حکایت سعدیؒ :مستحق لوگوں کی امداد

حکایت سعدیؒ :مستحق لوگوں کی امداد

اسپیشل فیچر

تحریر :


حضرت سعدیؒ بیان کرتے ہیں کہ میرے چند دوست ہر لحاظ سے نیک اور قابل تھے۔ یہ بات نہ تھی کہ وہ ظاہر میں کچھ نظر آتے اور اندر سے ان کی حالت کچھ اور ہوتی؛ چنانچہ ان کی اس خوبی کی وجہ سے ایک نیک دل امیر نے ان کا وظیفہ مقرر کر دیا تھا۔ وہ روزی حاصل کرنے کے جھگڑوں سے بچے ہوئے تھے اور نہایت آرام اور عزت کی زندگی گزار رہے تھے۔قسمت کی خرابی سے پھر کچھ ایسا ہوا کہ ان میں سے ایک کوئی ایسی لغزش کر بیٹھا جس کی وجہ سے وہ امیر اُن کی طرف سے بد ظن ہو گیا۔ ان کے نیک اور شریف ہونے کا گمان اس کے دل سے جاتا رہا اور اس نے ان کا وظیفہ بند کر دیا۔
مجھے یہ حالات معلوم ہوئے تو میں نے یہ بات ضروری سمجھی کہ امیر کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے ان دوستوں کی صفائی پیش کروں اور ان کا وظیفہ جاری کرا دوں؛ چنانچہ میں ایک دن امیر کے درِ دولت پر پہنچ گیا لیکن دربان مجھے نہ جانتا تھا۔ اس نے دروازے ہی سے لوٹا دیا۔دربان سے جھگڑنا بے سود تھا۔ اگر ایسے لوگ جن کی ظاہر ی حالت سے شان و شوکت ظاہر نہ ہوتی ہو، امرا کے دروازوں پر جائیں تو دربان اور کتے ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں لیکن حسن اتفاق سے ایک شخص نے مجھے پہچان لیا اور وہ مجھے امیر کے دیوان خانے میں لے گیا۔
امیر نے مجھے دیکھا تو خوشی ظاہر کی اور عزت کی جگہ بیٹھنے کو کہا۔ لیکن میں معمولی آدمیوں کی صف میں بیٹھ گیا اور اس کی عنایتوں کا شکریہ ادا کر کے اپنے دوستوں کے وظیفے کا ذکر چھیڑا۔ اس گفتگو میں جب میں نے یہ کہا کہ اللہ پاک ہی رزاق حقیقی ہے کہ وہ اپنے نافرمان بندوں کا رزق بھی بند نہیں کرتا تو امیر کا دل پسیج گیا اور اس نے نہ صرف ان کا وظیفہ جاری کر دیا بلکہ پچھلے جتنے دنوں کا وظیفہ انھیں نہیں ملا تھا وہ بھی ادا کرنے کا حکم دے دیا۔ میں نے اس عالی ظرف کی بخشش کا شکر یہ ادا کیا۔
کعبے میں ہوتی ہیں ہر ایک کی مرادیں پوری
لوگ یوں اس کی زیارت کے لیے جاتے ہیں
درگزر کر کہ نہیں تیرے تحمل سے بعید
بے ثمر پیڑ پہ پتھر کہاں برساتے ہیں
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں امرا کو ان کے صحیح مرتبے و منصب اور ذمے داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے اور نہایت مؤثر انداز میں یہ بات بتائی ہے کہ مستحق لوگوں کی امداد ایک ایسا فرض ہے کہ امرا کو یہ فرض بہرحال پورا کرنا چاہیے۔ نیز یہ کہ امداد اس شرط کے ساتھ نہیں ہونی چاہیے کہ امداد لینے والا شخص ضرور ولی اللہ ہو، یعنی اس سے کسی قسم کی لغزش صادر ہی نہ ہو۔ اس سلسلے میں سنت اللہ ان کے پیش نظر رہنی چاہیے کہ خداوند ذوالجلال اپنے باغیوں اور نافرمانوں کو بھی برابر روزی پہنچاتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
موسمیاتی تبدیلی پاکستان کا نیونارمل

موسمیاتی تبدیلی پاکستان کا نیونارمل

موسمیاتی تبدیلی عہدِ حاضر کی ایک اٹل حقیقت، جسے نیو نارمل کہا جاسکتا ہے۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت، موسمیاتی تغیرات اور قدرتی آفات میں اضافے کے ذریعے زمین کا ماحول تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ اگرچہ موسمیاتی بحران عالمی ہے مگر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک پر اس کے اثرات شدید تر ہیں، حالانکہ پاکستان کا عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ان تبدیلیوں میں قدرتی عوامل کا بھی عمل دخل ہے لیکن 1800ء کے بعد سے انسانی سرگرمیاںخصوصاً کوئلہ، تیل اور گیس جیسے فوسل فیولز کا بڑھتا ہوا استعمال اس کی بنیادی وجہ سمجھی جاتی ہے۔ ان سرگرمیوں سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسیں زمین کی فضا میں حرارت کو جذب کرتی ہیں جس سے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے۔موسمیاتی تبدیلی پوری دنیا کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکی ہیں، اور پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے جو اس کے اثرات سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔تازہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان ماحولیاتی تغیرات کا سب سے زیادہ شکار ہونے والے 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ عالمی ماحولیاتی خطرات کی رپورٹ (Global Climate Risk Index ) کے مطابق پاکستان گزشتہ دو دہائیوں میں موسمیاتی آفات کے باعث 10 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان برداشت کر چکا ہے۔پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن کا کاربن اخراج عالمی سطح پر ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن اس کے باوجود موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات یہاں شدت سے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق گزشتہ 50 برسوں میں ملک کا اوسط درجہ حرارت تقریباً 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو 2050ء تک یہ اضافہ 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے جس کے نتیجے میں گلیشیئر پگھلنے، پانی کی کمی اور شدید گرمی کی لہروں میں اضافہ ہوگا۔2022ء کے تباہ کن سیلاب اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث کن بحرانوں کا سامنا ہے۔ ان سیلابوں نے ملک کے تین کروڑ سے زیادہ افراد کو متاثر کیا، 1700 سے زائد اموات ہوئیں اور معیشت کو تقریباً 30 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔ ورلڈ بینک کے مطابق ان آفات کی وجہ سے پاکستان کی جی ڈی پی میں 2 فیصد تک کمی واقع ہوئی۔ پاکستان میں زراعت جو کہ جی ڈی پی کا 20 فیصد اور افرادی قوت کا 40 فیصد حصہ ہے، موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔ خشک سالی اور بے وقت بارشوں نے گندم، کپاس، اور چاول کی پیداوار میں نمایاں کمی کی ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اگر اقدامات نہ کیے گئے تو 2040ء تک پاکستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مزید برآں، شہری علاقوں میں شدید گرمی کی لہروں اور فضائی آلودگی نے صحت کے مسائل بڑھا دیے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ 28 ہزاراموات آلودگی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے سبب ہوتی ہیں، جن میں ایک بڑا حصہ موسمیاتی تبدیلی سے جڑا ہوا ہے۔ حکومت نے نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی 2021ء کے تحت اقدامات شروع کیے تھے لیکن ماہرین کے مطابق ان پر عملدرآمد کی رفتار ناکافی ہے۔اگر پاکستان نے فوری طور پر موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کا ادراک نہ کیا تو آنے والے برسوں میں معاشی، زرعی اور ماحولیاتی نظام ناقابلِ تلافی نقصان سے دوچار ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پائیدار ترقی، متبادل توانائی، اور بین الاقوامی ماحولیاتی فنڈز کے استعمال پر توجہ دی جائے تاکہ مستقبل کی نسلوں کو ایک محفوظ ماحول فراہم کیا جا سکے۔دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سطح سمندر میں اضافہ، ماحولیاتی نظام کی تباہی، خوراک اور پانی کی قلت، معاشی نقصان (زراعت، ماہی گیری، صحت، سیاحت) جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان کے شمالی پہاڑوں میںگلیشیئرز دریاؤں کو پانی فراہم کرتے ہیں۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث یہ گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے پانی کی قلت اور گلیشیئر جھیلوں کے پھٹنے جیسے خطرناک واقعات جنم لے رہے ہیں۔ پاکستان میں مون سون بارشوں کی شدت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے،جبکہ سال کے کئی ماہ سندھ اور بلوچستان کے کئی علاقے شدید خشک سالی کا شکار ہوتے ہیں جس سے فصلیں متاثر ہوتی ہیں اور خوراک کی قلت پیدا ہوتی ہے۔ جیکب آباد اور تربت جیسے شہر 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کر چکے ہیں اورگرمی کی لہر جان لیوا بنتی جا رہی ہے، خاص طور پر غریب طبقات کے لیے۔دوسری جانب کراچی اور ٹھٹھہ جیسے ساحلی علاقے سمندر کی سطح بلند ہونے اور زمینی کٹاؤ کا سامنا کر رہے ہیں جس سے زراعتی زمینیں تباہ ہو رہی ہیں اور لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو رہے ہیںپاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے جامع اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ آنے والے خطرات کو کم کیا جا سکے اور پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن ہوا جا سکے۔ اس کے لیے جنگلات کا تحفظ اور درختوں کی کٹائی کی روک تھام کیلئے سخت قوانین، شہری علاقوں میں اربن فارسٹ ، نئے ڈیموں اور آبی ذخائر کی تعمیر،زرعی شعبے میں پانی کے ضیاع کو روکنا، ڈرپ ایری گیشن سسٹم کا فروغ، زراعت میں ٹیکنالوجی کا فروغ، کسانوں کو موسموں سے متعلق پیشگی خبروں کی فراہمی، فوسل فیولز (کوئلہ، گیس) پر انحصار کم کرنا، شہروں میں گرین سپیسز (پارکس) کا اضافہ، نکاسی آب کا بہتر نظام تاکہ بارشوں سے سیلاب نہ ہو، NDMA اور دیگر امدادی اداروں کی صلاحیت میں اضافہ، ریسرچ اداروں کی مالی امداد تاکہ وہ موسمیاتی ڈیٹا اکٹھا کریں اور حل تجویز کریں اور کاربن اخراج کے لیے ریگولیشن سسٹم بنانا ضروری ہے۔ 

زمین کی تہہ میں چھپے راز

زمین کی تہہ میں چھپے راز

دنیا میں آتش فشانی دھماکے قدرت کا ایک ایسا مظہر ہیں جنہوں نے صدیوں سے انسانی تہذیب اور ماحول پر ناقابل یقین اثرات مرتب کیے ہیں۔ زمین کی سطح سے ہزاروں کلومیٹر نیچے گرم چٹانوں کی ایک ٹھوس تہہ ہے جسے زیریں مینٹل کہا جاتا ہے۔ نصابی کتابوں کے خاکوں میں لوئر مینٹل کو ہموار اور یک رنگ بتایا جاتا ہے، حقیقت میں وہاں دو بہت بڑے بلاکس ہیںجن کا رقبہ شاید پورے براعظم کے برابر ہے ۔مذکورہ تحقیق کی رہنما، آسڑیلیا کی Wollongong یونیورسٹی سے وابستہ وولکینوجسٹ اینالیسی ککیرو(Annalise Cucchiaro) اور ان کے ساتھی محقق نکولس فلیمنٹ(Nicholas Flament) کے مطابق یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ یہ بلاکس ایک مقررہ مقام پر ہیں یا مستقل حرکت میں، تاہم جدید ڈیٹا ماڈلنگ سے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ یہ حرکت پذیر ہوسکتے ہیں اور ان سے سطح زمین پر مینٹل اخراج(Mantle plumes) کا امکان ہو سکتا ہے، جو آتش فشاں کی شکل اختیار کر سکتا ہے اور سطح زمین پر طاقتور دھماکو ں کا سبب بن سکتاہے۔زمین کے اندر سے تقریباً تین ہزار کلومیٹر کی گہرائی سے اُٹھنے والے Mantle plumes کے سطح پر پہنچ کر آتش فشانی صورتحال پیدا ہونے کے واقعات ماضی میں بھیانک واقعات کا واقعات سبب بنے تھے ، جیسا کہ ڈائنوسار کا خاتمہ۔ ککیرو کے ماڈلز بتاتے ہیں کہ یہ بلاکس ہی وہ مقام ہیں جہاں سے میگما کی لہر ابھرتی ہے ۔مذکورہ تحقیق میں آتش فشانوں کے ارتقاکا مطالعہ کیا گیا اور معلوم ہوا کہ تقریباً 30 کروڑ سال پہلے ہونے والے عظیم اخراج کے مقامات ان بلاکس اور ان سے اٹھنے والے میگمائی پلیومز سے اچھی طرح میل کھاتے ہیں ۔ ماڈلز کے مطابق کہیں پر ان دھماکوں نے بلاک کے ٹھیک اوپر سے میگما نکالا اور کہیں سے افقی لہر نکلی۔ مستقبل کے لیے تحقیق کی سمت اب مرکزی سوال یہ ہے کہ آیا یہ BLOBS حقیقت میں حرکت پذیر ہیں یا ایک جگہ ٹھہرے رہتے ہیں؟ اگر یہ حرکت کرتے ہیں توحرات کے عملِ اتصال اور زمین کی پرتوں میں تبدیلی ان پر کیا اثرات مرتب کر رہی ہے؟ مستقبل میں ان سوالات کا جواب دینے کے لیے Tomographic ڈیٹا اور جدید ماڈلنگ پر انحصار کیا جائے گا۔ آتش فشانی تباہی کے واقعاتبڑے آتش فشانی دھماکے نہ صرف سطح زمین اور ماحول کو متاثر کرتے ہیں بلکہ عالمی آب و ہوا پر بھی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ایک خوفناک مثال 25 کروڑ سال پہلے کی Permian-Triassic extinction ہے جس میں ممکنہ طور پر سیاہ لاوے نے عالمی موسمیاتی تبدیلیاں، ماحول کا تباہی اور زندگی کے بڑے پیمانے پر خاتمے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ حالیہ مطالعے نے ان واقعات کا تعلق بھی گہرے میگمائی ڈھانچوں سے جوڑ کر نیا زاویہ دیا ہے اوریہ تحقیق volcanologists اور geophysicists کی دلچسپی کا باعث بنی ہے جنہوں نے اسے زمین کی ساخت اور میگماکے ارتقاکے نئے باب کے طور پر دیکھا ہے۔ انہوں نے مذکورہ بلاکس کو ''زمین کے اندر چھپے قدرتی بیک اَپ پلان‘‘ سے تعبیر کیا ہے ۔یہ تحقیق نہ صرف یہ بتاتی ہے کہ اجرام فلکی یا موسمی عوامل کی طرح زمین کے اندرونی اجزاآتش فشانی عمل کو کنٹرول کرتے ہیں بلکہ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ ان عوامل کی تحقیق اور تجزیہ عالمی خطرات اور قیمتی ذخائر کے حوالے سے نئے راستے کھول سکتا ہے۔ اگلے چند برسوں میں اگر ہم نے زمین کی اندرونی ساخت کو بہتر طور پر سمجھ لیا تو شاید ہمیں مستقبل میں بڑے آتش فشانی واقعات سے بروقت خبردار ہونے اور زلزلوں کی شدت کو کم کرنے کے امکانات کا نسبتاً بہتر ادراک ہو سکے۔اس دریافت کا اطلاق محض آتش فشانی پیشین گوئی پر ہی نہیں بلکہ صنعتی و اقتصادی شعبوں پر بھی مثبت اثرات مرتب کر سکتا ہے، جیسا کہ ہیرے اور قیمتی معدنیات kimberlite کی تلاش میں، جو میگما کے ساتھ منسلک ہوتی ہیں ۔ علاوہ ازیں میگما کے حرارت کے ذخائر سے گرین انرجی کے لیے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔

آج کا دن

آج کا دن

امریکہ کا پہلا ایٹمی تجربہ 1945ء میں آج کے روز امریکہ نے نیومیکسیکو میں ایٹم بم کا پہلا تجربہ کیا۔اس پروجیکٹ کا نام'' ٹرینٹی‘‘ رکھا گیا تھا جبکہ اس ایٹمی دھما کے میں استعمال ہونے والے مواد کی طاقت 19 ٹن تھی۔ یہ دوسری عالمی جنگ کا دور تھا جب دنیا کا ہر طاقتور ملک دوسرے ملک پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا تھا۔ اسی سلسلے میں ایٹم بم بنانے کی دوڑ بھی جاری تھی جس میں امریکہ اور جرمنی پیش پیش تھے، اس تجربے سے امریکہ ایٹمی قوت بننے میں باقی دنیا پر سبقت لے گیا۔اپالو 11 کی روانگی16 جولائی 1969ء کو ناسا کا مشن اپالو 11 چاند کے مشن پر روانہ ہوا۔ اسے فلوریڈا کے کینیڈی سپیس سینٹر سے لانچ کیا گیا تھا۔ اپالو 11 وہی خلائی پرواز تھی جس نے پہلی بار انسانوں کو چاند پر اتارا تھا۔ کمانڈر نیل آرمسٹرانگ اور خلائی جہاز کے پائلٹ بز ایلڈرن نے 20 جولائی 1969ء کو خلائی جہاز کو چاند پر لینڈ کیا اور آرمسٹرانگ چاند کی سطح پر قدم رکھنے والے پہلے شخص بن گئے۔ 19 منٹ بعد ایلڈرن بھی آرمسٹرانگ کے ساتھ شامل ہوگیا۔ دونوں نے تقریباً ڈھائی گھنٹے اکٹھے اس جگہ کی کھوج میں گزارے جس کا نام انہوں نے لینڈنگ کے وقتTranquility Base رکھا تھا۔مونٹ بلانک ٹنل16 جولائی 1965ء کو فرانس اور اٹلی کو آپس میں ملانے والی مونٹ بلانک ٹنل کو عام لوگوں کیلئے کھولا گیا۔ مونٹ بلانک ٹنل فرانس اور اٹلی کے درمیان مونٹ بلانک پہاڑ کے نیچے ایک ہائی وے سرنگ ہے جو کہ ٹرانس الپائن نقل و حمل کے راستوں میں سے ایک ہے۔ خاص طور پر اٹلی کیلئے جوشمالی یورپ تک اپنے ایک تہائی مال برداری کیلئے اس سرنگ پر انحصار کرتا ہے۔ یہ فرانس سے ٹورن تک کے راستے کو 50 کلومیٹر اور میلان تک 100 کلومیٹر تک کم کر دیتا ہے۔ایمیزون کی شروعات1995 میں آج کے روز جیف بیزوس نے اسے ایک آن لائن کتابوں کی دکان کے طور پر شروع کیا۔ ایمیزون ڈاٹ کام پر فروخت ہونے والی پہلی کتاب ڈگلس ہوف اسٹڈٹر کی Fluid Concepts and Creative Analogies: Computer Models of the Fundamental Mechanisms of Thought تھی۔کاروبار کے پہلے دو مہینوں میں ایمیزون کی فروخت بیس ہزار ڈالر فی ہفتہ تک پہنچ گئی۔ 

ستاروں کی زبان سمجھنے والے

ستاروں کی زبان سمجھنے والے

آپ 3500 سال پہلے کا تصور ذہن میں لائیں ، یہ میسوپوٹیمیا ہے، موجودہ عراق۔رات کے سناٹے میں دریائے فرات کے کنارے ایک بلند و بالا عمارت کی چھت پر کھڑا ایک نوجوان عالم آسمان کی وسعتوں میں گم ہے۔ اس کے سامنے مٹی کی ایک تختی ہے جس پر وہ کسی پیچیدہ گراف کی لکیریں کھینچ رہا ہے۔ وہ مشتری کی حرکت کو دیکھ رہا ہے، چاند کے زاویوں کو نوٹ کر رہا ہے اور زہرہ کے چمکنے بجھنے کے پیچھے راز تلاش کر رہا ہے۔آسمان پر جھلملاتے ستارے قدیم بابلی (Babylonian) فلکیات دانوں کے لیے رازوں بھری کتاب تھے جسے وہ پڑھنا جانتے تھے مگر شاید انہیں اس بات کا علم نہیں ہو گا کہ وہ جو ریکارڈ کر ر ہے تھے وہ ہزاروں سال بعد بھی انسانوں کو حیران کر ے گا اور سائنسدان اس تکنیک کو Calculus کا بنیادی پتھر قرار دیں گے۔ جی ہاں! بابلی فلکیات دان دوربینوں، سیٹلائٹس اور کمپیوٹرز کے بغیر بھی ستاروں کے اسرار جاننے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اور یہی ان کے علم کی حیرت انگیز کہانی ہے۔ ستاروں کی زبان سمجھنے والےبابلی تہذیب کے فلکیات دانوں کے لیے آسمان فقط قدرتی مظہر نہیں تھا بلکہ ایک زندہ کتاب تھی۔ وہ چاند کی گردش، سورج کی چمک اور زُہرہ کے چکر کو دیوی دیوتاؤں کے اشارے مانتے تھے، لیکن ان کے مشاہدے اور حساب کا سائنسی پہلو اتنا جاندار تھا کہ جدید سائنس بھی آج ان کا اعتراف کرتی ہے۔انہوں نے Enuma Anu Enlil جیسے فلکیاتی جدول تخلیق کئے جن میں گرہنوں کی پیشگوئی سے لے کر زُہرہ کی روشنی کے دورانیے تک کی تفصیلات موجود تھیں۔قدیم کیلکولس، ایک حیرت انگیز کہانیآپ کو حیرت ہو گی کہ بابلی ماہرین نے مشتری (Jupiter) کی حرکت کو جانچنے کے لیے جو طریقہ استعمال کیا وہ آج کے Integral calculus کا پیش خیمہ ہے۔انہوں نے ایک trapezoid (چوکور نما شکل) کی مدد سے مشتری کے مدار کا رقبہ نکالا اور اس سے یہ معلوم کیا کہ وہ کتنی دور جا چکا ہے۔ یہ کام آج سے تقریباً 1400 سال قبل ہوا جب دنیا میں کیلکولس کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔بابلیوں کی ایک اور حیرت انگیز دریافتPlimpton 322ہے، جو مٹی کی بنی ہوئی ایک تختی ہے مگر اپنے اندر پورا ریاضیاتی جہان سموئے ہوئے ہے۔ اس پر ایسے جدول نقش ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ بابلی مثلث کے زاویوں اور اضلاع کے تناسب کو گہرائی سے سمجھتے تھے۔کچھ ماہرین کے مطابق یہ دنیا کا سب سے پہلا ٹرگنومیٹری ٹیبل ہے جو بعد میں فلکی نقشوں ،نہری نظام اور تعمیرات میں مددگار ثابت ہوا۔ وقت اور زاویوں کا انوکھا نظامبابلیوں نے زاویے کو 360 درجے میں تقسیم کیا۔ ہر ڈگری 60 منٹ پر مشتمل تھی اور ہر منٹ 60 سیکنڈ پر۔ یہ وہ نظام ہے جو آج بھی دنیا بھر میں وقت اور زاویوں کی پیمائش کے لیے استعمال ہوتا ہے۔بابلی فلکیات دانوں نے Saros cycle دریافت کیا جو یہ بتاتا ہے کہ ہر 18 سال 11 دن بعد سورج یا چاند گرہن دوبارہ اسی انداز میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔بابلیوں نے ستاروں کو تین حصوں میں تقسیم کیا اور ان کی بنیاد پر 12 برج بنائے۔ یہ وہی برج ہیں جو آج بھی علم نجوم (Horoscopes) اور فلکیات میں استعمال ہوتے ہیں۔ بابلیوں کے لکھے ہوئے ستاروں کے نقشے بعد میں یونان، مصر اور اسلامی دنیا تک پہنچے اور صدیوں تک سائنس کی بنیاد بنے رہے۔بابلی نوشتیں صرف فلکی حرکات تک محدود نہیں تھیں ان میں موسمی پیشگوئیاں، اجناس کے نرخ حتیٰ کہ بادشاہوں کے لیے پیش گوئیاں بھی درج تھیں۔آج کی دنیا میں بابلی ورثہاگر آپ آج اپنے سمارٹ فون پر چاند گرہن کا وقت دیکھتے ہیں یا GPS سے سمت معلوم کرتے ہیں تو یاد رکھیں کہ اس علم کی بنیاد اُن بابلی ماہرین نے رکھی تھی۔ اُن کے بغیر شاید نہ یونانی دانشمند بطلیموس (Ptolemy) اپنا ماڈل بنا پاتا اور نہ اسلامی ماہرینِ فلکیات اپنے دقیق جدول تیار کرسکتے۔ماضی کا علم، مستقبل کی روشنیقدیم بابلیوں نے ستاروں سے روشنی لی اور اسے علم کا چراغ بنا کر آنے والے زمانوں تک پہنچایا۔بابلی فلکیات دان صرف آسمان کے ناظر نہیں تھے وہ اس کے رازوں کے محافظ بھی تھے۔ آج خلا میں گردش کرتے سیٹلائٹس اور دوربینیں ان کے خوابوں کی جدید شکل ہیں۔وہ مٹی کی تختیوں پر جو علم لکھتے تھے وہ دراصل خلا کے ان دروازوں کی چابیاں تھیں جو انسان نے ہزاروں سال بعد کھولے۔ بابلی علم کے 5 انمول موتی٭ زاویوں کو 360 درجوں میں تقسیم کیا٭ چاند گرہن کےSaros cycle کی پیشگوئی٭ دنیا کا پہلا ٹرگنو میٹری ٹیبل بنایا٭ برجوں کی بنیاد ٭ گرافیکل حرکت کا تصور (Calculus کی ابتدائی شکل)  

بارشوں ،سیلابوں اور پہاڑی نالوں کی تباہ کاریوں کا سدباب

بارشوں ،سیلابوں اور پہاڑی نالوں کی تباہ کاریوں کا سدباب

بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی، گلوبل وارمنگ اور غیر متوقع موسمی تغیرات نے دنیا بھر میں انسانی زندگی کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ ایسے میں ٹیکنالوجی ایک طاقتور ہتھیار بن کر سامنے آئی ہے۔سب سے پہلے، جدید سیٹلائٹ سسٹمز اور ڈرون ٹیکنالوجی کی بدولت موسم کی پیش گوئی زیادہ درست ہو گئی ہے۔ سمارٹ سینسرز زمین، پانی اور ہوا کے معیار پر مسلسل نظر رکھتے ہیں، جس سے بروقت وارننگ جاری کی جا سکتی ہے۔ سیلاب، طوفان اور خشک سالی جیسے خطرات سے نمٹنے کے لیے ان پیش گوئیوں کی بنیاد پر انتظامات کیے جاتے ہیں۔دوسرا، آفات کے دوران کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کا کردار نمایاں ہے۔ موبائل ایپس، سوشل میڈیا اور ایمرجنسی الرٹ سسٹمز عوام کو فوری طور پر خطرات سے آگاہ کرتے ہیں، جس سے جانی نقصان کم ہوتا ہے۔ مصنوعی ذہانت (AI) اور مشین لرننگ کی مدد سے متاثرہ علاقوں کا تجزیہ کر کے وسائل کی مؤثر تقسیم کی جا سکتی ہے۔تیسرا، قابل تجدید توانائی کے ذرائع جیسے سولر اور ونڈ پاور کے استعمال سے کاربن کے اخراج کو کم کیا جا سکتا ہے، جو موسمی تبدیلیوں کا ایک بڑا سبب ہے۔ سمارٹ ایگری کلچر ٹیکنالوجیز کسانوں کو بدلتے موسم کے مطابق فصلوں کی منصوبہ بندی کرنے میں مدد دیتی ہیں۔یوں ٹیکنالوجی نہ صرف موسمی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے بلکہ آفات کے دوران انسانی جان و مال کے تحفظ میں بھی کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ مستقبل میں اس شعبے میں مزید جدت انسانیت کو بڑے خطرات سے بچانے میں معاون ثابت ہوگی۔ہر سال ملک کے مختلف علاقوں سے بارشوں، سیلابوں اور پہاڑی نالوں میں طغیانی کے نتیجے میں جانی و مالی نقصان کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ درجنوں قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں، سینکڑوں مکان زمین بوس ہو جاتے ہیں اور اہم شاہراہیں یا تو بند ہو جاتی ہیں یا ملبے کے نیچے دب جاتی ہیں۔ بظاہر یہ آفت موسمی یا قدرتی دکھائی دیتی ہے لیکن اس کے پیچھے سائنسی، ماحولیاتی، انتظامی اور سماجی عوامل کی ایک پوری زنجیر ہے۔موجودہ سرکاری بندوبست کا جائزہ لیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے سیاحتی اور پہاڑی علاقوں کو کیسے محفوظ بنایا جا سکتا ہے تو کئی نکات سامنے آتے ہیں۔دنیا بھر کی طرح پاکستان بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے دریاؤں میں پانی کا بہاو ٔغیر معمولی حد تک بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، بارشوں کا پیٹرن بھی تبدیل ہو چکا ہے۔ کبھی معمول سے کئی گنا زیادہ بارش ہو رہی ہے تو کبھی طویل خشک سالی کا سامنا ۔مون سون سسٹم اب زیادہ نمی لے کر آتا ہے اور ایک ہی علاقے میں چند گھنٹوں کے دوران شدید بارش برسا دیتا ہے۔ اس کلاؤڈ برسٹ کی کیفیت سے پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ، ندی نالوں میں طغیانی اور اچانک سیلاب کی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔جنگلات کی کٹائی، پہاڑی ڈھلوانوں پر غیر محفوظ تعمیرات، دریاؤں کے قدرتی بہاؤ میں رکاوٹ ڈالنے والے اسباب اور زمین کی منصوبہ بندی کے بغیر آباد کاری قدرتی نظام کو بگاڑ دیتی ہے۔ اس سے بارشوں کا پانی قدرتی راستوں کی بجائے بستیوں، سڑکوں اور کھیتوں میں بہنے لگتا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی مون سون سے پہلے وارننگ جاری کرتی ہے، کچھ علاقوں میں محکمہ موسمیات کے تعاون سے ارلی وارننگ سسٹم بھی قائم کیا گیا ہے جو بارشوں اور سیلاب کی پیشگی اطلاع دیتا ہے تاہم یہ نظام ابھی پوری طرح مؤثر نہیں اور دیہی علاقوں تک اس کی رسائی محدود ہے۔تاہم جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے بچاؤ کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ڈرونز اور سیٹلائٹ کی مدد سے بارشوں کے بعد زمینی حالات، دریاؤں کی سطح اور نالوں کے بہاؤ کا رئیل ٹائم میں جائزہ لیا جا سکتا ہے اور علاقے میں موبائل پر SMS یا ایپ کے ذریعے وارننگ دی جا سکتی ہے۔ جیو فینسنگ سے متاثرہ علاقوں کی حدود مقرر کر کے الرٹس جاری کرنا آج کے دور میں مزید آسان ہو گیا ہے۔پہاڑی ندی نالوں میں سمارٹ میٹرز نصب کیے جا سکتے ہیں جو پانی کے بہاؤ اور سطح میں اضافے کو فوری رپورٹ کرتے ہیں۔ یہ ڈیٹا ریسکیو ٹیموں، ضلعی انتظامیہ اور عوام کو فوری آگاہ کر سکتا ہے۔AI ماڈلز کی مدد سے ماضی کے موسم، زمین کی ساخت، بارش کی شدت اور انسانی سرگرمیوں کو مد نظر رکھ کر خطرات کی پیشگی پیشگوئی کی جا سکتی ہے۔ ان ماڈلز سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کس علاقے میں کب اور کتنی شدت کا سیلاب یا لینڈ سلائیڈنگ متوقع ہے۔ قدرتی آفات کے باعث ہونے والا جانی و مالی نقصان صرف قدرتی نہیں بلکہ انسانی غفلت، ادارہ جاتی کمزوری اور سائنسی پیشرفت سے فائدہ نہ اٹھانے کا نتیجہ ہیں۔ ہمیں ماحولیاتی تبدیلی کو سنجیدگی سے لینا ہوگا، سائنسی بنیادوں پر منصوبہ بندی کرنی ہوگی اور ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کر کے نہ صرف قیمتی جانیں بچانی ہوں گی بلکہ سیاحت جیسے شعبے کو بھی محفوظ اور ترقی یافتہ بنانا ہوگا۔ تبھی ہم ان مسائل پر قابو پا سکتے ہیں جو ہر سال ایک تسلسل سے ہمارے سامنے آتے ہیں اور جن سے بچنا ممکن ہے۔ ٹیکنالوجی موسمی تبدیلیوں کے اثرات کم کرنے اور آفات سے بچاؤ میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

دنیا کے گرد چکر لگانے والا پہلا ہوا باز15 جولائی 1933ء کو امریکی ہوا باز ولے پوسٹ(Wiley Post) نے دنیا کے گرد چکر لگانے کا آغاز کیا۔ یہ کسی بھی ہوا باز کی جانب سے دنیا کا چکر لگانے کی پہلی پرواز تھی۔ ولے پوسٹ نے سات دن 18 گھنٹے اور 49 منٹ میں دنیا کے گرد چکر مکمل کیا۔ ولے پوسٹ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کی پرواز کامیابی کے ساتھ مکمل ہوئی اور اس کی کوشش نے دنیا کے دیگر ہوا بازوں کیلئے بھی راہ ہموار کی۔دنیا کی پہلی زیر آب تصویر15 جولائی 1926ء کو دنیا پہلی زیر آب تصویر کھینچی گئی ، جس کیلئے خصوصی کیمرہ کا استعمال کیا گیا۔ اس تصویر کو زیادہ اہمیت اس لئے بھی حاصل ہوئی کہ یہ زیر آب کھینچی جانے والے دنیا کی پہلی رنگین تصویر تھی۔ اس تصویر کو کھینچنے کا اعزاز نیشنل جیوگرافک کے میگزین نے حاصل کیا اور اسی میگزین میں اس کو شائع کیا گیا۔ یہ قارئین کیلئے بہت حیران کن بات تھی کہ پانی کے نیچے بھی تصویر کھینچنا ممکن ہے۔ویانا کا محاصرہ15 جولائی 1683ء کو عثمانی فوج نے ویانا کے خلاف محاذ کا آغاز کیا۔ و یا نا کا محاصرہ تاریخ میں ' جنگِ و یا نا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس جنگ میں عثمانیوں کا سامنا پولینڈ، آسٹریا اور جرمنی کی افواج سے ہوا۔ دو ماہ کے محاصرے کے بعد فیصلہ کن جنگ کا آغاز 12 ستمبر کو ہوا۔ اس جنگ کے نتیجے میں سلطنتِ عثمانیہ کا زوال تیز ہوگیا اور وہ آہستہ آہستہ یورپ کے مقبوضات کھونے لگی۔ایران فضائی حادثہکیسپین ایئر لائنز کی پرواز 7908 تہران سے پریوان، آرمینیا کیلئے ایک طے شدہ پرواز تھی جو 15 جولائی 2009ء کو شمال مغربی ایران کے شہر قزوین کے باہر جنت آباد گاؤں کے قریب گر کر تباہ ہوگئی۔جہاز میں سوار تمام 153 مسافر اور عملے کے 15 افراد ہلاک ہو گئے۔