عمر خیام عظیم مسلمان سائنسدان

عمر خیام عظیم مسلمان سائنسدان

اسپیشل فیچر

تحریر : ارسہ مبین


عمر خیام کا شمار بلا مبالغہ دنیا کے مقبول ترین شاعروں میں ہوتا ہے۔عمر خیام کا جب بھی نام لیا جاتا ہے تو ان کی شاعری اور رباعیاں سامنے آ جاتی ہیں جبکہ وہ صرف ایک شاعر نہ تھے، مصنف اور فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک ماہر علم نجوم، ریاضی دان اور ماہر فلکیات بھی تھے۔عمر خیام کا ایک کارنامہ رصدگاہ میں تحقیقات کر کے مسلمانوں کو ایک نیا کیلنڈر بنا کر دینا بھی ہے۔
عمر خیام نے 18 مئی 1048ء میں نیشا پورکے ایک خیمہ سینے والے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کاپورا نام ابو الفتح عمر خیام بن ابرہیم نیشاپوری تھا۔ انہوں نے اپنے زمانے کے نامور اساتذہ سے تعلیم حاصل کی۔ان کے استادوں میں عبدالرحمن الخازنی ،قاضی ابو طاہر اور مصطفی نیشا پوری کے نام قابل ذکر ہیں۔
فلسفہ میں وہ مشہور فلسفی بوعلی سینا کے ہم عصر تھے۔ ان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اس وقت کے سلجوقی سلطان ، ملک شاہ نے انہیں اپنے دربار میں طلب کر لیااور انہیں اصفہان کے اندر ایک عظیم الشان رصدگاہ تعمیر کرنے کا حکم دیا۔اس کی تعمیر 1073 ء میں شروع ہوئی اور ایک سال بعد یعنی 1074ء میں اس رصد گاہ کی تعمیر مکمل ہوگئی۔ عمر خیام کو یہاں کا انچارج مقرر کر دیا گیا جبکہ ان کے علاوہ چند مشہور سائنس دانوں نے بھی یہاں کام کیا جن میں ابوالغفار الاسفیزاری ،میمن ابن نجیب الوسیطی اور محمد بن عماد البیہقی کے نام زیادہ مشہور ہیں۔ سلطان ملک شاہ نے عمر خیام کو ایک نیا کیلنڈر بنانے کا حکم دیا۔
ملک شاہ کے کہنے پر انہوں نے جو کیلنڈر تیار کیا اسے جلالی کیلنڈر کہا جاتا ہے اور جو ایک زمانے تک رواج میں رہا اور آج کا ایرانی کلینڈر بھی بہت حد تک اسی پر مبنی ہے۔ جلالی کیلنڈر، شمسی کیلنڈر ہے اور سورج کے مختلف برجوں میں داخل ہونے پر شروع ہوتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ رائج انگریزی یا گریگورین کیلنڈر سے زیادہ درست ہے اور اسے آج تک سب سے زیادہ درست کیلنڈر کہا جاتا ہے۔ اس میں 33 سال پر لیپ ایئر آتا ہے جبکہ گریگوین میں ہر چار سال پر اضافی دن والا سال آتا ہے۔
اس کے بعد وزیر نظام الملک نے اصفہان مدعو کیا جہاں کی لائبریری سے انہوں نے استفادہ کیا اور اقلیدس اور اپولینیس کے علم الحساب کا بغور مطالعہ شروع کیا اور انہوں نے اس سلسلے میں کئی اہم تصانیف چھوڑیں۔ ریاضی کے میدان میں مکعب اور متوازی کے نظریے پر ان کی خدمات کو سراہا جاتا ہے۔ انہیں اقلیدس میں جو اشکالات نظر آئے ان پر عربی زبان میں ایک کتاب تحریر کی جس کا عنوان''رسالہ فی شرح اشکال من مصدرات کتاب اقلیدس‘‘تھا۔
عمر خیام کا اصل میدان علم ہیت یا علم نجوم، ریاضی اور فلسفہ رہا لیکن ان کی عالمی شہرت کی واحد وجہ ان کی شاعری ہے جو گاہے بگاہے لوگوں کی زبان پر آ ہی جاتی ہے۔ ان کی شاعری کو زندہ کرنے کا کارنامہ انگریزی شاعر اور مصنف ایڈورڈ فٹزجیرالڈ کا ہے جنہوں نے 1859ء میں عمرخیام کی رباعیات کا انگریزی میں ترجمہ پیش کیا اور اس کا عنوان ''رباعیات آف عمر خیام‘‘ رکھا اور عمر خیام کو فارس کا نجومی شاعر کہا۔ اس ترجمے کو انگریزی شاعری کے اعلیٰ ترین شاہ کاروں میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ نہ صرف انگریزی شاعری کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، بلکہ سب سے زیادہ نقل کی جانے والی کتاب بھی یہی ہے۔ اردو میں تو بہت سے لوگوں نے ان کی رباعیوں کا منظوم ترجمہ بھی کیا ہے۔
عمر خیام کی پزیرائی مختلف ادوار میں ہوتی رہی ہے ۔ اس عظیم مسلمان سائنسدان کا انتقال 4دسمبر 1131ء کو ایران میں ہوا، آج ان کی برسی ہے۔
رباعیات
ہوئی سحر تو ، پکارا یہ پیر مے خانہ
ارے وہ مست کہاں ہے سدا کا دیوانہ
بلانا اس کو کہ جلدی سے اس کا جام بھریں
مبادا، موت نہ بھر ڈالے اس کا پیمانہ
٭٭٭٭
دیتی ہے اجل کس کو اماں اے ساقی
بھر جام مرا جلدی سے ہاں اے ساقی
دنیا کے پکھیڑوں کیلئے رونا کیا
مشہور دو روزہ ہے جہاں اے ساقی
٭٭٭٭
ہاں عقل یہ کہتی ہے کریں اب توبہ
ہر روز ارادہ ہے کہ امشب توبہ
اب موسمِ گل آہی چکا اور سہی
اس فصل میں توبہ کریں یا رب توبہ
٭٭٭٭
کڑھتا ہے کیوں گناہوں پہ بیکار کیلئے
حق کے کرم کو موقع ہے اظہار کیلئے
معصوم و بیگناہ کو رحمت سے کیا غرض
فی الاصل مغفرت ہے گنہگار کیلئے

 

اعزازات
٭... 1970ء میں چاند کے ایک گڑھے کا نام عمر خیام رکھا گیا۔ یہ گڑھا کبھی کبھی زمین سے بھی نظر آتا ہے۔
٭... 1980ء میں ایک سیارچے ''3095‘‘ کو عمر خیام کا نام دیا گیا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
امریکی صدر کی حلف برداری کی تاریخ آئین کا حصہ کیسے بنی؟

امریکی صدر کی حلف برداری کی تاریخ آئین کا حصہ کیسے بنی؟

زمانہ قدیم میں عیسوی سال کا آغاز مارچ میں ہوتا تھا۔ جنوری فروری آخری مہینے ہوتے تھے۔ رومن کیلینڈر میں تو صرف دس مہینے ہوتے تھے مگر700 قبل مسیح رومی بادشاہ پمپلیس نوما نے جنوری اور فروری کے مہینوں کو سال کے آغاز میں کیا۔جنوری کو مینسیس کہا جاتا تھا اور یہ مہینہ 29 دن کا ہوتا تھا۔ یہ مہینہ دسمبر کے بعد آتا تھا اور رومن سال مارچ میں شروع ہوتا تھا۔154 قبل مسیح میں ایک بغاوت کے بعد جنور ی کو سال کے شروع کے مہینے میں شامل کر لیا گیا۔اس کے بعد بھی نیا سال مارچ کے مہینے میں ہی منایاجاتا۔ اس بات کا کہیں بھی ریکارڈ نہیں کہ یکم جنوری کو کب نیا سال کے طورپر منایاگیا۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ یکم جنوری سے نیا سال شروع کرنے میں کئی صدیاں لگیں۔ پھر جا کر یکم جنوری نیا سال کے طورپر منایا جانے لگا۔46 قبل مسیح میں جولیس سیزر نے ایک نیا کیلنڈر سسٹم ''جولین کیلنڈر‘‘ متعارف کرایا، جس میں اس نے سال میں دن کا اضافہ کیا اور لیپ ڈے متعارف کرایا۔ جولین کیلنڈر میں جنوری کو 20 دنوں سے بڑھا کر31 دن کا کر دیا گیا۔ جنوری ایک مہینے کا نام ہی نہیں بلکہ برازیل کے دوسرے سب سے بڑے شہر کا نام بھی ہے۔1502ء میں جب پرتگال کی مہم جو ٹیم یکم جنوری کو جنوبی امریکہ کے ساحل پر گینبرا بے پہنچی تو اسی مناسبت سے اس جگہ کا نام ریور ڈی جنوری رکھ دیا گیا جو اب ریوڈی جنیریوکہلاتا ہے۔ جنوری کے مہینے کو شروعات کا مہینہ کہا گیا ہے یعنی افتتاحی مہینہ۔ قدیم روم میں افتتاحی مہینے کی 20 تاریخ کو نیک شگون کے طورپر یاد کیا جاتا ہے۔ اسی لئے امریکی آئین میں جنوری کی20 تاریخ کو نیک شگون کے طور پر افتتاح کا دن کہا گیا ہے اور امریکی صدر کی تقریب حلف برداری 20 جنوری کو ہی کو کی جاتی ہے۔ یعنی 20 جنوری سے حکومت کا افتتاح کا دن مانا گیا ہے کہ قدیم روایات کے مطابق اس دن سے کسی بھی کام کا آغاز کیا جائے تو وہ اچھا شگون ہوتا ہے۔ 1933 ء سے قبل انتخابات نومبر کے مہینے میں ہوتے تھے جبکہ حلف برداری کے لیے 4 مارچ کی تاریخ متعین تھی اور اس سے نئے بننے والے صدر کو اپنی کابینہ کا انتخاب کرنے اور حکومت کے لیے تیاری کرنے کا وقت ملتا تھا۔ اس زمانے میں ووٹوں کی گنتی، حکومت کی منتقلی کے دوران ہونے والے معاملات میں آمدورفت اور پیغامات کی ترسیل میں بھی بہت وقت لگتا تھا۔ اس لیے کئی مہینوں پر محیط یہ وقفہ ضروری تھا۔تاہم 1933ء میں امریکی آئین میں 20ویں ترمیم کے بعد اس وقفے کو مختصر کرکے تقریب حلف برداری مارچ کے بجائے 20 جنوری کو کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جدید ذرائع کی وجہ سے آمدورفت کے لیے درکار وقت میں کمی آئی تھی تو دوسری طرف اس لمبے وقفے کو بھی کم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تھی، جس میں جانے والا صدر نئی حکومت کے انتخاب کے بعد نسبتاً کم اختیارات کے ساتھ عہدے پر براجمان رہتا تھا۔اس کے باوجود نئے صدر کے لیے عہدہ سنبھالنے کے لیے تیاری کی مہلت ضروری ہے جس کی وجہ سے امریکا میں نومبر میں ہونے والے انتخابات کے بعد حلف برداری جنوری کی 20 تاریخ کو ہوتی ہے۔امریکی انتخابات اور حلف برداری کی تقریب میں طویل وقفہ کی کچھ وجوہات بھی ہیں کیونکہ امریکا میں انتخابات اور حلف برداری دونوں کی تاریخ کا تعین آئین میں کر دیا گیا ہے۔ اس کے مطابق امریکا میں صدارتی انتخابات نومبر کے پہلے منگل کے روز ہوتے ہیں اور حلف برداری کے ذریعے اختیارات کی منتقلی جنوری کی 20 تاریخ کو ہوتی ہے۔ اس کے پیچھے کئی ایک عوامل کارفرما ہیں۔انتخابات کے نومبر میں ہونے کی ایک وجہ پہلے زمانے میں زرعی آبادیوں کی اس جمہوری عمل کا حصہ بننے کی حوصلہ افزائی کرنا تھی۔ یہ وہ مہینے ہوتا ہے جب امریکا کے دیہات میں فصلوں کی کٹائی ہوچکی ہوتی تھی اور کسانوں کی مصروفیات نسبتاً کم ہوتی تھیں۔ جس کی وجہ سے وہ بڑی تعداد میں انتخابات میں حصہ لیتے تھے۔ اسی طرح منگل کے دن کی تخصیص کا مقصد یہ تھا کہ اس دن لوگوں کی مذہبی اور کاروباری مصروفیات کم ہوتی تھیں۔ امریکا میں لوگ اتوار کے دن چرچ جاتے ہیں اور بدھ کے دن پہلے زمانے میں مقامی مارکیٹیں کھلتی تھیں اور لوگ خریدوفروخت میں مصروف ہوتے تھے۔

لالہ سدھیر:پاکستان کی فلمی تاریخ کے پہلے سپرسٹار

لالہ سدھیر:پاکستان کی فلمی تاریخ کے پہلے سپرسٹار

پاکستان فلم انڈسٹری میں کئی دہائیوں تک اداکاری کے جوہر دکھانے والے ''جنگجو ہیرو‘‘ کے نام سے مشہور لیجنڈ اداکار لالہ سدھیر کو ہم سے بچھڑے 28 برس بیت گئے۔سدھیر ، پاکستان کی فلمی تاریخ کے پہلے سپر سٹار اور ابتدائی دور کے سب سے کامیاب اور مقبول ترین فلمی ہیرو تھے۔ان کی پہلی فلم ''فرض‘‘ تقسیم سے قبل لاہور میں بنی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد تیسری ریلیز شدہ فلم ''ہچکولے‘‘ (1949ء) کے ہیرو بھی وہ تھے۔ انھیں بریک تھرو 1952 ء میں ریلیز ہونے والی ملکہ ترنم نورجہاں کی مشہور زمانہ نغماتی فلم ''دوپٹہ‘‘ سے ملا تھا ۔جس میں وہ اجے کمار نامی ایک گمنام اداکار کے مقابل سیکنڈ ہیرو تھے لیکن پوری فلم پر چھائے ہوئے تھے۔سدھیر کو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ اپنے تقریباَ چالیس سالہ فلمی کریئر میں ہمیشہ مرکزی کرداروں میں کاسٹ ہوتے تھے اور بڑے بڑے سپر سٹارز، ان کے مقابل ثانوی کرداروں میں نظر آتے تھے۔ لالی وڈ انڈسٹری کے پہلے ایکشن ہیرو کا خطاب پانے والے شاہ زمان المعروف لالہ سدھیر 25جنوری 1922ء کولاہور میں پیدا ہوئے۔ان کے والد اور ان کے دادا لاہور میں شیر انوالہ گیٹ کے رہائشی تھے۔ سکھوں کے دور حکومت میں اْن کے دادا اکبر خان اپنے آبائی علاقہ دررہ خیل سے قبائلی لڑائی کی وجہ سے لاہور ہجرت کر کے آئے اور پھر ہمیشہ کے لیے لاہور کے ہو کر رہ گئے لیکن اپنی زبان اور ثقافت کی مکمل پاسداری کرتے رہے۔ پھر یہی پشتون روایت اور ثقافت اْن کے بیٹے اور پوتے شاہ زمان خان میں بھی منتقل ہوئی۔ یہ ایک مذہبی گھرانہ تھا لیکن لاہور کی فلمی فضا نے شاہ زمان خان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور یوں شاہ زمان خان 1946ء میں لاہور کی فلمی دنیا سے ہوتے ہوئے بمبئی تک جا پہنچے۔ 1947ء میں ہدایت کار نذیر بیدی نے ان کا فلمی نام سدھیر رکھا۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد جواں سال سدھیر نے اپنے شہر لاہور کا رخ کیا۔سدھیر، اپنے ابتدائی دور میں ایک آل راؤنڈ اداکار تھے۔ انھیں 50ء کی دہائی میں بننے والی سماجی اور نغماتی فلموں کے ساتھ رومانوی اور لوک داستانوں پر مبنی فلموں میں کاسٹ کیا گیا تو انہیں ایکشن اور تاریخی فلموں کا ہیرو ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔پاکستان کی فلمی تاریخ میں پچاس کا پہلا عشرہ سدھیر کے نام تھا جس میں کل پانچ گولڈن جوبلی منانے والی اردو فلموں میں سے چار کے ہیرو تھے۔ سب سے زیادہ گیارہ سلورجوبلی فلمیں بھی انھی کے کریڈٹ پر تھیں۔ ایسی فلموں میں پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی اردو فلم ''سسی‘‘ اور پہلی ایکشن فلم ''باغی‘‘ جیسی یادگار فلمیں بھی تھیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کی بلاک بسٹر فلموں ''دلا بھٹی‘‘ (1956ء) اور ''یکے والی‘‘ (1957ء) نے بزنس کے نئے ریکارڈز قائم کیے تھے اور ان فلموں کی کمائی سے دو بڑے نگار خانے ایورنیو سٹوڈیواور باری سٹوڈیو وجود میں آئے تھے۔ ان کے علاوہ کرتار سنگھ (1959) جیسی تاریخی فلم بھی سدھیر کے کریڈٹ پر ہے جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ فلم بھارتی صوبہ پنجاب میں بھی مسلسل تین سال تک زیر نمائش رہی تھی۔ساٹھ اور ستر کے عشروں کا دور انتہائی مقابلے کا دور تھا جس میں بہت بڑے بڑے فلمی ہیروز موجود تھے۔ اس دور میں سدھیر کی پہچان ایک بھاری بھر کم ایکشن فلمی ہیرو کی تھی جو ایک غیور ، بہادر اور جوانمردی کے پیکر کے طور پر فلموں میں نظر آتے تھے اور عوام الناس میں اس قدر مقبول تھے کہ ان کی مقبولیت کا ریکارڈ اگر کسی نے توڑا تھا تو وہ صرف سلطان راہی تھے۔سدھیر نے 200 سے زائد فلموں میں اپنے وقت کی معروف اداکاراؤں کے مقابل مرکزی کردار نبھایا ۔وہ نور جہاں، مسرت نذیر، صبیحہ خانم، آشا بھوسلے، لیلیٰ، زیبا، دیبا، شمیم آرا، بہار بیگم اور رانی کے ساتھ کئی فلموں میں ہیرو کے روپ میں نظر آئے اور شائقین نے انھیں بہت پسند کیا۔جنگجو ہیرو کی شادیاںسدھیر اپنی مردانہ وجاہت کی وجہ سے صنف نازک کیلئے ایک خاص کشش رکھتے تھے ، یہی وجہ تھی کہ گھریلو بیوی ہونے کے باوجود اداکارہ شمی اور زیبا سے بھی شادی کی تھی۔ اْنہوں نے پہلی شادی اپنے خاندان میں کی اور پھر دوسر ی شادی لاہور کی قزلباش فیملی میں کی تیسری شادی اداکارہ شمی کے ساتھ کی اور اْن کے ساتھ اپنی ذاتی فلم ''بغاوت‘‘ میں کام کرنے کے بعد اْن پر فلموں پر آنے کی پابندی عائد کر دی جو مرتے دم تک رہی۔ اِسی شادی کے دوران حادثاتی طور پر ادکارہ زیبا سے شادی کی۔ زیبا جو 1961ء کے دوران ابھی فلمی دنیا میں اپنے قدم جما رہی تھی اور اْسے فلمی دنیا میں ایک مضبوط سہارے کی ضرورت تھی اور اْس وقت فلم انڈسٹری میں لالہ سدھیر سے زیادہ مضبو ط اور بہادر اداکار اور کوئی نہیں تھا جس پر زیبا نے لالہ سدھیر سے شادی کر لی۔ شاد ی کے بعد لالہ سدھیر نے اپنی غیرت مند پشتون روایت کے مطابق زیبا کے فلمی دنیا میں داخلے پر پابندی لگا دی جو زیبا کو ہرگز قبول نہیں تھیں جس پر چھ ماہ کے مختصر عرصہ کے بعد زیبا بیگم نے سدھیر سے طلاق لے کر اداکار محمد علی سے شادی کر لی جو بعد میں کامیاب فلمی جوڑی ثابت ہوئے۔ 1980ء میں اپنی ذاتی فلم ''دشمن کی تلاش‘‘ کے بعد فلمی دنیا سے ریٹائرمنٹ لے کر گمنامی اختیار کر لی۔ زندگی کے آخری پندرہ سالوں میں لالہ سدھیر نے مکمل طور پر اپنے رب سے تعلق بنا لیا اور پھر 27رمضان المبارک 20جنوری 1997ء کو وہ ظہر کی نماز پڑھنے اپنی آبائی مسجد شیرانوالہ گیٹ چلے گئے اور نہ جانے بے انتہا غفور رحیم رب کو اْن کی کون سی ادا پسند آئی اور وہ روزہ کی حالت میں جونہی سجدہ میں گئے تو ملک الموت نے اِن کی روح قبض کر لی اور وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ سدھیر ، ایک بھاری بھر کم ہیروساٹھ کی دھائی میں ان کی فلم فرنگی (1964) ایک معرکتہ الآرا فلم کے طور پر یاد رکھی جائے گی وہاں جی دار (1965) پاکستان کی پہلی فلم تھی جس نے ہفتوں کے لحاظ سے پلاٹینم جوبلی کا اعزاز حاصل کیا تھا۔دلچسپ بات ہے کہ ستر کے عشرہ میں بھی سدھیر کی ایک پنجابی فلم ماں پتر (1970) نے کراچی میں پلاٹینم جوبلی کی تھی جبکہ اس عشرہ کی ایک بڑی اردو فلم ان داتا (1976) تھی جس میں وہ سلطان راہی اور محمدعلی کے باپ بنے تھے اور پوری فلم پر چھائے ہوئے تھے۔ اس فلم کے ضمن میں یہ بات بھی یاد رکھی جائے گی کہ اس فلم کا جو اگلا ورڑن فلم سن آف ان داتا (1987) کے طور پر بنایا گیا تھا ، اس میں بھی سدھیر پوری فلم پر چھائے ہوئے تھے اور یہ ان کی آخری فلم بھی تھی۔سدھیر سبھی ہیروز پر بھاری تھےیہاں یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ بڑے بڑے سپر سٹارز جن میں درپن ، اسلم پرویز ، محمدعلی ، وحیدمراد ، اعجاز ، حبیب ، یوسف خان ، اکمل ، سلطان راہی ، بدرمنیر ، شاہد اور عنایت حسین بھٹی وغیرہ نے سدھیر کے مقابل ثانوی کردار ادا کیے تھے جبکہ سنتوش ، کمال اور ندیم کے ساتھ وہ کسی فلم میں نہیں دیکھے گئے تھے۔سدھیر ، وحیدمراد کی ضد تھے!سدھیر خود پر گیت فلمبند کروانا پسند نہیں کرتے تھے۔ اس کی بڑی وجہ ان کا ایکشن فلمی ہیرو کا وہ امیج تھا جو جنگ و جدل کے لیے تو ایک آئیڈیل ہیرو تھا لیکن رومانٹک کرداروں اور گانا گانے والے ہیرو کے لیے موزوں نہیں تھا۔سدھیر ، وحیدمراد کی ضد تھے اور یہی وجہ تھی جتنی تعداد میں انھوں نے فلموں میں کام کیا تھا ، اس تناسب سے ان پر فلمائے ہوئے گیتوں کی تعداد بہت کم ہے۔سدھیر پر سب سے زیادہ سلیم رضا کے گائے ہوئے گیت فلمائے گئے تھے جبکہ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ اب تک کے اعددوشمار کے مطابق عنایت حسین بھٹی ، منیر حسین اور مسعودرانا کے یکساں تعداد میں گیت سدھیر پر فلمائے گئے تھے جن میں سب سے سپر ہٹ گیت تو فلم ڈاچی (1964) کا تھا "ٹانگے ولا خیر منگدا۔۔" جبکہ مسعودرانا اور منیر حسین کا ایک اور شاہکار گیت "اے ماں ، پیاری ماں۔۔" (فلم وریام ، 1969) بھی سدھیر پر فلمایا گیاتھا۔سدھیر ، صنف نازک کے ہیرو ان کا تعلق ایک پٹھان آفریدی قبیلے سے تھا ، لاہور میں پیدا ہوئے تھے اور وہیں 1997ء میں انتقال ہوا تھا۔جب ہمارے ملک میں فلم انڈسٹری سے وابستہ افراد کی ہر طرف شہرت ہواکرتی تھی تو اداکاروں کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے ٹریفک جام ہو جایا کرتی تھی۔ لاہور، فلم انڈسٹری کا ہر دور میں مرکز رہا ہے۔ 1950ء سے فلم انڈسٹری کا عروج شروع ہوتا ہے اور 1996ء میں اداکار سلطان راہی کی اچانک موت واقع ہونے پر زوال میں بدل جاتا ہے۔سلطان راہی لالہ سدھیر کی طرح ایکشن فلموں کے بادشاہ تھے۔ وہ انتہائی مخیر اداکاروں میں شمار ہوتے تھے فلمی دنیا کا ایک الگ تھلگ ماحول ہے جس کو عام زبان میں'' اْس بازار ‘‘کا حصہ سمجھا جاتا ہے لیکن اِس کے باوجود اِس دنیا میں اچھے انسان کی بھی کمی نہیں رہی۔ یہ لوگ جو بظاہر ہمیں گناہوں کی بستی کے مکین نظرا?تے ہیں لیکن اِن میں کچھ چھپے رستم ایسے بھی رہ چکے ہیں جو بڑی خاموشی کے ساتھ دکھی انسانیت کی خدمت میں ہمیشہ پیش پیش رہے سلطان راہی اور محمد علی اِن کاموں میں ہمیشہ ا?گے رہتے لیکن کچھ اداکار ایسے بھی تھے جو بڑی خاموشی اور شہر سے ہٹ کر فلمی دنیا سے وابستہ غریب لوگوں کی ترجیحی بنیادوں پر مدد کیا کرتے تھے انہی اداکاروں میں ایک بڑا فلمی نام لالہ سدھیر کا تھا۔لالہ سدھیر کا اصل نام شاہ زمان خان ا?فریدی تھا والد محمد اسلم خان کا تعلق علاقہ غیر کے درہ ا?دم خیل سے تھا۔ لالہ سدھیر کے والد محمد اسلم خان آفریدی کو حکومت برطانیہ کے دور میں پھانسی دی گئی تھی۔ اور یہاں پر اپنے خاندان سے چھپ کر لاہور کے فلمی اسٹوڈیو کے چکر لگاتے رہے اور آخر کار 1954ء میں ہدایت کار داوٗد چاند کی فلم ''سسی‘‘ میں ہیرو کا کردار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے جبکہ اِس سے پہلے 1952ء میں ہدایت کار اجے کمار کی مشہور زمانہ فلم ڈوپٹہ میں میڈیم نور جہان کے ساتھ سائیڈ ہیرو کا کردار کر چکے تھے۔ سسی کے بعد گمنام اور پھر فلم ساز ہدایت کار اشفاق ملک کی باغی اور ا?خری نشان سے پاکستان فلم انڈسٹری کے پہلے جنگجو ہیرو کا خطاب لے کر انڈسٹری پر چھا گئے۔ لالہ سدھیر ایک بہادر اور غیرت مند انسان تھے اْنہوں نے دو سو سے زائد اْردو اور پنجابی فلموں میں ہمیشہ ٹرائیلرول کی صورت میں کام کیا اِس کے بعد لالہ سدھیرفلمی دنیا میں اپنی کامیابی کی منزلیں طے کرنے لگے اداکار اکمل کو بھی سب سے پہلے لالہ سدھیر ہی نے اپنی فلم بغاوت میں متعارف کرایا۔ اکمل فلمی اداکار اجمل خان کے چھوٹے بھائی تھے بعد میں اکمل خان نے پنجابی فلموں میں زبردست کامیابیاں حاصل کیں اور یوں اکمل خان 1967ء میں فوت ہو گئے اکمل کے بعد لالہ سدھیر پنجابی فلموں میں دھڑا دھڑ کاسٹ ہونے لگے پگڑی سنبھال جٹا ،ماں پتر ، یار بادشاہ ، جانی دشمن ، نظام لوہار ، چڑھدا سورج ، رنگوں جٹ ، وریام ، سلطانہ ڈاکو ، خبردار اِس طرح اْن کی ا?خری یادگار اْردو فلم اِن داتا تھی جو 1976ء میں ریلیز ہوئی اور کامیاب بزنس کیا جبکہ 1957ء￿ میں یکے والی اور ماہی منڈا کی گولڈن جوبلی کامیابی کے بعد باری اسٹوڈیو اور دلاور بھٹی کے ریکارڈ بزنس کے بعد فلم ساز ا?غا جی گل نے ایور نیو سٹوڈیوتعمیر کر لیا تھا۔سماجی اور نغماتی فلمیں گمنام (1954ء) ، طوفان (1955ء) ، چھوٹی بیگم ، ماہی منڈا (1956ء) ، داتا ، آنکھ کا نشہ ، یکے والی (1957ء) ، جان بہار ، جٹی (1958ء) اور جھومر (1959ء) رومانوی اور لوک داستانوں پر مبنی فلمیںسسی (1954ء)، سوہنی (1955ء)، دلابھٹی، مرزا صاحباں ، گڈی گڈا (1956ء)، نوراں (1957ء)، انارکلی (1958ء) اور گل بکاؤلی (1961ء)تاریخی و ایکشن فلمیںحاتم (1957ء)، کرتار سنگھ (1959ء)، غالب (1961ء)، باغی (1956ء)، آخری نشان (1958ء) ، عجب خان (1961ء) اور فرنگی (1964ء)

آج کا دن

آج کا دن

ریڈیو کی ایجاد 1903ء میں آج کے دن سائنسی دنیا میں ریڈیو کی ایجاد سے ایک کہرام برپا ہوا، جس نے قصبوں، شہروں اور ممالک کے درمیان نشریات کا دائرہ وسیع کیا اور لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنا لی۔ اسی دن ریڈیو کی لہروں پر امریکی صدر تھیوڈور روز ویلٹ کی طرف سے ایک تہنیتی پیغام برطانوی شاہ ایڈورڈ ہفتم کو بھیجا گیا تھا۔ ریڈیو کی ایجاد کئی موجدوں کی اجتماعی کوششوں کا نتیجہ ہے، لیکن مارکونی کو اس کا سب سے زیادہ کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ٹور ڈی فرانس کا آغازدنیا کے مشہور سائیکل دوڑ کے مقابلے ٹور ڈی فرانس کا پہلی دفعہ انعقاد 19جنوری 1903ء کو ہوا۔ یہ مقابلہ 19 روز تک جاری رہا جس کا فاصلہ 2428 کلومیٹر تھا اور جس میں 59 سائیکل سواروں نے حصہ لیا تاہم، اس مقابلے میں صرف 20 سائیکل سوار ہی اختتامی حد کو عبور کر سکے جس میں اول درجہ فرانسیسی سائیکل سوار ماریس گارین نے حاصل کیا۔مولانا ظفر علی خان کا یوم پیدائشمولانا ظفر علی خان 19جنوری 1873ء میں کوٹ میرٹھ شہر وزیر آباد میں پیدا ہوئے۔ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں انہیں ایک عظیم سیاسی رہنما، ایک جیّد صحافی، ادیب، شعلہ بیاں مقرر، بے مثل نقاد اور آزادی کیلئے جدوجہد کرنے والے قلم کار کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی ایک کاوش ''زمیندار‘‘ اخبار ہے۔ وہ ایک بہترین خطیب، باکمال شاعر اور انشا پرداز بھی تھے۔ ان کے اداریوں کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ بابائے صحافت کا لقب پایا۔ متعدد تصانیف منظر عام پر آئیں جن میں نثری اور شعری مجموعے شامل ہیں۔ 27 نومبر 1956ء کو زندگی کا سفر تمام ہوا۔''ترکوں کا 1000 سالہ رخت سفر‘‘ لندن کی رائل آرٹ اکیڈمی نے 2005ء میں ایک ایسی نمائش کا اہتمام کیا جس کا عنوان''600 تا 1600 ترکوں کا 1000 سالہ رخت سفر‘‘ تھا۔ اس نمائش میں ترکوں کی وسطی ایشیا کے راستے استنبول تک آمد اور اس کے بعد فن و ثقافت پر ان کے اثرات کا مظاہرہ کیا گیا۔ واضح رہے کہ ترکوں کا 600 سے 1600 عیسوی تک کا سفر ایک غیر معمولی داستان ہے، جو طاقت، ثقافت، مذہب اور تہذیب کے ارتقاء کی مثال ہے۔ یہ دور ان کی خانہ بدوش زندگی سے لے کر عظیم سلطنتوں کے قیام تک کا احاطہ کرتا ہے۔

یاد رفتگاں:کون ہے یہ گستاخ؟ سعادت حسن منٹو

یاد رفتگاں:کون ہے یہ گستاخ؟ سعادت حسن منٹو

اردو کہانی کو نئی جہت دینے والے عظیم افسانہ نگاراردو ادب میں افسانے کی دنیا کے بے تاج بادشاہ سعادت حسن منٹوواحد افسانہ نگار ہیں جن کی تلخ مگر سچی تحریریں آج بھی شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ وہ 18جنوری 1955ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے اور آج ان کی 70ویں برسی منائی جا رہی ہے۔ اردو کہانی کو نئی جہت دینے والے عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے 11 مئی 1912ء کو ایک کشمیری گھرانے میں آنکھ کھولی۔ابتدائی تعلیم گھر میں ہی حاصل کی اور انہیں چوتھی جماعت میں سکول میں داخل کرایا گیا۔ منٹو کی تعلیمی زندگی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اچھے طالب علم نہیں تھے۔ کچھ تو اپنی گوناگوں مصروفیات اور مشاغل کی وجہ سے اور کچھ مالی مشکلات کی وجہ سے وہ تعلیمی میدان میں آگے نہ بڑھ سکے۔ میٹرک کے امتحان میں دو بار ناکام ہوئے مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور تیسری کوشش میں امتحان پاس کر لیا۔کالج کے زمانے میں نوجوان سعادت حسن تعلیم سے زیادہ دوسرے مشاغل میں دلچسپی لیتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ایف اے کے امتحان میں دو بار شامل ہونے کے باوجود کامیاب نہ ہو سکے اور ان کی طبیعت مکمل طور پر اوب گئی۔ اس دور میں انہیں جوئے اور نشے کی لت لگی۔ اسی شدید قسم کی ذہنی فکری افراتفری کے عالم میں منٹو کو زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ یہی وہ زمانہ تھا جس نے منٹو کو زندگی کے سنگلاخ حقائق کو سمجھنے میں مدد دی۔ منٹو نے عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا۔پہلی کہانی''تماشہ‘‘تھی جو جلیانوالہ باغ کے واقعے سے متاثر ہوکر لکھی گئی تھی۔انہوں نے ممبئی میں رہتے ہوئے فلمی رسالوں کی ادارت کی، متعدد فلموں کی کہانیاںاور مکالمے بھی تحریر کیے، ریڈیو سے بھی وابستہ رہے لیکن ان کی شہرت کی اصل وجہ ان کے افسانے بنے۔قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور چلے آئے اور اپنی عمر کا آخری حصہ اسی شہر میں بسرکیا ۔سعادت حسن منٹو نے اپنی 20 برس کی ادبی زندگی میں دو سو سے زائد افسانے،مضامین اور خاکے تحریر کیے۔ان کی مشہور تخلیقات میں ٹوبہ ٹیک سنگھ، ٹھنڈا گوشت، نیا قانون، نمرود کی خدائی،سڑک کے کنارے اور دھواں نمایاں ہیں۔صرف43برس کی عمر میں دنیا چھوڑ جانے والے منٹو کی موت جگر کے مرض کے باعث ہوئی۔انہیں حکومت کی جانب سے '' نشان امتیاز‘‘ سے بھی نوازا گیا۔ منٹو کی زندگی پر جہاں بیشمار کتب لکھی جا چکی ہیں وہیں ان کی زندگی پر دو فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ ایک فلم پاکستان میں جبکہ دوسری بھارت میں بنائی گئی۔اردو افسانے میں منٹو کا بلند مقام تسلیم کیا گیا ہے۔ منٹو کی بعض کہانیاں بے شک اخلاقی طور پر قابل اعتراض ہیں لیکن مجموعی طور پر انہوں نے اردو افسانہ نگاری کی روایت کو آگے بڑھانے میں قابل قدر کام کیا۔ قدرت کی طرف سے منٹو کو جدت اور ذہانت کا وافر حصہ نصیب ہوا جس نے ان کے فن کو بلندی پر پہنچا دیا۔اردو کے معروف ادیب سید وقار عظیم اپنی کتاب ''منٹو کا فن‘‘ میں لکھتے ہیں کہ منٹو کو اس کی حقیقت نگاری، اس کی نفسیاتی موشگافی، اس کی دور بین و دور رس نگاہ، اس کی جرات آمیز اور بے باکانہ حق گوئی، سیاست، معاشرت اور مذہب کے اجارہ داروں پر اس کی تلخ لیکن مصلحانہ طنز اور اس کی مزے دار فقرے بازیوں کی وجہ سے سراہا گیا ہے۔ سیاسی، مذہبی، معاشرتی اور ان سب سے بڑھ کر جنسی زندگی پر اس نے مخصوص اور منفرد انداز سے نظر ڈالی ہے۔ اس پر اسے برا بھلا کہا گیا۔ اس دادِ تحسین اور ہجو و تضحیک میں لوگوں کا جو رویہ رہا ہے اس میں حق پسندی اور توازن بھی ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ افراط و تفریط کا جذبہ غالب آتا ہے۔ تنقید و تبصرہ کے اس سارے کھیل میں جو برسوں سے منٹو کی زندگی اور اس کے افسانوں کے محور پر کھیلا جا رہا ہے، منٹو ایک مثالی ہیرو بھی نظر آتا ہے اور مثالی ولن بھی۔ کچھ نظریں اس بات کی عادی ہو گئی ہیں کہ اسے بس حسن کا مجسمہ سمجھ کر دیکھیں اور کچھ نگاہوں کو اس میں برائیوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ حالانکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو ان دونوں طرح کے دیکھنے والوں کو جذباتی شدت پسندی نے اصل حقیقت تک پہنچنے اور اس کے کھوٹے کھرے کو پہچاننے کا موقع نہیں دیا۔ سعادت حسن منٹو کے ڈراموں کو بھی بہت پذیرائی ملی۔ ان کے ڈراموں میں بھی ان کا فلسفہ ٔ حیات اپنی پوری توانائی کے ساتھ موجود ہے۔ منٹوبیسویں صدی کا افسانہ نگار: انتظار حسین ممتاز ادیب اور افسانہ نگار انتظار حسین کے مطابق سعادت حسن منٹو جس عہد میں پیدا ہوئے وہ ایک بھر پور دور تھا اوروہ ہمارے ادب میں نمایاں مقام حاصل رکھتے تھے۔ 1947ء سے پہلے اور اس کے بعد کے منٹو کے ناول لحاف اور بھوک مقبول تھے۔ 1947ء سے پہلے کرشن چندر مقبول افسانہ نگار لیکن اس کے بعد بیدی اور منٹو نے تیزی سے شہرت حاصل کی۔20ویں صدی میں کئی افسانہ نگار پیدا ہوئے لیکن وہ زیادہ مقبول نہیں رہے۔ اسی لئے سعادت حسن منٹو کو 20ویں صدی کا افسانہ نگار قرار دیا گیا۔منٹو کہانیاں لکھنے کی مشین تھے: شمیم حنفیممتاز ادیب، دانشور پروفیسر شمیم حنفی کا کہنا ہے کہ سعادت حسن منٹو بہت ہولناک اور دل میں اتر جانے والی کہانیاں لکھتا ہے۔اس کی انسان دوستی اور درد مندی مثالی تھی۔منٹو پر 300صفحات پر بھارت میں ہندی اور انگریزی میں کتاب بھی شائع کی گئی۔ اب تک ان کی 268کہانیوں کا سراغ ملا ہے، جن میں معاشرے کا عکس نظر آتا ہے۔وہ مسلسل کہانیاں لکھتا ہی چلا جا رہا تھا اور لکھنے کی مشین بنا ہوا تھا۔ سعادت حسن منٹو کے معاصرین میں غلام عباس،بیدی اچھے رائٹرز نظر آتے ہیں۔ 

ٹیلی ویژن سے قبل اردو ڈرامے کی تاریخ

ٹیلی ویژن سے قبل اردو ڈرامے کی تاریخ

ہندوستان میں اردو ڈرامہ کے آغاز و ارتقا کے حوالے سے ناقدین آپس میں متفق نہیں ہیں۔ اردو نے بھی ہندوستان سے جنم لیا ہے، بالکل اسی طرح اردو ڈراما نے بھی ہندوستان کی کسی سرزمین سے آنکھ کھولی ہے۔ سنسکرت زبان میں لکھے جانے والے ڈرامے اس بات کی دلیل ہیں کہ اردو ڈرامے کا آغاز سب سے پہلے برصغیر پاک و ہند میں ہوا۔اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ہندوستان میں ڈرامہ نگاری کا فن یونان سے قبل پھوٹا سنسکرت زبان میں بہت اچھے ڈرامے لکھے گئے جن میں رام لیلا ، بھگت وغیرہ شامل ہیں۔ بھانڈ اور نقالوں کا کام زبان سے نقل اتارنا ہوتا تھا۔ وہ اپنی حرکات و سکنات سے لوگوں کے اندر قہقہے بکھیرتے تھے۔ درباروںاور میلوں میں بھانڈ نقال اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ لکھنؤ میں فنون لطیفہ پروان چڑھا دلی اور اودھ کے فنکاروں نے بھی لکھنؤ کا رخ کیا۔ نوٹنکی سوانگ نقالی اور داستان گوئی کی سرپرستی کے سبب ان فنون نے عروج پکڑ ا۔ اسی ماحول کے پیش نظر لکھنؤ میں شاہی اور عوامی ماحول پیدا ہوا۔ اودھ کے حاکم واجد علی شاہ فنون لطیفہ کے قدر شناس تھے۔ انہوں نے رقص کے لیے پری خانہ کے نام سے ایک جلسہ گاہ بنا رکھا تھا۔ پری خانہ میں نہایت خوبصورت مستورات ملازمت کرتی تھیں۔ واجد علی شاہ خود بھی ایک شاعر تھا۔ اس کے بعد رئیس کا نام آتا ہے۔ رئیس ناٹک کی شکل میں کرشن کنھیا اور رادھا گوپیوں کے ساتھ مل کر ناچتے گاتے نظر آتے۔ اس کے بعد ناٹک کی شکل میں سلطان نے رادھا کنھیا کا قصہ لکھا جو قیصر باغ میں فلمایا گیا جو بہت کامیاب رہا۔ اس کے بعد واجد علی شاہ نے ناٹک لکھنے شروع کیے جو سٹیج بھی کیے گئے۔ واجد علی شاہ جب معزول ہوئے تو مٹیا برج کلکتہ میں جلاوطنی کے زمانے میں بہت سے ناٹک لکھے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ واجد علی شاہ اردو ڈرامہ نگاری کے معمار ہیں۔ اس کے بعد سید آغا حسن امانت لکھنوی کا نام آتا ہے۔ جنہوں نے نواب واجد علی شاہ کے دور اقتدار میں آنکھ کھولی اور اندر سبھا کی تخلیق کا موجد ٹھہرے۔ اندر سبھا کو عوامی سطح کا ناٹک کہا جاتا ہے۔ اردو تھیٹر ڈرامے کا دوربرصغیر پاک و ہند میں اردوتھیٹر کا دور سترھویں اور اٹھارویں صدی سے شروع ہوتا ہے۔ 14نومبر 1853ء کو ہندو ڈرامیٹک کور کے اہتمام یہ ڈرامہ پیش کیا گیا۔ یہ بمبئی کے اردو تھیٹر کی ابتدا تھی۔ انیسویں صدی کے اوائل میں بمبئی میں انگریزوں نے قدم جما لیے تھے۔ انہوں نے اپنی دلچسپی کیلئے کلکتہ کے بعد بامبے تھیٹر قائم کیا، جس میں انگریزی ڈرامے پیش کئے جاتے تھے۔ جب اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تو ہندوستانی سرمایہ داروں نے اسے تجارت کا نیا ذریعہ سمجھا اور ہندو ڈرامیٹک کے نام سے ایک کمپنی تخلیق کی۔ پہلے ایک مراٹھی ڈرامہ پھر گجراتی اور اس کے بعد راجہ گوپی چند کے نام سے لکھا۔ آغا حشر کا پہلا ڈرامہ '' آفتاب محبت‘‘ تھا جبکہ ان کے دیگر ڈراموں میں ''مرید شک‘‘، ''مار آستین‘‘، ''اسیر حرص‘‘، '' شہید ناز‘‘،'' سفید خون‘‘ ''خواب ہستی‘‘ اور'' خوبصورت بلا‘‘ شامل ہیں۔ ان کا آخری ڈرامہ ''رستم سہراب‘‘ ہے جو فارسی کے مشہور شاعر فردوسی کی مشہور مثنوی شاہنامہ کے ایک واقعے سے ماخوذ ہے۔ اردو ادب کے اگر بہترین ڈراموں کی چھانٹی کی جائے تو رستم سہراب ان میں سے ایک ہے۔ آغا حشر سے پہلے آرام ظریف رونق اور احسن کے نام آتے ہیں ۔ انہوں نے مغربی ڈراموں سے استفادہ کیا تھا، ان کے ڈراموں میں اشعار اور گانے کم اور نثری مکالمات زیادہ ہیں۔اردو ڈرامہ بیسویں صدی میںاردو ڈرامہ ترقی کی جانب رواں دواں تھا، ناطق فلموں کا آغاز ہوا تو تماشائیوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی۔ شرر، نیاز فتح پوری، عبدالماجد دریا آبادی نے ادبی ڈرامے لکھے۔ ان میں سرفہرست شرر ہیں، جنہوں نے کل چھ ڈرامے لکھے۔ میوہ تلخ، شہید وفا ،شکنتلا شامل ہیں۔ ادبی ڈرامہ نگاروں میں مولاناظفر علی خان، آرزو لکھنوی، عابد حسین بھی شامل ہیں۔ امتیاز علی تاج کا ''انارکلی‘‘ شہرہ آفاق کا درجہ رکھتا ہے۔ مرزا ادیب کا اصل نام دلاور علی ہے۔ مرزا صاحب نے شاعری سے تخلیقی سفر کا آغاز کیا پھر افسانہ نگاری کی جانب مائل ہوئے ۔افسانہ نگاری سے بھی طبیعت اچاٹ ہوگئی تو ڈرامہ نگاری کی طرف رخ کیا ۔ان کے ڈراموں میںآنسو اور ستارے لہو اور قالین ستون فصیل شب پس پردہ خاک نشین چین وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے بعد خواجہ معین الدین کا نام آتا ہے۔ خواجہ صاحب نے تعلیم بالغاں کے نام سے ڈرامہ تحریر کیا، یہ ڈرامہ بہت بار فلمایا گیا۔ اس کے بعد خواجہ صاحب نے مرزا غالب بندر روڈ پر اسٹیج کیا۔ پاکستان بننے کے بعد اسٹیج ڈرامہ زوال کا شکار ہو گیا۔ اگرچہ کچھ تعلیمی اداروں میں ڈرامے سٹیج کئے جاتے رہے لیکن مغرب اور پڑوس ملک میں اسٹیج ڈرامے کی جونظیر ملتی ہے وہ مثال وطن عزیز میں قائم نہ ہوسکی۔ریڈیو ڈرامہبرصغیر پاک و ہند میں ریڈیو اسٹیشن قائم ہونے کے بعد ریڈیو ڈرامے نشر ہونے لگے۔ شروع میں مغرب کی کہانیوں اور مختلف داستانوں سے اخذ کر کے ڈرامے تخلیق کیے گئے گئے پھر مختلف افسانوں کو ریڈیائی شکل میں لایا گیا۔ جن میں سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، قیوم نظر، امتیاز علی تاج، ممتازمفتی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے لکھاری ایسے ہیں جن کا نام لینا ناگزیر ہے ،جن میں یوسف ظفر، شاہد احمد دہلوی، محمود نظامی، حفیظ جاوید، خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور، شاطر غزنوی، احمد ندیم قاسمی، اشفاق احمد، سلیم صدیقی،اے اے حمید، بانو قدسیہ، آغا بابر، مرزا ادیب، ضیاء سرحدی، جاوید اقبال، اطہر شاہ خان شامل ہیں۔سعادت حسن منٹو بھی آل انڈیا ریڈیو کے ملازم رہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں کو ڈرامائی تشکیل کی۔ ان کے ڈراموں کا مجموعہ ''منٹو کے ڈرامے‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے علاوہ اوپندر ناتھ اشک نے یک بابی ڈراموں میں نام کمایا۔ کرشن چندر اگرچہ افسانہ نگار مشہور ہیں لیکن ان کے ڈراموں میں نچلے طبقے کے لوگوں کے دکھ اور تکلیفوں کی عکاسی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ قیوم نظر اور آغا بابر نے اس صنف میں طبع آزمائی کی۔اشفاق احمد اور ان کی زوجہ بانو قدسیہ نے بھی ریڈیائی ڈراموں میں نام کمایا۔ خدیجہ مستوراور ہاجرہ مستورکا قلم بھی ڈرامے تحریر کیے بغیر نہ رہ سکا۔ٹی وی کے آنے سے ریڈیائی ڈرامہ زوال کا شکار ہوا۔ اگرچہ ریڈیائی ڈراموں کی کہانیاں معیاری ہوتی تھیں۔

آج کا دن

آج کا دن

سیرالیون کی خانہ جنگی کا اختتام2002ء میں آج کے روز سیرالیون کی خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا۔ یہ خانہ جنگی 23مارچ1991ء کو اس وقت شروع ہوئی جب انقلابی یونائیڈڈ فرنٹ لائبیریا کے آمر چارلس کی خصوصی افواج کی حمایت سے ٹیلر کے نیشنل پیٹریا ٹک فرنٹ آف لائبیریا نے جوزف موموہ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش میں سیرا لیون میں مداخلت کی۔ اس کے نتیجے میں خانہ جنگی11سال تک جاری رہی جس نے پورے ملک کو لپیٹ میں لے لیا اور50ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ اسے تاریخ میں اس لئے اہمیت حاصل ہے کہ یہ دنیا میں طویل عرصے تک جاری رہنے والی جنگوں میں سے ایک تھی۔پیرس امن کانفرنس کا آغازپیرس امن کانفران کا آغاز 18 جنوری 1919ء میں ہوا۔یہ پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد فاتح اتحادیوں کی پہلی باضابطہ میٹنگ تھی تاکہ شکست خوردہ مرکزی طاقتوں کیلئے امن کی شرائط طے کی جا سکیں۔برطانیہ ، فرانس ، ریاستہائے متحدہ امریکہ اور اٹلی کے رہنماؤں نے اس کانفرنس میں شرکت کی۔اس کانفرنس کے نتیجے میں پانچ معاہدے کئے گئے جنہوں نے یورپ اور ایشیا ، افریقہ اور بحرالکاہل کے جزائر کے نقشوں کو دوبارہ ترتیب دیا اور مالی جرمانے بھی عائد کئے گئے۔کانفرنس کے مباحثوں میں جرمنی اور دیگر ہارنے والے ممالک کی نمائندگی موجود نہیں تھی جس کی وجہ سے کئی سیاسی ناراضگیوں نے جنم لیا جو کئی دہائیوں تک جاری رہیں۔کانفرنس میں 32 ممالک اور قومیتوں کے سفارت کاروں نے شرکت کی۔اکیس مطالباتاکیس مطالبات ،پہلی عالمی جنگ کے دوران18جنوری1915ء کو جاپان کی سلطنت کے وزیر اعظم Okuma Shigenobu کی جانب سے جمہوریہ چین کی حکومت سے کئے گئے مطالبات کا ایک مجموعہ تھے۔ ان مطالبات کا مقصد چین پر جاپانی کنٹرول کو بڑھانا تھا۔ان مطالبات میں یہ بھی کہا گیا کہ جاپان پہلی عالمی جنگ کے آغاز میں فتح کئے جانے والے جرمن علاقے بھی اپنے پاس رکھے گا جس سے اسے منچوریا اور جنوبی منگولیا میں مزید طاقتور ہونے کا موقع ملے گا۔ ان مطالبات کا مقصد چین کو جاپان کا دفاعی محاذ بنانا تھا جس سے مغربی ممالک کا اسرورسوخ کم سے کم رکھا جا سکے۔قرنطینہ قتل عامقرنطینہ قتل عام18 جنوری 1976ء کو لبنان کی خانہ جنگی کے دوران شروع ہوا۔ لاقرنطین،جسے عربی میں کارنٹینا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے مشرقی بیروت کا ایک ضلع تھا۔اس ضلع میں فلسطینی ،کرد ،شامی اور آرمینیائی بڑی تعداد میں آباد تھے۔خانہ جنگی کے دوران اس جگہ پر بھی بہت خوفناک لڑائی ہوئی۔واشنگٹن پوسٹ کے اس وقت کے نامہ نگار جوناتھن رینڈل کے مطابق ''بہت سے لبنانی مسلمان مرد وں اور عورتوں کر پکڑ کران کے بچوں سے الگ کر دیا گیا اور بہت لوٹ مار کی گئی۔کارنٹینا پر دائیں بازو کی ملیشیاؤں اور زیادہ تر عیسائی لبنانی محاذ، خاص طور پر کتائب پارٹی (فلانگسٹ)، کی ملیشیاؤں نے غلبہ پا لیا تھا، جس کے نتیجے میں تقریباً 1500 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔