سدا بہار گیتوں کے تخلیق کار:ریاض الرحمان ساغر

سدا بہار گیتوں کے تخلیق کار:ریاض الرحمان ساغر

اسپیشل فیچر

تحریر : اشفاق حسین


کچھ لوگوں کو قدرت نے بہت سی خوبیاں عطا کی ہوتی ہیں۔ ان کے فن کی بہت سی جہتیں ہوتی ہیں اور وہ اپنی خدا داد صلاحیتوں کے بل بوتے پر ایک عالم کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ وطن عزیز میں ایسے بے شمار نام لیے جا سکتے ہیں جن میں ایک نام ریاض الرحمان ساغرکا ہے۔
شاعر، صحافی اور فلمی نغمہ نگاروکہانی نویس ریاض الرحمن ساغرکا شمار ان پاکستانی شخصیات میں ہوتا ہے جنہیں قدرت نے بے پناہ خوبیوں سے نوازاتھا۔ یکم دسمبر1941ء کو بٹھنڈا(بھارت) میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے وقت ہونے والی قتل و غارت سے گزر کر پاکستان آئے، ان کے والد محمد عظیم کو ان کی آنکھوں کے سامنے موت کے گھاٹ اتارا گیا، ان کے چھوٹے بھائی نے بھوک اور پیاس سے ماں کی گود میں دم توڑ دیا۔ وہ اپنی والدہ کے ساتھ والٹن(لاہور) پہنچے اور بعد ازاں ملتان چلے گئے۔ جہاں ان کا بچپن انتہائی غربت میں گزرا۔ شاعری سکول کے زمانے میں ہی شروع کر دی تھی۔ اپنے استاد ساغر علی سے متاثر ہو کر اپنا تخلص ساغر رکھ لیا۔کالج پہنچنے تک انہیں قدیم و جدید شعراء کے سیکڑوں شعر یاد ہو چکے تھے۔شعرو شاعری اور کمیونسٹ خیالات کی ترویج کے الزام میں انہیں کالج سے نکال دیاگیا۔ بی اے تک تعلیم حاصل کی۔
ریاض الرحمن ساغر شاعر بھی تھے اور فلمی گیت نگار بھی۔ انہوں نے صحافت بھی کی اور کالم نویسی میں بھی نام کمایا۔ اس کے علاوہ ساغر صاحب نے مکالمہ نگار اور سکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے بھی اپنی صلاحیتوں کا سکہ جمایا۔ انہوں نے فلموں، ریڈیو اور ٹی وی کیلئے 2ہزارسے زیادہ نغمات تخلیق کیے۔ اسی طرح انہوں نے 75 فلموں کے مکالمے اور سکرپٹ لکھے۔
ریاض الرحمان ساغر کے فلمی گیتوں کی کتاب ''میں نے جو گیت لکھے‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ اس طرح ان کی نثری تصنیفات میں ''وہ بھی کیا دن تھے‘‘(خود نوشت)، ''کیمرہ، قلم اور دنیا‘‘ (سات ملکوں کے سفر نامے)، ''لاہور تا ممبئی براستہ دہلی‘‘ (بھارت کا سفر نامہ)، ''سرکاری مہمان خانہ‘‘ (جیل میں بیتے لمحات پر کتاب)‘‘ شامل ہیں۔ اسی طرح ان کی شاعری کی بھی کئی کتابیں منظر عام پرآئیں، جن میں ''چاند سُر ستارے‘‘، ''آنگن‘‘، ''آنگن تارے‘‘ (بچوں کی نظمیں)، ''سورج کب نکلے گا‘‘ (خود نوشت) شامل ہیں۔
ساغر صاحب نے غزلیں بھی لکھیں اور نظمیں بھی۔ خاص طور پر ان کی سیاسی نظمیں بہت مقبول ہوئیں۔ ان سب حقائق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ساغر صاحب نے بہت کام کیا اور وہ کثیر الجہات شخصیت تھے۔ گیت نگاری کے میدان میں اپنے نام کا سکہ جمانا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن انہوں نے یہ بھی کر دکھایا۔
ساغر صاحب نے سب سے پہلے ہفت روزہ ''لیل و نہار‘‘ میں کام کیا لیکن انہیں جلد ہی احساس ہو گیا کہ یہاں وہ لگن سے کام نہیں کر سکتے۔ وہ لاہور کے ایک اردو روزنامے سے منسلک ہو گئے۔ انہوں نے لاہور کے ایک روزنامے میں فلم ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ انہوں نے کالم نویسی کے فن کو ایک نیا روپ دیا۔ وہ پہلے کالم نویس تھے جنہوں نے نظم یا گیت کی شکل میں کالم لکھے۔ 1996ء میں ان کا پہلا کالم ''عرض کیا ہے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس کالم میں سماجی، سیاسی اور ثقافتی مسائل کو اجاگر کیا گیا تھا۔ ان کے آخری کالم کا عنوان تھا '' صبح کا ستارہ چھپ گیا ہے‘‘۔
ریاض الرحمان ساغر نے 1958ء میں پہلا فلمی گیت لکھا لیکن جس فلم کیلئے لکھا وہ ریلیز نہ ہو سکی۔ گیتوں کے حوالے سے ان کی جو پہلی فلم ریلیز ہوئی، اس کا نام تھا ''عالیہ‘‘ لیکن انہیں اصل شہرت فلم ''شریک حیات‘‘ کے اس گیت سے ملی ''مرے دل کے صنم خانے میں ایک تصویر ایسی ہے‘‘۔ انہوں نے ایک پنجابی فلم ''عشق خدا‘‘ کیلئے بھی گیت لکھے جو ان کی وفات کے بعد ریلیز ہوئی۔ انہوں نے جن مشہورفلموں کے مکالمے اور سکرپٹ لکھے ان میں ''شمع، نوکر، سسرال، شبانہ، نذرانہ، عورت ایک پہیلی، آواز، بھروسہ، ترانہ اور مور‘‘ شامل ہیں۔ انہوں نے شباب کیرانوی کے ساتھ بہت کام کیا۔
اپنے گیتوں اورشاعری کے بارے میں ان کا یہ موقف قابل داد ہے کہ انہوں نے کبھی چربہ نہیں کیا اورکبھی غیراخلاقی شاعری نہیں کی۔کہتے ہیں ''میں نے ایک ہی معیارسامنے رکھاہے جوگیت میں اپنی بیٹی کو سنا سکتا ہوں وہی گیت میں دوسروں کی بہوبیٹیوں کو سناتا ہوں‘‘۔ گلوکارہ شبنم مجید نے اپنی زندگی کا پہلا نغمہ ''سن او ہوا، سن او گھٹا‘‘ ان کا لکھا ہوا گایاجو فلم ''جو ڈر گیا وہ مر گیا‘‘ میں شامل تھا۔ ریاض الرحمن ساغرنے زندگی میں کبھی اپنے قلم سے نکلی ہو ئی نثر کی ایک سطر اور ایک شعر کا مصرع کسی کو بلامعاوضہ نہیں دیا۔
یکم جون 2013 کو ریاض الرحمان ساغر کینسر کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گئے۔ وہ اقبال ٹائون کے ایک قبرستان میں مدفن ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کون فراموش کر سکتا ہے، یقیناً کوئی نہیں۔
''سرگم ‘‘ ریاض الرحمان ساغر کی یادگار فلم
ریاض الرحمان ساغرکی سب سے بڑی نغماتی فلم ''سرگم‘‘ تھی جو 1995ء میں ریلیز ہوئی۔ اس میں عدنان سمیع خان نے گلوکاری اور موسیقاری کے علاوہ اداکاری بھی کی تھی۔ فلم کی کہانی، مکالمے، سکرین پلے، گیت، سیٹ اور ڈائریکشن اعلیٰ پائے کی تھی۔ اداکارہ زیبا بختیار کی یہ پہلی پاکستانی فلم تھی جبکہ کلاسیکل گائیک مہاراج غلام حسین کتھک نے اپنی اس اکلوتی فلم میں بڑی نیچرل اداکاری کی تھی۔ فلم ''سرگم‘‘ کے سبھی گیت بڑے زبردست تھے۔ خاص طور پر ''ذرا ڈھولکی بجاو گوریو‘‘ اور ''پیار ہے ، یہی تو پیار ہے‘‘ دل میں اتر جانے والے گیت تھے۔ اس فلم کے گیارہ میں سے دس گیت ریاض الرحمان ساغر نے لکھے تھے جبکہ ایک گیت ''اے خدا ، جس نے کی جستجو۔‘‘ مظفروارثی کا لکھا ہوا تھا۔

مشہور فلمی نغمات
٭ چلو کہیں دور یہ سماج چھوڑ دیں(سماج)
٭آنکھیں غزل ہیں آپ کی (سہیلی)
٭دیکھا جو چہرہ تیرا(گھونگھٹ)
٭مجھ کو بھی تو لفٹ کرا دے( عدنان سمیع)
٭ کل شب دیکھا(مجھے چاند چاہیے)
٭ میری وفا، میرے وعدے پہ(بے قرار)
٭ دل لگی میں ایسی دل کو لگی(دل لگی)
٭ ذرا ڈھولکی بجائو گوریو(سرگم)
٭پیار ہے، یہی تو پیار ہے (سرگم)
٭...لکھ دی ہم نے ( نیک پروین)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
تاشقند چار سو بازار

تاشقند چار سو بازار

چار سو ُبازار نہ صرف ازبکستان بلکہ پورے سنٹرل ایشیا میں ایک قدیم اور سب سے بڑا بازار ہے۔یہ بازار تاشقند شہر کی مرکزی شارع البیرونی کے کنارے تاریخی مدرسہ ککلداش اور مشہور خوبصورت ہوٹل چار سو کے قریب واقع ہے۔یہ بازار ایک صدی سے بھی زیادہ پرانا ہے۔اس بازار کے گنبد کا قطر 1148 فٹ ہے جو درمیان میں بغیر کسی ستون کے کھڑا ہے۔اتنے بڑے قطر کا گنبد سارے وسطی ایشیاء میں اور کہیں نظر نہیں آتا۔ گنبد کے اوپر ہلکے فیروزی رنگ کی چھوٹی چھوٹی ٹائیلوں سے خوبصورت بیل بوٹے بنائے گئے ہیں۔اس خوبصورت گلکاری کو دیکھ کر انجینئرز اور کاریگروں کی اعلیٰ مہارت کا فن عروج پر نظر آتا ہے۔یہ بازار تین منزلہ ہے جبکہ ایک تہہ خانہ بھی موجود ہے۔پہلی منزل کے سارے فلور پر دائروں کی شکل میں کاؤنٹر بنائے گئے ہیںجو کہ ماربل کے پتھر سے تیار کیے گئے ہیں۔ اس منزل میں تازہ سبزیاں، فروٹ، گوشت، دودھ، دہی،پنیر اور ان سے بنی ہوئی دوسری اشیاء دستیاب ہیں۔گرم گرم تازہ نان، شہد اور گرم مصالحے بھی اسی فلور پر فروخت ہوتے ہیں۔اوپر کی منزل پر ہرطرح کا ڈرائی فروٹ جن میں کشمش،خشک خوبانی، بادام، اخروٹ، پستہ ڈھیروں کی شکل میں گاہکوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔چار سُو بازار شہر کے وسطی حصہ میں واقع ہے۔ یہاں پر بس،ٹرام،میٹرو اور ٹیکسی کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے لیکن ان میں تاشقند میٹرو باکفایت، آرام دہ اور کم وقت لینے والا بہترین ذریعہ ہے۔ شہر کے کسی بھی حصے سے آپ میٹرو میں سوار ہو جائیں دس پندرہ منٹ بعد آپ چار سُو میٹرو سٹیشن پر ہوں گے جوکہ زیر زمین ہے۔جب آپ میٹرو سٹیشن سے باہر آئیں گے تو چارسُو بازار آپ کے سامنے ہوگا۔بڑے میدان کی ایک طرف ازبک بازیگر اپنے شاندار کرتبوں سے حاضرین کو محظوظ کر رہے ہوں گے۔اس بازار کے اندر اور باہر کم وبیش ایک ہزار دکانیں موجود ہیں۔ فرنیچر، لباس، قالین، بچوں کے جُھولے،دلہا دلہن کے عروسی لباس بھی دستیاب ہیں۔سوونیئر سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے چار سُو بازار بہترین جگہ ہے۔چائے خانے بھی موجود ہیں۔ غرضیکہ چار سُو بازار اس علاقے کے آئینہ کی طرح ہے جہاں ایک ہی جگہ آپ کو شہر کی ثقافت بھرپور انداز میں نظر آتی ہے۔اگر آپ کسی مشرقی بازار کو حقیقی رنگ میں دیکھنا چاہتے ہوں تو چار سُوبازار آپ کا صحیح انتخاب ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

بازنطین فوج کی شکستپیلی کانون کی جنگ، جسے لاطینی زبان میں ''پیلی کانم‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کا آغاز10 جون 1329ء کو ہوا۔ بازنطینی لشکر کی قیادت اینڈرونکس سوئم جبکہ عثمانی فوج کی قیادت اورہان اوّل کر رہے تھے۔اس جنگ میں شروع سے ہی عثمانی افواج کا پلڑا بھاری رہا اور بازنطینی افواج کو عثمانی دستے کے ہاتھوں بہت بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ عثمانی افواج نے اناطولیہ کے کئی شہروں کا محاصرہ کر لیا اور جنگ کے اختتام پر ان شہروں پر اپنا کنٹرول قائم کرنے میں بھی کامیاب رہے۔اس جنگ کے بعد بازنطینی افواج نے اپنے علاقے عثمانی فوج کے قبضے سے چھڑوانے کی بالکل کوشش نہیں کی۔ سبلات کی جنگسبلات کی جنگ 10 جون 1619ء کو 30 سالہ جنگ کے بوہیمیا دور میں شروع ہوئی۔ یہ جنگ رومن کیتھولک امپیریل فوج اور پروٹسٹنٹ افواج کے درمیان لڑی گئی۔ رومن کتیھولک افواج کی سربراہی چارلس بوناوینچر ڈی لونگووال کر رہے تھے جبکہ ارنسٹ وان مینسفیلڈ پروٹسٹنٹ فوج کی قیادت کر رہے تھے۔کیتھولک افواج کی جانب سے بوکوائے کا محاصرہ کرنے کی کوشش کی لیکن پروٹسٹنٹ افواج نے انہیں بڈجووائس کے تقریباً25کلومیٹر شمال مغرب کے چھوٹے سے گاؤں کے قریب روک لیا اور انہیں جنگ کے میدان میں آنے پر مجبور کر دیا۔ آکسفورڈ اور کیمبرج کی بوٹ ریسبوٹ ریس کیمبرج یونیورسٹی بوٹ کلب اور آکسفورڈ یونیورسٹی بوٹ کلب کے درمیان روئنگ ریس کا ایک سالانہ کھیل ہوتا ہے۔ اسے یونیورسٹی بوٹ ریس اور آکسفورڈ اور کیمبرج بوٹ ریس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔مردوں اور عورتوں کے الگ الگ مقابلے ہوتے ہیں، ساتھ ہی ریزرو عملے کیلئے بھی مقابلے رکھے جاتے ہیں۔ مردوں کا پہلا مقابلہ10جون 1829ء میں منعقد ہوا تھا اور 1856ء سے ہر سال منعقد ہوتے رہے ہے۔ سوائے پہلی اور دوسری عالمی جنگوں اور 2020ء میںCovid-19 وبائی مرض کے دوران۔ خواتین کا پہلا ایونٹ 1927ء میں ہوا تھا اور ریس 1964ء سے ہر سال منعقد کی جارہی ہے۔  

نوم پنہ کمبوڈیا کا دل دھڑکتا شہر

نوم پنہ کمبوڈیا کا دل دھڑکتا شہر

جنوب مشرقی ایشیا کے قلب میں واقع نوم پنہ نہ صرف کمبوڈیا کا دارالحکومت ہے بلکہ یہ ملک کی سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی زندگی کا مرکز بھی ہے۔ میکانگ اور ٹونلے سپ جیسی عظیم ندیوں کے کنارے آباد یہ شہر ایک جانب اپنے شاندار تاریخی ورثے کی یاد دلاتا ہے، تو دوسری جانب تیزرفتار شہری ترقی اور جدید طرزِ زندگی کی تصویر بھی پیش کرتا ہے۔ نوم پنہ وہ مقام ہے جہاں بدھ مت کے قدیم مندروں کی گھنٹیاں، فرانسیسی نوآبادیاتی عمارتوں کی شان و شوکت اور جدید فلک بوس عمارتوں کی چمک ایک ساتھ سانس لیتی ہیں۔ یہ شہر نہ صرف کمبوڈیا کی تاریخ کا امین ہے بلکہ ایک ایسے مستقبل کی امید بھی ہے جہاں روایت اور ترقی ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوں۔نوم پنہ کا قیام 15ویں صدی میں ہوا تھا، جب یہ خمر سلطنت کے زوال کے بعد دارالحکومت بنایا گیا۔ شہر کا نام ''نوم دا پین‘‘ (پین پہاڑی) پر تعمیر شدہ ایک بدھ مندر سے ماخوذ ہے، جو آج بھی ''وات نوم‘‘ کے نام سے ایک اہم زیارت گاہ ہے۔ نو آبادیاتی دور میں فرانسیسی اثرات نے شہر کی ساخت اور فن تعمیر پر گہرے نقوش چھوڑے، جو آج بھی فرانسیسی عمارتوں اور وسیع شاہراہوں میں نظر آتے ہیں۔نوم پنہ کمبوڈیا ملک کے جنوبی حصے میں دریائے میکونگ اور Tonle Sab کے سنگم پر واقع ہے۔یہ ایک اہم بندرگاہ ہے۔یہ شہر 1970 کی دہائیوں میں جنگ و جدل کے دوران بری طرح تباہ و برباد ہوگیا تھااور اس کی آبادی میں بھی خاصی حد تک کمی واقع ہوگئی تھی لیکن 1980ء کی دہائی میں اس کی دوبارہ تعمیر کا آغاز کیا گیا۔یہ شہر روایتی طور پر میکونگ وادی کیلئے تجارتی شہر تھا۔ چونکہ یہاں ذرائع آمد و رفت کی تمام سہولتیں میسر تھیں۔ مال کی برآمدگی جنوبی چین کے سمندری راستے کے ذریعے اس کا نکاس میکونگ ڈیلٹا کے ذریعے جنوبی چائنا کے سمندری راستے سے ویت نام تک ہوتا ہے، ان کی بڑی مصنوعات میں ٹیکسٹائلز، کھانے پینے کی اشیاء اور بیوریجز شامل ہیں۔اس شہر میں فرانسیسیوں کی قابل قدر نو آبادکاری ہوتے ہوئے بھی یہ ایشیا کا دلکش شہر تصور کیا جاتا ہے۔نوم پنہ ثقافتی اور تعلیمی انسٹی ٹیوٹ کا گہوارہ تھا مگر یہاں کے بیشتر ادارے 1975ء میں بند کردئیے گئے جن میں Khmer تہذیب و تمدن اور آرٹ کا اعلیٰ نمونہ گوتم بدھ میوزیم انسٹیٹیوٹ تھا۔ قومی عجائب گھر جو چھٹی صدی کی نوادرات سے مزین تھا اس کی اہمیت کو بھی نقصان پہنچا، اعلیٰ تعلیم کیلئے نوم پنہ یونیورسٹیاں جو 1960ء سے موجود تھیں وہ بھی متاثر ہوئیں۔1954ء میں بڈھسٹ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا اور فائن آرٹس یونیورسٹی 1965ء میں قائم ہوئی۔ علاوہ ازیں سائنسی بنیادوں پر زرعی یونیورسٹی بھی 1965ء میں ہی قائم کی گئی۔یہاں کی دلکشی اور دلچسپی کیلئے گوتم بدھ کے مندر (Temples) اور سابقہ حکمرانوں کے محل ہیں جو قابل دید ہیں۔ Khmers قوم سے غالباً 14 ویں صدی کے آخر میں پہلی آباد کاری کا سلسلہ شروع ہوا اور 1434ء میں ان لوگوں نے Angkor Thumکو اپنا گڑھ بنالیا۔نوم پنہ بدمعاش لوگوں کی آماجگاہ تھا۔ یعنی اس کا کوئی پرسان حال نہ تھا اور 1867ء میں کمبوڈیا کا دارالحکومت بننے سے پہلے کئی مرتبہ انہیں کے زیرتسلط رہا۔ 1970ء کی دہائی میں کمبوڈیا کی جنگ و جدل میں شہر میں سماجی سطح پر انقلاب آیا اور اس وقت تقریباً دو ملین شہریوں نے زرعی ترقی کیلئے کام کیے۔ لہٰذا 1980ء میں یہ شہر دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا ہو گیا اور کچھ تہذیبی انسٹیٹیوٹ اور تعلیمی سینٹر دوبارہ کھول دیے گئے۔نوم پنہ آج ایک جدید اور متحرک شہر بنتا جا رہا ہے۔ شاندار عمارتیں، شاپنگ مالز، ہوٹل اور کیفے، اس کی تیز رفتار ترقی کی گواہی دیتے ہیں۔ تاہم، تیز شہری ترقی کے ساتھ ساتھ ٹریفک کا بڑھتا ہوا دباؤ، ماحولیاتی مسائل اور شہری منصوبہ بندی کی کمزوریاں بھی سامنے آ رہی ہیں۔شہر میں سیاحوں کیلئے کئی پرکشش مقامات موجود ہیں، جن میں شاہی محل، نیشنل میوزیم، چیونگ ایک قتل گاہ (Killing Fields)، اور تل سلینگ میوزیم خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ مقامات کمبوڈیا کی شاندار تاریخ اور خونی ماضی دونوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ روایتی رقص، کھمر موسیقی اور مقامی کھانوں سے بھرپور بازار سیاحوں کیلئے کشش کا باعث بنتے ہیں۔نوم پنہ صرف ایک دارالحکومت نہیں، بلکہ یہ کمبوڈیا کی روح کا عکاس ہے۔ یہاں ماضی کی گونج اور حال کی تپش ایک ساتھ محسوس کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ شہر کو کئی مسائل کا سامنا ہے، مگر اس کی توانائی، ثقافت اور عوام کی مہمان نوازی اسے جنوب مشرقی ایشیا کے نمایاں شہروں میں شامل کرتی ہے۔ 

جنگ عظیم اول آرک اور جھیل مارن کی لڑائیاں

جنگ عظیم اول آرک اور جھیل مارن کی لڑائیاں

جنگ عظیم اوّل 1914ء سے 1918ء تک جاری رہی، اس دوران جنگ میں شریک ممالک کے درمیان مختلف محاذوں پر مختلف لڑائیاں ہوئیں۔ جن میں سے کچھ کی شہرت اور اہمیت اپنی مثال آپ ہے۔ ان ہی لڑائیوں میں سے ایک آرک کے محاذ پر لڑی گئی جبکہ دوسری جھیل مارن کے محاذپر لڑی گئی، جن کا ذکر نیچے کیا جا رہا ہے۔ آرک کی لڑائیچھٹی آرمی5ستمبر کو دریائے آرک کو پار کرنے کے لئے بڑھ رہی تھی۔ اسی دوران جنرل ہینز کی قیادت میں جرمن پہلی آرمی کا چوتھا محفوظ کور جنوب کی جانب بڑھتے ہوئے دریا کے مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ مارچ کر رہا تھا۔ اس وقت جنرل ہینز نے فرانسیسی افواج کی بھاری نقل و حرکت کی اطلاعات ملنے پر اپنی کمزور صورتحال کے باوجود فرانس کی فوج کے عزائم جاننے کیلئے ایک ہی طریقہ اختیار کیا کہ ان پر حملہ کردیا جائے۔اس اچانک حملے کیلئے چھٹی آرمی بالکل ہی تیار نہ تھی۔ جرمن افواج کامیابی سے فرانس کی چھٹی آرمی کو دھکیلتی رہیں۔ تاہم شام ہونے تک جنرل ہینز کو معلوم ہو چکا تھا کہ وہ اپنے سے کئی گنا بھاری دشمن سے نمبرد آزما ہے لہٰذا اس نے اپنی افواج کو خاموشی سے پیچھے ہٹ کر ایک محفوظ دفاعی مقام پر صف آرا کر لیا۔کلاک نے مطلع ہونے پر ایک کور مزید بھیج دی۔ 6ستمبر کا پورا دن چھٹی آرمی جرمنی کے دو کورز کے ساتھ دریائے آرک کے کنارے برسر پیکار رہی۔ جرمن کور کمانڈر بار بار جنرل کلارک کو مدد کیلئے اپیل کرتے رہے لیکن جنرل کلاک اس جنگ کی اہمیت سے آگاہ نہ ہو سکا۔ اگلے دن جب فرانس کے مفتوحہ کیمپس میں سے جنرل جوفر کے ہدایت نامے کی نقل ملی تو اس نے اپنے دو محفوظ کور مارن کے شمال سے آرک کی جانب روانہ کئے جن کی آمد سے جرمن پہلی اور دوسری آرمی کے درمیان پہلے سے پیدا شدہ فاصلہ کم ہو گیا۔جنرل کلاک یہ سمجھ رہا تھا کہ برطانوی افواج اب مزاحمت کے قابل نہ ہیں۔ اس لئے وہ ان سے کچھ زیادہ خطرہ محسوس نہیں کر رہا تھا۔ دوسری طرف جنرل مائونیوری کو جنرل گیلینی کی طرف سے مسلسل کمک اور حوصلہ مل رہا تھا۔ اس نے 7اور 8ستمبر کو بھرپور حملے کئے۔ جنرل کیلینی نے کمک کیلئے ٹیکسیوں کو استعمال میں لاتے ہوئے دو رجمنٹس کمک کیلئے بھیجیں۔ جنرل کلاک نے 9ستمبر کو ایک فیصلہ کن حملہ کرنے کا حکم دیا۔دوسری طرف جنرل مائونیوری نے اپنے اعلیٰ حکام سے قدم بقدم پیرس کی طرف پسپائی کا منصوبہ بنانے کی اپیل کی۔ اس طرح فرانس کی افواج کے پیچھے مزید آگے بڑھنے پر جرمنی پہلی اور دوسری آرمی کے درمیان50کلو میٹر کا فاصلہ پیدا ہو جاتا۔ اگر اس لمحے جنرل بُولو کی آرمی مغربی سمت میں پیش قدمی کرتی تو یہ فاصلہ پیدا نہ ہوتا۔ جرمن افواج میں باہمی ربط کا فقدان مشاہدہ میں آتا ہے۔ ہیڈ کوارٹر سے رابطہ میں تاخیر، نامکمل معلومات و ہدایات اور انفرادی کوششیں کسی بہتر نتیجے کی راہ میں رکاوٹ بنتی رہیں۔مارن کی دوسری لڑائیجنرل فرینچٹ ڈی ایسپیرے کی پانچویں آرمی 6ستمبر کو اپنے منصوبے کے مطابق آگے بڑھ رہی تھی۔ اسے کلاک کی پہلی آرمی کے دو کوروں سے مارن کے جنوب میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور رات تک لڑائی جاری رہی۔ جب جنرل کلاک نے دریائے آرک کی لڑائی کیلئے اپنے دو کوروں کو طلب کر لیا تو پانچویں آرمی کے دائیں کور نے پیش قدمی کرتے ہوئے بلا مزاحمت آگے بڑھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ لیکن اپنے متعین مقام پر پہنچنے سے پہلے اس کا جنرل بوُلو کے ایک کور سے تصادم ہو گیا۔جنرل فرینچٹ نے7ستمبر کو ایک عام حملے کا حکم دیا۔ جنرل بوُلو اپنے دائیں بازو کے غیر محفوظ ہونے پر پیچھے ہٹ گیا اور حکم دیا کہ دریائے پٹیٹ مارن کے دوسرے کنارے صف بندی کی جائے۔ 8ستمبر کو فرانس کی افواج نے دوسری آرمی کا پیچھا کرتے ہوئے اس پر دریا کے دوسری جانب حملے جاری رکھے مگر کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ سہ پہر کو جنرل بوُلو نے ایک ناکام حملہ کیا جس میں اس کی قوت میں کمی کا احساس ہونے پر جنرل فرینچٹ نے رات کے عمل میں ایک فیصلہ کن حملہ کیا جس میں فرانس کی افواج کو کامیابی ہوئی اور جنرل بوُلو کی آرمی 6 میل تک پسپا ہو گئی۔اس حملے کے نتیجے میں پہلی اور دوسری آرمی کے درمیان ایک بہت بڑا فاصلہ پیدا ہو گیا۔ صرف توپ خانے کے دو کور جو بمشکل تمام 10ہزار فوجیوں پر مشتمل تھے اس فاصلے کی حفاظت کیلئے مامور تھے۔ برطانوی فوج جو اب تک کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکی تھی اب جوابی حملے کیلئے تیار ہو رہی تھی۔ اس فاصلے میں گھس کر ہر دو آرمیوں کو ایک دوسرے سے کاٹنے کیلئے آگے بڑھنے لگی۔ان کی رفتار انتہائی سست تھی جبکہ دوسری طرف جرمن محفوظ دستوں نے بھرپور مزاحمت کی اور تین دن تک برطانوی فوج صرف 25میل تک ہی پیش قدمی کر سکی۔ اس پیش قدمی کی وجہ بھی یہ تھی کہ محاذ جنگ سے جرمن پہلی آرمی کے دو کور دریائے آرک کی طرف بڑھ گئے تھے اور پیچھے برطانوی فوج کی مزاحمت کیلئے کوئی خاص فوج نہیں رہ گئی تھی۔اب جرمن افواج کیلئے صورتحال انتہائی نازک ہو چکی تھی۔ برطانوی فوج درمیانی فاصلے میں سے ہوتے ہوئے جرمن پہلی آرمی کے عقب میں پہنچ سکتی تھی۔ جبکہ فرانس کی پانچویں آرمی جرمنی کی دوسری آرمی کے دائیں بازو پر بھرپور حملہ کر سکتی تھی۔ مگر اس کے لئے ضروری تھا کہ ایک طرف تو جنرل مائونیوری پہلی آرمی کے سامنے ڈٹا رہے۔ دوسری طرف جنرل فوش اپنی نویں آرمی کو جرمن دوسری آرمی کے بائیں بازو اور جنرل ہوسین کی تیسری آرمی کے مخالف الجھائے رکھے۔

آج کا دن

آج کا دن

ٹرائینن جنگ بندیپیرس امن کانفرنس میں ''ٹرائینن معاہدہ‘‘ تیار کیا گیا، جس پر 4جون 1920ء کو دستخط کئے گئے۔ اس معاہدے کے بعد پہلی عالمی جنگ کے بیشتر اتحادیوںاور ہنگری کے درمیان جنگ کا باقاعدہ اختتام ہوا۔اس معاہدے کو مرتب کرنے کیلئے فرانسیسی سفارت کاروں نے اہم کردار ادا کیا۔اس معاہدے نے ہنگری کی فوج کو 35ہزار افسران اور جوانوں تک محدود کر دیا اور آسٹرو ہنگری بحریہ کا وجود ختم ہو گیا۔ یہ فیصلے اور ان کے نتائج اب تک ہنگری میں شدید ناراضگی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ ڈریگن اسپیس کرافٹ ''ڈریگن سپیس کرافٹ‘‘ سپیس ایکس کے تیار کردہ ڈریگن خلائی جہاز کادوسرا ورژن تھا۔ڈریگن کی شکل اور بڑے پیمانے پر درجہ بندی کرنے کیلئے اسے زمین پر مختلف ٹیسٹ کرنے کے بعد اسپیس ایکس نے 4 جون 2010 کو فالکن 9 راکٹ کی پہلی پرواز پر زمین کے نچلے مدار میں لانچ کیا۔ خلائی جہاز نے 27 جون کو مدار سے زوال پذیر ہونے اور فضا میں دوبارہ داخل ہونے سے پہلے 300 سے زیادہ بار زمین کا چکر لگایا۔قبرص معاہدہ4جون1878ء کو برطانیہ اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان ایک معاہدہ ہو ا،جس کے مطابق سلطنت عثمانیہ نے عثما نیوں کی حمایت کے بدلے میں قبرص کا انتظامی کنٹرول برطانیہ کے حوالے کر دیا۔اس معاہدے میں موجود دفعات کے مطابق برطانیہ کے انتظامی کنٹرول کے باوجود قبرص کی سرزمین پر عثمانی حقوق برقراررکھے گئے تھے۔اس معاہدے سے قبل دونوںسلطنتوں کے درمیان خفیہ مذاکرات بھی ہو چکے تھے۔ یہ معاہد ہ برطانیہ کی جانب سے سلطنت عثمانیہ کے ساتھ جنگ کے دوران5نومبر1914ء میں منسوخ کر دیا گیا۔ ارزماس دھماکہارزماس دھماکہ جسے ''ارزماس ٹرین ڈیزاسٹر‘‘ بھی کہا جاتا ہے، ایک ریلوے حادثہ تھا جو 4 جون 1988ء کو ارزماس، سوویت یونین میں پیش آیا۔ٹرین ریلوے کراسنگ سے گزر رہی تھی جب دھماکہ ہوا۔ اس خوفناک حادثے میں91افراد ہلاک اور 1500زخمی ہوئے۔ ٹرین میں 118ٹن دھماکہ خیز مواد موجود تھا۔یہ مال بردار گاڑی تھی جو سامان والی تین ویگنوں پر مشتمل تھی۔ تحقیقات میں دھماکہ کی وجہ نامعلوم بتائی گئی۔دھماکے نے گردو نواح میں واقعہ عمارات کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ 

یادرفتگاں: رنگ کا بادشاہ باکسر محمد علی

یادرفتگاں: رنگ کا بادشاہ باکسر محمد علی

دنیا کی باکسنگ کی تاریخ میں اگر کسی ایک نام کو بے مثال عظمت، بے خوف حوصلے اور بے بدل شخصیت کی علامت قرار دیا جائے تو وہ نام محمد علی کا ہے۔ ایک ایسا باکسر جو صرف رنگ کا چیمپئن نہ تھا، بلکہ ضمیر، وقار اور انصاف کی لڑائی میں بھی فاتح رہا۔ ''I am the greatest ‘‘کا نعرہ لگانے والا یہ شخص نہ صرف اپنی بے مثال مہارت اور رفتار سے دنیا کو حیران کرتا رہا بلکہ نسلی امتیاز، جنگ اور انسانی حقوق جیسے حساس معاملات پر اپنے بے باک مؤقف کے باعث عالمی سطح پر ایک طاقتور آواز بن کر ابھرا۔ محمد علی کی کہانی صرف کھیل کی نہیں، ایک عظیم انسان کی ہے، جس نے شہرت، دولت اور طاقت کو اصولوں کے تابع رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی انہیں کھیل، سیاست، سماج اور انسانیت، ہر میدان میں ایک ناقابلِ فراموش علامت کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔17 جنوری 1942ء کو مسیحی خاندان میں پیدا ہونے والے محمد علی کا نام کیسیئس مارسیلس کلے جونیئر تھا۔ 1964ء میں اسلام قبول کرنے کے بعد نام محمد علی رکھ لیا۔محمد علی کے دل میں بچپن سے ہی کچھ کرنے کی امنگ تھی ،کچھ نیا کرنے کی۔تاہم ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن وہ عظیم ترین باکسر بن جائیں گے۔دوسرے سیاہ فاموں کی طرح وہ بھی کسی اچھے بزنس کی تلاش میں تھے۔ بارہ برس کی عمرمیں وہ سیاہ فاموں کو برگر، سموسے اور پاپ کارن کا بزنس سکھانے کیلئے بلائے گئے ایک اجلاس میں شریک ہوئے۔ سرخ اور سفید رنگ کی پسندیدہ بائیک باہر کھڑی کر کے خوداندر چلے گئے۔ واپسی پربائیک کو غائب پایا۔ کوئی چور لے اڑا تھا۔ قریبی موجود''کولمبیا جم‘‘ کے مالک نے انہیں پولیس سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔ اپنی خود نوشت میںمحمد علی لکھتے ہیں کہ ''میں بائیک کی تلاش میں ہر جگہ دوڑ رہا تھا۔وہ تو نہ ملی لیکن ایک رنگ میں ہونے والے باکسنگ میچ کی آوازیں ضرور سنائی دیں اورمیں باکسنگ رنگ کی جانب لپکا۔ یہ آواز میرے دل کو اس قدر بھائی کہ میں بائیک کو بھول گیا‘‘۔ جم کے مالک نے ان کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا، اگر آپ بھی باکسنگ کھیلنا چاہتے ہیں تو یہ رہا فارم!۔ پہلی بار وہ ایک بڑے باکسر سے مقابلے کیلئے رنگ میں اترے۔ اس تجربہ کار باکسر نے مار مار کران کی ناک موٹی کر دی تھی، جگہ جگہ سے کھال پھٹ گئی تھی اور خون رس رہا تھا۔ ایک ہی منٹ میں ایسی درگت بنی کہ انہیں رنگ سے نکال دیا گیا۔ یہی وہ وقت تھا جب انہوں نے ہر کسی کو ہرانے کا عزم کیا تھا۔ وہ ایک ہی رائونڈ میں باکسنگ کی باریکیاں سمجھ گئے تھے۔ ٹھیک چھ ہفتے بعد وہ دوبارہ رنگ میں اترے۔ مقابلے پر تجربہ کار باکسر رونی او کیفی تھے لیکن محمد علی فاتح بن کر نکلے۔یہ مقابلہ ان کی ریاست کینٹکی میں ٹی وی پر دکھایا گیا،شہر بھر میںان کے نام کا ڈنکا بجنے لگا۔ان کے والد کاسیئس کلے سینئر نے محمد علی کی باکسنگ کا انداز دیکھتے ہی کہہ دیا تھا ''میرا بیٹا مستقبل کا عالمی ہیوی ویٹ چیمپئن بنے گا!‘‘۔ 1954ء میں پہلے اہم مقابلے میں کامیابی کے بعدانہیں عالمی چیمپئن بننے کا یقین ہو گیا تھا۔ انہیں پہلی انٹرنیشنل فتح اٹھارہ سال کی عمر میں نصیب ہوئی، جب انہوں نے 1960ء کے اولمپک مقابلوں میں سونے کا تمغہ جیتا۔محمد علی کونسل پرستی کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنا کریئر جاری رکھا اور بڑے بڑے باکسر کو رنگ میں چاروں شانے چت کر دیا۔ 22 سالہ محمد علی نے 1964ء میں دنیائے باکسنگ کے خطرناک ترین کھلاڑی سونی لسٹن کو شکست دے کر بے پناہ شہرت حاصل کی۔باکسر محمد علی نے اپنے کریئر میں 61 مقابلے لڑے جس میں انہوں نے 56 میں کامیابی حاصل کی جبکہ صرف 5 مقابلوں میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنے مجموعی مقابلوں میں سے37 مقابلوں میں انہوں نے اپنے حریفوں کو ناک آؤٹ کیا۔ وہ 1964ء، 1974ء اور 1978ء میں باکسنگ کے عالمی چیمپئن رہے۔محمد علی لیجنڈ باکسر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک درد مند انسان بھی تھے اور معاشرے میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سراپا احتجاج رہتے تھے۔ 1960ء کی دہائی میں وہ سیاہ فارم آزادی کے علمبردار تھے۔ ویت نام جنگ کے دوران 28 اپریل 1967ء کو محمد علی نے امریکی فوج میں شامل ہونے کے عہد نامے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد انہیں ان کے اعزاز سے محروم کر کے 5 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے عوامی احتجاج کو مدنظر رکھتے ہوئے محمد علی کو سزا سے مستثنیٰ قرار دیا تھا۔''ہالی وڈ واک آف فیم‘‘ میں شامل واحد شخصیت تھے جن کے نام کا ستارہ زمین کے بجائے دیوار پر لگایا گیا۔ محمد علی نے کہا تھا ان کے نام میں حضورﷺ کا نام آتا ہے اسے زمین پر کندہ نہیں کیا جائے۔جب انہوں نے اسلام قبول کر لیا تو باکسنگ رنگ میں بھی کسی کی پرواہ کئے بغیر رب کریم کے سامنے سر جھکا دیتے تھے،پہلے نماز کا فرض ادا کرتے۔ محمد علی نماز کی ادائیگی کے بعد ہی رنگ میں اترتے تھے۔وہ دیر تک اس دیوار کو چومتے رہتے، جس دیوار پر رب کریم یا حضرت محمد ﷺ کا مبارک نام لکھا ہوتا تھا۔20 صدی کے عظیم باکسر محمد علی کو 1984 میں پارکنسنز نامی بیماری کی تشخیص ہوئی جس کے بعد انہوں نے باکسنگ کو خیرباد کہہ دیا اور 2016ء میں 3 جون کو وہ اسی بیماری سے لڑتے ہوئے انتقال کرگئے۔ آج بھی عظیم باکسر کے مداح انہیں یاد کرتے ہیں اور ان سے اپنی محبت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔