر ریاض بھی اسی خطے کا حصہ تھا۔ اس وسیع و عریض علاقے میں صدیوں سے خانہ بدوش اور جنگ پسند بدو قبائل کے لوگ آباد تھے۔اس علاقے کو یہ انفرادیت حاصل تھی کہ یہاں کبھی کسی غیر ملکی طاقت کا راج نہیں رہا بلکہ یہاں بدو قبائل ہی آباد چلے آ رہے تھے جو خود کو آزاد اور خود مختار سمجھتے تھے۔آخری پیغمبر حضرت محمدﷺ کی رحلت تک تقریباً پورا خطہ عرب دائرہ اسلام میں داخل ہو چکا تھا اور اس وقت تک عرب کے تمام بدوؤں کے گروہ اسلام کے پرچم تلے آچکے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بدوؤں کی شناخت ثانوی حیثیت اختیار کرتی گئی ماسوائے بدوؤں کے ان قبائل کے جنہوں نے اپنی روایات اور اپنے مسکن کو تبدیل کرنے سے انکار کر دیا۔ ان میں وادیٔ رم سب سے نمایاں ہے، جہاں آج بھی دنیا سے بے نیاز بدو، خانہ بدوشوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ خانہ بدوش بدو کیسے رہتے ہیںوادیٔ رم کے خانہ بدوش بدوؤں کا شاید یہ سب سے قدیم قصبہ ہے جس کا رہن سہن، رسم و رواج ، کھانا پینا بالخصوص مہمان نوازی کا اعلیٰ وصف ذرہ برابر بھی نہیں بدلا۔ وادیٔ رم عرب دنیا میں بدوؤں کا اب سب سے بڑا مرکز ہے۔ ایک بات جو بدوؤں کو دوسری اقوام سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کے نام ہیں ، جس میں ان کے پردادا سے لے کر ان کے باپ اور قبیلے تک کا نام شامل ہوتا ہے ، جسے یاد کرنا یا روانی میں دہرانا آسان نہیں ہوتا۔ وادی رم کی مہمان نوازی دنیا بھر میں ایک مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ صدیوں سے ان کا عقیدہ ہے کہ ان کے در پر آیا ہر شخص ان کا مہمان ہے ، اسی لئے گھر پر آئے فرد یا افراد کی خاطر مدارت کرنا صدیوں سے ان کی روایات کا حصہ چلا آ رہا ہے ۔یہی حال ان کے لباس کا ہے جو صدیوں سے جوں کا توں چلا آرہا ہے۔ یہ لوگ آج بھی سر پر ایک مخصوص عمامہ پہنتے ہیں جسے مقامی زبان میں ''شماغ‘‘ کہتے ہیں جبکہ اس کے ساتھ یہ سفید رنگ کا ایک لمبا روائتی کرتا پہنتے ہیں جسے مقامی زبان میں '' ثوب‘‘ کہا جاتا ہے۔یہاں پر چاروں طرف پھیلی پہاڑیاں اور چٹانیں انتہائی ناہموار ہیں جن پر چڑھنا عام انسانوں کیلئے مشکل ہوتا ہے جبکہ مقامی افراد گلہری کی مانند ان پر باآسانی چڑھ جاتے ہیں۔یہاں کے لوگوں نے دس میٹر سے بلند ہر پہاڑی کا نام رکھا ہوتا ہے۔ وادیٔ رم بظاہر اس علاقے کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے لیکن حیرت انگیز طور پر اس کا رقبہ 720 مربع کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔ بدوں کا روائتی طرز زندگی ابھی تک صدیوں پرانا ہی ہے جبکہ مرد و زن اپنے اپنے خیموں میں الگ رہتے ہیں۔ گھر پر آئے مرد مہمان نہ تو گھر کے زنان خانے تک جا سکتے ہیں اور نہ ہی گھر کی خواتین ان کے سامنے آ سکتی ہیں ، البتہ باہر سے آئی خواتین یہاں کے مردوں سے مل سکتی ہیں۔ مہمان نوازی کی ابتدا یہاں قہوے سے ہوتی ہے جبکہ دور سے آئے مہمانوں کو کھانا بھی پیش کیا جاتا ہے۔اگر مہمان مختصر عرصے کیلئے آیا ہو تو اسے مقامی ڈش '' زرب‘‘ پیش کی جاتی ہے جو بکری کے گوشت اور سبزی پر مشتمل ہوتی ہے جبکہ خاص مہمان کیلئے روائتی کھانا '' منسف‘‘ تیار کیا جاتا ہے جو بکری کے گوشت اور پنیر کے ساتھ بنتا ہے۔ رات بسر کرنے والے مہمانوں کو یہ رباب کے ذریعے مقامی موسیقی سے محظوظ بھی کرتے ہیں۔وادیٔ رم کہاں ہے اور کتنی قدیم ہے ؟ سعودی عرب کی سرحد سے ملحق عقبہ کے مشرق میں لگ بھگ 60 کلومیٹر کے فاصلے پر جنوبی اردن میں ریت، پتھر اور گرینائٹ کی چٹانوں پر مشتمل ایک وادی ہے جسے '' وادی رم‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ اردن کی سب سے بڑی وادی ہے۔اس وادی کا قریب ترین شہر واڑی ہے جو بحرہ احمر پر واقع بندرگاہ شہر عقبہ سے ایک گھنٹے کی دوری پر واقع ہے۔ یہاں پر اردن کی دوسری بلند ترین پہاڑی ''جبل رم‘‘ موجود ہے جس کی بلندی 5689 فٹ ہے ، جبکہ اردن کی بلند ترین چوٹی ''جبل امعد رمی‘‘ ہے جس کی بلندی 6040 فٹ ہے۔ وادی رم صحرا کو ''چاند کی وادی‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔یہ چونکہ کرۂ ارض کے سب سے متاثر کن مناظر میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے یونیسکو نے اسے عالمی ثقافتی ورثے کے طور پر اپنی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔ صحرائے رم کی ایک طویل قدیم تاریخ ہے جو کبھی اس خطے کا اہم تجارتی راستہ ہوا کرتا تھا۔یہ آثارقدیمہ کی دریافتوں سے مالا مال خطہ ہے جس میں پیٹروگلیف اور نوشتہ جات شامل ہیں جو ہزاروں سال پہلے انسانوں کی موجودگی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ وادیٔ رم کو دنیا کے سامنے سب سے پہلے 1917ء میں متعارف کرانے والا برطانوی فوج کا ایک کرنل ٹی ای لارنس تھا جس کا اکثر وادی ٔ رم سے گزر ہوتا تھا۔ اس نے اپنی شاطرانہ چالوں سے عربوں کے دلوں میں ترکوں کے خلاف نفرت کو ہوا دی۔ اسی وجہ سے اس کی شہرت '' لارنس آف عریبیا‘‘ کے لقب سے ہونے لگی۔ بعد میں متعدد انگلش فلموں کی شوٹنگز بھی اسی وادی میں ہوتی رہیں، جن میں ''لارنس آف عریبیا‘‘ نامی فلم قابل ذکرہے۔ قدیم تاریخی حوالوں سے اس امر کے واضح شواہد ملتے ہیں کہ موجودہ خطہ عرب میں انسانی آبادکاری برفانی دور ختم ہونے کے بعد یعنی لگ بھگ 13000قبل مسیح سے لے کر 18000قبل مسیح کے دوران شروع ہوئی۔ تاریخی حوالوں سے یہاں سب سے پہلے '' دلمن‘‘ نامی ایک تہذیب کا ذکر ملتا ہے۔اس زمانے میں یمن کو ''سبا‘‘، موجودہ عمان کو ''میگن‘‘ جبکہ اردن کو '' نباطین‘‘ کہا جاتا تھا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ وادی عرب کے لوگ شروع سے اپنے آپ کو '' العرب‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ جہاں تک وادی ٔ رم میں انسانی آبادکاری کا تعلق ہے ، اگرچہ ماہرین ابھی تک اس کی صحیح تاریخ کا تعین تو نہیں کر سکے تاہم گمان غالب یہی ہے کہ یہ دو سے تین ہزار سال قدیم کا عرصہ ہو سکتا ہے۔

انیس ناگی عمدہ شاعر باکمال نقاد اور منفرد ناول نگار

انیس ناگی عمدہ شاعر باکمال نقاد اور منفرد ناول نگار

ڈاکٹرانیس ناگی ایک ہمہ جہت شخصیت تھے، وہ ایک عمدہ شاعر، باکمال نقاد، منفرد ناول نگار اور فلم میکر تھے۔ انہوں نے جنون کی حد تک ادب سے محبت کی اور ان گنت کتابیں تصنیف کیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ادب، ناگی صاحب کا اوڑھنا بچھونا تھاتو غلط نہ ہو گا۔ انیس ناگی 30 جولائی 1939ء کو شیخو پورہ میں پیدا ہوئے۔ سنٹرل ماڈل سکول لاہور اور گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ 1957ء میں گورنمنٹ کالج کے جریدے ''راوی‘‘ کے مدیر بنے۔ 1960-61ء میں پنجاب یونیورسٹی کے میگزین ''محور‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ 1960ء کی دہائی میں نئی شاعری کی تحریک میں حصہ لیا، جس کے شرکاء کے نزدیک رائج شاعری کا روایتی پیرایہ ناقابل قبول ہوچکا تھا۔انیس ناگی نے اورینٹل کالج سے ایم اے اردو کرنے کے بعد تدریس شروع کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور اورفیصل آباد میں پڑھاتے رہے، پھر مقابلے کا امتحان پاس کر کے صوبائی سول سروس میں شامل ہو گئے۔ اس دوران پنجاب یونیورسٹی سے اردو ادب میں پی ایچ ڈی بھی کی۔ریٹائرمنٹ کے بعد وہ پھر تدریس کی طرف آئے۔ اس میں ان کا دل لگتا تھا۔ ان کے شاگرد ان کے مداح تھے۔ زندگی کی آخری سانسیں 7 اکتوبر 2010ء کو پنجاب پبلک لائبریری میں لیں، جہاں ان کا انتقال ہوا۔ اس وقت ان کے پاس مقالے کے سلسلے میں رہنمائی حاصل کرنے آئی ہوئی ایک طالبہ تھی جس نے ان کے گھر اور کالج اطلاع دی۔شاعری میں انہوں نے زیادہ تر نثری لفظوں کی طرف توجہ دی۔ ان کا شعری مجموعہ ''زرد آسمان‘‘ بہت مقبول ہوا تھا۔ وہ ایک سخت گیر نقاد تھے اور کسی بھی ادب پارے کیلئے تحسین کے چند کلمات ادا کرنا ان کیلئے بہت مشکل کام ہوتا تھا۔ان کی تصانیف میں '' نقدِ شعر، نیا شعری افق، تصورات، نذیر احمد کی ناول نگاری، افتخار جالب: جدید ادب کا معمار، مذاکرات، جان ایس پرس کی نظمیں (ترجمہ)، سعادت حسن منٹو، غالب ایک شاعر ایک اداکار، جنس اور وجود، ابھی کچھ اور، دیوار کے پیچھے، میں اور وہ، زوال، قلعہ، ناراض عورتیں، بریگیڈ 313، بشارت کی رات، غیرممنوعہ نظمیں، بے خوابی کی نظمیں، زرد آسمان، روشنیاں، نوحے، آگ ہی آگ، مستقبل کی کہانی، جہنم میں ایک موسم، ہوائیں، بیابانی کا دن اور چوہوں کی کہانی‘‘ شامل ہیں۔تنقید میں ان کی کئی کتابیں قابل ذکر ہیں جنہوں نے بے شمار لوگوں کومتاثر کیا۔ ان میں ''ڈپٹی نذیر احمدکی ناول نگاری، تنقید شعر‘‘ کا بہت نام لیا جاتا ہے لیکن سعادت حسن منٹو پر لکھی گئی ان کی کتاب انتہائی لاجواب ہے۔ اگر تخلیقی تنقید پڑھنی ہو تو پھر ادب کے قاری کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ انیس ناگی نے سعادت حسن منٹو کے افسانوں سے وہ کچھ ڈھونڈ نکالا جو شاید دوسرے نقاد نہیں ڈھونڈ سکے۔ مثال کے طور پر انیس ناگی نے سعادت حسن منٹو کے افسانوں سے مارکزم دریافت کرلیا۔ مارکسی فلسفے کے اہم ترین نکات کو انہوں نے جس طرح منٹوکے افسانوں سے رابطہ جوڑا وہ انہی کا کمال ہے۔ جہاں تک ان کے ناولوں کا تعلق ہے تو اس میں وہ واضح طور پر کامیو کے پیروکار نظر آتے ہیں۔ انیس ناگی باغیانہ روش کے حامی تھے اور انہوں نے ہمیشہ ادب میں ایک باغی کی حیثیت سے اپنے آپ کو روشناس کرایا۔ ان کا ناول ''دیوار کے پیچھے‘‘ ایک بہت عمدہ ناول ہے جو خود کلامی(Monologue) کے اسلوب میں لکھا گیا ہے اس میں بڑے خوبصورت طریقے سے معاشرتی انتشار کی عکاسی کی گئی ہے۔ ''میں اور وہ‘‘ وجودی فکر کا نمائندہ ناول ہے۔ ناگی صاحب کی ایک اور خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اعلیٰ درجے کے مترجم بھی تھے اور اس میدان میں بھی انہوں نے کئی کارنامے سرانجام دیئے۔منٹو پر فلم کا سکرپٹ لکھا اور فلم خود بنائی جس مین منٹو کا کردار یونس ادیب نے نبھایا۔خود نوشت سوانح حیات ''ایک ادھوری سرگزشت‘‘ کے نام سے لکھی۔ 1999ء میں اکادمی ادبیات کی طرف سے ناول ''کیمپ‘‘ پر وزیر اعظم ادبی انعام ملا۔ انیس ناگی کا نام ان کے کام کی وجہ سے ادب کے آسمان پر ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔خاموشی کا شہرہوا دھند کے پھیلے لب چومتی ہے کہاں زندگی ہے؟ کہاں زندگی کے نشاں ہیں کہ تم شہر میں ہو جہاں ایک ہی روپ ہے جو ہمیشہ رہے گا اٹھو باؤلے اب تمہیں کس تمنا نے منزل کا دھوکا دیا ہے کہ تم سانس کی اوٹ میں چپ کھڑے سوچتے ہو یہاں ہر نفس بے صدا ہے یہاں ہر گھڑی اب سسکتی سی زنجیر ہر اک وفا تیرگی کا ستوں ہے چلو خواہشیں ڈھونڈنے بن سنور کے چلو خواہشیں ڈھونڈنی ہیں نہیں تو یہی خامشی بھوت بن کر گھروں کے کواڑوں کے پیچھے ہمیشہ ڈراتی رہے گی اک بے کشش نظمپہلے کشش عورت میں تھی پھر کشش لفظوں میں تھی اب لفظ عورت بے کشش لہروں تک زمین و آسماں کو دیکھتے ہیں کائناتی سلسلوں میں سلسلہ وہ ڈھونڈتے ہیں جو ہمیں ویران کر کے جا چکا ہے   

انسانی صحت کیلئے ابھرتا ہوا خطرہ

انسانی صحت کیلئے ابھرتا ہوا خطرہ

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کیلئے اکٹھے ہونے والے عالمی رہنماؤں نے گزشتہ ہفتے ''Antimicrobial Resistance‘‘ (AMR)پر بھی غوروخوض کیا اور دنیا کو درپیش اس بڑے طبی خطرے سے بچاؤ کی تدابیر پر غور کیا گیا ۔اینٹی بیکٹیریل رزسٹنس صحت عامہ کا ایک بڑا مسئلہ بن کا سامنے آ رہا ہے ۔ پچھلے کچھ برسوں سے عالمی سطح پر ''ہفتہ آگاہی برائے اینٹی بائیوٹکس‘‘ ہر سال نومبر کے کسی ہفتے میں منایا جاتا ہے جس کا مقصد عوام کو اینٹی بائیوٹک ادویات کے مزاحمتی اثرات (Resistance) سے آگہی اور شعور دینا ہے اور مزید ادویاتی مدافعت کو روکنا ہے۔ اینٹی بائیوٹکس سے لے کر اینٹی وائرلز تک بہت سی جراثیم کش ادویات کی بدولت گزشتہ ایک صدی کے عرصہ میں انسانی کی اوسط عمر میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ہر سال یہ ادویات لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بچاتی ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق ان ادویات کے خلاف مزاحمت اس وقت جنم لیتی ہے جب یہ بیکٹیریا، وائرس، فنگی اور طفیلی جرثوموں پر اپنا اثر کھو دیتی ہیں۔ اس طرح مریضوں کو ان ادویات کا فائدہ نہیں ہوتا اور انفیکشن کا علاج مشکل یا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ایسے حالات میں بیماری کے پھیلاؤ، اس کی شدت میں اضافے، جسمانی معذوری اور موت کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔اس کے نتیجے میں معمولی چوٹ، معمول کی سرجری یا عام انفیکشن بھی جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے جبکہ ذیابیطس کے مریضوں یا کمزور قوت مدافعت والے افراد میں ناقابل علاج انفیکشن ان کی زندگی کو لاحق دوسرا بڑا خطرہ بن جاتی ہے۔ کئی عواملAntimicrobial Resistance کا سبب بن سکتے ہیں، اینٹی بائیوٹکس ادویات کا حد سے زیادہ استعمال ان میں خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اینٹی بائیوٹکس کا بغیر ضرورت کے استعمال، ڈاکٹروں کی جانب سے بھاری مقدار میں یہ ادویات تجویز کرنا یا انہیں حسب ضرورت استعمال کیے بغیر چھوڑ دینا اینٹی بیکٹیریل رزسٹنس کا سبب بنتا ہے۔اس کے علاوہ بھی کئی عوامل ہیں جیسا کہ مویشیوں کی افزائش اور انہیں بیماریوں سے بچانے کیلئے اینٹی بائیوٹکس استعمال کرنے سے ان دواؤں کے خلاف مزاحم جراثیم انسانوں میں بھی منتقل ہو سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں آبادیوں اور طبی مراکز میں صحت و صفائی کے ناقص انتظام سے بھی ادویات کے خلاف مزاحم جراثیم کی طاقت میں اضافہ ہوتاہے۔ بڑے پیمانے پر لوگوں اور اشیا کی نقل و حرکت کے باعث ادویات کے خلاف مزاحم جراثیم باآسانی سرحد پار پہنچ جاتے ہیں۔ سیلف میڈیکیشن بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور اس کے بعد اینٹی بائیوٹکس کا صحیح استعمال نہ کرنا۔عام مشاہدے کی بات ہے کہ ڈاکٹر نے کسی مریض کو ایک ہفتے کیلئے کوئی دوا تجویز کی مگرمریض نے تین دن کھانے کے بعد چھوڑ دی یا ایک کھائی اورایک دو دن ناغہ کر کے پھر شروع کر لی یا دن میں دو بار کھانے کی بجائے ایک بار کھائی۔ معیاری ادویات کی عدم دستیابی، مثال کے طور پر اینٹی بائیوٹک دوا میں فعال جزو (Active ingredient) کی مقدار کم ہے تو وہ دوا بھی اے ایم آر کا سبب بن سکتی ہے۔ ہمارے ہسپتالوں میں انفیکشن کنٹرول سسٹم کا نہ ہونا،صاف پانی کی عدم دستیابی، لائیو سٹاک اور ایگریکلچر میں اینٹی مائیکروبیلز کا بے جا استعمال، حفظان صحت کی کمی، ناقص صفائی اورصاف پانی کی عدم دستیابی بھی اس مسئلے کا سبب بن سکتی ہے۔اے ایم آر میں اضافے سے انفرادی و اجتماعی صحت پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس سے نظام ہائے خوراک، ترقی اور سلامتی پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔ورلڈ بینک کے مطابق اس طبی مسئلے سے 2030ء تک دنیا کو 3.4 ٹریلین ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔صحت سے وابستہ عالمی تحقیقی اداروں کے مطابق ہر سال تقریباً سات لاکھ افراد''اے ایم آر‘‘ کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو 2050ء تک یہ تعداد ایک کروڑ سالانہ تک جا پہنچے گی اور 2050ء تک تقریباً تین کروڑ افراد اس سے غربت کا شکار ہو سکتے ہیں۔''اے ایم آر‘‘ 100 فیصد قابل انسداد ہے۔ 2015ء میں اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے عالمگیر اقدام کی منظوری دی گئی تھی اور اس ضمن میں عوامی سطح پر آگاہی کو بڑھایا گیا، جراثیم کش ادویات کے استعمال کو ذمہ دارانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے اور اس مسئلے پر مزید تحقیق بھی جاری ہے۔دنیا بھر میں تمام لوگوں کی طبی خدمات تک رسائی ممکن بنا کرجراثیم کش ادویات کی طلب میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں انفیکشن کی روک تھام اور اس پر قابو پانا، حفاظتی ٹیکے لگانا اور پانی، نکاسی آب اور صحت و صفائی کے منصوبوں کو بڑھانا ضروری ہو گا۔

انڈے کے غذائی فوائد

انڈے کے غذائی فوائد

انڈے طویل عرصے سے دنیا بھر کی غذاؤں میں ایک اہم مقام رہا ہے، جو ان کی استعداد اور غذائیت کی قدر کیلئے منایا جاتا ہے۔ یہ سادہ کھانے کی شے بے شمار فوائد پیش کرتی ہے جو متوازن غذا اور مجموعی صحت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ انڈا (مرغی) مشہور عام چیز ہے جس سے تقریباً ہر شخص واقف ہے۔ دودھ کی طرح انڈے میں مکمل خوراک ہوتی ہے یعنی اس میں وہ تمام اجزاء موجود ہوتے ہیں جو صحت کو قائم رکھنے کیلئے ضروری ہوتے ہیں۔ انڈوں کی کئی اقسام ہیں۔ مثلاً مرغی کا انڈا، بطخ کا انڈا، ٹرکی کا انڈا اور شتر مرغ کا انڈا۔ مرغی کا انڈا عام طور پر زیادہ استعمال ہوتا ہے۔انڈے میں چھلکا گیارہ حصہ سفیدی ستاون اور زردی بتیس حصہ ہوتی ہے۔ گھریلو مرغیوں کے انڈے سائز اور وزن میں مختلف ہوتے ہیں مگر ان کے اجزائے خوراک تقریباً برابر ہی ہوتے ہیں۔ تازہ انڈے کا ذائقہ نہایت عمدہ ہوتا ہے۔ دیسی مرغی ایک سال میں ساٹھ تا اسی انڈے دیتی ہیں جبکہ ولائتی مرغیاں ایک سو بیس سے ایک سو پچاس تک انڈے دیتی ہیں۔صحیح انڈوں کی پہچان کا طریقہ یہ ہے کہ انڈے کو روشنی کی طرف کر کے دوسری طرف سے دیکھیں اگر صاف نظر آئے تو ٹھیک ہے۔ اگر اس میں کوئی داغ نظر آئے تو پھر انڈا خراب ہے۔ اس کے علاوہ انڈوں کو پانی میں ڈال کر دیکھا جا سکتا ہے۔ صحیح انڈے ڈوب جائیں گے جبکہ خراب انڈے اوپر تیریں گے۔ انڈے کا رنگ اکثر سفید ہوتا ہے۔ کچھ انڈے ہلکے بھورے بھی ہوتے ہیں۔ اس کا ذائقہ پھیکا ہوتا ہے۔ اس کا مزاج زردی مائل بہ گرمی، سفیدی سرد تر درجہ دوم اور چھلکا سرد درجہ دوم اور خشک درجہ دوم ہوتا ہے۔ اس کی مقدار خوراک دو سے چار انڈے ہے۔انڈے کے فوائد:1۔ انڈے خون پیدا کرتے ہیں۔2۔ دل‘ دماغ اور باہ کو قوت دیتے ہیں۔3۔ کمزور مریضوں کی بہترین غذا ہے۔4۔ انڈے کی زردی سے روغن نکالا جاتا ہے جو بال اگانے میں بڑا موثر ہوتا ہے۔5۔ عام جسمانی کمزوری میں دو انڈوں کی زردی اورسفیدی ایک پیالے میں ڈال کر اچھی طرح سے پھینٹیں اور پھر گرم دودھ پائو بھر میں تین چمچے خالص شہد ملا کر پینے سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔6۔ جن لوگوں کو رعشہ کی شکایت ہو ان کیلئے آدھ پکے انڈے کی زردی نہایت مفید ہوتی ہے۔ انہیں چاہئے کہ وہ روزانہ نہار منہ دو آدھ پکے انڈوں کی زردی کھائیں۔7۔ بچوں کو قے اور دست آنے کی صورت میں ایک انڈے کی سفیدی کو پائو بھر پانی میں پھینٹ کر چینی ملا کر پلانے سے صحت ہوتی ہے۔8۔ انڈوں کے چھلکوں کا کشتہ بنا کر سیلان الرحم اور ذیابیطس کی بیماریوں میں استعمال کرنا بے حد مفید ہے۔9۔ انڈے کا تیل دماغی قوت بڑھانے‘ بال پیدا کرنے اور گنج دور کرنے کیلئے مفید ہے۔10۔ انڈوں کے چھلکے خوبصورت کھلونے بنانے اور چھپکلیوں کو الماریوں سے دور رکھنے کے لئے کام آتے ہیں۔11۔ انڈے کو ایک سال تک محفوظ رکھنے کیلئے چار پانچ کلو پانی کو دس منٹ تک ابال کر ٹھنڈا کر کے اس میں آدھا کلو سوڈیم سلی کیٹ ملا کر کسی مرتبان میں انڈے ڈال کر پانی ڈال دیں تو انڈے ایک سال تک محفوظ رہ سکتے ہیں۔12۔ سینے کی جلن کی صورت میں گرم دودھ میں دیسی انڈا پھینٹ کر پلانے سے آفاقہ ہوتا ہے۔13۔ گرتے ہوئے بالوں کو روکنے کیلئے انڈا پھینٹ کر بالوں کی جڑوں میں لگائیں دو گھنٹے بعد سر دھونے سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ کم از کم ایک ہفتہ تک یہ عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔14۔ سینہ کی کھڑکھڑاہٹ اور معدہ کے منہ سے خون آنے کو روکتا ہے۔15۔ انڈا لحمیات کا بہترین ماخذ ہے۔٭...٭...٭