سمارٹ ٹریفک سگنلز
سمارٹ ٹریفک کنٹرولنگ سسٹم کی نمائش میں سب سے زیادہ توجہ سمارٹ ٹریفک سگنلز سسٹم پر دی گئی جو جدید اور انتہائی حساس کیمروں سے لیس ہوں گے۔ سمارٹ ٹریفک سگنلز خود کار گاڑیوں کو کنٹرول کرنے اور انہیں درست کمانڈ دینے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔نمائش میں یورپی یونین کے پویلین میں سمارٹ گاڑیوں کے ماڈلز کو پیش کیا گیا جو آسٹریا میں استعمال کی جا رہی ہیں۔ان گاڑیوں میں سوار ہونے والوں کو یہ سہولت ہوتی ہے کہ وہ اپنی منزل کا تعین کریں اور محفوظ ڈرائیونگ کے جدید تجربے سے لطف اندوز ہوں۔
ناروے پویلین میں پبلک ٹرانسپورٹ کیلئے استعمال ہونے والی ایپلی کیشن کے طریقے کو واضح کیا گیا جس کے ذریعے عوامی ٹرانسپورٹ کیلئے ٹکٹوں کی خریداری و ادائیگی سے لے کربس اسٹاپس کا تعین شامل تھا۔نمائش میں امریکی کمپنی کے ڈائریکٹر برائے مشرق وسطی و شمالی افریقی کے بتایا کہ ان کی کمپنی نے ایسے سمارٹ ٹریفک سگنلز متعارف کرائے ہیں جو انتہائی حساس نیٹ ورک سسٹم سے منسلک ہیں۔ ان سگنلز کی خوبی یہ ہے کہ ان میں نصب کیمرے اس سمت کا تعین کرتے ہیں جہاں ٹریفک ازدحام زیادہ ہوتا ہے اور اس جانب کے گرین سگنل کا دورانیہ خود کارانداز میں بڑھ جاتا ہے اس کا مقصد ازدحام کو کنٹرول کرنا ہے۔
دنیا کا پہلا ٹریفک سگنل لندن میں دسمبر1868ء میں لگایاگیاتھا۔مگر وہ زیادہ دیر نہ چل سکا، جب وارڈن اسے آن کرنے کی کوشش کر رہا تھا،عین اس وقت گیس سے چلنے والا یہ سگنل ہلکے سے دھماکے سے پھٹ گیا۔وارڈن الگ زخمی ہوا۔جس کے بعد کسی کو اس پر کام کرنے کی ہمت نہ پڑی اور 20برس کے بعد پھر 1912ء میں امریکی ریاست یوٹاوہ میں بجلی کاپہلا ٹریفک سگنل لگایا گیا۔پھر دوسری طرف کبھی کار ڈرائیور اپنی لائن کا خیال نہیں رکھتے تو کبھی اشارہ نہ ہونے کے باوجود پیدل چلنے والے زیبرا کراسنگ کے عین درمیان میں آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور موٹر سائیکل سوار تو ایک موٹر سائیکل کے ساتھ پوری سڑک ہی خرید لیتے ہیں۔ہائی وے ہو تو وہ بھی ان کی ملکیت میں چلی جاتی ہے۔ان کے راج میں سرخ اور سفید لائٹوں کو آپ بچوں کو رنگ سمجھانے کیلئے استعمال کر سکتے ہیں، اور بس۔ اس لئے مغربی ممالک اپنے ٹریفک سگنلز کے نظام کو مزید بہتر بنانے پر غور کر رہے ہیں۔اس ضمن میںمتعددتجاویز پر کام ہو رہا ہے۔
چلی میں کاروں کے ڈیزائن بنانے والے ایک فنکار رابرٹوواکفلورز (Roberto Vackflores)کا ڈیزائن بھی ان سے مختلف ہے۔اس میں لگی ہوئی ٹیکنالوجی کی مدد سے سڑک پر گزرنے والے سبھی افراد کو نہ صرف چلنے یا رکنے کے اشارے ملیں گے بلکہ انہیں موسم کے حال اور ان کی کار کی رفتار بھی معلوم ہو سکے گی۔ان سگنلز میں لگے سینسر ایمرجنسی گاڑیوں (ایمبولینس، فائر بریگیڈ وغیرہ) کو راستہ دینے کیلئے خود بخود اس سائیڈ کی ٹریفک کھول دیں گے۔
ٹریفک سگنلز تین رنگوں کی لائٹوں پر مشتمل ہوتے ہیں، جس میں سرخ، زرد اور سبز رنگ شامل ہیں۔سرخ رنگ کا مطلب ہوتا ہے کہ سڑکوں پر چلنے والی گاڑیاں رک جائیں اور پیدل چلنے والوں کو سڑک پار کرنے کا راستہ ملے جبکہ سبز لائٹ کا مطلب ہے کہ گاڑیاں چلیں اور پیدل چلنے والے افراد رک جائیں۔ مختلف ممالک میں ٹریفک سگنلز کو نہایت دلچسپ اور مختلف انداز میں بنایا گیا ہے جو دیکھنے والوں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ان ٹریفک سگنلز کو مختلف کہانیوں کی تصاویر پر بنایا گیا ہے جو سڑکوں پر نمایاں نظر آتے ہیں۔
ایک ڈیزائن کے مطابق پیدل چلنے والے افراد کو خاص قسم کی روشنی سے زیبرا کراسنگ پر روکا جائے گا۔ کاروں کیلئے بھی زیبرا کراسنگ کے قریب خاص قسم کی روشنی ایک لکیر کی صورت میں نظر آئے گی تاکہ کوئی کار بھی فٹ پاتھ کے قریب نہ ہو سکے۔ اس لائٹ سے کاروں اور پیدل چلنے والوں سے ٹریفک رولز کی پابند ی کرائی جائے گی۔ اس سے انہیں اپنی ''حدود ‘‘ میں رہنے کا راستہ دکھایا جائے گا۔
ایک روسی ڈیزائنر ارنین ایوگنی (Arinin Evgeny) نے ہر سگنل پر نئے رنگ کی روشنی کے سگنلز لگانے کی تجویز دی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ایک ہی سائز کی لائٹیں دیکھ کر لوگ تھک گئے ہیں۔ اب ہر رنگ کی لائٹ کاسائز بدل دینا چاہئے۔ اس لئے دنیا میں اب مختلف سائز کی لائٹس لگانے پر بھی غور ہور ہا ہے۔ ایک اور ڈیزائنر سونگ لی (Kisung Lee)نے بل کھاتے ہوئے لیمپ کی شکل میں لمبے پولز پرلائٹس لگا دی ہیں۔ کھمبے روایتی انداز میں لمبے نہیں ہوں گے بلکہ عام پائپوں کے سائز کے کھمبوںمیں سرخ ، پیلی اور ہری روشنیاں لگا دی جائیں گی ۔ ان پولز کے اوپر ہی ٹائمر بھی لگا ہو گا،جس سے سبھی کو اپنی اپنی کراسنگ کے دورانیے کا علم ہو جائے گا۔ اس کا فائدہ یہ ہو گاکہ تینوں لائٹس آپس میں مکس نہیں ہوں گی انہیں دور دور لگایا جائے گاتاکہ فرق صاف نظرآئے ۔
چین نے یہ سگنلز منگشا مائوٹین اور کریسنٹ سپرنگ کے مقام پر لگائے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ اونٹوں کو حادثات سے بچانے کیلئے ایسا کرنا ضروری ہے۔ اس پہاڑی سلسلے کے صحرائی علاقے کو ''گانے والاصحرا ‘‘بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس ریت پر چلنے والے کو کئی طرح کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔جیسے کوئی گیت گا رہا ہو۔