سدا بہار گیتوں کے تخلیق کار:ریاض الرحمان ساغر

اسپیشل فیچر
کچھ لوگوں کو قدرت نے بہت سی خوبیاں عطا کی ہوتی ہیں۔ ان کے فن کی بہت سی جہتیں ہوتی ہیں اور وہ اپنی خدا داد صلاحیتوں کے بل بوتے پر ایک عالم کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ وطن عزیز میں ایسے بے شمار نام لیے جا سکتے ہیں جن میں ایک نام ریاض الرحمان ساغرکا ہے۔
شاعر، صحافی اور فلمی نغمہ نگاروکہانی نویس ریاض الرحمن ساغرکا شمار ان پاکستانی شخصیات میں ہوتا ہے جنہیں قدرت نے بے پناہ خوبیوں سے نوازاتھا۔ یکم دسمبر1941ء کو بٹھنڈا(بھارت) میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے وقت ہونے والی قتل و غارت سے گزر کر پاکستان آئے، ان کے والد محمد عظیم کو ان کی آنکھوں کے سامنے موت کے گھاٹ اتارا گیا، ان کے چھوٹے بھائی نے بھوک اور پیاس سے ماں کی گود میں دم توڑ دیا۔ وہ اپنی والدہ کے ساتھ والٹن(لاہور) پہنچے اور بعد ازاں ملتان چلے گئے۔ جہاں ان کا بچپن انتہائی غربت میں گزرا۔ شاعری سکول کے زمانے میں ہی شروع کر دی تھی۔ اپنے استاد ساغر علی سے متاثر ہو کر اپنا تخلص ساغر رکھ لیا۔کالج پہنچنے تک انہیں قدیم و جدید شعراء کے سیکڑوں شعر یاد ہو چکے تھے۔شعرو شاعری اور کمیونسٹ خیالات کی ترویج کے الزام میں انہیں کالج سے نکال دیاگیا۔ بی اے تک تعلیم حاصل کی۔
ریاض الرحمن ساغر شاعر بھی تھے اور فلمی گیت نگار بھی۔ انہوں نے صحافت بھی کی اور کالم نویسی میں بھی نام کمایا۔ اس کے علاوہ ساغر صاحب نے مکالمہ نگار اور سکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے بھی اپنی صلاحیتوں کا سکہ جمایا۔ انہوں نے فلموں، ریڈیو اور ٹی وی کیلئے 2ہزارسے زیادہ نغمات تخلیق کیے۔ اسی طرح انہوں نے 75 فلموں کے مکالمے اور سکرپٹ لکھے۔
ریاض الرحمان ساغر کے فلمی گیتوں کی کتاب ''میں نے جو گیت لکھے‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ اس طرح ان کی نثری تصنیفات میں ''وہ بھی کیا دن تھے‘‘(خود نوشت)، ''کیمرہ، قلم اور دنیا‘‘ (سات ملکوں کے سفر نامے)، ''لاہور تا ممبئی براستہ دہلی‘‘ (بھارت کا سفر نامہ)، ''سرکاری مہمان خانہ‘‘ (جیل میں بیتے لمحات پر کتاب)‘‘ شامل ہیں۔ اسی طرح ان کی شاعری کی بھی کئی کتابیں منظر عام پرآئیں، جن میں ''چاند سُر ستارے‘‘، ''آنگن‘‘، ''آنگن تارے‘‘ (بچوں کی نظمیں)، ''سورج کب نکلے گا‘‘ (خود نوشت) شامل ہیں۔
ساغر صاحب نے غزلیں بھی لکھیں اور نظمیں بھی۔ خاص طور پر ان کی سیاسی نظمیں بہت مقبول ہوئیں۔ ان سب حقائق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ساغر صاحب نے بہت کام کیا اور وہ کثیر الجہات شخصیت تھے۔ گیت نگاری کے میدان میں اپنے نام کا سکہ جمانا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن انہوں نے یہ بھی کر دکھایا۔
ساغر صاحب نے سب سے پہلے ہفت روزہ ''لیل و نہار‘‘ میں کام کیا لیکن انہیں جلد ہی احساس ہو گیا کہ یہاں وہ لگن سے کام نہیں کر سکتے۔ وہ لاہور کے ایک اردو روزنامے سے منسلک ہو گئے۔ انہوں نے لاہور کے ایک روزنامے میں فلم ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ انہوں نے کالم نویسی کے فن کو ایک نیا روپ دیا۔ وہ پہلے کالم نویس تھے جنہوں نے نظم یا گیت کی شکل میں کالم لکھے۔ 1996ء میں ان کا پہلا کالم ''عرض کیا ہے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس کالم میں سماجی، سیاسی اور ثقافتی مسائل کو اجاگر کیا گیا تھا۔ ان کے آخری کالم کا عنوان تھا '' صبح کا ستارہ چھپ گیا ہے‘‘۔
ریاض الرحمان ساغر نے 1958ء میں پہلا فلمی گیت لکھا لیکن جس فلم کیلئے لکھا وہ ریلیز نہ ہو سکی۔ گیتوں کے حوالے سے ان کی جو پہلی فلم ریلیز ہوئی، اس کا نام تھا ''عالیہ‘‘ لیکن انہیں اصل شہرت فلم ''شریک حیات‘‘ کے اس گیت سے ملی ''مرے دل کے صنم خانے میں ایک تصویر ایسی ہے‘‘۔ انہوں نے ایک پنجابی فلم ''عشق خدا‘‘ کیلئے بھی گیت لکھے جو ان کی وفات کے بعد ریلیز ہوئی۔ انہوں نے جن مشہورفلموں کے مکالمے اور سکرپٹ لکھے ان میں ''شمع، نوکر، سسرال، شبانہ، نذرانہ، عورت ایک پہیلی، آواز، بھروسہ، ترانہ اور مور‘‘ شامل ہیں۔ انہوں نے شباب کیرانوی کے ساتھ بہت کام کیا۔
اپنے گیتوں اورشاعری کے بارے میں ان کا یہ موقف قابل داد ہے کہ انہوں نے کبھی چربہ نہیں کیا اورکبھی غیراخلاقی شاعری نہیں کی۔کہتے ہیں ''میں نے ایک ہی معیارسامنے رکھاہے جوگیت میں اپنی بیٹی کو سنا سکتا ہوں وہی گیت میں دوسروں کی بہوبیٹیوں کو سناتا ہوں‘‘۔ گلوکارہ شبنم مجید نے اپنی زندگی کا پہلا نغمہ ''سن او ہوا، سن او گھٹا‘‘ ان کا لکھا ہوا گایاجو فلم ''جو ڈر گیا وہ مر گیا‘‘ میں شامل تھا۔ ریاض الرحمن ساغرنے زندگی میں کبھی اپنے قلم سے نکلی ہو ئی نثر کی ایک سطر اور ایک شعر کا مصرع کسی کو بلامعاوضہ نہیں دیا۔
یکم جون 2013 کو ریاض الرحمان ساغر کینسر کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گئے۔ وہ اقبال ٹائون کے ایک قبرستان میں مدفن ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کون فراموش کر سکتا ہے، یقیناً کوئی نہیں۔
''سرگم ‘‘ ریاض الرحمان ساغر کی یادگار فلم
ریاض الرحمان ساغرکی سب سے بڑی نغماتی فلم ''سرگم‘‘ تھی جو 1995ء میں ریلیز ہوئی۔ اس میں عدنان سمیع خان نے گلوکاری اور موسیقاری کے علاوہ اداکاری بھی کی تھی۔ فلم کی کہانی، مکالمے، سکرین پلے، گیت، سیٹ اور ڈائریکشن اعلیٰ پائے کی تھی۔ اداکارہ زیبا بختیار کی یہ پہلی پاکستانی فلم تھی جبکہ کلاسیکل گائیک مہاراج غلام حسین کتھک نے اپنی اس اکلوتی فلم میں بڑی نیچرل اداکاری کی تھی۔ فلم ''سرگم‘‘ کے سبھی گیت بڑے زبردست تھے۔ خاص طور پر ''ذرا ڈھولکی بجاو گوریو‘‘ اور ''پیار ہے ، یہی تو پیار ہے‘‘ دل میں اتر جانے والے گیت تھے۔ اس فلم کے گیارہ میں سے دس گیت ریاض الرحمان ساغر نے لکھے تھے جبکہ ایک گیت ''اے خدا ، جس نے کی جستجو۔‘‘ مظفروارثی کا لکھا ہوا تھا۔
مشہور فلمی نغمات
٭ چلو کہیں دور یہ سماج چھوڑ دیں(سماج)
٭آنکھیں غزل ہیں آپ کی (سہیلی)
٭دیکھا جو چہرہ تیرا(گھونگھٹ)
٭مجھ کو بھی تو لفٹ کرا دے( عدنان سمیع)
٭ کل شب دیکھا(مجھے چاند چاہیے)
٭ میری وفا، میرے وعدے پہ(بے قرار)
٭ دل لگی میں ایسی دل کو لگی(دل لگی)
٭ ذرا ڈھولکی بجائو گوریو(سرگم)
٭پیار ہے، یہی تو پیار ہے (سرگم)
٭...لکھ دی ہم نے ( نیک پروین)