موسمیاتی تبدیلی اور صحرائی بنجرپن
اسپیشل فیچر
دنیا بھر میں زرخیز زمین کے وسیع علاقے تیزی سے بنجر ریگستان میں تبدیل ہو رہے ہیں، جو ماحولیاتی نظام، زراعت اور انسانیت کیلئے خطرہ بن رہے ہیں۔ اس عمل کو صحرائی بنجرپن کہا جاتا ہے اور یہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے جڑا ہوا ہے۔
صحرائی بنجرپن تیزی سے بڑھ رہا ہے، جس کی وجوہات میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، غیر متوقع موسمی تبدیلیاں اور انسانی سرگرمیاں شامل ہیں۔ صحرائی بنجرپن کے نتائج تباہ کن ہیں، جو خوراک کی فراہمی، حیاتیاتی تنوع اور معیشتوں کے استحکام کو متاثر کرتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی اور صحرائی بنجرپن کے باہمی تعلق کو سمجھنا اس کے اثرات کو کم کرنے اور زمین کے وسائل کو محفوظ رکھنے کیلئے نہایت ضروری ہے۔
صحرائی بنجر پن کی وجوہات
صحرائی بنجرپن کی ایک بڑی وجہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہے، جس کے نتیجے میں بخارات کی شرح بڑھ جاتی ہے اور مٹی میں نمی کم ہو جاتی ہے۔ جس سے زراعت اور نباتات کی بقا مشکل ہو رہی ہے۔نباتات کے ختم ہونے سے مٹی کے غذائی اجزا کم ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں زمین مزید کٹاؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔ جب زمین پر کوئی سبزہ نہ رہے، تو زرخیز مٹی پھرغیر متوقع موسمی تبدیلیاں بھی صحرائی بنجرپن میں اضافہ کر سکتی ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کے باعث کئی خطوں میں بارشوں کی مقدار کم ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے زمین بنجر ہوتی جا رہی ہے۔
درخت اور پودے مٹی کو زرخیز رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ جب ان کی بے دریغ کٹائی کی جاتی ہے تو مٹی کی زرخیزی ختم ہو جاتی ہے اور زمین صحرا میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
بدقسمتی سے، انسانیت نے بھی صحرائی بنجرپن میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ مویشیوں کو حد سے زیادہ چَرانا، جنگلات کی کٹائی اور غیر پائیدار زرعی طریقے زمین کی زرخیزی کو کمزور کر دیتے ہیں۔ یہ عوامل ماحولیاتی نظام کو بری طرح متاثر کرتے ہیں، جس سے وہ موسمیاتی تبدیلی کے دباؤ کے آگے بے بس ہو جاتے ہیں۔ جب زرخیز زمین ختم ہو جاتی ہے تو مقامی آبادی کو خوراک کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ زرعی سرگرمیوں کو باقی ماندہ قدرتی ماحولیاتی نظام تک پھیلانے پر مجبور ہو جاتے ہیں، اور یوں زمین کی تباہی کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔
صحرائی بنجرپن کے نتائج
صحرائی بنجرپن کے کئی سنگین نتائج ہوتے ہیں، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں مقامی کمیونٹیز مویشیوں کے چَرانے اور کاشتکاری کیلئے زمین پر انحصار کرتی ہیں۔ جب زمین کی زرخیزی ختم ہو جاتی ہے، تو وہ نمی برقرار رکھنے اور نباتات کی نشوؤنما میں مدد دینے کی صلاحیت کھو دیتی ہے۔ اس کے نتیجے میں مویشیوں کیلئے چراگاہیں کم ہو جاتی ہیں اور فصلوں کی پیداوار میں کمی آ جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں کسانوں کو مصنوعی آبپاشی اور کیمیائی کھادوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے، جو پانی کے وسائل پر مزید دباؤ ڈال دیتا ہے۔ جب زمین بنجر ہو جاتی ہے، تو مقامی آبادی کو زرخیز زمین کی تلاش میں اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ ماحولیاتی انحطاط کی وجہ سے بے شمار لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں، اور بہت سے لوگ ایسی زمین کی تلاش میں ہجرت پر مجبور ہیں جو ان کیلئے گزارے کا ذریعہ بن سکے۔ صحرائی بنجرپن کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے گھر ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں، خاص طور پر وسطی ایشیا، جنوبی امریکہ کے کچھ حصوں اور صحارائی افریقہ میں۔ یہ صورتحال آبادی کے دباؤ، وسائل کیلئے مقابلے اور نقل مکانی کرنے والی کمیونٹیز کے ہمسایہ علاقوں میں بسنے سے پیدا ہونے والے تنازعات کو جنم دے سکتی ہے۔
صحرائی بنجرپن حیاتیاتی تنوع (bio diversity) کیلئے بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔ بے شمار پودے اور جانور اپنے بقا کیلئے مستحکم ماحولیاتی نظام پر انحصار کرتے ہیں۔ زرخیز زمین کے بغیر ان کے قدرتی مسکن سکڑنے لگتے ہیں، جس کی وجہ سے انواع کو نئے حالات میں خود کو ڈھالنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ جب وہ پودے ختم ہو جاتے ہیں جو مٹی کے کٹاؤ کو روکنے اور مٹی کی مضبوطی میں مدد دیتے ہیں، تو زمین کی تباہی کا عمل مزید تیز ہو جاتا ہے۔ وہ جانور جو ان ماحولیاتی نظاموں پر اپنے مسکن اور خوراک کیلئے انحصار کرتے ہیں، وسائل کی کمی کے باعث خطرے میں پڑ جاتے ہیں، اور ان میں سے کئی ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ نباتاتی زندگی کے خاتمے سے کاربن کو جذب کرنے کی صلاحیت بھی کم ہو جاتی ہے، جو بالآخر موسمیاتی تبدیلی کو مزید بدتر بنا دیتا ہے۔
صحرائی بنجرپن سے نمٹنے کے اقدامات
صحرائی بنجرپن کا مقابلہ کرنے کیلئے عالمی اور مقامی دونوں سطحوں پر کوششوں کی ضرورت ہے۔ کچھ ایسی تکنیک جو بنجر زمین کو بحال کرنے اور زرخیز زمین کے مزید نقصان کو روکنے میں مدد دے سکتی ہیں۔
ان میں جنگلات کی بحالی یا شجر کاری سر فہرست ہے، جس کے تحت درخت لگائے جاتے ہیں تاکہ مٹی کو زرخیزکیا جا سکے اور اس میں نمی برقرار رہے۔ اسی طرح ایگروفاریسٹری (Agroforestry) بھی ایک مؤثر طریقہ ہے، جس میں درختوں اور جھاڑیوں کو فصلوں کے ساتھ منظم طریقے سے اگایا جاتا ہے تاکہ ماحول کو فائدہ پہنچے۔ یہ دونوں طریقے زمین کے کٹاؤ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ درخت لگانے سے مٹی کی زرخیزی برقرار رکھی جا سکتی ہے اور صحرا بننے کے عمل کو روکا جا سکتا ہے۔
پانی کے ضیاع کو روک کر اور بارشی پانی کو محفوظ بنا کر صحرائی بنجر پن کو کم کیا جا سکتا ہے۔
ایسی زراعت اپنائی جائے جو کم پانی میں بھی بہتر پیداوار دے اور مٹی کی زرخیزی برقرار رکھے۔ لوگوں کو موسمیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات سے آگاہ کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے اقدامات کریں۔
موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی چیلنج ہے جس سے نمٹنے کیلئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ اگر ہم بروقت اقدامات نہ کریں تو زمین کے مزید علاقے صحرائی بنجر پن کا شکار ہو سکتے ہیں، جو ہماری معیشت، ماحول اور انسانی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔تاہم، صحرائی بنجرپن سے نمٹنے کیلئے اس کی بنیادی وجہ کو حل کرنا بھی ضروری ہے، یعنی موسمیاتی تبدیلی۔ زمین کی تباہی کو تیز کرنے والے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور غیر متوقع موسمی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کیلئے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی پر توجہ دینا ناگزیر ہے۔ اس مقصد کیلئے قابل تجدید توانائی (Renewable Energy)کی طرف منتقلی اور زیادہ پائیدار زرعی طریقوں کو فروغ دینا ضروری ہے۔ ان اقدامات کے امتزاج سے ہم نہ صرف ماحولیاتی نظام اور روزگار کے ذرائع کا تحفظ کر سکتے ہیں بلکہ بے گھر ہونے والی کمیونٹیز کی نقل مکانی کو بھی کم کر سکتے ہیں۔