9اکتوبر عالمی یوم ڈاک
ہم ہر سال کچھ مقرر تاریخوں پر یوم استاد، ماں کا دن، لیبر ڈے، ارتھ ڈے، یوم امن اور یوم آزادی وغیرہ کے نام سے مختلف دن مناتے ہیں تاکہ اس دن کی مناسبت سے اس کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کیا جا سکے۔ بالکل اسی طرح 9اکتوبر کو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیورسل پوسٹل یونین کے زیر اہتمام ممبر ممالک میں ''ورلڈ پوسٹ ڈے یعنی عالمی یوم ڈاک منایا جاتا ہے تاکہ عوام کے اندر ڈاک کے نظام اور اس کی خدمات کے حوالے سے شعور و آگاہی پیدا کی جا سکے۔
یوں تو پیغام رسانی اور ڈاک کا تصور اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ خود انسان، وقت کا پہیہ جوں جوں آگے کی طرف حرکت کرتا گیا توں توں پیغام رسانی کے ذرائع بھی ترقی کرتے گئے۔ تاریخ کے ہر دور میں اور دنیا کے ہر طرف کسی نہ کسی شکل میں ڈاک کا تصور موجود تھا۔ آج سے سات ہزارسال پہلے فرعون مصر میں ڈاک کا حوالہ ملتا ہے۔ حضور ﷺ کے زمانے سے مسلمان مختلف فوجی مہمات کے دوران پیغام رسانی کی ضرورت و اہمیت سے آگاہ تھے۔ اس کے علاوہ حضور ﷺ کے مراسلے جو اس وقت آس پاس کے غیر مسلم حکمرانوں کو بھیجے گئے تھے بھی نظام ڈاک کا ابتدائی نقشہ پیش کرتے ہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ نے نظام ڈاک کو سائنسی خطوط پر منظم کیا۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے خاص خاص فاصلوں پر چوکیاں بنائی تھیں، جہاں گزشتہ چوکی کا ہرکارہ ڈاک لے کر پہنچتاتو اگلا ہرکارہ تازہ دم گھوڑالیے تیار ہوتا، اسی طرح یہ سلسلہ قائم رہتا اور بنا کسی تاخیر کے ڈاک ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتا۔بدلتے وقت نے اس میں تبدیلیاں کیں اور موجودہ ڈاک کا نظام قائم ہوا ۔ اسی طرح اموی خلفاء اور عباسی خلفاء نے بھی اپنے اپنے ادوار میں نظام ڈاک پر خصوصی توجہ دی۔برصغیر پاک و ہند کی بات کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ علائو الدین خلجی اور شیر شاہ سوری نے ڈاک کی بہتری کیلئے کئی دور رس اصلاحات اور اقدامات کئے۔ مغل بادشاہ بھی ڈاک کی اہمیت سے بے خبر نہ تھے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد جب انگریزوں نے برصغیر میں اپنا تسلط مستحکم کیا تو نظام ڈاک کو برطانوی نظام کے مطابق جدید اور سائنسی خطوط پر استوار کیا گیا۔
آج ورلڈ پوسٹ ڈے ہے، 1874ء میں آج ہی کے دن یونیورسل پوسٹل یونین بنائے جانے کیلئے 22 ممالک نے اپنی رضامندی ظاہر کی تھی۔ برسوں بعد 1969ء میں جاپان کے ٹوکیو میں ایک تقریب میں آج ہی کے دن کو ورلڈ پوسٹ ڈے (عالمی یوم ڈاک) کے طور پر منانے کا فیصلہ لیا گیا۔ اس کا مقصد تھا کہ شہریوں کو ڈاک سروس سے جوڑا جائے اور ان میں اس کے تئیں بیداری لائی جائے۔2024ء کا تھیم ''ملک بھر میں مواصلات اور لوگوں کو بااختیار بنانے کے 150 سال‘‘ہے۔
پوسٹ آفس صرف پرانی عمارتوں اور لال ڈبوں والے نہیں، کئی پوسٹ آفس اپنے انوکھے پن کے سبب ٹورسٹ اسپاٹ بھی بن چکے ہیں۔ جیسے ویتنام میں دنیا کا سب سے خوبصورت پوسٹ آفس ہے، جسے دیکھنے کیلئے دور دور سے سیاح آتے ہیں۔ اسے سائیگان سینٹرل پوسٹ آفس کہتے ہیں۔ ویتنام کے ہوچی منہی شہر میں اس ڈاک گھرکو 1886ء میں فرینچ آرکیٹیکٹ گستاؤ ایفل نے بنایا تھا۔ یہ فرانسیسی واستود وہی ہیں، جنہوں نے اسٹیچو آف لبرٹی اور آئیفل ٹاور کا ڈیزائن تیارکیا تھا۔ اس پوسٹ آفس کو بنانے میں تین سال لگے۔ یوروپین ریلوے اسٹیشن کی طرز پر اسے بنایا گیا ہے۔ یہاں دیواروں پرنقاشی ہے اوربہت ہی بڑے بڑے جھروکے ہیں۔ یہاں جگہ جگہ ٹیلیفون بھی لگے ہوئے ہیں تاکہ سیاح اطمینان سے اپنے دوستوں اورگھر والوں کو فون کر سکیں۔
دنیا کی سب سے ٹھنڈی جگہ انٹارکٹکا کا بھی ایک پوسٹ آفس ہے، جسے ''پورٹ لاکری‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کا ایک حصہ میوزیم کی طرح بھی کام کرتا ہے۔ یہاں سے دنیا کے کسی بھی حصے میں ایک خط پہنچانے کی قیمت ہے ایک ڈالر اور اسے پہنچنے میں دو ہفتے سے لے کرایک سال تک کا بھی وقت لگ سکتا ہے۔ یہ اس پر منحصرکرتا ہے کہ آپ نے کس موسم میں خط پوسٹ کیا ہے۔
اسی طرح بھارت کے زیر تسلط مقبوضہ کشمیر میں ایک تیرنے والا یعنی ''فلوٹنگ پوسٹ آفس‘‘ ہے، جو کہ ایک ہاؤس بوٹ میں بنا ہوا ہے۔ یہ کشمیر کی ڈل جھیل میں واقع ہے اور یہاں پر کسی بھی دوسرے پوسٹ آفس کی طرح ہی کام ہوتا ہے۔ 2014ء کے سیلاب میں پوسٹ آفس بہنے لگا تھا، جب فوجیوںنے اسے باندھ کر رکھا۔ معمولات زندگی ٹھیک ہونے کے بعد تیرنے والا پوسٹ آفس دوبارہ کام کرنے لگا۔
جدید دور میں ٹیلی فون، موبائل اور کمپیوٹر نے رابطوں میں آسانی پیدا کردی تاہم پوسٹل سروس کی اہمیت آج بھی زندہ ہے، پاکستان پوسٹ نے کوریئر سروسز، سیم ڈے ڈیلیوری اور انٹرنیشنل کوریئر کی نئی سہولیات بھی متعارف کرادی ہیں۔