عظیم مسلم سائنسدان ابو القاسم مسلمہ بن مجریطی

عظیم مسلم سائنسدان ابو القاسم مسلمہ بن مجریطی

اسپیشل فیچر

تحریر : اسد بخاری


علم ریاضی، علم حیوانات اور علم کیمیا کے ماہر

مسلمہ بن احمد مشہور سائنس دان گزرے ہیں، فن ریاضی ان کا خاص مضمون تھا دیگر کئی مضامین میں بھی مہارت رکھتے تھے۔علم حیوانات اور علم کیمیا میں انہیں دلچسپی تھی، اس طرح اس باکمال سائنسدان نے تین کتابیں تصنیف کرکے اہل عالم کو فائدہ پہنچایا۔ تجارت میں ''المعاملات‘‘، حیوانات میں ''حیوانات اور اس کی نسل‘‘ اور علم کیمیا پر ''غایتہ الحکم‘‘، یہ تینوں کتابیں یورپ پہنچیں تو ان کا ترجمہ اہل یورپ نے کر لیا اور اس سے فائدہ اٹھایا۔
ابو القاسم مجریطی اندلس کے ممتاز سائنسدان تھے، انہیں علم ریاضی اور حساب کتاب سے خاص لگائو تھا۔ اس نامور سائنسدان نے تین بادشاہوں کا زمانہ دیکھا تھا۔ عبدالرحمن الناصر 961ء، حکم ثانی 976ء اور ہشام ثانی 1009ء یہ بادشاہ اہل علم و فضل کے بڑے قدردان تھے۔ ابوالقاسم مجریطی کا تعلق ہمیشہ دربار سے رہا اور یہ بادشاہ اس کی بڑی قدر و منزلت کرتے رہے۔
مجریطی علم ہیئت، علم کیمیا اور علم حیوانات میں ماہر تھے، لیکن علم ریاضی میں انہیں کمال حاصل تھا۔ انہوں نے علم ریاضی میں ایک نیا راستہ پیدا کیا یعنی حساب تجارت پر انہوں نے توجہ دی اور حساب کتاب کے بنیادی اصول اور طریقے بتائے۔
دنیا کی تجارت اور کاروبار پر اس قدیم دور میں مسلمان عادی تھے، مسلمانوں کے تجارتی جہاز مال لے کر ایک کونے سے دوسرے کونے تک، ساری دنیا میں سفر کرتے تھے۔ کوئی اور قوم اس عہد میں یعنی 750ء سے 1250ء تک ان کی ہم عصری کا دعویٰ نہیں کر سکتی تھی۔
ابوالقاسم کے ذہن و دماغ نے زندگی کی ضروریات کو سمجھا اور ایک نئے زاویے سے نظر ڈالی۔ بازار اس کا حساب کتاب، اس کے اصول کاروبار کے طریقے، رواج اور ڈھنگ ابو القاسم نے غور و فکر کے بعد تجارتی حساب کتاب کے طریقے منضبط کئے، اصول بتائے اور قاعدے متعین کئے، اس ماہر نے اس اہم مضمون کو بڑے سلیقے اور مہارت سے مرتب کرکے ایک مستقل فن بنا دیا، اور اس سلسلہ میں ایک کتاب ترتیب دی جس کا نام ''المعاملات‘‘ رکھا۔
مسلمانوں کے علوم و فنون چودھویں صدی میں یورپ پہنچ چکے تھے، ابوالقاسم کی کتاب ''المعاملات‘‘ بھی یورپ پہنچی اور اس کا ترجمہ لاطینی زبان میں کرکے اہل یورپ نے اس سے فائدہ اٹھایا۔
ابوالقاسم کا دوسرا موضوع حیوانات تھا۔ اس نے علم حیوانات پر تحقیق شروع کی اور اس کو مرتب کیا۔ حیوانات کی قسمیں، ان کے عادات و اطوار، ان کی خصوصیات ان سب باتوں کو اس نے تحقیق و تجسس کے بعد لکھا اور اپنی کتاب مکمل کی اس کتاب کا نام اس نے حیوانات کی نسل رکھا۔ اہل یورپ نے اس مفید کتاب کا بھی ترجمہ کر لیا۔
ابوالقاسم نے تیسری کتاب علم کیمیا پر مرتب کی اور اس کا نام غایتہ الحکم رکھا، غایتہ الحکم علم کیمیا کے موضوع پر مستند کتاب سمجھی جاتی ہے، اس کتاب کا ترجمہ اندلس ہی کے ایک عیسائی عالم نے 1250ء میں کیا، اور اہل یورپ نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ ابوالقاسم نے اپنے فضل و کمال سے اہل عالم کو بہت فائدہ پہنچایا۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
ماشکی ماضی کا کردار جواب نا پید ہے

ماشکی ماضی کا کردار جواب نا پید ہے

لفظ ''ماشکی‘‘'مشک‘‘ سے نکلا ہے۔مشک کو عربی میں السقہ،فارسی میں خیک اور انگریزی میںWaterskin کہتے ہیں۔ اس کی تصغیر مشکیزہ یعنی پانی بھرنے کی کھال، چھاگل، جانور یا بھیڑ، بکری کی کھال سے بنی ہوئی مشک ہے۔ یہ چمڑے کا ایک ایسا بیگ ہوتا ہے جس میں دریا یا کنوئیں سے پانی بھر کر استعمال کی جگہ لے جایا جاتا تھا۔ اس طرح پرانے وقتوں میں پینے کے پانی کو گھر گھر پہنچانے والے کو ماشکی، سقہ اور بہشتی کہا جاتا تھا۔ماشکی ایک قدیم پیشہ ہے۔اگرچہ یہ پیشہ مفقود ہوچکا ہے تاہم اس کے آثار آج بھی کہیں کہیں دیکھے جاسکتے ہیں۔عربوں کے ہاں اس کا باقاعدہ محکمہ قائم تھا۔ انگریز فوج بھی ماشکی سے خدمات لیتی تھی۔ برطانوی شاعر رڈیارڈ کپلنگ نے اپنی ایک نظم کو Gunga Dinسے معنون کیا تھاجو انگریزوں کے دورِ حکومت میں ایک ماشکی کا نام تھا۔ اُس کا کام فوجی مشقوں اور لڑائی کے دوران زخمی فوجیوں کو پانی پلانا تھا۔ کپلنگ نے اپنی مذکورہ نظم میں گنگا دِن کی بہادری کی تعریف کی ہے جومیدانِ جنگ میں اپنی جان کی پروا کیے بغیر زخمی اور پیاسے سپاہیوں کو اپنے مشکیزے سے پانی پلاتا تھا۔مغل دور میں بھی ماشکی کنوئیں سے پانی نکال کر مشکیزہ گدھے پر لاد کر گھر گھر پانی پہنچانے کا کام کیا کرتے تھے۔ نظام سقہ کو مغل فرمانروا ہمایوں نے ایک دن کی بادشاہت عنایت کی تھی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ جب ہمایوں کوشیر شاہ سوری نے شکست دی تو دہلی واپس آتے ہوئے اسے دریا عبور کرنا پڑا،اُسے تیرنا نہیں آتا تھا۔ دریا کے کنارے پر نظام نامی سقّہ اپنے مشکیزے میں پانی بھر رہا تھا۔ اس نے ہمایوں کو دریا پار کرانے میں مدد کی تھی۔ ہمایوں کو جب دوبارہ اقتدار نصیب ہوا تو اس نے سقّہ کو اپنے دربار میں بلوایا اور اس کی خواہش پر اپنا تاج اس کے سر پر رکھ کر اسے ایک دن کی بادشاہت عنایت کی تھی۔اس کی یاد میں دلی کے بہشتی جامع مسجد کی سیڑھیوں اور ہمایوں کے مزار پر چاندی کے کٹوروں میں لوگوں کو پانی پلاتے رہے ہیں۔ وہاں کی ایک گلی بھی نظام سقّہ کے نام سے منسوب ہے۔بھارت میں ماشکیوں کی ایک باقاعدہ برادری ''آل انڈیا جماعت العباسی‘‘ کے نام سے موجود ہے جبکہ دوسری برادری ''مہاراشڑا بہشتی سماج‘‘ کہلاتی ہے۔ پرانے وقتوں میں آب رسانی کا نظام آج کی طرح نہیں تھا۔ گاؤں میں باقاعدہ ماشکی کا ایک کردار ہوتا تھا۔ گاؤں میں گھروں میں پانی کیلئے مٹکے یا گھڑے ہوتے تھے۔ ماشکی ان مٹکوں یا گھڑوں کو بھرتا تھاجبکہ صحرائی علاقوں میں پانی کے ٹوبے ہوتے تھے۔ دریااور ندی کے کنارے بسنے والے لوگ ندی اور دریا سے ان مشکوں میں پانی بھرا کرتے تھے اور اپنے استعمال میں لاتے تھے۔جبکہ شہری زندگی میں پانی کی ترسیل کا یہ سستا ذریعہ عام تھا۔پشتون خانہ بدوش جب جنوبی پنجاب میں آکر اپنے خیمے لگاتے تو ان کے پاس بھی پانی بھرنے کیلئے مشکیزے ہوتے تھے۔ماشکی کی خدمات شادی بیاہ، خوشی،غمی اور تہواروں کے مواقع پر بھی حاصل کی جاتی تھی۔ ضروریات کے لیے ماشکی سے پانی کی مشک خریدی جاتی تھی۔میونسپل کمیٹیوں کے ملازم ماشکی حضرات دن میں دو بار مشک سے شہر کی اہم سڑکوں اور کمیٹی کی حدود میں آنے والے محلہ جات کی سڑکوں پر پانی کا چھڑکاؤ کیا کرتے تھے۔ لاہورمیں جب ماشکی چھڑکاؤ کرتے تھے تو ان کے آگے ایک فرد گھنٹی بجایا کرتا تھا تاکہ لوگوں کو علم ہو کہ چھڑکاؤ کرنے والا ماشکی پانی چھڑکا رہا ہے۔جب کبھی پہلوانوں کی کشتیوں کا دنگل ہوتا تو ماشکی دنگل میں لوگوں کو پانی پلاتا نظر آتا۔ بلوچستان میں آج بھی مشکیزہ بنایا اور استعمال کیا جاتا ہے۔بکری یا بکرے کو ذبح کرنے کے بعد کھال کو اتارنے میں کافی احتیاط کی جاتی ہے۔تا کہ اس میں سوراخ نہ ہوکیونکہ سوراخ ہونے کی صورت میں کھال مشکیزہ بنانے کے لئے کام نہیں آتی ہے۔کھال اتارنے کے بعد تقریبا ًچار ہفتوں تک اس تازہ چمڑے کو سورج کی تپش میں رکھ کر خشک کیا جاتا ہے۔پھر کیکر کی چھال لے کر ان کو گرم پانی میں ابالا جاتا ہے۔ دس دن تک یہ پانی کھال میں رکھا جاتا ہے۔جس سے یہ چمڑہ مضبوط ہوجاتا ہے ، پھرریشم کے دھاگوں سے غیر ضروری سوراخ بند کرکے صرف پانی ڈالنے اور نکالنے کیلئے ایک بڑا سوراخ رکھا جاتا ہے۔ پانی رکھنے کی وجہ کھال کی اصل رنگت سرخ رنگ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔کھال مضبوط اور پائیدار بن جاتی ہے۔مہاڑ کے گاؤں کٹھہ کامقامی کمیر بابا کو جس نے دیکھا ان کے ناتواں کندھوں پر جون کی چلچلاتی دھوپ اور گرمی کی شدت میں پانی کی مشک دیکھی۔وہ میانوالی سرگودھا روڈ پر ایک بس سٹاپ سے بس میں سوار ہوتا اور پانی کا گلاس مشک کے منہ پر لگا کر بھرتا اور پیاسے ہاتھوں میں تھما دیتا۔ ایک سیٹ سے دوسری سیٹ پر ہر پیاسا مشک کے ٹھنڈے پانی سے اپنی پیاس بجھاتا۔کمیر بابا کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ کسی سے پانی کے پیسے نہیں لیتا تھا۔ اپنے کندھوں پر سوار مشک کا ٹھنڈا پانی وہ فرض سمجھ کر بس کے مسافروں کو پلاتاتھا۔ بابا کمیر کو دنیا سے رخصت ہوئے ایک عرصہ ہو چلا ہے مگر مہاڑ کے بزرگ آج بھی بابا کمیر کی بغیر معاوضہ پانی پلانے کی انسانیت کیلئے بے لوث خدمت کی مثال دیتے ہوئے دور خلاؤں میں گھورنے لگتے ہیں۔ معاشی خوشحالی سے بڑھنے والی قوت خرید نے پانی کے حصول کے لیے برقی موٹر پمپ کو عام کر دیاہے۔جدید دور میں پانی ٹھنڈا کرنے کیلئے برف اور ریفریجریٹر کا استعمال عام ہو چکا ہے۔زمانہ بدلا توبہت سی قدریں بھی دم توڑ گئیں۔ماشکی کا پیشہ ماضی کی یاد بن کر رہ گیا مگر آج بھی کئی جگہ دور افتادہ پہاڑی اور میدانی علاقوں میں پانی ٹھنڈا کرنے کا واحد ذریعہ مشکیزے،مٹکے یا گھڑے ہیں۔صدیوں سے پانی کی سپلائی کے متذکرہ پیشہ سے وابستہ محنت کش ماشکی حضرات کو کمتر گردانتے ہوئے جاگیردارانہ سماج میں کمّی قرار دے کر سماجی طور پر غیر اہم سمجھا جاتا تھا۔ماشکی کی طرح آج بھی معاشرے کے اہم کردارجولاہے، موچی، تیلی، کمہار، ترکھان، نائی وغیرہ جیسے''کمّّی‘‘ کے بارے میں ہماری سوچ جوں کی توں ہے حالانکہ کمی کا مطلب محنتی، کام کرنے والا یا ورکنگ کلاس کا فردہوتاہے۔ یعنی وہ جو اجرت پر کام کرکے رزق حلال کماتاہے۔  

تنہائی ایک عالمی مسئلہ ہر 6میں سے ایک فرد اکیلے پن کا شکار

تنہائی ایک عالمی مسئلہ ہر 6میں سے ایک فرد اکیلے پن کا شکار

عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق دنیا میں ہر چھ میں سے ایک فرد تنہائی سے کسی نہ کسی طور متاثر ہوتا ہے اور اکیلے پن سے جُڑی ہوئی وجوہات کی وجہ سے ہر گھنٹے 100 اور سالانہ آٹھ لاکھ اکہتر ہزار افرادکی موت واقع ہوتی ہے۔اس مسئلے پر ادارے کی ایک رپورٹ جو اس سال جون کے آخر میں شائع ہوئی، میںبتایا گیا ہے کہ ایک دوسرے سے ملنا جلنا بہتر صحت اور طویل زندگی کا باعث بنتا ہے۔ جب مطلوبہ اور حقیقی سماجی تعلقات میں فاصلہ پیدا ہو جائے تو تنہائی کی پریشان کن کیفیت جنم لیتی ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ2014ء سے 2023ء کے درمیان دنیا بھر میں ایک اندازے کے مطابق 16فیصد لوگ ( چھ میں سے ایک فرد) تنہائی کا شکار تھا ۔ان میںہر عمر اور خطے کے لوگ شامل تھے لیکن نوعمر اور نوجوان بالغوں میں زیادہ عام ہے۔13 سے 17سال کی عمر کے 20.9 افراد اور 18 سے 29برس کی عمر کے 17.4فیصد اکیلے پن کا شکار ہوئے۔رپورٹ کے مطابق یہ کم آمدنی والوں میں بھی زیادہ عام ہے۔WHOکے مطابق کئی طرح کے عوامل اکیلے پن اور سماجی علیحدگی کا سبب ہوتے ہیں ۔ ان میں کمزور صحت، آمدنی اور تعلیم کی کمی، اکیلے رہنا، مناسب سماجی ڈھانچے اور پالیسیوں کا فقدان اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے چند مخصوص پہلو نمایاں ہیں۔WHO کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس کا کہنا ہے کہ دور ِحاضر میں ایک دوسرے سے رابطوں کے امکانات بہت زیادہ ہیں لیکن اب بڑی تعداد میں لوگ اکیلے اور تنہا ہوتے جا رہے ہیں۔WHOمیں سماجی رابطوں سے متعلق کمیشن کی معاون سربراہChido Cleopatra Mpemba بتاتی ہیں کہ اگرچہ تنہائی ہر عمر کے لوگوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے لیکن نوعمر افراد اور کم یا متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک میں لوگ اس سے کہیں زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ڈیجیٹل ذرائع سے باہم مربوط دنیا میں نوجوانوں کی بڑی تعداد خود کو تنہا محسوس کرتی ہے۔ ٹیکنالوجی انسانی زندگیوں کو نئے سرے سے متشکل کر رہی ہے اور ایسے میں یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ اس سے انسانی تعلقات کمزور ہونے کے بجائے مزید مضبوطی پائیں۔ موبائل فون اور کمپیوٹر پر حد سے زیادہ وقت گزارنے سے ہونے والے نقصان اور بالخصوص نوجوانوں کے نقصان دہ آن لائن روابط اور ذہنی صحت پر ان کے منفی اثرات بھی تنہائی کی بڑی وجہ ہیں۔تنہائی کے طبی خطراتتنہائی اور سماجی علیحدگی کے نتیجے میں فالج، دل کی بیماریوں، ذیابیطس، دماغی انحطاط اور قبل از وقت موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ تنہا لوگوں کو ڈپریشن اور صدمات کا شکار ہونے کے خدشات بھی زیادہ ہوتے ہیں اور ان کے ذہنوں میں خودکشی کے خیالات آنے کا امکان بھی دوسروں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔اس کے برعکس سماجی رابطوں کے نتیجے میں لوگوں کو زندگی بھر کا تحفظ ملتا ہے، ان کے سنگین بیماریوں میں مبتلا ہونے کے خطرات کم ہو جاتے ہیں، ذہنی صحت بہتر ہوتی ہے اور وہ لمبی عمر پاتے ہیں۔ تنہائی کے مسئلے پر قابو پانے کے عالمگیر اقدامات میں پالیسی، تحقیق، اقدامات، بہتر تخمینوں اور عوامی شمولیت پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات کا مقصد سماجی رسوم و رواج کی تشکیلِ نو اور سماجی رابطوں کو فروغ دینا ہے۔ اگرچہ سماجی تنہائی اور اکیلے پن کے نقصانات بہت زیادہ ہیں لیکن سماجی رابطوں کے فوائد بہت گہرے ہوتے ہیں۔ WHO نے حکومتوں، معاشروں اور افراد پر زور دیا ہے کہ وہ سماجی ربط کو صحت عامہ کی ترجیح بنانے کے لیے کام کریں۔یاد رکھنے کی باتیں٭2014 ء اور 2023 ء کے درمیان ایک اندازے کے مطابق دنیا کی 16 فیصدآبادی تنہائی کا شکارہوئی، یعنی ہر چھ میں سے ایک فرد۔ ٭تنہائی اور معاشرتی تنہائی تمام علاقوں اور عمر کے گروپوں کی آبادی کو متاثر کرتی ہے۔ ٭عالمی سطح پر تنہائی کی شرح نوجوانوں میں سب سے زیادہ ہے (13-17 سال کی عمر کے درمیان 20.9 فیصد) اور نوجوان بالغ (18-29 سال کی عمر کے درمیان 17.4 فیصد) 30سے59 سال کی عمر کے درمیان 15.1 فیصد اور بوڑھے لوگوں میں سب سے کم ( 60 سال کی عمر کے لوگوں میں 11.8 فیصد) ٭مجموعی طور پر خواتین اور مردوں میں تنہائی کی شرحیں ایک جیسی ہیں (بالترتیب 16.1 فیصد اور 15.4 فیصد)، نوجوانوں (خواتین میں 24.3 فیصد اور مردوں میں 17.2 فیصد) اور بوڑھے لوگوں میں (خواتین میں 13.0 فیصد اور مردوں میں 9.9 فیصد) کے درمیان ۔ ٭ کسی ملک میں آمدنی جتنا کم ہے تنہائی کی شرح اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ کم آمدنی والے ممالک میں تنہائی کی شرح سب سے زیادہ(24.3 فیصد) ہے، اس کے بعد کم درمیانی آمدنی والے ممالک (19.3 فیصد) درمیانی آمدنی والے ممالک (12.1 فیصد) اور زیادہ آمدنی والے ممالک (10.6 فیصد) ۔٭ تخمینوں سے پتہ چلتا ہے کہ عالمی سطح پر 25سے33.6 فیصد عمر رسیدہ افراد معاشرتی طور پر الگ تھلگ ہیں ۔ ٭ایک حالیہ سروے میں تجویز کیا گیا ہے کہ عالمی آبادی کا 72 فیصد صنف اور عمر کے گروپوں کے درمیان کم سے کم فرق کے ساتھ دوسروں سے بہت یا منصفانہ طور پر جڑا ہوا محسوس کرتا ہے۔ ٭پسماندگی کا سامنا کرنے والی آبادی جیسا کہ معذور افراد، ٹرانس جینڈر، تارکین وطن ، پناہ گزینوں اور نسلی اقلیتوںکے مقامی لوگوں کے مقابلے میں معاشرتی طور پر منقطع ہونے کا زیادہ امکان ہے۔  

آج تم یاد بے حساب آئے: ذہین طاہرہ: ایک عہد ساز اداکارہ

آج تم یاد بے حساب آئے: ذہین طاہرہ: ایک عہد ساز اداکارہ

٭... 1940ء میں لکھنٔومیں پیدا ہوئیں ۔ ان کا خاندان تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کر کے کراچی آیا۔٭...ذہین طاہرہ کو بچپن ہی سے فنونِ لطیفہ سے جذباتی وابستگی رہی، بالخصوص گلوکاری اور رقص میں دلچسپی تھی۔ ٭...زمانہ طالبِ علمی میں انہیں ریڈیو پاکستان کے پروگرام ''بزمِ طلبا ‘‘میں شرکت کا موقع ملا ۔٭... 50ء کی دہائی میں جب وہ میٹرک کی طالبہ تھیںتو ان کی شادی ہو گئی ۔ ٭... کریئر کا آغاز 1960ء میں کیا۔ اسٹیج اور ریڈیو کے بعد انہیں ٹیلی ویژن پر کام کرنے کا موقع ملا اور انہوں نے ملک گیر شہرت حاصل کی۔ ٭...کئی دہائیوں پر محیط فنی سفر میں لگ بھگ 700 ڈراموں میں کام کیا۔مشہور ڈراموں میں خدا کی بستی،حج اکبر، آخرِ شب، اماوس، گردش، منزل، مراد، آنگن ٹیڑھا، کرن کہانی، عروسہ، دستک، دیس پریس، وقت کا آسمان، شمع، آئینہ، چاندنی راتیںاور کبھی کبھی پیار میں ،نمایاں ہیں۔٭...انہوں نے چند فلموں میں بھی کام کیاجنمیں سڑک، خواہش،نامعلوم افراد، تم بن اور ٹیلی فلم 'مراد‘ شامل ہیں۔٭... 2013ء میں انہیں ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا ۔٭... 2019ء میں جولائی کے مہینے میںانہیں دل کا دورہ پڑنے کے باعث کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں داخل کروایا گیا لیکن ان کی طبیعت سنبھل نہ سکی ۔ 9 جولائی کو وہ 88برس کی عمر میں اس دارِفانی سے رخصت ہوگئیں۔  

آج کا دن

آج کا دن

کیتھرین اوّل نے اقتدار سنبھالا9جولائی 1762ء کو کیتھرین اوّل، جسے عام طور پر کیتھرین دی گریٹ کے نام سے جانا جاتا ہے نے اقتدار سنبھالا۔ کیتھرین 1762ء سے 1796ء تک روس کی مہارانی رہیں۔وہ روس کی آخری مہارانی اور سب سے طویل حکمرانی کرنے والی خاتون تھیں۔ وہ اپنے شوہر پیٹر سوئم کی معزولی کے بعد اقتدار میں آئیں۔ اس کے طویل دور حکومت میں روشن خیالی کے نظریات سے متاثر ہو کر روس نے ثقافت اور سائنس کی نشاتہ ثانیہ کا تجربہ کیا۔ بہت سے نئے شہر، یونیورسٹیاں اور تھیٹر قائم کیے گئے۔بڑی تعداد میں یورپی تارکین وطن روس چلے گئے اور روس کو یورپ کے بہترین ممالک میں سے ایک تسلیم کیا گیا۔ یورپ کی بڑی طاقتیں روس کو اپنا ہی ایک حصہ مانتی تھیں۔ارجنٹائن کا اعلانِ آزادی9جولائی1816ء کو کانگریس آف ٹوکو من نے آزادی کا اعلان کیا جسے آج کل ارجنٹائن کی آزادی کہا جاتا ہے۔ ٹوکومن میں جمع ہونے والے کانگریسیوں نے جنوبی امریکہ کے متحدہ صوبوں کی آزادی کا اعلان کیا، جو ارجنٹائن جمہوریہ کے سرکاری ناموں میں سے ایک ہے۔آزادی کی جنگ میں متحدہ صوبوں کو کانگریس کے کسی بھی پروگرام میں شامل ہونے کی اجازت نہیں تھی ۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد کانگریس نے اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کی اور آخر کار ارجنٹائن میں آزادی کا سورج طلوع ہوا۔سویڈن اور روس کی جنگ9جولائی 1790ء کو خلیج فن لینڈ میں سویڈش بحری افواج اور روسی بحری بیڑے کے درمیان ایک بڑی جنگ لڑی گئی۔اس جنگ کوBattle of Svensksund بھی کہا جاتا ہے۔ اس جنگ میں روس کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔سویڈش بحری افواج نے روسی بحری بیڑے کو بتاہ کن شکست سے دوچار کیا ۔یہ جنگ بحیرہ بالٹک میں سویڈن کی سب سے بڑی بحری فتح اور اب تک کی سب سے بڑی بحری جنگ ہے۔میلے کی لڑائیMelle کی لڑائی ایک معرکہ آرائی تھی جو 9 جولائی 1745ء کو آسٹریا کی جانشینی کی جنگ کے دوران اتحادیوں اور فرانسیسیوں کے درمیان لڑی گئی۔ مئی میں فونٹینائے میں ان کی شکست کے بعد ڈیوک آف کمبرلینڈ فلینڈرس میں اتحادی کمانڈر برسلزکے دفاع کیلئے آسٹریا کے دباؤ میں تھا۔ وہ گینٹ کی کلیدی بندرگاہ کی بھی حفاظت کرنا چاہتا تھا، جو ایک بڑا سپلائی ڈپو تھا جسے فرانسیسیوں کی مغرب میں پیش قدمی سے خطرہ تھا۔ کمبرلینڈ نے برسلز کو بچانے کیلئے اپنے سب سے اہم بریگیڈکو استعمال کرتے ہوئے اتحادیوں کو بھاری نقصان پہنچایا اور انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیابعدازاں گینٹ نے 13 جولائی کو ہتھیار ڈال دیئے۔ 

جنریٹوAIذہن کو زنگ آلود کر رہی ہے!

جنریٹوAIذہن کو زنگ آلود کر رہی ہے!

ایک ایسے دور میں جب مصنوعی ذہانت صرف ایک کلک کی دوری پر ہے، چیٹ جی پی ٹی اور ڈیپ سیک جیسے ٹولز روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں، ای میل لکھنے میں مدد چاہیے؟ چیٹ جی پی ٹی سے پوچھیں۔ ڈنر کی ترکیب چاہیے، چیٹ جی پی ٹی حاضر ہے۔ رات کے دو بجے زندگی کی حقیقتوں پر سوچ رہے ہیں تو بھی چیٹ جی پی ٹی سے ہی رجوع کیا جائے گا۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI) کی دنیا میں چیٹ جی پی ٹی جیسی ٹیکنالوجی نے بے شمار شعبوں میں انقلاب برپا کیا ہے۔ تعلیم، کاروبار، طب اور روزمرہ زندگی میں یہ ایک قیمتی معاون ثابت ہو رہی ہے۔ لیکن جہاں سہولت ہے وہیں خدشات بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر اس ٹیکنالوجی کا غیر ضروری یا مسلسل استعمال جاری رہا تو یہ انسانی ذہانت اور تخلیقی صلاحیتوں پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔جی ہاں! چیٹ جی پی ٹی شاید آپ کے دماغ کوزنگ آلود کر رہی ہے اور اکثر ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔آئیے اس مسئلے کو واضح کرتے ہیں اور اس سے بھی اہم بات یہ کہ چیٹ جی پی ٹی کو دانشمندی سے، نہ کہ اندھے اعتماد سے استعمال کیا جائے۔ آسانی کی قیمت ذہنی صلاحیت میں کمیچیٹ جی پی ٹی اور جنریٹو اے آئی کے دیگر ٹولز مشکل سوالات کے آسان جوابات فوری فراہم کردیتے ہیں،لیکن جب ہم ہر سوال کیلئے مصنوعی ذہانت پر انحصار کرنے لگتے ہیں تو خود سوچنے، سوال کرنے اور مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت کمزور پڑ جاتی ہے۔ یہ ایک طرح کی ذہنی سستی کو جنم دیتی ہے جس میں انسان محض صارف بن کر رہ جاتا ہے، تخلیق کار نہیں۔ جب ہم ہر سوال کا جواب چیٹ جی پی ٹی سے لیتے ہیں تو ہم اپنے دماغ کے مسئلہ حل کرنے کے قدرتی عمل کو روک دیتے ہیں۔ ہم جب تگ و دو کرنے کے بجائے تیار حل کی طرف جاتے ہیں تو ہمارا سیکھنے کا عمل اور یادداشت کمزور ہو جاتی ہے۔تخلیقی صلاحیت دوسروں کے سپرد: کچھ لکھنا، خیالات پر غور کرنا یا مسائل کا حل نکالنا پہلے ہمارے ذہن کو نئی راہوں پر چلنے پر مجبور کرتا تھا مگراب چند سطروں کا سوال لکھ کر ہم سب کچھ اے آئی سے کرواتے ہیں، لیکن اگر ہم خود کچھ نہ بنائیں گے تو ہم آگے بڑھیں گے بھی نہیں۔چیٹ جی پی ٹی کی باتیں پُراعتماد لگتی ہیں، یہی اس کا مسئلہ ہے کہ یہ غلط معلومات بھی اسی اعتماد سے پیش کرتا ہے جیسے حقائق ہوں۔ اگر ہم محتاط نہ ہوں تو ہم ریت پر یقین کی عمارت کھڑی کر لیتے ہیں۔ استعمال کریں،مگر غلط استعمال نہیںچیٹ جی پی ٹی اور جنریٹو اے آئی کے دیگر ٹولز جدید دور کی ایک بڑی سہولت ہیں لیکن جیسے ہر اوزار کی افادیت اس کے استعمال کرنے والے کے ہاتھ میں ہے ویسے ہی یہ بھی ہے۔ پوچھنے سے پہلے رکیں، خود سے پوچھیں، کیا میں خود یہ حل نکال سکتا ہوں؟خود کوشش کرنا یادداشت کو مضبوط کرتا ہے، تجزیاتی صلاحیت بڑھاتا ہے اور دماغ کو چاق و چوبند رکھتا ہے۔ چیٹ جی پی ٹی کو سوچنے والے ساتھی کی طرح استعمال کریں،رہنما کی طرح نہیں۔یہ خیالات کو پروان چڑھانے میں مدد کرے، لیکن یہ آپ کی آواز یا رائے کی جگہ نہ لے۔ اس کی ہر معلو مات کودرست نہ سمجھیں۔ حقائق کی تصدیق کریں، مختلف نقطہ نظر دیکھیں اور اصل دنیا کے ذرائع سے معلومات حاصل کریں۔ چیٹ جی پی ٹی اور دیگر جنریٹو اے آئی ٹولز کو صرف وقت گزارنے کا ذریعہ نہ بنائیں۔ انہیں فعال طریقے سے استعمال کریں۔ ان کی مدد سے اپنی معلومات کا امتحان لیں یا بحث کی مشق کریں،اس سے دماغ متحرک رہے گا۔خود سے کچھ تخلیق کریںکہانی لکھیں، ریاضی کا کوئی مسئلہ حل کریں۔ ای میل کا مسودہ خود تیار کریں۔ خود اعتمادی بڑھائیں کہ آپ سوچنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ آپ اب بھی مشین سے زیادہ ذہین ہیں۔ یاد رکھیں کہ چیٹ جی پی ٹی کی تمام معلومات درست نہیں ہوتیں۔ یہ ماڈل بعض اوقات ایسے بیانات بھی خود سے بنا لیتا ہے جو بظاہر درست لگتے ہیں، لیکن درحقیقت وہ حقائق پر مبنی نہیں ہوتے۔ اگر قارئین تحقیق کیے بغیر ان معلومات پر یقین کر لیں تو یہ علمی انتشار اور غلط فہمیوں کو فروغ دے سکتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ اپنی ذہنی صلاحیتوں کو ترجیح دیں۔ چیٹ جی پی ٹی صرف اسی وقت آپ کے دماغ کو زہریلا بناتا ہے جب آپ اسے اجازت دیتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا چیٹ جی پی ٹی نے آپ کی زندگی کو آسان بنایا ہے یا یہ آپ کو ذہنی طور پر سست بنا رہا ہے؟

آج کا دن

آج کا دن

واسکو ڈی گاما ہندوستان پہنچا8جولائی1497ء کو مشہور پرتگیزی مہم جو واسکوڈی گاما نے ہندوستان جانے کے لیے نئی بحری مہم کا آغاز لزبن کی بندرگاہ سے کیا۔ افریقہ اور یورپ کے درمیان سے جانے کا راستہ بند ہو جانے کی وجہ سے وہ افریقہ اور قطب جنوبی سے گھوم کر ہندوستان پہنچنے والا پہلا مہم جو کہلایا۔مؤرخین کے مطابق یہ واسکو ڈی گاما ہی تھا جس نے ہندوستان کا تعارف مغربی دنیا سے کروایا ۔وال سٹریٹ جرنل کا پہلا شمارہوال سٹریٹ جرنل نیویارک شہر میں واقع ایک امریکی کاروباری اور اقتصادی بین الاقوامی روزنامہ ہے۔ یہ جرنل ہفتے میں چھ دن شائع کیا جاتا ہے۔ اخبار براڈ شیٹ کی شکل میں اور آن لائن شائع ہوتا ہے۔ یہ جریدہ 8 جولائی 1889 کو پہلی مرتبہ شائع ہوا اور آج تک جاری ہے۔ اسے خاص طور پر کاروباری اور مالیاتی خبروں کے لحاظ سے ریکارڈ کا اخبار سمجھا جاتا ہے۔ ویتنام سے امریکی فوج کا انخلاء1969ء میں آج کے روز ویتنام سے امریکی فوج کا انخلاء شروع ہوا۔ ویتنام میں ہونے والی طویل جنگ میں امریکی افواج کو بہت جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے امریکی عوام نے حکومت وقت کو شدید احتجاج ریکارڈ کروایا اور جنگ بندی کرنے پر مجبور کیا۔ عوام کے شدید ردعمل کو دیکھتے ہوئے امریکی حکام نے ویتنام سے اپنی افواج کے انخلاء کا فیصلہ کیا۔