ناصر کاظمی :ہجرت اور یاسیت کا شاعر
اسپیشل فیچر
ناصر کاظمی ایک ہفت پہلو شخصیت کے مالک تھے۔ انہیں عام طور پر غزل کا شاعر تسلیم کیا جاتا ہے اور یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے لیکن لوگوں کا ماننا یہ ہے کہ وہ صرف غزل کے ہی شاعر نہیں بلکہ دیگر اصناف سخن پر بھی انہیں دسترس حاصل تھی۔ ان کی غزلیں ان کے عصر کا آئینہ ہیں، تقسیم اور ہجرت کا نوحہ ہیں اور معصوم و مقدس عشقیہ جذبات و خیالات کی ترجمان بھی ہیں۔ ان کی نظمیں جہاں ایک طرف ان کی فن کاری اور زبان دانی کی دلیل ہیں، وہیں ان کے ایک سچے محب وطن ہونے کا ثبوت بھی ہیں۔ ناصر کاظمی کا منظوم ڈرامہ ''سر کی چھایا‘‘ اس میدان میں ان کے ہنر کا لوہا منوانے کیلئے کافی ہے۔ ان کی نعتیں، سلام اور رباعیات ان کے مذہبی عقائد کے ترجمان ہیں اور ان کی فکری بلند پروازی کا بین ثبوت بھی، ناصر نے نثر نگاری میں بھی کمال کر دیا ہے۔ ان کی ترجمہ نگاری انگریزی اور اردو زبان پر ان کی دسترس کو ظاہر کرتی ہے۔
ناصر کاظمی کی کلیات کا مطالعہ کریں اور ان کی تمام تر ادبی خدمات کا جائزہ لیں تو وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی حق تلفی کی گئی ہے۔ انہوں نے جس نازک دور میں غزل کے سر پر دست شفقت رکھا وہ انتہائی نازک دور تھا۔ انہوں نے ناصرف غزل کا دفاع کیا بلکہ اس کی آبیاری بھی کی اور نوک پلک بھی سنواری۔ ناصر نے غزل کو کچھ اس انداز سے پیش کیا کہ وہ لوگوں کو اپنے دلوں کی آواز معلوم ہوئی۔
ناصر کاظمی کی نظمیں ان کی حب الوطنی کی مرہون منت ہیں۔ ہندوپاک کی 17روزہ جنگ کے دوران انہوں نے اپنے وطن کے تئیں اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کرنے کیلئے اور اپنے ملک کے محافظوں کی حوصلہ افزائی کرنے کیلئے روز ایک ترانہ کہا۔ ترانوں کے علاوہ ان کی دیگر نظموں میں بھی حب الوطنی کا عنصر غالب ہے۔ ناصر بھلے ہی کامیاب نظم نگار نہ کہلائے جا سکتے ہوں لیکن ان کی نظموں کا نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔
ان کا منظوم ڈرامہ ''سر کی چھایا‘‘ ان کے ایک کامیاب ڈرامہ نگار ہونے کی دلیل ہے۔چوں کہ تقسیم اور ہجرت ناصر کے ادب کا مرکزی خیال ہیں اس لئے ان کے منظوم ڈرامے میں بھی ان عناصر کا کارفرمائی واضح دیکھی جا سکتی ہے۔
ناصر نے بارگاہ نبی آخری الزماںﷺ میں نعتیں بھی کہی ہیںاور حضرت حسینؓ اور ان کے اہل خانہ نیز جملہ اصحاب کی خدمت میں سلام بھی پیش کیا ہے۔ نعت وسلام کے معاملے میں بڑا محتاط رویہ اختیار کیا ہے۔
ناصر کاظمی کی نثر انتہائی عمدہ ہے۔ وہ جتنے بڑے شاعر ہیں اتنے بڑے نثر نگار بھی ہیں۔ ان کی نثر یوں تو خالص ادبی نوعیت کی ہے لیکن تقسیم اور ہجرت کے اثرات یہاں بھی نمایاں ہیں۔ پاکستان کو درپیش مسائل پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ وہ اپنے ملک کے داخلی، سیاسی اور خارجی مسائل پر توجہ دیتے ہیں۔انہوں نے ناصرف اپنے ملک کے مسائل کو اپنی نثر کا موضوع بنایا ہے بلکہ ان مسائل کا حل بھی پیش کیا ہے۔ ان کی نثر میں کہیں خاکہ نگاری کا رنگ ہے، کہیں انشائیہ نگاری کا، کہیں منظر نگاری کا تو کہیں سفر نامے کا۔ ان کی نثر کے مطالعے کے بعد کوئی بھی ان کے ایک باکمال نثر نگار ہونے سے انکار نہیں کر سکتا۔ ناصر کاظمی کی ترجمہ نگاری بھی قابل توجہ ہے۔ ان کے ترجموں سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ اردوکے علاوہ انگریزی زبان پر بھی دسترس رکھتے تھے۔
ناصر کاظمی کا اصل نام سید ناصر رضا کاظمی تھا۔وہ 8دسمبر1925ء کو انبالہ (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے انبالہ اور شملہ میں ابتدائی تعلیم مکمل کی، پھر اسلامیہ کالج لاہور میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔1945ء میں وہ واپس انبالہ چلے گئے، تاہم کچھ عرصہ بعد پھر پاکستان چلے آئے۔ ناصرکاظمی صاحب طرز شاعر ہونے کے ساتھ ایک اعلیٰ پائے کے مدیر بھی تھے۔ بعد ازاں ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہو گئے۔ ناصر کاظمی نے 1940ء میں شعر کہنے شروع کیے۔ انہوں نے کئی شعری مجموعے تخلیق کئے، جن میں ''برگ نے، دیوان، پہلی بارش، نشاط خواب، کے علاوہ''سُر کی چھایا‘‘ (منظوم ڈراما کتھا)، ''خشک چشمے کے کنارے‘‘(نثر، مضامین، ریڈیو فیچرز، اداریے) اور ''ناصر کاظمی کی ڈائری‘‘ شامل ہیں۔ آخر میں قارئین کیلئے ان کے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تیری یاد تھی اب یاد آیا
یہ کیا کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر
جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو
ترے وصال کی امید اشک بن کے بہہ گئی
خوشی کا چاند شام ہی سے جھلملا کے رہ گیا
کس طرح سے کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر
سر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیں
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
نئے کپڑے بدل کر جائوں کہاں
اور بال بنائوں کس کیلئے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا
اب باہر جائوں کس کیلئے
دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
دل تو میرا اُداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
دل تو میرا اُداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے