گزشتہ چند دہائیوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں جو انقلابی پیشرفت ہوئی ہیں، وہ اب ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں، جہاں انسان خود اپنی حدود کو پیچھے چھوڑنے جا رہا ہے۔ 2030ء تک، تیز رفتار ترقی انسانیت کی شکل بدلنے والی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ 2030ء تک انسانوں کے پاس وہ حیرت انگیز صلاحیتیں ہوں گی جو ماضی میں صرف فلموں، ناولوں اور سائنس فکشن کہانیوں میں دیکھی یا سوچی جاتی تھیں۔ روبوٹک ایکسو اسکیلٹن لوگوں کو بھاری اشیاء آسانی سے اٹھانے کے قابل بنا سکتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت سے لیس آلات (سمارٹ عینکیں اور ایئربڈز) حقیقت سے قریب تر ماحول اور لمحہ بہ لمحہ معلومات فراہم کریں گے۔ٹیکنالوجی کے علمبردار گوگل کے سابق انجینئر رے کرزویل کا ماننا ہے کہ یہ سب ایجادات انسان اور مشین کے انضمام کی ابتدائی کڑیاں ہیں، جہاں دماغ اور کمپیوٹر کے درمیان براہِ راست رابطہ ڈیجیٹل ذہانت تک رسائی ممکن بنا دے گا۔اگرچہ ان میں سے کئی ایجادات پر پہلے ہی کام جاری ہے، کچھ ابھی تجرباتی مراحل میں ہیں اور انہیں مختلف چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں پرائیویسی اور حفاظت کے خدشات بھی شامل ہیں۔ اس کے باوجود ان میں سے کچھ مستقبل کی ٹیکنالوجیز آئندہ پانچ برسوں میں حقیقت کا روپ دھار سکتی ہیں، جو انسانی طاقت، ذہانت اور حسیات کو ایسی سطح پر لے جائیں گی جو پہلے کبھی ممکن نہ تھی۔غیر معمولی طاقت روبوٹک ایکسو اسکیلٹن انسانوں کو ایسی طاقت فراہم کر سکتے ہیں جو عام انسانی صلاحیتوں سے کہیں بڑھ کر ہو،چاہے وہ فیکٹریوں میں بھاری اشیاء اٹھانے جیسا کارنامہ ہو یا میدانِ جنگ میں سپاہیوں کو زیادہ طاقتور بنانا۔ امریکہ میں قائم روبوٹکس کمپنی ''سارکوس روبوٹکس‘‘ پہلے ہی ایسا ایکسو اسکیلٹن پیش کر چکی ہے جس میں ''طاقت میں اضافے‘‘ کا تناسب 20گنا ہے۔یعنی ایک عام شخص اس سوٹ کی مدد سے 200 پاؤنڈ (تقریباً 90 کلوگرام) وزن آسانی سے اٹھا سکتا ہے۔دوسری ایکسو اسکیلٹن ٹیکنالوجیز، جیسے جرمن بائیونک کا ''ایکسیا‘‘ ایکسو اسکیلیٹن، مصنوعی ذہانت پر مبنی ہے۔ یہ جدید آلات جرمنی کے اسپتالوں میں استعمال ہو رہے ہیں۔زخموں کا فوری علاج آنے والے پانچ برسوں میں انسانوں کے جسم میں نہایت باریک 'نینو بوٹس‘ دوڑ رہے ہوں گے، جو صحت کی نگہداشت کا کام انجام دیں گے۔ ان کی مدد سے انسان چوٹوں سے تیزی سے صحت یاب ہو سکیں گے۔غیر معمولی بصارت2030ء تک ایسے کنٹیکٹ لینز دستیاب ہوں گے جو پہننے والے کو نہ صرف بہت دور تک دیکھنے کی صلاحیت دیںگے، بلکہ کمپیوٹر کی معلومات بھی براہِ راست آنکھوں میں منتقل کر سکیں گے۔حال ہی میں چین کے سائنس دانوں نے ایسے کنٹیکٹ لینز تیار کیے ہیں جو اندھیرے میں دیکھنے کی صلاحیت فراہم کرتے ہیں۔ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی آف چائنا کے پروفیسر تیان شوئے (Tian Xue) کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے ان کی یہ تحقیق دیگر سائنس دانوں کو اس قابل بنائے گی کہ وہ ایسے لینز تیار کریں جو انسانوں کو ''سپر وژن‘‘ جیسی صلاحیت عطا کر سکیں۔ہر چیز کا فوری علم 2030ء تک مصنوعی ذہانت سے لیس ویئرایبلز (پہننے کے قابل) آلات، جیسے ایئربڈز، انسانوں کو ڈیجیٹل سپر پاورز جیسی صلاحیتیں دے سکتے ہیں۔یعنی ہر کوئی لمحوں میں اپنے سوالات کے جوابات حاصل کر سکے گا۔ میٹا (Meta) پہلے ہی اپنی ری بین عینکوں میں AI شامل کر رہا ہے، جبکہ گوگل ایک نیا آپریٹنگ سسٹم تیار کر رہا ہے جو ایکس آر (XR)، یعنی ''آگمینٹڈ رئیلٹی‘‘ (Augmented Reality) اور ''ورچوئل رئیلٹی (Virtual Reality)کیلئے مخصوص ہو گا۔کمپیوٹر سائنسدان لوئس روزنبرگ کا کہنا ہے کہ یہ غیر معمولی صلاحیتیں AI، ''آگمینٹڈ رئیلٹی‘‘ اور ''کنورسیشنل کمپیوٹنگ‘‘ کے ملاپ سے جنم لیں گی۔یہ صلاحیتیں ایسے AI ایجنٹس کے ذریعے سامنے آئیں گی جو جسم پر پہنے جانے والے آلات میں نصب ہوں گے اوروہ ہمیں اپنی دنیا کو بہتر طور پر سمجھنے اور جانچنے کی صلاحیت فراہم کریں گے۔ روزنبرگ اس نئے رجحان کو ''آگمینٹڈ منٹیلٹی‘‘ (Augmented Mentality)کا نام دیتے ہیں اور پیش گوئی کرتے ہیں کہ ''2030ء تک، ہم میں سے اکثریت اپنی روزمرہ زندگی میں ''کونٹکسٹ آویئر اے آئی‘‘ (Context aware AI) ایجنٹس کے ساتھ زندگی گزار رہی ہو گی، جو ہمارے تجربات میں ڈیجیٹل سپر پاورز شامل کریں گے‘‘۔2030ء کوئی دور کی بات نہیں، یہ صرف چند سال دور ہے۔ اگر موجودہ رفتار سے سائنسی ترقی جاری رہی تو جلد ہی ہم ایسے انسانوں کو دیکھیں گے جو کسی''سپر ہیرو‘‘ سے کم نہ ہوں گے۔