عمر خیام عظیم مسلمان سائنسدان
عمر خیام کا شمار بلا مبالغہ دنیا کے مقبول ترین شاعروں میں ہوتا ہے۔عمر خیام کا جب بھی نام لیا جاتا ہے تو ان کی شاعری اور رباعیاں سامنے آ جاتی ہیں جبکہ وہ صرف ایک شاعر نہ تھے، مصنف اور فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک ماہر علم نجوم، ریاضی دان اور ماہر فلکیات بھی تھے۔عمر خیام کا ایک کارنامہ رصدگاہ میں تحقیقات کر کے مسلمانوں کو ایک نیا کیلنڈر بنا کر دینا بھی ہے۔
عمر خیام نے 18 مئی 1048ء میں نیشا پورکے ایک خیمہ سینے والے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کاپورا نام ابو الفتح عمر خیام بن ابرہیم نیشاپوری تھا۔ انہوں نے اپنے زمانے کے نامور اساتذہ سے تعلیم حاصل کی۔ان کے استادوں میں عبدالرحمن الخازنی ،قاضی ابو طاہر اور مصطفی نیشا پوری کے نام قابل ذکر ہیں۔
فلسفہ میں وہ مشہور فلسفی بوعلی سینا کے ہم عصر تھے۔ ان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اس وقت کے سلجوقی سلطان ، ملک شاہ نے انہیں اپنے دربار میں طلب کر لیااور انہیں اصفہان کے اندر ایک عظیم الشان رصدگاہ تعمیر کرنے کا حکم دیا۔اس کی تعمیر 1073 ء میں شروع ہوئی اور ایک سال بعد یعنی 1074ء میں اس رصد گاہ کی تعمیر مکمل ہوگئی۔ عمر خیام کو یہاں کا انچارج مقرر کر دیا گیا جبکہ ان کے علاوہ چند مشہور سائنس دانوں نے بھی یہاں کام کیا جن میں ابوالغفار الاسفیزاری ،میمن ابن نجیب الوسیطی اور محمد بن عماد البیہقی کے نام زیادہ مشہور ہیں۔ سلطان ملک شاہ نے عمر خیام کو ایک نیا کیلنڈر بنانے کا حکم دیا۔
ملک شاہ کے کہنے پر انہوں نے جو کیلنڈر تیار کیا اسے جلالی کیلنڈر کہا جاتا ہے اور جو ایک زمانے تک رواج میں رہا اور آج کا ایرانی کلینڈر بھی بہت حد تک اسی پر مبنی ہے۔ جلالی کیلنڈر، شمسی کیلنڈر ہے اور سورج کے مختلف برجوں میں داخل ہونے پر شروع ہوتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ رائج انگریزی یا گریگورین کیلنڈر سے زیادہ درست ہے اور اسے آج تک سب سے زیادہ درست کیلنڈر کہا جاتا ہے۔ اس میں 33 سال پر لیپ ایئر آتا ہے جبکہ گریگوین میں ہر چار سال پر اضافی دن والا سال آتا ہے۔
اس کے بعد وزیر نظام الملک نے اصفہان مدعو کیا جہاں کی لائبریری سے انہوں نے استفادہ کیا اور اقلیدس اور اپولینیس کے علم الحساب کا بغور مطالعہ شروع کیا اور انہوں نے اس سلسلے میں کئی اہم تصانیف چھوڑیں۔ ریاضی کے میدان میں مکعب اور متوازی کے نظریے پر ان کی خدمات کو سراہا جاتا ہے۔ انہیں اقلیدس میں جو اشکالات نظر آئے ان پر عربی زبان میں ایک کتاب تحریر کی جس کا عنوان''رسالہ فی شرح اشکال من مصدرات کتاب اقلیدس‘‘تھا۔
عمر خیام کا اصل میدان علم ہیت یا علم نجوم، ریاضی اور فلسفہ رہا لیکن ان کی عالمی شہرت کی واحد وجہ ان کی شاعری ہے جو گاہے بگاہے لوگوں کی زبان پر آ ہی جاتی ہے۔ ان کی شاعری کو زندہ کرنے کا کارنامہ انگریزی شاعر اور مصنف ایڈورڈ فٹزجیرالڈ کا ہے جنہوں نے 1859ء میں عمرخیام کی رباعیات کا انگریزی میں ترجمہ پیش کیا اور اس کا عنوان ''رباعیات آف عمر خیام‘‘ رکھا اور عمر خیام کو فارس کا نجومی شاعر کہا۔ اس ترجمے کو انگریزی شاعری کے اعلیٰ ترین شاہ کاروں میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ نہ صرف انگریزی شاعری کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، بلکہ سب سے زیادہ نقل کی جانے والی کتاب بھی یہی ہے۔ اردو میں تو بہت سے لوگوں نے ان کی رباعیوں کا منظوم ترجمہ بھی کیا ہے۔
عمر خیام کی پزیرائی مختلف ادوار میں ہوتی رہی ہے ۔ اس عظیم مسلمان سائنسدان کا انتقال 4دسمبر 1131ء کو ایران میں ہوا، آج ان کی برسی ہے۔
رباعیات
ہوئی سحر تو ، پکارا یہ پیر مے خانہ
ارے وہ مست کہاں ہے سدا کا دیوانہ
بلانا اس کو کہ جلدی سے اس کا جام بھریں
مبادا، موت نہ بھر ڈالے اس کا پیمانہ
٭٭٭٭
دیتی ہے اجل کس کو اماں اے ساقی
بھر جام مرا جلدی سے ہاں اے ساقی
دنیا کے پکھیڑوں کیلئے رونا کیا
مشہور دو روزہ ہے جہاں اے ساقی
٭٭٭٭
ہاں عقل یہ کہتی ہے کریں اب توبہ
ہر روز ارادہ ہے کہ امشب توبہ
اب موسمِ گل آہی چکا اور سہی
اس فصل میں توبہ کریں یا رب توبہ
٭٭٭٭
کڑھتا ہے کیوں گناہوں پہ بیکار کیلئے
حق کے کرم کو موقع ہے اظہار کیلئے
معصوم و بیگناہ کو رحمت سے کیا غرض
فی الاصل مغفرت ہے گنہگار کیلئے
اعزازات
٭... 1970ء میں چاند کے ایک گڑھے کا نام عمر خیام رکھا گیا۔ یہ گڑھا کبھی کبھی زمین سے بھی نظر آتا ہے۔
٭... 1980ء میں ایک سیارچے ''3095‘‘ کو عمر خیام کا نام دیا گیا۔