مار اے لاگو اور دو کروڑ کا کتا
دنیا بھر کے سربراہان مملکت سمیت نامور شخصیات کی رہائش گاہوں کو مخصوص ناموں سے تاریخ میں ہمیشہ بڑی اہمیت رہی ہے۔جیسے فرانسیسی صدر کی رہائش گاہ '' ایلیسی محل‘‘ ،چین کے صدارتی محل کو ''ژونگ نان ہائے‘‘، برطانوی ملکہ کی رہائش گاہ ''بکنگھم پیلس‘‘ جبکہ برطانوی وزیر اعظم کی رہائش گاہ ''ٹن ڈائوننگ سٹریٹ‘‘ ، کراچی کا مہٹہ پیلس جو محترمہ فاطمہ جناح کی رہائش گاہ کے باعث ''فاطمہ پیلس‘‘کہلایا جانے لگا۔ امریکی صدر کی سرکاری رہائش گاہ کو '' وائٹ ہاوس‘‘کی شہرت حاصل ہے۔دنیا کی بعض نامور شخصیات ایسی بھی ہیں جن کی ذاتی رہائش گاہوں کو بھی تاریخی شہرت حاصل ہوئی، جیسے علامہ اقبالؒ کی ذاتی رہائش گاہ کو ''جاوید منزل‘‘ ، امریکی صدر ڈونلڈ جان ٹرمپ کی ذاتی پرتعیش رہائش گاہ کو ''مار اے لاگو ‘‘ کہا جاتا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس لحاظ سے شاید خوش قسمت تصور ہوں گے کہ امریکی تاریخ میں وہ دوسرے صدر ہیں جو ایک سو بیس(120) سال قبل گروور کلیولینڈ کے بعد دو بار امریکہ کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ صدر ٹرمپ امریکہ کے صدر ہی نہیں بلکہ ذاتی زندگی میں ایک سیاست دان ، میڈیا پرسن اور پراپرٹی ٹائیکون بھی ہیں۔دولت مند ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت جہاں ان کی جارحانہ طبیعت کی شہرت رکھتی ہے، وہیں ان کا شاہانہ طرز زندگی بھی اکثر موضوع بحث بنا رہتا ہے۔
فلوریڈا کے '' پام بیچ‘‘پر واقع ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ وسیع و عریض گھر '' مار اے لاگو‘‘ جو ایک کلب پر بھی مشتمل ہے ، ہر اس سہولت سے آراستہ ہے جس کا تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ قلعہ نما یہ ریزورٹ ڈونلڈ ٹرمپ نے 1980ء میں اس وقت خریدا تھا جب یہ ایک گمنام مالدار شخصیت تھے لیکن اتنے بھی مالدار نہ تھے جتنے اب ہو چکے ہیں۔ امریکہ کے حالیہ صدارتی انتخابات کے بعد فلوریڈا میں واقع ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ رہائش گاہ سیاسی طور پر عالمی طاقت کا ایک نیا مرکز بن چکی ہے۔
امریکی صدارتی انتخابات سے کچھ ہی عرصہ قبل ڈونلڈ ٹرمپ دو بار قاتلانہ حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ان پر پہلا حملہ رواں سال جولائی میں امریکی ریاست پینسلونیا میں ان کی انتخابی مہم کی ریلی کے دوران ہوا تھا جبکہ تقریباً دو ماہ بعد ان پر دوسرا حملہ مارا ے لاگو کے گولف کورس میں ہوا تھا۔
واضح رہے کہ ان قاتلانہ حملوں کے بعد سے امریکی حکومت نے انہیں خصوصی سکیورٹی دینا شروع کر دی ہے اور وہ ہمیشہ ہائی الرٹ رہتے ہیں۔ جنوری 2005ء کے بعد اقتدار سنبھالنے کے بعد یقینی طور پر ان کی سکیورٹی میں ممکنہ حد تک مزید اضافہ بھی کر دیا جائے گا۔
حال ہی میں دنیا بھر کے میڈیا ہاوسز سمیت معروف برطانوی اور امریکی نشریاتی ادارے جہاں ''مار اے لاگو‘‘ کے سیاسی اجتماعات کی دلچسپ انداز میں لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ کرتے نظر آتے ہیں، وہیں وہ یہ بھی بتا رہے ہیں کہ ٹرمپ کی فتح کے بعد نئی انتظامیہ کا حصہ بننے کے خواہشمندوں سمیت امریکہ کی بااثر ترین شخصیات اس وقت مار اے لاگو کے گرد منڈلاتی نظر آتی ہیں۔ اسی کے ساتھ مبصرین اور محققین اپنے ناظرین اور سامعین کو یہ یاد کراتے بھی نظر آتے ہیں کہ یہ وہی پررونق مقام ہے جہاں ٹھیک دوسال پہلے امریکی ایف بی آئی نے چھاپہ مارا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ اسے یہاں سے جوہری ہتھیاروں سمیت جاسوسی سیٹلائٹ سے متعلق حساس نوعیت کی خفیہ دستاویزات ملی ہیں۔
سکیورٹی انتظامات اور روبوٹ کتا
مار اے لاگو کے سکیورٹی انتظامات اگرچہ ایک قلعہ کی مانند ہیں تاہم امریکی انتظامیہ اس مرتبہ مستقبل قریب کے اپنے ایک صدر کی سکیورٹی پر کسی قسم کی کوتاہی پر سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آتی۔اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے خاندانی ذرائع کے بقول ''صدر ٹرمپ مسند صدارت سنبھالنے کے بعد طاقت کا مرکز مار اے لاگو نہیں چھوڑیں گے بلکہ وہ دوسرے دور صدارت میں زیادہ وقت فلوریڈا کے اس ریزورٹ میں گزارنا پسند کریں گے‘‘۔
اس دفعہ امریکی سیکرٹ سروس نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے سکیورٹی کے انتظامات کو ترجیح دیتے ہوئے روبوٹ کتے بنانے والی کمپنی ''بوسٹن ڈائنامکس‘‘کی خدمات حاصل کی ہیں۔ اس کمپنی نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سکیورٹی کیلئے '' سپوٹ‘‘ نامی ایک خصوصی روبوٹ کتا تیار کیا ہے۔اس سلسلے میں سکیورٹی اینڈ رسک مینجمنٹ کمپنی ''ٹیلون کمپنیز ‘‘ کے سی ای او رون ولیمز کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے خلاف قاتلانہ حملوں کے بعد سیکرٹ سروس ایجنسی کو محسوس ہوا کہ اسے ٹیکنالوجی کو مزید جدید اور بہتر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ہونے والے حملوں بارے پتہ لگایا جا سکے اور بروقت ان پر قابو بھی پایا جا سکے۔
رون ولیمز نے ایک سوال کے جواب میں وضاحت کرتے ہو ئے کہا کہ انسانوں کے مقابلے میں یہ روبورٹ کتے ایک وسیع رقبے پر بہتر انداز میں سکیورٹی کے فرائض سرانجام دے سکتے ہیں۔ وہ پر امید ہیں کہ مستقبل قریب میں یہ کتے بیشتر اہم مقامات پر سکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھالے نظر آئیں گے۔ رون ولیمز نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ روبوٹ کتے پہلے ہی سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ افواج میں بھی کامیابی سے سکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں جبکہ نیو یارک پولیس ڈیپارٹمنٹ نے بھی سال گزشتہ سے ان کتوں کو اپنی فورس میں شامل کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فلوریڈا کے پام بیچ میں، مار اے لاگو ریزورٹ کے آس پاس گشت کرتا یہ منفرد کتا اور کشتیوں پر گشت کرتے چاق و چوبند مسلح محافظ پچھلے کچھ عرصہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔
75 ہزار ڈالر یعنی 2 کروڑ روپے مالیت کا ''سپوٹ‘‘ نامی یہ روبوٹ کتا متعدد کیمروں اور تھرمل سینسرز سے آراستہ ہے۔یہ روبوٹ کتا سیڑھیاں چڑھ سکتا ہے، اتر بھی سکتا ہے، تنگ جگہوں سے گزرنے کی صلاحیت کے علاوہ یہ بند دروازوں کو کھول بھی سکتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ عام انسانوں کی مانند رسپانس بھی دیتا ہے۔ یہ کتا عام کتوں سے زیادہ تیز رفتار ، پھرتیلا اور چوکس ہے۔اس کتے کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ سکیورٹی کیمروں سے لیس یہ کتا اپنے ارد گرد کے تھری ڈی نقشے بھی بنا سکتا ہے۔
اس منفرد اور قلعہ بند سکیورٹی انتظامات کی ایک اور وجہ یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ عالمی طاقت کے اس نئے مرکز میں ان دنوں دنیا کی بڑی بڑی شخصیات بھی قیام پذیر ہیں، جن میں دنیا کے امیر ترین شخص اور ٹیسلا سمیت ''ایکس‘‘ کے مالک ایلون مسک ،امریکہ کے ایک بڑے سیاسی خاندان کی شخصیت رابرٹ کینیڈی، بل گیٹس اور ایل گور سمیت ڈونلڈ ٹرمپ کے متعدد دوست بھی مار اے لاگو میں یا تو رہائش پذیر ہیں یا ان کا طاقت کے اس مرکز میں آنا جانا لگا ہوا ہے۔
یہ تو اب آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ سکیورٹی جیسے حساس مسئلے کے معاملے میں جدید ٹیکنالوجی ، انسانی روائتی طریقوں سے کس حد تک بہتر ہے۔