ترکماستان کی معروف مساجد

ترکماستان کی معروف مساجد

اسپیشل فیچر

تحریر : فقیر اللہ خاں


ترکمانستان وسطی ایشیاء کا ایک صحرائی ملک ہے۔ اس کے شمال میں قازقستان، شمال مشرق میں ازبکستان، جنوب میں افغانستان اور ایران اور مغرب میں بحیرۂ کیپین واقع ہے۔ ترکمانستان کا صحرا قرہ قم(سیاہ ریگستان) کہلاتا ہے اور وہ ملک کے 90 فیصد رقبے پر محیط ہے۔ افغانستان سے آنے والا دریائے مرغاب تاریخی شہر مرو کے شمال مغرب میں جا کر قرہ قم میں گم ہو جاتا ہے۔ ترکمانستان کا رقبہ 4لاکھ 88ہزار ایک سو مربع کلو میٹر اور آبادی 50لاکھ کے قریب ہے۔ دارالحکومت عشق آباد ایرانی سرحد کے قریب واقع ہے اور اس کی آبادی تقریباً ساڑھے چھ لاکھ ہے۔
قدیم زمانے میں ترکمانستان عظیم ترین خراسان کا حصہ تھا۔22ھ/23ھ میں سید نا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں اخف بن قیس رضی اللہ نے مروشاہجہان( ماری) فتح کیا۔کچھ عرصہ بعد یزدگرد نے لوٹ کر مروشاہجہان کا محاصرہ کر لیا۔نبی کریم ﷺ نے انہیں خراسان اور مرو کے جہاد میں شرکت اور وہیں آباد ہونے کی تاکید کی تھی۔ 1881ء میں روسیوں نے ترکمانستان فتح کر لیا۔1884ء میں وہ مرو پر بھی قابض ہو گئے۔1925ء میں سوویت اشتراکی جمہوریہ ترکمانستان قائم ہوئی۔1991ء میں سوویت روس کے ٹوٹنے پر ترکمانستان آزاد ہو گیا۔
ترکمانستان میں 85فیصد ترکمان،5فیصد ازبک اور 4فیصد روسی آباد ہیں۔ روسی رسم الخط میں ترکمانی سرکاری زبان ہے۔ 89فیصد آبادی مسلمان اور8 فیصد ایسٹرن آرتھوڈکس عیسائی ہیں۔ ترکمانستان کی بڑی فصلیں کپاس اور گندم ہیں۔ معدنی وسائل میں تیل ، گیس گندھک اور نمک شامل ہیں۔شرح خواندگی 99.6فیصد ہے۔ تیل و گیس کے باعث ترکمانستان بہت اچھی اقتصادی پوزیشن رکھتا ہے۔یہاں کی دو معروف مساجد حاجی مراد اورروحی ہیں۔
حاجی مراد مسجد( عشق آباد)
یہ مسجد عشق آباد شہر سے باہر مغرب کی جانب ایک پرانے قلعے کی باقیات پرتعمیر کی گئی ہے۔ یہ قلعہ اس جگہ واقع تھا جہاں 1881ء میں روس کی فوجوں نے ترکمانستان پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے لئے لڑائی لڑی تھی۔ یہ مسجد ان غازیوں کے سالار حاجی مراد کے نام سے موسوم ہے جنہوں نے اس جنگ میں حصہ لیا تھا۔ ترکمانستان کے صدر سفر مراد نیاز نے 1992ء میں اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا اور یہ 1995ء میں مکمل ہوئی۔ یہ مسجد ترکمانستان کی روس سے آزادی کے بعد پہلا بڑا پراجیکٹ تھا۔ ایک فرنچ کنسٹرکشن کمپنی نے یہ مسجد تعمیر کی تھی۔ اس کے چار نصف بیضوی گنبد ہیں جبکہ درمیان والا گنبد بڑا ہے۔ ان پانچوں گنبدوں کی اوپری سطح پر سبز رنگ کیا ہوا ہے۔ چاروں کونوں پر چار مینار ہیں۔ ہر مینار کی بلندی 63 میٹر ہے۔ اس مسجد میں ایک وقت میں 8ہزار نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔
مرکزی ہال میں بڑے گنبد کے نیچے دوٹن وزنی فانونس لٹک رہا ہے۔ یہ فانونس فرانس سے منگوایا گیا تھا۔ اس فانونس میں لگے ہوئے 260 بلب مسجد کو جگمگا دیتے ہیں۔ مسجد کے مشرق میں ایک خوبصورت کمپائونڈ بنایا گیا ہے جس کے درمیان ستارہ نما خوبصورت تالاب بنا ہوا ہے۔ ہال میں ترکمانستان ہی کے ہاتھ کے بنے ہوئے خوبصورت قالین بچھائے گئے ہیں۔
روحی مسجد( عشق آباد)
یہ مسجد پورے وسطی ایشیا میں سب سے بڑی مسجد ہے۔ اسے ترکمانستان کے صدر سفر مراد نیاز نے 2001ء میں تعمیر کروایا۔ یہ مسجد عین اس جگہ تعمیر کی گئی ہے جہاں ایک زلزلے میں صدر نیاز کی والدہ اور دو بھائی شہید ہو گئے تھے۔ یہ زلزلہ1942ء میں آیا تھا۔ اس مسجد میں بیس ہزار نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مسجد کے ہال میں ترکمانستان ہی کا دستی بنا ہوا قالین بچھایا گیا ہے۔ یاد رہے ترکمانستان کے دستی قالین ساری دنیا میں شہرت رکھتے ہیں۔
یہ مسجد دو منزلہ ہے۔ دوسری منزل پر خواتین نماز ادا کرتی ہیں۔ مسجد کے چاروں کونوں پر چار مینار آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں جبکہ مرکزی ہال کے اوپر سنہری گنبد ہے۔ ہر مینار کی بلندی 300 فٹ اور گنبد کی بلندی 165 فٹ ہے۔ گنبد کے اوپر والے حصے پر سونے کا کام کیا ہوا ہے۔
مسجد کے چاروں طرف خوبصورت باغیچے بنے ہوئے ہیں جن کے اندر نہایت دیدہ زیب فواروں کی پھوار محو رقص رہتی ہے۔ مسجد کے ہال کی دیواروں پر صدر نیاز کی لکھی ہوئی کتاب '' روح نامہ‘‘ سے اقتباسات رقم کئے گئے ہیں جو کہ ترکمان زبان میں ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
 لیگولینڈ: تھیم پارک ایمپائر

لیگولینڈ: تھیم پارک ایمپائر

''لیگو‘‘ (LEGO) نہ صرف دنیا کا مقبول ترین کھلونا ہے بلکہ اس نے ایک مکمل ''تھیم پارک ایمپائر‘‘بھی قائم کر رکھی ہے، جسے ''لیگولینڈ‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔ LEGO گروپ نے بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں اور خاندانوں کیلئے مشترکہ تفریح کے تصور کو عملی جامہ پہناتے ہوئے مختلف ممالک میں لیگولینڈ تھیم پارکس قائم کیے ہیں۔ یہ پارکس نہ صرف کھلونوں کی دنیا کو حقیقت کا روپ دیتے ہیں بلکہ تعلیم، تفریح اور انجینئرنگ کا حسین امتزاج بھی ہیں۔ ان پارکس کا مقصد بچوں اور خاندانوں کو نہ صرف تفریح فراہم کرنا ہے بلکہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو بھی فروغ دینا ہے۔سب سے پہلے گزشتہ ہفتے عوام کیلئے کھولے جانے والے گیارہویں لیگو لینڈ کی کریں گے جو چین کے شہر شنگھائی میں تیار کیا گیا ہے، اس کے بعد دنیا میں پائے جانے والے دیگر 10 لیگو لینڈز کی مختصراً بات کر یں گے۔ لیگولینڈ شنگھائی ریزورٹلیگولینڈ شنگھائی ریزورٹ 3لاکھ18 ہزار مربع میٹر (تقریباً 31 ایکڑ) کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ دنیا بھر میں گیارہواں اور سب سے بڑا لیگولینڈ ریزورٹ ہے۔افتتاحی تقریب میں چینی حکام، LEGO گروپ کے نمائندے اور عوام کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ اس موقع پر مختلف رنگا رنگ تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔ ریزورٹ کے گیٹ کھلتے ہی ہزاروں افراد نے اندر کا رخ کیا اور LEGO کی دنیا میں کھو گئے۔لیگو لینڈ شنگھائی ریزورٹ میں متعدد تھیم زونز، انٹرایکٹو گیمز، LEGO سے بنی ہوئی مشہور عمارات اور بچوں کیلئے مخصوص رولر کوسٹرز ہیں۔ پارک میں بچوں کی تفریح کیلئے مختلف شعبے بنائے گئے ہیں۔''لیگو سٹی‘‘نامی حصے میں بچے خود پائلٹ، فائرفائٹر یا پولیس آفیسر بن سکتے ہیں۔ ''منی لینڈ‘‘ میں LEGO بلاکس سے چین کی مشہور عمارتیں مثلاً دیوارِ چین، بیجنگ کا فوربڈن سٹی اور شنگھائی کا اسکائی لائن بنایا گیا ہے۔ ''زون ایڈونچر‘‘ میں ایڈونچر اور مہم جوئی کے شوقین بچے اور بڑے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔''لیگو فرینڈز‘‘ میں بچوں کو کہانیوں پر مبنی مشن اور چیلنجز ملتے ہیں۔''لیگو ہوٹل‘‘کے کمروں کی سجاوٹ مکمل طور پر لیگو تھیم پر مبنی ہے۔شنگھائی میں لیگولینڈ ریزورٹ کا قیام چین کی سیاحتی صنعت کیلئے ایک اہم سنگِ میل سمجھا جا رہا ہے۔ ملک میں سیاحت کو مزید فروغ دینے کیلئے یہ ایک خوش آئند اقدام ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ریزورٹ سے نہ صرف مقامی معیشت کو سہارا ملے گا بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔''لیگولینڈ بلنڈ‘‘ ،ڈنمارکدنیا میں پائے جانے والے لیگولینڈ تھیم پارکس دنیا میں پائے جانے والے دیگر 10 لیگو لینڈز کی مختصراً بات کر تے ہیں۔لیگولینڈ بلڈنگ، ڈنمارکدنیا کا پہلا لیگولینڈ پارک 1968ء میں LEGO کے آبائی وطن ڈنمارک کے شہر بلنڈ میں قائم ہوا۔ ''لیگو لینڈ بلنڈ‘‘ (LEGOLAND Billund) کا شعبہ ''منی لینڈ‘‘ سب سے مشہور مقام ہے، جہاں یورپی شہروں کی مشہور عمارات LEGO سے بنائی گئی ہیں۔لیگولینڈ کیلیفورنیا، امریکہیہ پہلا امریکی لیگولینڈ پارک ہے، جس میں ''لیگو تھیم‘‘ واٹر پارک اور سی لائف ایکویریم بھی شامل ہیں۔کیلیفورنیا میں واقع اس پارک کا افتتاح 1999ء میں کیا گیا تھا۔لیگولینڈ فلوریڈا ،امریکہیہ پارک ایک سابقہ تھیم پارک ''سائپریس گارڈنز‘‘ (Cypress Gardens)کی جگہ قائم کیا گیا اور اب یہ لیگولینڈ کی بڑی سائٹس میں سے ایک ہے۔ یہ 2011ء میں عوام کیلئے کھولا گیا تھا۔لیگولینڈ ونڈسر ، برطانیہلندن کے قریب ونڈسر کے مقام پر اس پارک کا افتتاح 1996ء میں کیا گیا تھا۔ یہ یورپ میں دوسرا لیگولینڈ پارک تھا اور برطانیہ میں بچوں کیلئے سب سے زیادہ وزٹ کیے جانے والے مقامات میں شامل ہے۔لیگولینڈ جرمنی جرمنی کے وسط میں واقع گنزبرگ (Günzburg) کے مقام پر یہ پارک 2002ء میں قائم کیا گیا۔ اس پارک کے شعبے ''منی لینڈ‘‘ میں یورپ کی مشہور عمارتوں کے LEGO ماڈلز تیار کئے گئے ہیں۔لیگولینڈ ملائیشیایہ پہلا لیگولینڈ پارک ہے جو ایشیا میں کھولا گیا۔ یہاں LEGO واٹر پارک اور ہوٹل بھی موجود ہے۔ملائیشیا میں یہ جوہور بہرو (Johor Bahru) کے مقام پر 2012ء میں قائم کیا گیا۔لیگولینڈ دبئیلیگو لینڈ نے اپنا ساتواں پارک 2016ء میں متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی میں کھولا۔ یہ مشرقِ وسطیٰ کا پہلا لیگولینڈ پارک تھا۔ اس پارک میں گرمی کے باعث ان ڈور ایکٹیویٹیز پر خاص توجہ دی گئی ہے۔لیگولینڈ جاپان جاپان میں لیگو مصنوعات کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے 2017ء میں اس پارک کی تعمیر کی گئی۔ یہاں بھی ''لیگو تھیمڈ‘‘ ہوٹل موجود ہے۔ لیگولینڈ نیویارک، امریکہ2021ء میں بننے والا یہ امریکہ میں سب سے بڑا لیگولینڈ پارک ہے، جو شمال مشرقی امریکہ کے بچوں کیلئے ایک اہم تفریحی مرکز ہے۔لیگولینڈ ساؤتھ کوریا10واں لیگولینڈ پارک جنوبی کوریا میں بنایا گیا۔ 2022ء میں اس پارک کا افتتاح کیا گیا جو ایک جزیرے پر قائم کیا گیا تھا۔یہ اپنی منفرد ساخت اور قدرتی مناظر کے باعث دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔مستقبل کے پراجیکٹسLEGO گروپ دنیا کے مختلف خطوں میں نئے پارکس کے قیام پر غور کر رہا ہے، جن میں بھارت، روس، اور برازیل جیسے ممالک شامل ہو سکتے ہیں۔لیگولینڈ پارکس صرف تفریحی مقامات نہیں بلکہ بچوں کی تخلیقی تربیت، خاندانوں کی اجتماعی مصروفیت اور ٹیکنالوجی و انجینئرنگ کی عملی جھلک پیش کرنے والے تعلیمی مراکز بھی ہیں۔ دنیا بھر میں پھیلے ان پارکس نے LEGO برانڈ کو عالمی ثقافت کا حصہ بنا دیا ہے، اور یہ سفر ابھی جاری ہے۔

’’پیناٹکس‘‘: ماحول دوست چمڑا

’’پیناٹکس‘‘: ماحول دوست چمڑا

فیشن انڈسٹری کا شمار دنیا کی سب سے بڑی اور ترقی یافتہ صنعتوں میں ہوتا ہے۔ یہ نا صرف ثقافتی اظہار کا ذریعہ ہے بلکہ عالمی معیشت میں بھی نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔فیشن کی چکاچوند دنیا کے پیچھے ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ صنعت دنیا کے ماحول پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے، خصوصاً چمڑے (Leather) کی تیاری کے عمل میں جانوروں کی کھال، پانی کا کثرت سے استعمال اور زہریلے کیمیکل کی موجودگی ماحولیات کیلئے سنگین خطرہ بن چکی ہے۔حالیہ برسوں میں سائنس اور ماحولیات کے ماہرین نے چمڑے کے ایک ایسے متبادل پر کام کیا ہے جو ان تمام مسائل کا ممکنہ حل پیش کرتا ہے۔ اس کا نام ''پیناٹکس‘‘ (Piñatex ) ہے۔ یہ ایک ماحول دوست، پائیدار اور جانوروں سے آزاد متبادل چمڑا ہے جو انناس کے پتوں سے تیار کیا جاتا ہے۔ یہ نا صرف چمڑے کابہترین نعم البدل ہے بلکہ ماحول دوست بھی ہے۔''پیناٹکس‘‘ کیا ہے؟''پیناٹکس‘‘ایک قدرتی فائبر سے تیار کردہ ٹیکسٹائل ہے، جسے انناس کے پودے کے پتوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ پتے عام طور پر کاشت کے بعد ضائع کر دیے جاتے ہیں، لیکن ''پینا ٹکس‘‘ کی تیاری میں ان کا استعمال کر کے نہ صرف ضیاع کو روکا جاتا ہے بلکہ اسے ایک کارآمد اور تجارتی حیثیت دی جاتی ہے۔ یہ میٹریل بظاہر اور استعمال میں چمڑے جیسا ہی محسوس ہوتا ہے، جس کی بدولت اسے جوتوں، بیگز، ملبوسات، فرنیچر اور کاروں کی سیٹوں تک میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔''پیناٹکس‘‘ کو سب سے پہلے ڈاکٹر کارمن ہیجوسا(Dr.Carmen Hijosa)نے متعارف کروایا۔ وہ ایک ہسپانوی ماہر ٹیکسٹائل ہیں، جنہوں نے چمڑے کی صنعت میں کام کرنے کے دوران اس کے ماحول پر مہلک اثرات دیکھے، جس کے بعد انہوں نے ایک ایسا متبادل تلاش کرنے کا بیڑا اٹھایا جو ماحولیات کیلئے بہتر ہو۔ ان کی کمپنی نے ''پیناٹکس‘‘ کی تیاری کا آغاز کیا، اور آج یہ دنیا بھر میں ایک پائیدار فیشن میٹریل کے طور پر اپنی پہچان بنا چکا ہے۔تیاری کا عمل''پیناٹکس‘‘ کی تیاری کا عمل سادہ مگر سائنسی مراحل پر مشتمل ہوتا ہے۔پتوں کی کٹائی: انناس کی فصل کے بعد بچ جانے والے پتوں کو جمع کیا جاتا ہے۔ یہ عام طور پر کسانوں کیلئے ایک بیکار شے ہوتی ہے، لیکن اب انہیں مالی فائدہ بھی دیا جا رہا ہے۔فائبر نکالنا: پتوں سے فائبر کو الگ کیا جاتا ہے، جس میں مکینیکل عمل شامل ہوتا ہے۔ اس فائبر کو خشک کر کے ایک خاص قسم کے نیٹ میں تبدیل کیا جاتا ہے۔پروسسنگ اور فینشنگ: اس میٹریل کو بائیو بیسڈ ریزن اور کوٹنگز کے ساتھ فائنل شکل دی جاتی ہے تاکہ یہ چمڑے جیسا دکھائی دے اور واٹر پروف، پائیدار اور نرم ہو۔تیاری کے بعد استعمال: ''پیناٹکس‘‘ کو دنیا بھر میں مختلف ڈیزائنرز اور فیشن برانڈز کے ذریعے فیشن مصنوعات میں استعمال کیا جا رہا ہے۔فیشن انڈسٹری پر اثرات''پیناٹکس‘‘ کی آمد نے فیشن انڈسٹری کو ایک نیا زاویہ فراہم کیا ہے۔ بہت سے مشہور برانڈز اس میٹریل کا تجرباتی طور پر استعمال کر چکے ہیں یا کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ یہ ایک ایسا میٹریل ہے جو نہ صرف دیکھنے میں دلکش ہے بلکہ ماحولیاتی حوالے سے بھی بہترین ہے۔ اس لئے یہ خریداروں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔چیلنجز اور مستقبلاگرچہ پیناٹکس ایک انقلابی قدم ہے، مگر اس کی راہ میں کچھ چیلنجز بھی حائل ہیں۔قیمت: اس میٹریل کی قیمت ابھی قدرے زیادہ ہے، جو بعض صارفین یا برانڈز کیلئے رکاوٹ بن سکتی ہے۔استحکام : اگرچہ ''پیناٹکس‘‘ چمڑے جیسا مضبوط ہے، مگر کچھ حالات میں اس کی پائیداری چمڑے سے کم ہو سکتی ہے۔مسابقت: مارکیٹ میں چمڑے کے دیگر متبادل بھی موجود ہیں، جیسے مشروم سے تیار کردہ میٹریل (Mylo) یا لیبارٹری میں تیار شدہ سنتھیٹک لیدر (Synthetic Leather) تاہم، ان تمام چیلنجز کے باوجود پیناٹکس کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسے کئی ممالک میں سرکاری اور نجی سطح پر سپورٹ حاصل ہے اور تحقیق کا عمل مسلسل جاری ہے تاکہ اسے مزید بہتر اور سستا بنایا جا سکے۔ماحولیاتی فوائداس کے ماحول دوست پہلو نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔کاربن فٹ پرنٹ میں کمی چمڑے کی تیاری کے مقابلے میں ''پیناٹکس‘‘ کے پیداواری عمل میں کاربن کا اخراج بہت کم ہوتا ہے۔پانی کی بچتروایتی چمڑے کی تیاری میں لاکھوں لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے۔ ''پیناٹکس‘‘ کی تیاری میں یہ ضرورت بہت کم ہے۔کیمیکل سے پاکچمڑے کی صنعت میں تیزاب، کرومیم اور دیگر خطرناک کیمیکل استعمال ہوتے ہیں، جو زمین، پانی اور انسانی صحت کیلئے نقصان دہ ہیں۔''پیناٹکس‘‘ ان تمام خطرات سے پاک ہے۔زراعتی فضلہ کا استعمال انناس کے پتے جو عام طور پر ضائع کر دیے جاتے ہیں، اب ایک کارآمد ذریعہ بن چکے ہیں، جنہیں استعمال میں لا کر بہترین چمڑہ تیار کیا جا رہا ہے جو دیہی معیشت کیلئے فائدہ مند ہے۔

آج تم یاد بے حساب آئے!

آج تم یاد بے حساب آئے!

اداکار تنویر جمال(اداکار،ہدایتکار،پروڈیوسر)(30 جون 1960 تا 13 جولائی 2022) ٭...30جون 1960ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ گریجویشن کے بعد بطور ماڈل فنی کریئر کا آغاز کیا۔٭...اعلیٰ تعلیم فرانس سے حاصل کی،جاپان میں بھی بطور ماڈل کام کیا اور جاپانی لڑکی سے شادی کی۔٭...1989ء میں پہلی بار بطور اداکار ڈرامہ ''جانگلوس‘‘میں جلوہ گر ہوئے اور ملک گیر شہرت حاصل کی۔ ٭...35سالہ کریئر میں درجنوں لازوال ڈراموں میں کام کیا، مقبول ڈراموں میں ''جناح ٹو قائد،سمجھوتہ، بابر، جنم جلی ، جلتا سورج، ہم تم، خلش، راز الفت، مہلت‘‘ شامل ہیں۔٭... بہترین اداکاری پر پی ٹی وی کی جانب سے بیسٹ ایکٹر کے ایوارڈ سے نوازاگیا۔٭...1993ء میں اپنی ذاتی پروڈکشن کمپنی کی بنیاد رکھی ، ایکشن سے بھرپور میگا ڈرامہ سیریل ''گاڈ فادر‘‘ کو ڈائریکٹ اور پروڈیوس کیا۔یہ ڈرامہ پاکستان اور جاپان میں ریکارڈ کیا گیا۔٭... وہ سکواش کے ایک بہترین کھلاڑی بھی تھے۔ سینماٹو گرافی اور پینٹنگ کے بھی ماہر تھے۔٭... انہوں نے دو فلمیں پروڈیوس کیں،بدقسمتی سے وہ ریلیز نہ ہوسکیں ۔انہیں کروڑوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔٭...2016ء میں پہلی دفعہ کینسر کا مرض تشخیص ہوا تھا تاہم فوری طور پر آپریشن کے بعد کینسر کو ان کے جسم سے نکال دیا گیا تھا۔٭... 2021ء میں انہیں ایک دفعہ پھر کینسر کے مرض نے آگھیرا۔٭...13 جولائی 2022ء کو ٹوکیو میں وفات پائی،کراچی میں تدفین کی گئی۔

آج کا دن

آج کا دن

مصنوعی ذہانت13جولائی 1956ء کو مصنوعی ذہانت پر ڈارٹ ماؤتھ ریسرچ پراجیکٹ کا آغاز ہوا۔ یہ موسم گرما کی ایک ورکشاپ تھی جسے مصنوعی ذہانت کا بانی بھی سمجھا جاتا ہے۔ اسی ایونٹ سے دنیا میں مصنوعی ذہانت پر بحث کا آغاز ہوا تھا۔یہ ورکشاپ تقریباً چھ سے آٹھ ہفتوں تک جاری رہی۔ایونٹ کو گیارہ ریاضی دانوں اور سائنسدانوں نے ڈیزائن کیا تھا۔اوگاڈن کی جنگ13جولائی1977ء میں ایتھوپیا اور صومالیہ کے درمیان جنگ کا آغاز ہوا۔1977ء سے 1978ء تک ایتھوپیا کے علاقے اوگاڈن میں لڑی جانے والی یہ بہت بڑی لڑائی تھی۔اسی مناسبت سے اسے ''اوگاڈن کی جنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ صومالیہ کو اوگاڈن پر حملہ کی وجہ سے سوویت یونین کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا ۔اس وقت کی سپر پاور نے ایتھوپیا کی حمایت کا اعلان کیااور اسے شکست سے بچا لیا ۔برلن معاہدہبرلن معاہدہ بنیادی طور پر آسٹریا، ہنگری، فرانس، جرمنی، برطانیہ، آئرلینڈ، اٹلی، روس اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان مشرق میں معاملات کے حل کیلئے ایک معاہدہ تھا۔ اس معاہدے پر 13 جولائی 1878ء کو دستخط کیے گئے تھے۔1877ء تا1878ء کی روس اورترک جنگ میں سلطنت عثمانیہ کے خلاف روسی فتح کے بعد بڑی طاقتوں نے بلقان کے علاقے کے نقشے کی تشکیل نو کی اور اس کے ساتھ ہی عثمانیوں نے یورپ میں اپنی بڑی ملکیت کھو دی۔

9ہزار سال قبل خواتین کی حکمرانی !

9ہزار سال قبل خواتین کی حکمرانی !

ترکی کے قدیم شہر بارے ماہرین کے حیران کن انکشافات ''گرل پاور‘‘ شاید آج سے 9ہزار سال پہلے شروع ہو چکی تھی۔ماہرین آثارِ قدیمہ نے ترکی کے ایک قدیم اور ہزاروں سال سے دفن شدہ شہر میں ایسے شواہد دریافت کیے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ اس بستی پر مردوں کے بجائے خواتین کی حکمرانی تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دریافت انسانی تہذیب کے ابتدائی دور اور تاریخ میں صنفی کرداروں کے بارے میں ہمارے علم کو یکسر بدل سکتی ہے۔معروف جریدے Science میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ماہرین نے جنوبی ترکی میں واقع ایک حیرت انگیز طور پر محفوظ نو ہزارسال پرانی بستی ''چَتال ہْیوک‘‘ (Çatalhöyük) سے تقریباً 400 ڈھانچوں کے ڈی این اے کا تجزیہ کیا اور ایسے شواہد حاصل کیے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تہذیب ممکنہ طور پر ایک نسوانی نظامِ حکومت کے تحت چلتی تھی۔یہ بستی، جو مٹی کی اینٹوں سے بنے گھروں اور دیویوں کے مجسموں پر مشتمل تھی اور جس کی تاریخ 7100 قبل مسیح تک جاتی ہے، طویل عرصے سے محققین کیلئے حیرت اور تجسس کا باعث رہی ہے۔ ماہرین پہلے بھی یہ قیاس کرتے رہے تھے کہ یہ زرعی معاشرہ خواتین اور لڑکیوں کے گرد گھومتا تھا۔ اب ڈی این اے کے تجزیے سے تصدیق ہوئی ہے کہ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ قیمتی اشیاء کے ساتھ دفن کیا گیا اور بیٹیاں اپنے مادری خاندان کے ساتھ رہتی تھیں، جبکہ بیٹے اکثر بستی چھوڑ دیتے تھے۔یہ حیران کن دریافت آثارِ قدیمہ کی دنیا میں ایک ہلچل کا باعث بنی ہے اور انسانی تاریخ کے ابتدائی شہروں میں اقتدار کس کے ہاتھ میں تھا ، اس بارے میں صدیوں پرانے نظریات کو چیلنج کیا ہے۔ اس سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ دنیا کی اوّلین شہری تہذیبوں کی بنیاد شاید خواتین نے رکھی تھی۔یہ وسیع و عریض بستی، جو 32.5 ایکڑ (13.2 ہیکٹر) پر پھیلی ہوئی تھی، پہلے ہی اپنے پیچیدہ گھروں، دلکش فن پاروں اور پراسرار دیوی نما مجسموں کی وجہ سے مشہور تھی۔اب جدید جینیاتی شواہد سے یہ اشارے ملے ہیں کہ خواتین نہ صرف چَتال ہْیوک کی روحانی علامات تھیں بلکہ ممکن ہے کہ وہی اس شہر کی اصل حکمران بھی تھیں۔یہ انکشاف ایک طویل اور محنت طلب تحقیق کے نتیجے میں سامنے آیا جو دس سال سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ اس تحقیق میں جینیات کے ماہرین، ماہرین آثارِ قدیمہ اور حیاتیاتی بشریات دانوں کی ٹیم نے 35 مختلف گھروں کے فرشوں کے نیچے دفن 130 سے زائد افراد کے ڈھانچوں سے ڈی این اے نکالا۔مجموعی طور پر، چَتال ہْیوک کے قبروں سے تقریباً 400 افراد کے باقیات برآمد ہو چکی ہیں۔ یہ وہ شہر ہے جو ایک ہزار سال سے زائد عرصے تک زندگی سے بھرپور رہا۔تحقیقی ٹیم نے جو کچھ دریافت کیا وہ حیرت انگیز تھا۔ ایک مضبوط جینیاتی نظام جو مادری تعلقات کو ظاہر کرتا ہے، خاص طور پر عمارتوں کے اندر خواتین اور ان کی بیٹیوں کو مستقل طور پر ایک ساتھ دفن کیا گیا، جبکہ مرد زیادہ تر باہر سے آئے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ شادی کے بعد اپنی بیویوں کے گھروں میں آ کر رہتے تھے۔محققین کا خیال ہے کہ 70 سے 100 فیصد تک خواتین نسل در نسل اپنی مادری گھروں سے جڑی رہیں، جبکہ مرد دوسری جگہوں پر منتقل ہو جاتے تھے۔خواتین کی اعلیٰ سماجی حیثیت کے شواہد یہیں ختم نہیں ہوتے۔ قبروں سے برآمد ہونے والی قیمتی اشیاء ، جیسے زیورات، اوزار اور نذرانے، خواتین کی قبروں میں مردوں کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ پائے گئے۔ جو زندگی میں ان کے سماجی رتبے اور طاقت کا آئینہ دار ہے۔تحقیق کی شریک مصنفہ ڈاکٹر ایلائن شوٹسمینز(Dr Eline Schotsmans) نے موجودہ دور کے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ قدیم صنفی کرداروں سے متعلق فرسودہ تصورات پر نظر ثانی کریں۔اس دریافت کے اثرات صرف ترکی تک محدود نہیں۔ کچھ عرصہ قبل برطانیہ کے قدیم دور(Late Iron Age) کا مطالعہ کرنے والے ایک تحقیقی گروہ نے اپنی تحقیق میں یہ شواہد پیش کیے کہ سیلٹک (Celtic) برادریوں میں خواتین کو بھی مادری رشتے داری کے ذریعے طاقتور حیثیت حاصل تھی۔یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا ایٹ چیپل ہل کے ماہرِ آثارِ قدیمہ، بینجمن آربکل(Benjamin Arbuckle) کہتے ہیں کہ یہ اس مشکل کی عکاسی کرتا ہے جس کا سامنا بہت سے محققین کو ہوتا ہے۔ وہ ایک ایسی دنیا کا تصور کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں جہاں خواتین کے پاس اصل طاقت ہو، حالانکہ آثارِ قدیمہ، تاریخی اور نسلیاتی شواہد وافر مقدار میں موجود ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ نسوانی اقتدار کے نظام نہ صرف موجود تھے بلکہ بڑے پیمانے پر پھیلے ہوئے بھی تھے۔ 

زمین اور ملکی وے کہکشاں پراسرار’’خلا‘‘کے اندر؟

زمین اور ملکی وے کہکشاں پراسرار’’خلا‘‘کے اندر؟

کائنات کی موجودہ پھیلاؤ کی رفتار ایک نہایت سنجیدہ مسئلہ ہے:ماہرین فلکیات سائنس کے سب سے مشکل معمّوں میں سے ایک یہ ہے کہ کائنات اس وقت جس رفتار سے پھیل رہی ہے وہ بگ بینگ کے فوراً بعد کی رفتار سے کہیں زیادہ ہے۔ماہرین فلکیات کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اس عشروں پرانے مسئلے کا ایک حیران کن حل تلاش کر لیا ہے۔ ان کے مطابق زمین، نظامِ شمسی اور پوری ملکی وے (کہکشاں) ایک دیو قامت پراسرار خلا (void) کے مرکز کے قریب واقع ہیں۔چونکہ یہ خلا کائنات کے باقی حصوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے، اس لیے یہ ایسا وہم پیدا کرتا ہے کہ جیسے پوری کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار تیز ہو رہی ہے۔یہ غیر روایتی نظریہ سائنس دانوں کے دیرینہ مسئلے جسے وہ ''ہبل ٹینشن‘‘ (Hubble Tension) کہتے ہیں کے حل میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن اس میں بھی کئی پیچیدگیاں موجود ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کائنات کے بارے میں ہمارا روایتی نظریہ کہتا ہے کہ مادّہ خلا میں نسبتاً یکساں طور پر بکھرا ہوا ہونا چاہیے، نہ کہ اس میں اس قدر بڑے خلا موجود ہوں۔رائل ایسٹرونومیکل سوسائٹی کے اجلاس میں پیش کی گئی ایک نئی تحقیق کے مطابق ''بگ بینگ کی آواز‘‘ اس نظریے کی تائید کرتی ہے۔ان مشاہدات کے مطابق یہ بات ممکن ہے کہ ہم ایک خلا میں موجود ہوں، بہ نسبت اس کے کہ ہم کسی یکساں خطے میں ہوں۔''ہبل ٹینشن‘‘ایک ایسے مظہر سے جنم لیتا ہے جسے ہبل مستقل (Hubble Constant) کہا جاتا ہے، جو اس شرح کو ریکارڈ کرتا ہے جس سے کائنات بیرونی سمت میں پھیل رہی ہے۔ہم اس کا اندازہ کہکشاؤں جیسے اجرامِ فلکی کو دیکھ کر لگاتے ہیں یعنی یہ ناپتے ہیں کہ وہ ہم سے کتنے فاصلے پر ہیں اور کتنی تیزی سے دور جا رہے ہیں۔مسئلہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم بہت ابتدائی کائنات کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، یعنی ان اجرام سے آنے والی روشنی کو ناپتے ہیں جو انتہائی دور واقع ہیں۔کائنات کے بارے میں ہمارے بہترین نظریات کی بنیاد پر ان ابتدائی مشاہدات سے حاصل شدہ ہبل مستقل کی قدر آج کے جدید مشاہدات سے بالکل مختلف نکلتی ہے۔ڈاکٹر اِندرانیل بانک، جو یونیورسٹی آف پورٹس ماؤتھ کے ایک ماہر فلکیات ہیں نے میل آن لائن کو بتایا''خاص طور پر آج کی پھیلاؤ کی رفتار وہ ہے جو ہماری توقع سے تقریباً 10 فیصد زیادہ ہے،کائناتی ماڈل کا سب سے بنیادی عدد یہی ہے یعنی کائنات کی موجودہ پھیلاؤ کی رفتار، لہٰذا یہ ایک نہایت سنجیدہ مسئلہ ہے۔ذرا تصور کریں کہ آپ اپنے کمرے کی لمبائی دو مختلف پیمائشوں سے ناپتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے سے 10 فیصد مختلف ہیں،حالانکہ دونوں پیمائش کے آلات معتبر کمپنیوں کے بنے ہوئے ہوں۔ بس یہی صورتحال کائنات کے ساتھ پیش آ رہی ہے‘‘۔ڈاکٹر بانک نے اس مسئلے کا ایک نیا حل یہ پیش کیا ہے کہ شاید پوری کائنات نہیں بلکہ صرف زمین کے قریب موجود چیزیں تیزی سے پھیل رہی ہیں اور یہی فرق ہمیں غلط فہمی میں مبتلا کر رہا ہے۔