ہماری محبت کے منتظر سماج کے دھتکارے لوگ
معذوروں کے عالمی دن کے موقع پر خصوصی تحریر
دنیا بھر میں ہر سال 3 دسمبر کو معذوری کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد معذور افراد کے حقوق کو اجاگر کرنا اور ان کے مسائل کو حل کرنے کیلئے معاشرے میں شعور پیدا کرنا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں معذور افراد کو روزمرہ زندگی میں بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جہاں وسائل کی کمی اور سماجی رویے ان کیلئے مزید رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی کل آبادی کا تقریباً 10 فیصد معذور افراد پر مشتمل ہے، جن میں سے 80 فیصد ترقی پذیر ممالک میں رہتے ہیں۔ پاکستان میں یہ تعداد 14 ملین کے قریب ہے، جس میں بچے خاصی بڑی تعداد میں شامل ہیں لیکن اس حقیقت کے باوجود، معذوری کو ہمارے ہاں اکثر ایک نظرانداز شدہ مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان میں معذوری کے حوالے سے مختلف اعداد و شمار اور حقائق سامنے آتے ہیں۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق، ملک میں معذور افراد کی شرح 2.5 فیصد ہے۔ اگرچہ یہ شرح بظاہر کم معلوم ہوتی ہے، لیکن حقیقت میں معذور افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے کیونکہ دیہی علاقوں میں معذوری کے اعداد و شمار درست طور پر جمع نہیں کیے گئے۔ صوبوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پنجاب میں معذور افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے، جبکہ سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی یہ شرح قابل ذکر ہے۔
پاکستان میں معذوری کی اقسام میں جسمانی معذوری سب سے زیادہ عام ہے، جو کل معذور افراد کا 33 فیصد ہے۔ اس کے بعد ذہنی معذوری 21 فیصد، بصری معذوری 15 فیصد، اور سماعتی معذوری 9 فیصد ہے۔ کثیرالجہتی معذوری بھی ایک اہم مسئلہ ہے، جو 19 فیصد افراد کو متاثر کرتی ہے۔ ان معذوریوں کی بنیادی وجوہات میں غذائی قلت، جینیاتی عوامل، جنگی حالات، اور قدرتی آفات شامل ہیں۔
پاکستان میں معذور افراد کے مسائل اور چیلنجز بے شمار ہیں۔ تعلیم، روزگار اور صحت کی سہولیات میں عدم دستیابی ان کیلئے سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ خصوصی تعلیمی اداروں کی کمی اور پبلک ٹرانسپورٹ کی غیر رسائی معذور افراد کو روزمرہ زندگی میں مشکلات کا شکار بناتی ہے۔ ان مسائل کی شدت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب سماجی رویے معذور افراد کو بوجھ سمجھتے ہیں اور ان کی صلاحیتوں کو نظرانداز کرتے ہیں۔
حکومتی سطح پر معذور افراد کیلئے کئی اقدامات کیے گئے ہیں، لیکن ان کی عملی حیثیت اور اثرات محدود ہیں۔ 1981ء میں معذور افراد کیلئے ملازمت میں 1 فیصد کوٹہ مقرر کیا گیا۔ 2002ء میں معذور افراد کیلئے ایک قومی پالیسی متعارف کرائی گئی، جس کا مقصد تعلیم، بحالی اور شمولیت کے ذریعے معذور افراد کی حالت بہتر بنانا تھا۔ اس کے علاوہ، ضیاء الحق کے دور حکومت میں معذور افراد کے حقوق کو اجاگر کرنے کیلئے مختلف اقدامات کیے گئے۔ ان کی صاحبزادی کی معذوری کی وجہ سے اس مسئلے پر خاصی توجہ دی گئی۔ اس دور میں میڈیا کو معذوری کے حوالے سے شعور پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا گیا اور خصوصی ادارے قائم کیے گئے۔
آج کل پاکستان میں معذور افراد کیلئے مختلف غیر سرکاری تنظیمیں بھی کام کر رہی ہیں۔ یہ تنظیمیں تعلیم، صحت، اور بحالی کے میدان میں معذور افراد کو مدد فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اس حوالے سے کئی نجی ادارے ان مسائل کو حل کرنے کیلئے سرگرم ہیں۔ تاہم، ان تنظیموں کے وسائل محدود ہیں اور ان کے کام میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں، جن میں حکومتی تعاون کی کمی اور مالی وسائل کی قلت شامل ہیں۔
اگرچہ پاکستان میں معذور افراد کے حوالے سے شعور میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن اب بھی معاشرے کے بڑے حصے میں معذوری کو ایک کمزوری سمجھا جاتا ہے۔ معذور بچوں کے والدین انہیں اکثر سماجی تقریبات میں لے جانے سے گریز کرتے ہیں، اور انہیں عام بچوں کے ساتھ شامل کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے۔ یہ رویے معذور افراد کی نفسیاتی صحت پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں اور ان کیلئے معاشرتی زندگی میں شمولیت کو مشکل بنا سکتے ہیں۔
اس حوالے سے حکومت، نجی شعبے، اور معاشرے کے تمام افراد کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ معذور افراد کو مساوی مواقع فراہم کیے جا سکیں۔ درج ذیل تجاویز اس مسئلے کے حل میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں:
1)معذوری کے بارے میں عوام میں شعور پیدا کرنے کیلئے میڈیا کو موثر طریقے سے استعمال کیا جائے۔
2 )معذور افراد کیلئے مفت یا سبسڈی پر طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔
3 )تعلیمی اداروں میں خصوصی انتظامات کیے جائیں تاکہ معذور طلباء کو تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا نہ ہو۔
4 )پبلک ٹرانسپورٹ اور عوامی مقامات کو معذور افراد کیلئے قابل رسائی بنایا جائے۔
5 )معذور افراد کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کیلئے خصوصی تربیتی پروگرامز کا انعقاد کیا جائے۔
حکومت پنجاب اس حوالے سے مختلف اقدامات کر رہی ہے۔ حال ہی میں وزیر اعلیٰ مریم نواز نے اس حوالے سے مختلف اقدامات اٹھائے ہیں، جس میں معذور افراد کیلئے ہمت کارڈز کا اجرا اورپہلے آٹزم سکول کاقیام ہے۔
پاکستان میں معذور افراد کے مسائل کو حل کرنے کیلئے معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانا اور ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان کی مدد کریں اور انہیں معاشرے کا فعال حصہ بننے کا موقع دیں تاکہ وہ بھی ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
پاکستان میں معذوری کی اقسام
٭... جسمانی معذوری سب سے زیادہ عام ہے، جو کل معذور افراد کا 33فیصد ہے۔
٭... ذہنی معذوری 21 فیصد، بصری معذوری 15 فیصد، سماعتی معذوری 9 فیصد ہے۔
٭... کثیرالجہتی معذوری بھی ایک اہم مسئلہ ہے، جو 19 فیصد افراد کو متاثر کرتی ہے۔
وجوہات: معذوریوں کی بنیادی وجوہات میں غذائی قلت، جینیاتی عوامل،
جنگی حالات اور قدرتی آفات شامل ہیں۔