وبائی امراض بطور جنگی ہتھیار !

وبائی امراض بطور جنگی ہتھیار !

اسپیشل فیچر

تحریر : خاورنیازی


انسان اور وبائی امراض کا ساتھ قدیمی ہے۔ماہرین ارضیات اور سائنسدانوں کا خیال ہے کہ جب انسان نے مل جل کر رہنے کو رواج دیا اور انسانی آبادیوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ انسانی سرگرمیوں میں اضافہ شروع ہوا تو اسے امراض سے پالا پڑا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ وبائی امراض نے بھی انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہو گا ، لیکن تب انسان کی سوچ محدود ہونے کے سبب وہ اسے بھی ایک عام بیماری سمجھتا رہا ہو گا۔
آج سے کچھ عرصہ قبل ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ڈی این اے کے ذریعے ملنے والی معلومات سے جو شواہد سامنے آئے ہیں ان کے مطابق انسان کا وبائی امراض سے سب سے پہلا سامنا جنوبی افریقہ کے جنگلات سے شروع ہونے والی ایک وبا سے لگ بھگ 73000 قبل مسیح میں ہوا تھا۔ اس تحقیق میں یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکا کہ اس وبا نے کتنی انسانی جانوں کو نشانہ بنایا ہوگا ۔ تاہم معلوم انسانی تاریخ کا یہ پہلا موقع تھا جب 1200 قبل مسیح میں افریقہ ہی سے شروع ہونے والی ایک اور وبا نے مصر سے لے کر بابل تک بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کو ملیا میٹ کر کے رکھ دیا تھا۔ اس دور میں مصر دنیا بھر میں بہت بڑے تجارتی مرکز کی شہرت رکھتا تھا اور چونکہ اس دور میں زیادہ تر لوگ تجارت کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک تھے ، جس کی وجہ سے اس وبا نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ بابل کی قدیم اکادی سلطنت کی اکادو زبان میں اس وبائی بیماری کو ''کسارو متانو ‘‘ کا نام دیا گیا تھا جس کے لفظی معنی ''بے بس کر دینا ‘‘ تھے۔ لیکن بعد میں اس بیماری کو باقاعدہ طور پر ''مستحظ ‘‘ کا نام دیا گیا۔ مستحظ کے لفظی معنی ایک ایسی بیماری کے ہیں جو ایک شخص سے دوسرے کو اپنی گرفت میں جکڑ لے۔
اس وبا کی تصدیق اس دور کے ملنے والے ان خطوط سے بھی ہوتی ہے جو اُس دور کے وزراء اور مشیروں نے اپنے بادشاہوں کو لکھے تھے۔ ان خطوط میں ایک خط 1170 قبل مسیح میں ماری سلطنت ( موجودہ شام کا علاقہ ) کے ایک وزیر نے اپنے بادشاہ زمری لم کو لکھا تھا جس میں یہ درخواست کی گئی تھی کہ چونکہ ایک وبا جو ایک شخص سے دوسرے شخص کے ذریعے منتقل ہو جاتی ہے ، پورے خطے میں پھیل چکی ہے لہٰذا سلطنت کے لوگوں کو خبردار کرنے کے احکامات جاری کئے جائیں کہ وہ حتی الامکان سفر سے گریز کریں۔ مورخین کچھ اور خطوط کا حوالہ بھی دیتے ہیں جن میں اس وبا کے ثبوت ملتے ہیں اور سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ آج سے ہزاروں سال قبل بھی وہاں کے لوگوں کو اس امر کا ادراک ہو چکا تھا کہ یہ ایک متعدی مرض ہے جو ایک شخص کے دوسرے شخص کو چھونے سے یا میل جول کے ذریعے پھیلتا ہے ،جس سے بچاؤکا واحد طریقہ ایک دوسرے سے الگ رہنے اور متاثرہ شخص یا اشخاص سے عدم میل ملاپ ہی میں پوشیدہ ہے۔
کیا کوئی شخص یہ تصور کر سکتا ہے کہ آج کے مشرق وسطیٰ کہلانے والے علاقے کو آج سے لگ بھگ تین ہزار سال پہلے ایک وبائی آفت نے نیست و نابود کر کے رکھ دیا تھا۔ان میں موجودہ دور کے شمالی اور جنوبی عراق ، مصر، ترکی اور قبرص شامل تھے۔ یہ ریاستیں یا تو مکمل طور پر تباہ ہو گئی تھیں یا ایک عرصے تک ویران اور سنسان کھنڈروں کا نقشہ پیش کرتی رہی تھیں۔ اس تباہی کے پس پردہ اگرچہ طویل جنگ ، قحط اور کچھ دیگر عوامل تو تھے ہی لیکن ان سب سے نمایاں ایک ایسی عالمی وبا تھی جو اس دور کے لوگوں کے لئے نئی ، غیر متوقع اور اچانک تھی۔ تبھی تو وہاں کے لوگ ایک عرصہ تک اسے ''عذاب الٰہی‘‘ کے نام سے پکارتے رہے۔
یہ اس دور کی بات ہے جب مصر اور ہیٹی(Hittite) دو بڑی طاقتیں ہوا کرتی تھیں اور دونوں اکثر ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار رہتی تھیں۔ واضح رہے کہ اس دور میں مصر کی سرحدیں موجودہ دور کے جدید جنوبی فلسطین تک پھیلی ہوئی تھیں جبکہ ہیٹی نامی سلطنت کی سرحدیں آج کل کے ترکی سے شمالی فلسطین کو چھوتی تھیں۔یہ 1325 قبل مسیح کے آس پاس کا دور تھا جب ہیٹی مصر کے ایک شہر عمقا (موجودہ فلسطین کا علاقہ) پر حملہ آور ہوا ۔ اتفاق سے عمقا کا جڑواں شہر جبیل اس وقت ایک وبا کی زد میں آیا ہوا تھا اور جبیل سے ملحقہ عمقا بھی اس وبا سے متاثر ہو چکا تھا۔ عمقا سے کچھ مصری فوجیوں کو ہیٹی کی افواج یرغمال بنا کر اپنے ساتھ ہیٹی کے دارلحکومت ہٹوسا لے گئیں جو اتفاق سے اس وبائی مرض میں مبتلا ہو چکے تھے؛چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے اس وبا نے نہ صرف ہٹوسا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا بلکہ اس کے مشرق میں واقع اگریت سلطنت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔مورخین کہتے ہیں ہٹوسا سمیت ہیٹی کے بیشتر علاقے ہی نہیں بلکہ مصر اور اوغاریت ریاست کے بھی بیشتر علاقوں میں دو عشروں تک اس وبا نے تباہی پھیلائے رکھی جس کے بارے مورخین کا کہنا ہے کہ دوعشروں پر محیط اس وبا سے پورے علاقے کی نصف سے زائد آبادی کا نام و نشان تک مٹ گیا تھا ۔ یہاں تک کہ ہیٹی کے دو بادشاہ سپیلو لیوما اور ارنوواندا کی ہلاکت بھی بالترتیب 1322 اور 1323 قبل مسیح میں اسی وبا سے ہوئی تھی۔
ہیٹی کے مغرب میں ارزاوا نامی ایک ریاست تھی جس کے دارالحکومت کا نام اپسا تھا، جس کے ہیٹی سے اختلافات ایک عرصہ سے چلے آرہے تھے؛ چنانچہ ہیٹی کو کمزور دیکھتے ہوئے ارزاوا نے ہیٹی پر حملہ کردیا۔ہیٹی چونکہ مصر کے ساتھ تصادم سے یہ جان چکا تھا کہ خطے کے طول و عرض میں پھیلی اس وبا کو بطور ہتھیار استعمال کر کے ارزاوا سے بدلہ لیا جا سکتا ہے؛ چنانچہ ہیٹی نے روایتی طرز پر ارزاوا پر حملہ آور ہونے کی بجائے وبا سے متاثرہ خچر اور کچھ دوسرے جانوروں کو ارزاوا کی سرحد کے اس پار دھکیلنا شروع کر دیا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس وبا نے پوری ریاست ارزاوا کو اپنے پنجوں میں جکڑ لیا۔ ہیٹی سلطنت کی دستاویزات سے بھی اس وبا کو دشمن کے خلاف استعمال ہونے کے اس انوکھے جنگی ہتھیار کی تصدیق ہو جاتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
سوٹ کیس کے پہیے: ٹوائلٹ سیٹ سے بھی 40 گنا زیادہ گندے؟

سوٹ کیس کے پہیے: ٹوائلٹ سیٹ سے بھی 40 گنا زیادہ گندے؟

سائنسدانوں نے حالیہ تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ ایک ایسی چیز جو دنیا بھر میں لاکھوں نہیں بلکہ اربوں لوگ سفر کے دوران روزانہ استعمال کرتے ہیں، عوامی ٹوائلٹ سیٹ سے بھی 40 گنا زیادہ گندی ہو سکتی ہے۔ یہ چیز اور کچھ نہیں بلکہ آپ کا سوٹ کیس ہے،خاص طور پر اس کے پہیے اور نچلا حصہ۔ماہرین نے لندن کے ایک ایئر پورٹ پر متعدد سوٹ کیسز کا معائنہ کیا۔ ان کے پہیوں اور نچلے حصوں سے نمونے لیے گئے۔تحقیق میں یہ سامنے آیا کہ ہر نمونے میں سیکڑوں بیکٹیریا اور فنگس کی کالونیاں موجود تھیں، جو عام ٹوائلٹس میں پائے جانے والے جراثیم سے کہیں زیادہ ہیں۔ یہ جراثیم فوڈ پوائزننگ، انفیکشنز اور سانس کی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ لیبارٹری ٹیسٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ سوٹ کیس کے پہیوں پر تین مربع سینٹی میٹر کے حصہ میں تقریباً 400 بیکٹیریا کی کالونیاں موجود تھیں، جبکہ اوسط ٹوائلٹ سیٹ پر یہی تعداد صرف 10 کالونیاں ہوتی ہے۔محققین کے مطابق نرم سطح والے سوٹ کیس، سخت سطح والے بیگز کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہیں، کیونکہ ان کا کپڑا نمی اور گندگی کو جذب کر لیتا ہے، جس سے پھپھوندی بننے لگتی ہے۔ مزید پریشان کن بات یہ ہے کہ زیادہ تر مسافر لاشعوری طور پر ان جراثیم زدہ پہیوں والے سوٹ کیسز کو ہوٹل کے بستر، میزوں اور الماریوں پر رکھ دیتے ہیں، جس سے جراثیم آسانی سے دوسرے مقامات تک پھیل سکتے ہیں۔محققین نے جب سوٹ کیس کے پہیوں سے لیے گئے نمونوں کو مائیکروسکوپ کے نیچے دیکھا تو ان پر موٹے موٹے پھپھوندی کے جھرمٹ، انسانی یا جانوروں کے فضلہ کے ذرات، پھپھوندی کی بھرمار دیکھی۔اعداد و شمار کے مطابق روزانہ تقریباً 29 لاکھ افراد ایئرپورٹس سے سفر کرتے ہیں، جس کے باعث یہ جراثیم گھروں اور ہوٹلوں میں پھیلنے کا خطرہ پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکا ہے۔تحقیق کی سربراہی کرنے والی مائیکرو بیالوجسٹ ایمی مے پوائنٹر (Amy- May Pointer) کے مطابق سوٹ کیسز، خاص طور پر ان کے پہیے اور نچلا حصہ، جراثیم کیلئے مقناطیس کی طرح ہیں اور یہ ٹوائلٹ سے بھی زیادہ جراثیم رکھتے ہیں۔ سائنسدان ان جراثیم کو ''CFU‘‘ (Colony Forming Units) کہتے ہیں، یعنی ایک سطح پر موجود کتنی کالونیاں (کالونیاں وہ گروہ ہیں جن میں بیکٹیریا بڑھتے ہیں) قائم ہو چکی ہیں۔ تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سوٹ کیس کے نچلے حصے میں ہر تین مربع سینٹی میٹر پر تقریباً 350 ''سی ایف یو‘‘( CFU )موجود تھے۔ٹیم نے مسافروں کے زیر استعمال ٹرالی کا بھی نمونہ لیا، جسے روزانہ ہزاروں افراد چھوتے ہیں اور پایا کہ اس پر بھی ٹوائلٹ سیٹ سے 40 گنا زیادہ جراثیم موجود تھے۔ماہرین نے تجویز کیا ہے کہ بیگ کو بستر پر نہ رکھا جائے اور ہمیشہ ریک یا فرش پر رکھا جائے تاکہ مزید آلودگی سے بچا جا سکے۔پہیوں اور بیگ کے نچلے حصے کو جراثیم کش وائپ یا صابن والے کپڑے سے صاف کرنا بیکٹیریا کی مقدار کو نمایاں حد تک کم کر سکتا ہے۔یہ ایک چھوٹا سا قدم ہے، جو آپ کو باتھ روم کے فرش پر موجود جراثیم کو اپنے گھر (اور بستر) تک لانے سے بچاتا ہے۔ کبھی کبھار بیگ کی صفائی بھی کرنی چاہیے۔تحقیق میں یہ نہیں کہا گیا کہ سوٹ کیس مہلک ہیں، مگر یہ ضرور واضح کیا گیا کہ ہماری روزمرہ زندگی میں آلودگی کا ایک نظرانداز شدہ ذریعہ ہیں۔یہ تحقیق زیادہ تر احتیاطی تدابیر پر مبنی ہے۔ اگر ممکن ہو تو، بیگ کو واضح طور پر گندے مقامات پر گھسیٹنے سے گریز کریں۔تحقیق کی سربراہ ایمی مے پوائنٹر کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ ان جراثیموں کی اقسام بہت متنوع تھیں، جو اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ بیگ کہاں کہاں جا چکے تھے۔یہ اس بات کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتا ہے کہ بیگ کو صاف جگہوں جیسے بستر پر نہ رکھا جائے اور وقتاً فوقتاً اسے اچھی طرح صاف بھی کیا جائے۔اگرچہ یہ بیکٹیریا خود ہمیشہ بیماری کا باعث نہیں بنتے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک طرح کی ''گندگی کی تہہ‘‘ بناتے ہیں جو آسانی سے پھیلتی ہے ، خاص طور پر جب سامان کو ہوٹل کے بستروں یا گھریلو قالینوں پر رکھا جاتا ہے۔پہیوں میں کون سے جراثیم پائے گئے؟STAPH: لیبارٹری میں شناخت کیے گئے جراثیم میں سے ایک ''Staphylococcus aureus‘‘ (Staph)تھا ۔ یہ عام طور پر جلد پر پایا جانے والا بیکٹیریا ہے، لیکن اگر یہ کسی زخم میں چلا جائے یا خوراک کو آلودہ کر دے تو خطرناک انفیکشن پیدا کر سکتا ہے۔Serratia marcescens : اسی طرح ایک اور جرثومہ Serratia marcescens بھی دریافت ہوا، جو نمدار جگہوں جیسے باتھ رومز میں پایا جاتا ہے۔ یہ خاص طور پر پیشاب کی نالی اور زخموں کے انفیکشن کا باعث بنتا ہے۔Bacillus cereus: ایک اور خطرناک جرثومہ '' Bacillus cereus‘‘ بھی پایا گیا، جو ایک سخت جان بیکٹیریا ہے اور عام طور پر مٹی اور فرشوں پر پایا جاتا ہے۔ یہ فوڈ پوائزننگ کا سبب بنتا ہے۔کالی پھپھوندی: لیبارٹری ٹیسٹ میں مزید ''Aspergillus niger‘‘ اور ''Penicillium‘‘ کی موجودگی بھی سامنے آئی۔ یہ دواقسام کی کالی پھپھوندی ہیں، جو عموماً کھلی جگہوں پر اگتی ہیں۔ یہ فنگس الرجی اور سانس کی بیماریوں کا باعث بنتی ہیں۔E coli: سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ تھی کہ نمونوں میں '' E coli‘‘کی موجودگی کے شواہد بھی ملے، جو فضلاتی آلودگی کا خطرناک اشارہ ہے۔ اس کی موجودگی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ٹرالی یا سوٹ کیس کے پہیے ممکنہ طور پر واش رومز، گندے فٹ پاتھوں یا پرندوں کی بیٹ سے آلودہ ہو سکتے ہیں۔

کامیابی چاہیے ! تو کچھ عادات ترک کر دیں

کامیابی چاہیے ! تو کچھ عادات ترک کر دیں

اکثر اوقات کامیاب ہونے کیلئے ہمیں کچھ اور چیزیں شامل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی،بلکہ کچھ چیزوں کو ترک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرچہ ہم میں سے ہر ایک کے نزدیک کامیابی کی تعریف مختلف ہو سکتی ہے،لیکن کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو سب کیلئے یکساں ہوتی ہیں۔جنہیں اگر آپ چھوڑ دیں تو آپ کی کامیابی کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ان میں سے کچھ چیزوں کو آپ آج ہی ترک کر سکتے ہیں،جبکہ کچھ پر وقت لگ سکتا ہے۔غیر صحت مند طرزِ زندگی امریکی مصنف و موٹیویشنل سپیکر جم رون کا قول ہے کہ ''اپنے جسم کا خیال رکھو، یہی تمہاری واحد رہائش گاہ ہے‘‘۔ یاد رکھیں زندگی میں سب کچھ اچھی صحت سے حاصل ہوتا ہے۔سب سے پہلے، آپ کو اپنی صحت کا خیال رکھنا ہوگااور اس کیلئے صرف دو باتیں ذہن میں رکھیں، صحت بخش غذا اور جسمانی سرگرمی۔ قلیل المدتی سوچ کامیاب لوگ طویل المدتی اہداف رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ مقاصدروزمرہ کی چھوٹی چھوٹی عادتوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ یہ صحت مند عادتیں صرف کرنے کی چیز نہیں ہوتیں بلکہ یہ آپ کی شخصیت کا حصہ بن جانی چاہییں۔خود کو معمولی سمجھنا خود کو کمتر ظاہر کرنا دنیا کی کوئی خدمت نہیں۔ ہم سب کے اندر کامیاب بننے کی صلاحیت ہوتی ہے، یہ کسی ایک فرد تک محدود نہیں۔اگر آپ بڑے خواب دیکھنے اور انہیں حقیقت بنانے کی جرات نہیں کریں گے تو آپ اپنی اصل صلاحیت کو کبھی نہ پہچان سکیں گے۔ بہانے بازیکامیاب لوگ جانتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کے خود ذمہ دار ہیں۔یہ حقیقت تسلیم کرنا کہ آپ کی زندگی میں جو کچھ آگے ہو گا،اس کے آپ مکمل ذمہ دار ہیں ایک طرف خوفناک ہے تو دوسری طرف حوصلہ افزا بھی۔ یہی واحد راستہ ہے کامیابی کی طرف بڑھنے کاکیونکہ بہانے تراشنا ہماری ذاتی اور پیشہ ورانہ ترقی کو روک دیتا ہے۔ جامد سوچ کو خیرباد کہیںامریکی ادیب رابرٹ گرین کا کہنا ہے کہ ''مستقبل ان لوگوں کا ہے جو نئی مہارتیں سیکھتے ہیں‘‘۔ جامد (Fixed) ذہن رکھنے والے افراد یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی صلاحیتیں پیدائشی اور ناقابلِ تبدیل ہیں اور یہی فطری صلاحیتیں کامیابی کی ضامن ہیں لیکن وہ غلط ہیں۔ کامیاب لوگ مسلسل نیا علم حاصل کرتے ہیں، نئی مہارتیں سیکھتے ہیں تاکہ اپنی زندگی کو کامیاب بنا سکے۔ یاد رکھیں آپ آج جو ہیں، یہ ضروری نہیں کہ کل بھی ویسے ہی رہیں۔ آپ بدل سکتے ہیں اور یہ تبدیلی ہی آپ کی کامیابی کی بنیاد بن سکتی ہے۔''جادوئی حل‘‘ پر یقینراتوں رات کامیابی صرف ایک فسانہ ہے۔کامیاب لوگ جانتے ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر کی جانے والی چھوٹی چھوٹی بہتریاں وقت کے ساتھ مل کر بڑا اثر ڈالتی ہیں، اور بالآخر مطلوبہ نتائج فراہم کرتی ہیں۔اسی لیے مستقبل کی منصوبہ بندی ضرور کریں،لیکن اپنی توجہ آج پر مرکوز رکھیں۔Perfectionism کوئی بھی چیز کبھی مکمل طور پر کامل نہیں ہو سکتی، چاہے ہم کتنی بھی کوشش کریں۔ ناکامی کا خوف اکثر ہمیں قدم اٹھانے سے روک دیتا ہے۔ہم اپنی تخلیق کو دنیا کے سامنے لانے سے گھبراتے ہیں۔لیکن اگر ہم ہر چیز کے درست ہونے کا انتظار کرتے رہیں تو بے شمار مواقع ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔لہٰذا، اپنی تخلیق کو سامنے لائیں،پھر وقت کے ساتھ اسے بہتر بنائیں ۔ملٹی ٹاسکنگونسٹن چرچل نے ایک بار کہا تھا کہ ''اگر تم ہر بھونکنے والے کتے پر پتھر پھینکتے رہوگے تو کبھی اپنی منزل تک نہیں پہنچو گے‘‘۔کامیاب لوگ اس راز کو جانتے ہیں۔اسی لیے وہ ایک کام کو چنتے ہیں اور پھر اس پر مکمل توجہ اور توانائی لگا کر اسے مکمل کر کے دم لیتے ہیں۔کسی ایک کام پر مکمل توجہ دینا اور اس سے وابستگی رکھناکامیابی کیلئے لازمی ہے۔ہر کام کو''ہاں‘‘کہنا کامیاب لوگ یہ جانتے ہیں کہ اپنے مقاصد کو پانے کیلئے انہیں بعض کاموں، مصروفیات اور بعض اوقات دوستوں، خاندان یا ساتھیوں کی فرمائشوں کو ''نہ‘‘ کہنا ہوگا۔آپ وقتی خوشی ترک کریں گے،لیکن جب آپ کے خواب حقیقت میں بدلیں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ وہ ''نہ‘‘ کتنے قیمتی تھے۔ منفی لوگوں سے جان چھڑائیںجن لوگوں کے ساتھ آپ وقت گزارتے ہیں، وہی آپ کی شخصیت کی تشکیل کرتے ہیں۔اگر آپ زیادہ وقت ان لوگوں کے ساتھ گزاریں گے جو خود آگے بڑھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تو آپ کی ترقی کی رفتار بھی سست پڑ جائیگی۔ اگر آپ ان لوگوں کے قریب رہیں جو ترقی یافتہ، منظم یا پرعزم ہیں تو آپ کی کامیابی کی رفتار تیز ہو جائیگی۔ سوشل میڈیا پر انحصار کرنابے مقصد انٹرنیٹ براؤزنگ ایک خطرناک لت بن چکی ہے۔یہ آپ کی زندگی یا آپ کے خوابوں سے فرار کا ذریعہ نہیں بننی چاہیے۔جب تک آپ کے اہداف ان سے براہِ راست وابستہ نہ ہوں،آپ کو ان پر انحصار کم سے کم (یا ختم) کردینا چاہیے۔ 

آج تم یاد بے حساب آئے!

آج تم یاد بے حساب آئے!

بروس لی مارشل آرٹ کا شہنشاہ(27نومبر 1940ء تا 20 جولائی 1973ء )٭...27 نومبر 1940ء کو سان فرانسسکو( امریکہ) میں ایک چینی والدین کے ہاں پیدا ہوئے۔اصل نام لی جون فین(LeeJun Fan) تھا۔ان کے والدگلوکارو اداکار تھے۔٭...ہالی وڈ کی متعدد فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے اور فلمی دنیا میں ہانگ کانگ کا مارشل آرٹس متعارف کروایا۔ ٭...ہدایتکاری، اداکاری اور مارشل آرٹ میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔٭...وہ نن چاقو کے اتنے ماہر تھے کہ نن چاقو سے ٹیبل ٹینس کھیلا کرتے ۔٭... 1973ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''انٹر دی ڈریگن‘‘ میں کنگ فو لیجنڈ بروس لی کو آخر بار دیکھا گیا تھا۔ فلم نے زبردست بزنس کیا تھا۔ اس فلم کا کُل بجٹ ساڑھے 8 لاکھ ڈالر تھا لیکن اس نے حیران کن طور پر 400 ملین ڈالر کمائے۔ اسے آج بھی سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ٭...ان کی دیگرفلموں میں ''وے آف دا ڈریگن‘‘ ، ''فسٹ آف فیوری‘‘ ، ''دی بگ باس‘‘، شامل ہیں۔٭... 1960ء کی دہائی میں مارشل آرٹ کی پرائیویٹ کلاس یا کوچنگ دینے کا بروس لی ایک گھنٹے کا دو سو پچھتر ڈالر (آج کے اڑھائی ہزار ڈالر) صرف ایک گھنٹے کے لیتے تھے۔٭...وہ مطالعے کے شوقین تھے اور اس کی لائبریری میں دو ہزار سے زائد کتب تھیں۔ وہ شاعری کا بھی شوق رکھتے تھے۔٭...ہاتھ پاوں چلانے والا یہ انسان ایک بہترین سینس آف ہیومر بھی رکھتا تھا۔اس کے قریبی دوست کہتے ہیں یہ جب موڈ میں ہوتا تو دوستوں کو ہنسانے میں ید طولی رکھتا تھا۔ ٭...فلمی دنیا کے عظیم ترین مارشل آرٹ آرٹسٹ کا انتقال 20 جولائی 1973ء کو 32 سال کی عمر میں ہوا۔٭...موت کی وجہ ایک دماغی سوجن (Cerebral edema)بتائی گئی، جو ایک دوا کے ری ایکشن کی وجہ سے ہوئی۔٭...ان کی موت کو آج تک ایک پراسرار واقعہ سمجھا جاتا ہے اور اس پر کئی قیاس آرائیاں موجود ہیں۔

آج کا دن

آج کا دن

انسان کا چاند پر پہلا قدم1969ء میں آج کے روز امریکی خلا باز نیل آرمسٹرانگ نے چاند کی سطح پر پہلا قدم رکھا۔ان کے تاریخی الفاظ تھے ''یہ انسان کا ایک چھوٹا سا قدم ہے، مگر انسانیت کی ایک بڑی چھلانگ ہے‘‘۔ ناساکے مشن ''اپالو 11‘‘ کے تحت یہ کامیابی حاصل کی گئی۔ہٹلر پرقاتلانہ حملہ20 جولائی 1944ء کو جرمن فوجی افسر کلاز فان سٹافنبرگ نے ایڈولف ہٹلر کو قتل کرنے کی کوشش کی، جو ناکام رہی۔ قاتلانہ حملے کا بظاہر مقصد جرمنی اور اس کی مسلح افواج کا سیاسی کنٹرول نازی پارٹی سے چھیننا تھا۔ ناکام حملے کے بعد 7ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا اور 4980افراد کو پھانسی دی گئی۔کوریاکی فضائی لڑائی کا خاتمہ20 جولائی 1953ء کو کوریا کی فضائی لڑائی کا خاتمہ ہوا۔ کوریائی جنگ 1950ء سے 1953ء تک جاری رہی، جو شمالی کوریا (جسے سوویت یونین اور چین کی حمایت حاصل تھی) اور جنوبی کوریا (جسے اقوام متحدہ، خاص طور پر امریکہ کی حمایت حاصل تھی) کے درمیان لڑی گئی۔کورفو ڈکلیئریشنسربیا اور یوگوسلاو کمیٹی کے درمیان 20 جولائی 1917ء کو یونانی جزیرے کورفو میں ایک معاہدہ طے پایا جسے '' کورفو ڈکلیئریشن‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا مقصد مستقبل میں متحد ہو کر کام کرنے کا طریقہ کار قائم کرنا تھا۔ قبرص پر ترکی کا حملہ1974 ء میں آج کے روز ترکی نے فوجی کارروائی کرتے ہوئے قبرص کے شمالی حصے پر قبضہ کر لیا، جس کے بعد آج تک جزیرہ دو حصوں میں منقسم ہے۔ترکی نے دعویٰ کیا کہ وہ ترک نسل کے قبرصی باشندوں کے تحفظ کیلئے مداخلت کر رہا ہے۔تقریباً 40ہزار ترک فوجی جزیرے پر اترے۔2لاکھ یونانی قبرصی بے گھر ہوئے جبکہ تقریباً 3ہزار افراد ہلاک اور ہزاروں لاپتہ ہوئے۔

زمین کی گردش میں تیزی! انسانیت کو لاحق   نیا خطرہ؟

زمین کی گردش میں تیزی! انسانیت کو لاحق نیا خطرہ؟

زمین مسلسل اپنے محور کے گرد گھوم رہی ہے، لیکن اگر اس گردش کی رفتار میں معمول سے زیادہ تیزی آ جائے تو زندگی، قدرتی نظام اور ماحولیاتی توازن کیلئے شدید خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔ ماہرین ارضیات، ماہرین موسمیات اور خلائی سائنسدان اس بڑھتی ہوئی رفتار کے ممکنہ نتائج پر شدید تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ اس موسم گرما میں آپ کی زندگی کے کچھ دن سب سے چھوٹے دنوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق 22 جولائی اور 5 اگست کو دن بالترتیب اوسط سے 1.38 اور 1.51 ملی سیکنڈ چھوٹے ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین کی گردش نے اچانک تیزی اختیار کر لی ہے، جس کے نتیجے میں ہر شمسی دن کی لمبائی سے تقریباً ایک ملی سیکنڈ کم ہو رہا ہے۔ اگر زمین یوں ہی تیزی سے گھومتی رہی تو کیا ہو گا؟چونکہ پلک جھپکنے میں تقریباً 100 ملی سیکنڈ لگتے ہیں، اس لیے طویل عرصے تک انسان کو کوئی بڑا فرق محسوس نہیں ہو گا۔ تاہم، سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر زمین کی رفتار بغیر کسی روک ٹوک کے بڑھتی رہی، تو آخرکار اس کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔ اگر زمین موجودہ رفتار سے صرف 100 میل فی گھنٹہ زیادہ تیزی سے گھومنے لگے، تو دنیا کو شدید طوفانوں، تباہ کن سیلابوں اور سیٹلائٹ نیٹ ورکس کے خاتمے جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر زمین کی گردش دوگنا ہو جائے تو غالباً زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا۔رفتار میں ایک میل فی گھنٹہ کا اضافہعام طور پر، زمین کو اپنی ایک گردش مکمل کرنے میں 24 گھنٹے یا 86,400 سیکنڈ لگتے ہیں، جسے شمسی دن کہا جاتا ہے۔ چاند کی پوزیشن یا آتش فشاں کے پھٹنے جیسے معمولی تغیرات اس دورانیے کو ایک ملی سیکنڈ آگے یا پیچھے کر سکتے ہیں، لیکن عمومی طور پر زمین کی گردش کافی مستحکم رہتی ہے۔چونکہ زمین ایک کرہ ہے، اس لیے اس کا محیط خطِ استوا پر سب سے زیادہ اور قطبین کے قریب سب سے کم ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ سطحِ زمین کی رفتار خطِ استوا کے قریب زیادہ اور قطبین کے قریب کم ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر جو شخص خطِ استوا پر کھڑا ہے وہ خلا میں تقریباً 1,037 میل فی گھنٹہ (1,668 کلومیٹر فی گھنٹہ) کی رفتار سے گردش کر رہا ہے، جبکہ لندن میں موجود شخص صرف تقریباً 646 میل فی گھنٹہ (1,041 کلومیٹر فی گھنٹہ) کی رفتار سے۔ ان رفتاروں کے مقابلے میں صرف ایک میل فی گھنٹہ کا اضافہ معمولی لگ سکتا ہے۔ ایسا ہونے کی صورت میں دن تقریباً ڈیڑھ منٹ چھوٹا ہو جائے گا، جو شاید ہمارے باڈی کلاک کو فوراً محسوس نہ ہو۔ ماہرین کے مطابق اسے محسوس کرنے میں شاید کئی سال لگ جائیں۔ تاہم، ایک غیر متوقع اثر یہ ہوگا کہ مدار میں موجود سیٹلائٹس اپنی سنکرونائزیشن (ہم آہنگی ) کھو بیٹھیں گے۔سیٹلائٹس زمین کی گردش کے برابر رفتار سے حرکت کرتے ہیں تاکہ وہ زمین پر ایک ہی مقام کے اوپر رہ سکیں۔ اگر زمین کی رفتار بڑھ گئی تو یہ سیٹلائٹس اپنی جگہ کھو دیں گے اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نیویگیشن، مواصلاتی اور موسمیاتی نگرانی کی خدمات میں خلل پڑنے لگے گا۔اس کا ایک اثر یہ ہوگا کہ زمین کی تیز گردش کے باعث پیدا ہونے والی اضافی ''سینٹری فیوگل فورس‘‘ (Centifugal Force)کی وجہ سے پانی قطبین سے خط استوا کی طرف منتقل ہونا شروع ہو جائے گا۔ صرف ایک میل فی گھنٹہ کی اضافی رفتار خط استوا کے گرد سمندری سطح کو چند انچ بلند کر سکتی ہے۔ یہ تبدیلی ان شہروں کیلئے جو سطح سمندر کے قریب یا اس سے نیچے واقع ہیں تباہ کن سیلاب کا سبب بن سکتی ہے۔100 میل فی گھنٹہ زیادہ رفتاراگر زمین کی رفتار بڑھتے بڑھتے اتنی ہو جائے کہ خط استوا پر یہ موجودہ رفتار سے 100 میل فی گھنٹہ زیادہ تیزی سے گھومنے لگے تو یہ حقیقتاً سنگین اور خطرناک نتائج پیدا کرئے گی۔اب سطحِ سمندر صرف چند انچ بلندنہیں ہوگی بلکہ پانی قطبین سے بہہ کر خط استوا کی طرف آئے گا اور اسے ڈبونا شروع کر دے گا۔جو لوگ اس تباہ کن سیلاب سے بچ بھی گئے، ان کیلئے دنیا ایک انتہائی سخت اور ناموافق جگہ بن جائے گی۔اب شمسی دن 22 گھنٹے پر مشتمل ہو گا، جس سے ہماری جسمانی حیاتیاتی گھڑی اپنی قدرتی ترتیب سے بگڑ جائے گی۔تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ دن کی روشنی بچانے کیلئے گھڑیاں آگے پیچھے کرنے جیسے معمولی تغیرات بھی دل کے دورے، فالج اور ٹریفک حادثات کی شرح میں اضافے کا سبب بنتے ہیں تو تصور کیجیے کہ زمین کی تیز تر گردش اس سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوگی۔مزید برآں، زمین کا موسم بھی انتہائی شدید ہوتا چلا جائے گا۔ ناسا کے ماہرِ فلکیات ڈاکٹر سٹین اوڈن والڈ (Dr Sten Odenwald) کا کہنا ہے:طوفانِ باد و باراں (hurricanes) زیادہ تیزی سے گھومیں گے،اس کا مطلب یہ ہوگا کہ طوفانوں کی گردش مزید شدید اور تباہ کن ہو جائے گی۔ایک ہزار میل فی گھنٹہاگر زمین کی گردش موجودہ رفتار سے ایک ہزار میل فی گھنٹہ تیز ہو جائے تو زمین تقریباً دوگنی رفتار سے گھومنے لگے گی اور اس کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔ماہرین کے مطابق یہ واضح طور پر ایک بڑی آفت ہو گی۔ ''سینٹری فیوگل فورس‘‘سیکڑوں فٹ پانی کو خط استوا کی طرف کھینچ لے جائے گی۔جس کی وجہ سے بلند ترین پہاڑوں کی چوٹیوں کے سوا خط استوا کے تمام علاقے پانی میں ڈوب جائیں گے۔وہاں تقریباً مسلسل بارشیں ہوں گی، اور وہ دھند اور کہر میں لپٹے رہیں گے۔ 17ہزار میل فی گھنٹہ انتہائی رفتاروں پر، جیسے کہ 17ہزار میل فی گھنٹہ جو معمول کی رفتار سے 17 گنا زیادہ ہے پر ''سینٹری فیوگل فورس‘‘اس قدر طاقتور ہو جائے گی کہ کششِ ثقل کو بھی مات دے دے گی۔خط استوا پر موجود شخص وزن سے محروم ہو جائے گا۔تاہم، امکان ہے کہ اس منظر کو دیکھنے کیلئے کوئی موجود نہ ہو کیونکہ خط استوا بہت پہلے ہی ناقابلِ رہائش بن چکا ہوگا۔24ہزار میل فی گھنٹہ آخرکار، جب زمین کی رفتار خطِ استوا پر تقریباً 24ہزار میل فی گھنٹہ (38,600 کلومیٹر فی گھنٹہ) تک پہنچنے لگے گی، تو جیسا کہ ہم زندگی کو جانتے ہیں، وہ تقریباً ختم ہو جائے گی۔اس رفتار پر ''سینٹری فیوگل فورسز‘‘ اتنی طاقتور ہو جائیں گی کہ وہ زمین کو ایک گھومتی ہوئی مٹی کی گیند کی طرح چپٹا کرنا شروع کر دیں گی۔ زمین کی سطح میں دراڑیں پڑ جائیں گی، ہمیں زبردست زلزلے دیکھنے کو ملیں گے۔٭٭٭٭٭٭  

آج تم یاد بے حساب آئے! ساغرصدیقی

آج تم یاد بے حساب آئے! ساغرصدیقی

٭...1928ء میں انبالہ میں پیدا ہونے والے ساغر صدیقی کااصل نام محمد اختر تھا۔٭...تیرہ چودہ سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کیا ،شروع میں قلمی نام ناصر حجازی تھا ۔٭... 1944ء میں پہلی بار امرتسر میں ہونے والے ''آل انڈیا مشاعرہ‘‘ میں شرکت کی ۔ ٭...تقسیمِ ہند کے بعد لاہور آ گئے۔٭...1947ء سے 1952ء تک کا زمانہ ان کیلئے سنہرا دور ثابت ہوا۔ کئی روزناموں، ماہوار ادبی جریدوں اور ہفتہ وار رسالوں میںان کا کلام بڑے نمایاں انداز میں شائع ہوتا رہا۔٭...ساغر کی غزلوں کے 5 مجموعے ''زہر آرزو‘‘ (1960ء) ، ''غم بہار‘‘ (1964ء) ، ''لوح جنوں‘‘(1970ء ) ، شیشہ دل ‘‘ اور ''شب آگہی‘‘( 1972ء)ان کی زندگی میں شائع ہوئے۔ ''مقتل گل‘‘ ان کی وفات کے بعد شائع ہوا۔ ٭...تقریباً35فلمی گیت لکھے ۔1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں کے دوران ترانے بھی لکھے، نعتیں بھی کہیں جو ''سبز گنبد ‘‘ کے نام سے مجموعے کی صورت میں طبع ہوئیں۔ ٭... 1952ء کے بعد ساغر کی زندگی خراب صحبت کی بدولت ہر طرح کے نشے کا شکار ہو گئی۔٭...عالم مدہوشی میں بھی مشقِ سخن جاری رہتااور ہر صنف سخن میں شاہکار تخلیق کرتے جاتے۔٭...زندگی کے آخری ایام داتا دربار کے سامنے فٹ پاتھ پر گزارے ،19 جولائی 1974ء کو اسی فٹ پاتھ پر ان کا انتقال ہوا، میانی صاحب قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔ساغر کے مشہور فلمی گیت٭...موجیں تڑپ رہی ہیں،کنارے اداس ہیں(انوکھی داستان)٭...میرے ٹوٹے من کی بات زمانہ کیا جانے(شالیمار)٭...آگ من کو لگائیں نظارے،سجنوا ہمارے بسیں پردیس (باپ کا گناہ)٭...کوئی اپنی نشانی دے گیا، دل لے گیا(دو آنسو)٭...محفلیں لٹ گئیں، جذبات نے دم توڑ دیا(سرفروش)٭...اب شمع اکیلی جلتی ہے، اور روٹھ گئے ہیں پروانے(غلام)٭...چاندچمکا تھا پیپل کی اوٹ میں(انجام)٭...دل کو ملا دل دار(باغی)٭...دیکھے زمانہ میرا نشانہ٭...میری زلفوں کی لٹ بڑی جادوگرساغر کے چند اشعاربھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیےتم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے٭٭٭ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیںورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں٭٭٭اب کہاں ایسی طبیعت والےچوٹ کھا کر جو دعا کرتے تھے٭٭٭زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہےجانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں٭٭٭کانٹے تو خیر کانٹے ہیں اس کا گلہ ہی کیاپھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا٭٭٭آہن کی سرخ تال پہ ہم رقص کر گئےتقدیر تیری چال پہ ہم رقص کر گئے٭٭٭پنچھی بنے تو رفعت افلاک پر اڑےاہل زمیں کے حال پہ ہم رقص کر گئے٭٭٭فقیہ شہر نے تہمت لگائی ساغر پر یہ شخص درد کی دولت کو عام کرتا ہے٭٭٭بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجئےتم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجئےمنزل نہیں ہوں خضر نہیں، راہزن نہیںمنزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجئےزندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہےجانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیںمیں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہےمیں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں یاد رکھنا ہماری تربت کو قرض ہے تم پہ چار پھولوں کاغم کے مجرم خوشی کے مجرم ہیںلوگ اب زندگی کے مجرم ہیں دشمنی آپ کی عنایت ہے ہم فقط دوستی کے مجرم ہیں