ترکماستان کی معروف مساجد

اسپیشل فیچر
ترکمانستان وسطی ایشیاء کا ایک صحرائی ملک ہے۔ اس کے شمال میں قازقستان، شمال مشرق میں ازبکستان، جنوب میں افغانستان اور ایران اور مغرب میں بحیرۂ کیپین واقع ہے۔ ترکمانستان کا صحرا قرہ قم(سیاہ ریگستان) کہلاتا ہے اور وہ ملک کے 90 فیصد رقبے پر محیط ہے۔ افغانستان سے آنے والا دریائے مرغاب تاریخی شہر مرو کے شمال مغرب میں جا کر قرہ قم میں گم ہو جاتا ہے۔ ترکمانستان کا رقبہ 4لاکھ 88ہزار ایک سو مربع کلو میٹر اور آبادی 50لاکھ کے قریب ہے۔ دارالحکومت عشق آباد ایرانی سرحد کے قریب واقع ہے اور اس کی آبادی تقریباً ساڑھے چھ لاکھ ہے۔
قدیم زمانے میں ترکمانستان عظیم ترین خراسان کا حصہ تھا۔22ھ/23ھ میں سید نا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں اخف بن قیس رضی اللہ نے مروشاہجہان( ماری) فتح کیا۔کچھ عرصہ بعد یزدگرد نے لوٹ کر مروشاہجہان کا محاصرہ کر لیا۔نبی کریم ﷺ نے انہیں خراسان اور مرو کے جہاد میں شرکت اور وہیں آباد ہونے کی تاکید کی تھی۔ 1881ء میں روسیوں نے ترکمانستان فتح کر لیا۔1884ء میں وہ مرو پر بھی قابض ہو گئے۔1925ء میں سوویت اشتراکی جمہوریہ ترکمانستان قائم ہوئی۔1991ء میں سوویت روس کے ٹوٹنے پر ترکمانستان آزاد ہو گیا۔
ترکمانستان میں 85فیصد ترکمان،5فیصد ازبک اور 4فیصد روسی آباد ہیں۔ روسی رسم الخط میں ترکمانی سرکاری زبان ہے۔ 89فیصد آبادی مسلمان اور8 فیصد ایسٹرن آرتھوڈکس عیسائی ہیں۔ ترکمانستان کی بڑی فصلیں کپاس اور گندم ہیں۔ معدنی وسائل میں تیل ، گیس گندھک اور نمک شامل ہیں۔شرح خواندگی 99.6فیصد ہے۔ تیل و گیس کے باعث ترکمانستان بہت اچھی اقتصادی پوزیشن رکھتا ہے۔یہاں کی دو معروف مساجد حاجی مراد اورروحی ہیں۔
حاجی مراد مسجد( عشق آباد)
یہ مسجد عشق آباد شہر سے باہر مغرب کی جانب ایک پرانے قلعے کی باقیات پرتعمیر کی گئی ہے۔ یہ قلعہ اس جگہ واقع تھا جہاں 1881ء میں روس کی فوجوں نے ترکمانستان پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے لئے لڑائی لڑی تھی۔ یہ مسجد ان غازیوں کے سالار حاجی مراد کے نام سے موسوم ہے جنہوں نے اس جنگ میں حصہ لیا تھا۔ ترکمانستان کے صدر سفر مراد نیاز نے 1992ء میں اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا اور یہ 1995ء میں مکمل ہوئی۔ یہ مسجد ترکمانستان کی روس سے آزادی کے بعد پہلا بڑا پراجیکٹ تھا۔ ایک فرنچ کنسٹرکشن کمپنی نے یہ مسجد تعمیر کی تھی۔ اس کے چار نصف بیضوی گنبد ہیں جبکہ درمیان والا گنبد بڑا ہے۔ ان پانچوں گنبدوں کی اوپری سطح پر سبز رنگ کیا ہوا ہے۔ چاروں کونوں پر چار مینار ہیں۔ ہر مینار کی بلندی 63 میٹر ہے۔ اس مسجد میں ایک وقت میں 8ہزار نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔
مرکزی ہال میں بڑے گنبد کے نیچے دوٹن وزنی فانونس لٹک رہا ہے۔ یہ فانونس فرانس سے منگوایا گیا تھا۔ اس فانونس میں لگے ہوئے 260 بلب مسجد کو جگمگا دیتے ہیں۔ مسجد کے مشرق میں ایک خوبصورت کمپائونڈ بنایا گیا ہے جس کے درمیان ستارہ نما خوبصورت تالاب بنا ہوا ہے۔ ہال میں ترکمانستان ہی کے ہاتھ کے بنے ہوئے خوبصورت قالین بچھائے گئے ہیں۔
روحی مسجد( عشق آباد)
یہ مسجد پورے وسطی ایشیا میں سب سے بڑی مسجد ہے۔ اسے ترکمانستان کے صدر سفر مراد نیاز نے 2001ء میں تعمیر کروایا۔ یہ مسجد عین اس جگہ تعمیر کی گئی ہے جہاں ایک زلزلے میں صدر نیاز کی والدہ اور دو بھائی شہید ہو گئے تھے۔ یہ زلزلہ1942ء میں آیا تھا۔ اس مسجد میں بیس ہزار نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مسجد کے ہال میں ترکمانستان ہی کا دستی بنا ہوا قالین بچھایا گیا ہے۔ یاد رہے ترکمانستان کے دستی قالین ساری دنیا میں شہرت رکھتے ہیں۔
یہ مسجد دو منزلہ ہے۔ دوسری منزل پر خواتین نماز ادا کرتی ہیں۔ مسجد کے چاروں کونوں پر چار مینار آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں جبکہ مرکزی ہال کے اوپر سنہری گنبد ہے۔ ہر مینار کی بلندی 300 فٹ اور گنبد کی بلندی 165 فٹ ہے۔ گنبد کے اوپر والے حصے پر سونے کا کام کیا ہوا ہے۔
مسجد کے چاروں طرف خوبصورت باغیچے بنے ہوئے ہیں جن کے اندر نہایت دیدہ زیب فواروں کی پھوار محو رقص رہتی ہے۔ مسجد کے ہال کی دیواروں پر صدر نیاز کی لکھی ہوئی کتاب '' روح نامہ‘‘ سے اقتباسات رقم کئے گئے ہیں جو کہ ترکمان زبان میں ہیں۔