یادرفتگاں اطہر شاہ خان جیدی
اسپیشل فیچر
اطہر شاہ خان جیدی فنون لطیفہ کی ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ مزاحیہ اداکاری ہو ، صدا کاری ہو، ڈرامہ نگاری ہو یا مزاحیہ شاعری ،انہوں نے ہر میدان میں اپنے نقش چھوڑے ہیں۔ اصل میں وہ ایک تخلیق کار یعنی لکھاری تھے۔ اگرچہ انہوں نے صدا کاری اور اداکاری بھی کی لیکن ان کا اصل میدان شہ سواری تحریر ہی تھا جس میں وہ خاص طور پر ڈرامے اور شاعری کے حوالے سے بہت منفرد سوچ کے حامل تھے۔ ریڈیو پر انہوں نے سیکڑوں ڈرامے لکھے، جن میں وہ خود صداکاری بھی کرتے تھے اور کئی کئی کردار خود ہی ادا کرتے تھے۔ ریڈیو سے ایک قدم آگے بڑھا کر انہوں نے ٹیلی ویژن میں جگہ بنائی اور یہاں بھی بہت عمدہ اور شاندار قسم کے ڈرامے پیش کیے جن کی ایک ایک سطر بیک وقت مزاح کی چاشنی اور طنز کی کاٹ لیے ہوئے تھی۔
اطہر شاہ خان المعروف ''جیدی‘‘یکم جنوری 1943ء کو ریاست رام پور میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے وقت رامپور سے ہجرت کر کے والدین کے ساتھ لاہور آئے اور یہیں سے اپنی تعلیم و تربیت کا آغاز کیا۔کچھ عرصہ بعد پشاور منتقل ہو گئے جہاںسیکنڈری تک پڑھا اور پھر کراچی میں اردو سائنس کالج سے گریجویشن کیا، بعد ازاں پنجاب یونیورسٹی سے صحافت میں ماسٹرز کیا۔ ریڈیو، ٹی وی، اسٹیج پر بطور ڈرامہ نگار اپنے تخلیقی کام کا آغاز کیا، وہ اپنے ہی تخلیق کردہ مزاحیہ کردار ''جیدی‘‘ سے پہچانے جاتے ہیں، پی ٹی وی کے پروگرام ''کشت زعفران‘ ‘سے مزاحیہ شاعری میں بھی مقبولیت حاصل کی، مزاحیہ شاعری میں ''جیدی‘‘ تخلص کرتے۔شاعری کا ان کا ایک ہی مجموعہ ''جھانک‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا تھا۔
ان کے مشہور ڈرامہ سیریلز میں '' انتظار فرمائیے، ہیلو ہیلو، جانے دو، برگر فیملی، آپ جناب، پرابلم ہاؤس، جیدی ان ٹربل، آشیانہ، ہائے جیدی، با ادب با ملاحظہ ہوشیار‘‘ شامل ہیں۔ ڈرامہ سیریل ''انتظار فرمائیے‘‘ میں جیدی کے کردار نے انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا۔10مئی 2020ء کو دل کا دورہ پڑنے سے 77 سال کی عمر میں انتقال ہوا ۔حکومت نے انھیں پرائیڈ آف پرفارمنس سے جبکہ پی ٹی وی نے اپنی گولڈن جوبلی پر انھیں گولڈ میڈل سے نوازا ۔
حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو ان کا اصل فن مزاحیہ شاعری تھا جس میں وہ موقع باموقع ایسی خوبصورت شاعری کرتے تھے کہ سننے والے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے تھے۔اطہر شاہ خان کی شاعری کی طرف زیادہ لوگوں کا دھیان نہیں گیا لیکن اگر ان کی شاعری دیکھی جائے تو وہ ملکی حالات کی بہت زبردست عکاسی کرتی ہے اور ان پر نشتر زنی بھی کرتی ہے۔
ان کے قطعات متنوع موضوعات پر ہیں۔ ان قطعات میں ہلکا پھلکا مذاق بھی ہے، طنز بھی ہے، پیروڈی بھی ہے اور الفاظ کا الٹ پھیر بھی ۔ یعنی انہوں نے اپنی شاعری میں مزاح کے سبھی حربوں کو بہت کامیابی اور چابک دستی سے استعمال کیا ہے۔ اس مزاح کی زد میں جہاں پورا معاشرہ اور اس کے سبھی طبقات آ جاتے ہیں وہاں وہ خود اپنی ذات کو بھی مزاح کا نشانہ بناتے ہیں۔ شاعروں پر ان کا ایک ہلکا پھلکا قطعہ دیکھیے:
ویسے تو زندگی میں کچھ بھی نہ اس نے پایا
جب دفن ہو گیا تو شاعر کے بھاگ جاگے
وہ سادگی میں ان کو دو سامعین سمجھا
بس آٹھویں غزل پر منکر نکیر بھاگے
تضمین ایک مشکل فن ہے جس میں کسی دوسرے شاعر کا ایک مصرع لے کر اس پر اپنا شعر یا قطع اس طرح سے لگانا ہوتا ہے کہ وہ جوڑ بے عیب معلوم ہو۔ سنجیدہ شاعری میں پھر بھی کسی نہ کسی طور یہ کام کسی نہ کسی حد تک آسان ہو جاتا ہے لیکن مزاحیہ شاعری میں تضمین کرنا تو دو دھاری تلوار پر چلنے کے مترادف ہے۔ ذرا سی لغزش ہوئی اور شاعر جلال کے پاتال میں جا گرتا ہے اور اس سے اس شعر کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچتا ہے جس کے مصرعے پر آپ تضمین کر رہے ہوتے ہیں۔ اطہر شاہ خان جیدی کی جرات رندانہ دیکھیے کہ انہوں نے اقبالؒ کے مصرعے پر تضمین کی ہے:
یارب دل جیدی میں ایک زندہ تمنا ہے
تو خواب کے پیاسے کو تعبیر کا دریا دے
اس بار مکاں بدلوں تو ایسی پڑوسن ہو
''جو قلب کو گرما دے اور روح کو تڑپا دے‘‘
اسی طرح وہ سیاست اور اہل سیاست سے بھی نالہ ہیں، جنہوں نے ملک کا وقار ہی تباہ نہیں کیا بلکہ ملک کی معیشت بھی دگرگوں کر دی، جس کی وجہ سے ہم ایک قوم کے طور پر ابھر کر سامنے نہیں آ سکے اور نہ ہی ہمارا شمار اچھے معاشروں میں ہوتا ہے۔ اپنے لیڈروں کے کردار کے بارے میں جیدی کا کہنا ہے:
کس قدر ظالم و وحشی تھا وہ پاگل موذی
کاٹ کر سارے ہی دانتوں کے نشاں چھوڑ گیا
ہے عجب بات کے لیڈر تو بھلا چنگا رہا
آئینہ دیکھا جو کتے نے تو دم توڑ گیا
لفظوں کے الٹ پھیر سے نئے معنی پیدا کرنا اور اس میں مزاح کا رنگ نکالنا طنزو مزاح کا ایک بہت کامیاب حربہ ہے لیکن اس کے استعمال کیلئے جس دقت نظری کی ضرورت ہوتی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ جہاں اس کا غلط استعمال شاعری کو بے معنی بنا سکتا ہے وہیں اس کا شاندار استعمال شاعری کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ اطہر شاہ خان نے بالخصوص اپنے قطعوں میں الفاظ کا الٹ پھیر کر کے بہت شاندار معنی نکالے ہیں جو مزاح کے حامل بھی ہیں اور ہمیں سنجیدہ طور پر سوچنے کی دعوت دیتے ہیں:
رنگ خوشبو گلاب دے مجھ کو
اس دعا میں عجب اثر آیا
میں نے پھولوں کی آرزو کی تھی
آنکھ میں ''موتیا‘‘ اتر آیا
ان کے قطعات میں عشق و محبت کی واردات کا بیان بھی ہے لیکن اس کا انداز وہی ہے جو آج کل ہمارے زمانے میں ہے یعنی دور جدید میں جس طرح عاشق اور معشوق نے محبت کا کباڑہ کیا ہے۔ یہی انداز اطہر شاہ خان جیدی کی شاعری میں ہمیں نظر آتا ہے۔ جدید دور کی محبت پر ان کا طنز کا تازیانہ بھی درست ہے اور مزاح کی ہلکی ہلکی پھوار بھی پڑتی ہے۔ اس حوالے سے ایک قطع دیکھیے :
داخلہ اس نے کالج میں کیا لے لیا
لڑکیوں میں بڑا معتبر ہو گیا
کھڑکیوں سے نظر اس کی ہٹتی نہیں
میرا بیٹا تو بالغ نظر ہو گیا
یا پھر ناکام محبت کے انجام کے حوالے سے یہ مشہور قطع دیکھیے:
ناکام محبت کا ہر اک دکھ سہنا
ہر حال میں انجام سے ڈرتے رہنا
قدرت کا بڑا انتقام ہے جیدی
محبوبہ کی اولاد کا ماموں کہنا
قطعات کے ساتھ ساتھ ان کی مزاحیہ غزلیں بھی بہت مشہور ہیں۔ان غزلوں کی لفاظی اپنی جگہ خوب لیکن ان کو بیان کرنے کا جو انداز جیدی نے اپنایا تھا وہ بھی خاصے کی چیز ہے۔مزاحیہ غزل کا امام غزالی سے اتنا ہی فرق ہے کہ مزاحیہ غزل میں موضوع مضمون مزاحیہ ہوتا ہے جب کہ ہیئت مکمل طور پر غزل کی اختیار کی جاتی ہے :
یہ تیری زلف کا کنڈل تو مجھے مار چلا
جس پہ قانون بھی لاگو ہو وہ ہتھیار چلا
پیٹ ہی پھول گیا اتنے خمیرے کھا کر
تیری حکمت نہ چلی اور ترا بیمار چلا
اسی طرح انہوں نے اردو غزل میں ایک نئی طرح بھی ڈالی ہے جس کو انہوں نے ''پاگل غزل‘‘ کا نام دیا ۔کہنے کو یہ غزل کی ہیئت ہی ہے لیکن اس میں کوئی مربوط خیال نہیں بلکہ اونٹ پٹانگ باتیں ہیں جو ایک دوسرے سے کوئی بھی تعلق نہیں رکھتیں اور ان کی یہی بے معنویت اور بے ربطی ان میں مزاح کا عنصر پیدا کرتی ہے :
کھڑے کھڑے مسکرا رہا ہوں تو میری مرضی
لطیفہ خود کو سنا رہا ہوں تو میری مرضی
میں جلد بازی میں کوٹ الٹا پہن کے نکلا
اب آ رہا ہوں کہ جا رہا ہوں یہ میری مرضی
جو تم ہو مہمان تو کیوں نہ آئے مٹھائی لے کر
بٹھا کہ تم کو اٹھا رہا ہوں یہ میری مرضی
یہ کیوں ہے سایہ تمہاری دیوار کا میرے گھر
میں جھاڑو دے کے ہٹا رہا ہوں تو میری مرضی
میں نادہندہ ہوں بینک جانتے ہیں جیدی
تمہارا قرضہ بھی کھا رہا ہوں تو میری مرضی