ٹیپو سلطان :فطری اوصاف و طبعی خصوصیات
اسپیشل فیچر
پوری انسانی تاریخ میں بالخصوص آخری صدیوں میں ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں کہ ٹیپو کی طرح دوسرا کوئی بادشاہ ِوقت خود میدان جنگ میں اپنے دشمنوں کے مقابلہ کیلئے موجود ہو ۔خود اس کا سیاسی حریف نظام حیدر آباد لوگوں کو بے وقوف بنانے کیلئے اپنی فوج کے ساتھ شہر سے نکلتا ضرور تھا لیکن کسی محفوظ جگہ پر خیمہ زن ہو کر اپنی فوج کو ہدایات دیتا تھا۔مرہٹہ سرداروں کا بھی یہی حال تھا کہ اپنے سپاہیوں کو تو وہ آگے کرتے تھے لیکن خود ان کی رہنمائی کے بہانے پیچھے ہی رہتے تھے۔ انگریز گورنر جنرل البتہ اس سے مستثنیٰ تھے لیکن وہ بھی صرف بوقت ضرورت ہی خود میدان جنگ میں کودتے تھے برخلاف ٹیپو کے کہ یہ شروع سے آخر تک مسلسل ہر چھوٹے بڑے معرکہ میں اپنے سپاہیوں کے ساتھ میدان جنگ میں آکر ان کے شانہ بشانہ اپنے دشمنوں کے ساتھ لڑتا تھا۔
کہتے ہیںٹیپو اور شیرکا آ پس میں گہرا تعلق ہے۔اپنی طبعی شجاعت و بہادری کی وجہ سے شیر اس کی زندگی کا ایک لازمی جزو تھا ۔حسی اور معنوی دونوں اعتبار سے عمر بھر اس سے اس کا تعلق رہا ۔جرات و ہمت میں ان دونوں میں بڑی مماثلت تھی۔ وہ شیر کی طرح آزاد کی زندگی پسند کرتا تھا،وہ اپنے پیچھے سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل یہ تاریخی جملہ چھوڑ گیا کہ ''گیدڑکی صد سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی مجھے عزیز ہے‘‘۔ اشارہ شیر سے بہادری اور گیدڑ سے بزدلی کی طرف تھا۔ بزدلوں کی طرح اپنے آپ کو دشمنوں کے حوالے کرکے زندہ رہنا اس کے غیور ضمیر اور خود دار طبیعت نے گوارہ نہیں کیا۔ اگر وہ چاہتا تو اپنے آپ کو دشمنوں کے حوالے کرکے اپنی جان کے علاوہ خود اپنے تخت کو بھی کچھ دنوں کیلئے ہی سہی بچا کر عیش کی زندگی بسر کر سکتا تھا۔
اس کے محلات قلعوں وغیرہ میں تعمیر کے وقت ببر شیر کی کھال کی طرح دھاریاں دیواروں میں بنائی جاتی تھیں، ملیسار میں جب نائروں کی ایک بڑی تعداد نے اسلام قبول کیا تو ان کی خواہش کے مطابق ٹیپو نے ان سب کو اپنی فوج میں شامل کرکے ایک علیحدہ دستہ بنایا۔ ان سب کیلئے اس نے دوسروں سے امتیاز کیلئے شیر ببر کی کھال سے بنی وردی مقرر کر دی تھی ،وہ خود جوکپڑے پہنتا اس میں بھی شیر کی دھاریاں بنی ہوتی تھیں۔ اپنے تمام ہتھیاروں پر اس نے ''اسد اللہ‘‘ یعنی ''شیر خدا‘‘ کندہ کروایا تھا۔ اس کے شاہی محل میں بھی پنجروں میں شیروں اور چیتوں کی ایک بڑی تعداد رہتی تھی، جس سے وہ اپنے فارغ اوقات میں تفریح لیتا تھا۔ ہفتہ میں ایک دوبار موقع نکال کر وہ جنگلوں میں بھی جاتا تھا، جہاں چیتوں کے ذریعہ ہی جانوروں کا شکار کرتا تھا۔
اپنی حکمرانی کی توثیق کے بعد جب اس نے اپنے لئے ایک خوبصورت اورنیا شاہی تخت بنوایا تو وہ بھی شیر کی شکل ہی کا تھا حتیٰ کہ بعض توپیں بھی اس نے شیر نما بنوائی تھیں۔ آغاز جوانی میں جنگل میں شکار کھیلتے وقت اچانک اس کو ایک خونخوار شیر کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کو اس نے اپنی غیر معمولی جرات سے وہیں ختم کردیا تھا۔ شیر سے اسی مناسبت کی وجہ سے اس کو انگریزوں نے '' Tiger of Mysore‘‘ یعنی ''شیر میسور ‘‘کا خطاب دیا تھا اور اسی نام سے اس نے مغرب و مشرق میں شہرت بھی پائی۔ ٹیپو چونکہ ایک بڑا خطاط بھی تھا اس لئے اس نے اپنی ذہانت سے خط ببری بھی ایجاد کیا تھا جس میں تحریر شیر ببر کی دھاریوں کی طرح ہوتی تھی۔
وہ بنیادی طور پر ایک رحمدل حکمران تھا۔ سلطان پر عام طور پر جو الزامات اس کے دشمنوں کی طرف سے عائد کئے جاتے ہیں اس میں ایک یہ بھی ہے کہ وہ بڑا ظالم اور انتقامی طبیعت کا حامل تھا۔ انگریز مصنف لیون بی بورنگ نے اپنی کتاب میں اس کے متعلق لکھا ہے کہ اس کے حکم سے صرف ایک شہر سو پا میں پندرہ ہزار آدمیوں کو درختوں میں لٹکا کر پھانسی دی گئی حالانکہ دیانتداری کا تقاضا تھا کہ وہ لکھتا کہ وہ کیا وجوہات تھیں جن کی بناء پر اتنی بڑی تعداد میں ایک ہی شہر کے لوگوں کو بیک وقت ٹیپو کو پھانسی دینی پڑی حالانکہ ٹیپو کا معمول تھا کہ کسی شہر یا گائوں میں اگر اس کے خلاف کبھی بغاوت ہوتی تو اس میں صرف پیش پیش لوگوں کو ہی سزا دی جاتی، عام طور پر ان کو قید ہی رکھا جاتا۔ قتل کرنے کی نوبت بہت کم آتی تھی۔اس کی رحمدلی کیلئے ا س سے بڑھ کر اور کیا ثبوت چاہئے کہ اس کو جب اپنے خلاف بغاوتوں و سازشوں کا علم ہوتا تو وہ باغیوں کے خلاف الزام ثابت ہوئے بغیر معمولی کارروائی بھی نہیں کرتا تھا ۔
ذہانت کی بات کی جائے تو سلطان فطری طور پر غیر معمولی ذہین تھا ۔بیک وقت کئی زبانوں پر عبور رکھتا تھا۔اس کی ذہانت سے پہلی دفعہ بحری جہازوں کی تاریخ میں سمندر میں جہازوں کو مقناطیسی پہاڑوں کے خطرے سے بچانے کیلئے لوہے کی جگہ تانبے کا استعمال کیا گیا۔ اس کا ذہن ہمیشہ نئی نئی اختراعات کے بارے میں سوچتا رہتا۔ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ اس نے پوری سلطنت میں آبادی کی مردم شماری کرائی، پنچایت راج کی بنیاد رکھی۔ ایسی بکتر بند گاڑیاں تیار کرائیں جس پر گولیوں کا اثر نہیں ہوتا تھا۔ اسی کے حکم سے فرانسیسی ماہرین نے پانی سے چلنے والا ایک ایسا انجن تیار کیا جس سے توپوں میں بآسانی سوراخ کیا جا سکتا تھا۔ دنیا میں میزائل ایجاد کرنے کا سہرا بھی اسی کے سر تھا حتیٰ کہ امریکیوں نے بھی اس کو راکٹ کے بانیوں میں شمار کیا۔ وہ جب بھی اپنی سلطنت کے کسی کارخانہ میں جاتا تو نئے طرز یا جدید انداز کی کوئی چیز بنانے کا حکم ضرور دیتا۔
سلطان ٹیپو کی وصیت
(علامہ اقبالؒ)
تو رہ نورد شوق ہے ، منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
کھویا نہ جا صنم کدہ کائنات میں
محفل گداز! گرمی محفل نہ کر قبول
صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرائیل نے
جو عقل کا غلام ہو ، وہ دل نہ کر قبول
باطل دوئی پسند ہے ، حق لا شریک ہے
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول!
چند مشہور اقوال
ٹیپو سلطان کی علمی قابلیت اور اس کی تقریر و تحریر کی جامعیت و معنویت کو سمجھنے کیلئے صرف ان کے اقوال زریں کا مطالعہ کافی ہے جومختلف مواقع پر مختلف مناسبت سے کہے۔یہ اقوال آج بھی تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں اور اس قابل ہیں کہ سنہرے حروف سے لکھ کر انہیں ہرگھر اور ادارہ میں آویزاں کیا جائے۔ ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔
٭...گیدڑکی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے، (شہادت سے کچھ دیر پہلے جب اس کے ایک غلام نے اس کو خود سپردگی کی رائے دی)۔
٭...غلط بیانی اخلاق و مذہب دونوں نقطہ نظر سے بہت بڑا جرم ہے۔
٭...جو لوگ کسی بھی مذہب کے مقدس مقامات کی بے حرمتی کرتے ہیں وہ دنیا میں ہی اپنی بداعمالیوں کی سزا پال لیتے ہیں(سر نگیری کے شنکرا چاریہ کے نام ایک خط میں جب انہوں نے مرہٹوں کی جانب سے اپنے مندر پر حملہ کی شکایت کی)۔
٭...مردوں کی بہترین تصویر انکی جوانمردی ہے( جب حیدرآباد سے چند لوگ انکی تصویر لینے آئے)۔
٭...لوگ بدی تو ہنس ہنس کر کرتے ہیں لیکن اس کے نتائج رو رو کر بھگتتے ہیں۔
٭...انگریز ہندوستان اور مسلمان دونوں کیلئے خطرہ ہیں اور دونوں کے دشمن ہیں۔ ان کے وجود سے وطن کی سرزمین کو پاک کرنا اسلام اور ملک دونوں کی سب سے بڑی خدمت ہے۔
٭...افسران سلطنت کو اپنے سربراہ کی طرف سے دیئے گئے احکام کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔
٭...اسلام کی سرخروئی کیلئے ضروری ہے کہ تمام مسلمان متحد ہو جائیں اور دشمنوں کی سرکوبی کو اپنی زندگی کا آخری مقصد سمجھیں۔(مسلم سربراہان مملکت کے نام اپنے ایک خط میں)
٭...قیامت کے روز خدا مجھ سے یہ نہیں پوچھے گا کہ کس نے کیا کیا مجھے صرف اپنے فرض کی ادائیگی کا جواب دینا پڑے گا۔