دنیا بدلنے والے 15موجد جو گمنامی کا شکار

دنیا بدلنے والے 15موجد جو گمنامی کا شکار

اسپیشل فیچر

تحریر : محمد علی


تاریخِ انسانیت ایسے افراد سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے دنیا کو ایک نیا رخ دیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ان کے نام ماضی کی گرد میں دب کر رہ گئے۔ ان کی ایجادات نے معاشروں، معیشتوں اور روزمرہ زندگی میں انقلابی تبدیلیاں لائیں، مگر بدقسمتی سے آج بہت سے لوگ ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ آئیے ایسے 15 موجدوں کا ذکر کرتے ہیں جنہوں نے دنیا بدلی مگر انہیں فراموش کر دیا گیا۔ایجاد محض مشین یا فارمولہ نہیں ہوتی بلکہ یہ انسان کی ذہنی، جسمانی اور علمی جدوجہد کا نتیجہ ہوتی ہے،مگر کئی ایسے ذہین لوگ جنہوں نے انسانیت کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا وہ تاریخ کے صفحات میں کھو گئے۔ضروری ہے کہ ان گمنام ہیروز کو یاد رکھا جائے اور ان کی خدمات کو سراہا جائے تاکہ آنے والی نسلیں ان سے تحریک لے کر نئی راہیں کھول سکیں۔
میری اینڈرسن :ونڈ سکرین
وائپر کی موجد
1903ء میں نیویارک میں اپنی گاڑی کے شیشے پر برف اور بارش صاف کرنے کے دوران میری نے کھڑکی سے باہر نکلنے والے ڈرائیوروں کا مشاہدہ کیا۔ اسی سے متاثر ہو کر انہوں نے پہلا ونڈ سکرین وائپر سسٹم تیار کیا جس کے لیے انہیں 10 نومبر 1903ء کو امریکی پیٹنٹ ملا۔
گریس ہوپر: کوبول
زبان کی خالق
گریس ہوپر کمپیوٹر پروگرامنگ کی بانیوں میں سے ایک ہیں۔ ان کی تیارکردہ کوبول (COBOL) لینگو ئج نے بزنس سافٹ ویئر کی بنیاد رکھی۔ مگر بیشتر لوگ آج ان کونہیں جانتے۔
ایلس گائے: پہلی فلم ساز
فرانسیسی ہدایتکارہ ایلس گائے نے 1896ء میں پہلی فکشن فلم بنائی جب سینما محض تجرباتی مرحلے میں تھا لیکن فلمی تاریخ میں ان کا نام شاذ و نادر ہی لیا جاتا ہے۔
میری ایننگ : جیالوجی کی بانی خواتین میں شامل
میری ایننگ نے فوسلز کی دریافت سے زمین کی تاریخ کے نئے در کھولے، لیکن سائنسی دنیا میں عورت ہونے کی وجہ سے اس کی خدمات کو برسوں تک تسلیم نہیں کیا گیا۔
اولیور ایونز : آٹومیٹک
فیکٹری کا بانی
18ویں صدی میں ایونز نے صنعتی انقلاب کی بنیاد رکھنے والی آٹومیٹڈ ملز تیار کیں لیکن صنعتی تاریخ میں اس کا ذکر شاذونادر ہی ہوتا ہے۔
لوئیس لیٹری: سیفٹی لفٹ کا موجد
لوئیس نے 1850ء میں ایسی لفٹ بریک ایجاد کی جس کے بغیر بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر ممکن نہ ہوتی۔ اس کے باوجود اس کا نام بہت کم لوگ جانتے ہیں۔
ایلن ٹیورنگ:
کمپیوٹر سائنس کا باوا آدم
ٹیورنگ نے دوسری جنگ عظیم کے دوران کوڈز توڑ کر لاکھوں جانیں بچائیں اور کمپیوٹر سائنس کی بنیاد رکھی، لیکن اسے طویل عرصہ تک نظر انداز کیا گیا۔
نیکولا ٹیسلا : بجلی کا موجد
بجلی کے کرنٹ، وائرلیس ٹیکنالوجی اور ریڈیو جیسے انقلابی خیالات پیش کرنے والے ٹیسلا کو اپنے وقت میں مالی مدد نہ ملی اور وہ گمنامی میں دنیا سے رخصت ہوا۔
لیزا میئٹنر : نیوکلئیر فزکس کی موجد
جرمن فزسسٹ لیزا میئٹنر نے نیوکلئیر فشن (Nuclear fission) کے اصول دریافت کیے جس پر بعد میں نوبیل انعام اس کے مرد ساتھی کو ملا جبکہ وہ گمنام رہی۔
نور عنایت خان : خفیہ جنگی ہیروئن
برصغیر سے تعلق رکھنے والی نور نے دوسری جنگ عظیم کے دوران نازیوں کے خلاف جاسوسی کی، لیکن اس کی قربانی اور بہادری کو بہت کم تسلیم کیا گیا۔
گیریٹ مورگن : ٹریفک سگنل کا موجد
ایک افریقی نژاد امریکی موجد،1922 ء میں ایک حادثے نے انہیں ٹریفک کے بہتر نظام کی تحریک دی مگر نسلی امتیاز کے باعث ان کی خدمات کو اکثر نظرانداز کیا گیا۔
مارگریٹ نائٹ : پیپر بیگ مشین کی موجد
مارگریٹ نے1871ء میں پہلی مشین تیار کی جو کاغذ کو فلیٹ تلے بیگ میں بدل دیتی تھی، لیکن اس کا پیٹنٹ ایک مرد نے چوری کرنے کی کوشش کی اور آج بھی بہت کم لوگ اسے جانتے ہیں۔
ایلیشا گرے : ٹیلیفون
کی شریک موجد
ٹیلیفون کی ایجاد کے لیے الیگزینڈر گراہم بیل کے ساتھ پیٹنٹ کی دوڑ میں شامل گرے نے اپنی ایجاد سے دنیا بدل دی مگر ساری شہرت بیل کو ملی۔
فلو رائڈ ایجاد کرنے
والے ماہرین
دانتوں کو کیوٹیز سے بچانے والی فلورائیڈ ٹریٹمنٹ ایجاد کرنے والے کئی سائنسدان تھے جن کے نام تاریخ میں دفن ہو چکے مگر ان کی دریافت نے دندان سازی کو انقلاب بخشا۔
ہیڈی لامر : وائرلیس
کمیونیکیشن کی خالق
ایک مشہور اداکارہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہیڈی نے وائرلیس سگنلز کی بنیادی ٹیکنالوجی ایجاد کی جو آج WiFi اور Bluetooth کی شکل میں استعمال ہو رہی ہے۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
سائنسدانوں کی حیران کن پیش گوئی 2030ء تک انسان سپر پاوربن جائے گا؟

سائنسدانوں کی حیران کن پیش گوئی 2030ء تک انسان سپر پاوربن جائے گا؟

گزشتہ چند دہائیوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں جو انقلابی پیشرفت ہوئی ہیں، وہ اب ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں، جہاں انسان خود اپنی حدود کو پیچھے چھوڑنے جا رہا ہے۔ 2030ء تک، تیز رفتار ترقی انسانیت کی شکل بدلنے والی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ 2030ء تک انسانوں کے پاس وہ حیرت انگیز صلاحیتیں ہوں گی جو ماضی میں صرف فلموں، ناولوں اور سائنس فکشن کہانیوں میں دیکھی یا سوچی جاتی تھیں۔ روبوٹک ایکسو اسکیلٹن لوگوں کو بھاری اشیاء آسانی سے اٹھانے کے قابل بنا سکتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت سے لیس آلات (سمارٹ عینکیں اور ایئربڈز) حقیقت سے قریب تر ماحول اور لمحہ بہ لمحہ معلومات فراہم کریں گے۔ٹیکنالوجی کے علمبردار گوگل کے سابق انجینئر رے کرزویل کا ماننا ہے کہ یہ سب ایجادات انسان اور مشین کے انضمام کی ابتدائی کڑیاں ہیں، جہاں دماغ اور کمپیوٹر کے درمیان براہِ راست رابطہ ڈیجیٹل ذہانت تک رسائی ممکن بنا دے گا۔اگرچہ ان میں سے کئی ایجادات پر پہلے ہی کام جاری ہے، کچھ ابھی تجرباتی مراحل میں ہیں اور انہیں مختلف چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں پرائیویسی اور حفاظت کے خدشات بھی شامل ہیں۔ اس کے باوجود ان میں سے کچھ مستقبل کی ٹیکنالوجیز آئندہ پانچ برسوں میں حقیقت کا روپ دھار سکتی ہیں، جو انسانی طاقت، ذہانت اور حسیات کو ایسی سطح پر لے جائیں گی جو پہلے کبھی ممکن نہ تھی۔غیر معمولی طاقت روبوٹک ایکسو اسکیلٹن انسانوں کو ایسی طاقت فراہم کر سکتے ہیں جو عام انسانی صلاحیتوں سے کہیں بڑھ کر ہو،چاہے وہ فیکٹریوں میں بھاری اشیاء اٹھانے جیسا کارنامہ ہو یا میدانِ جنگ میں سپاہیوں کو زیادہ طاقتور بنانا۔ امریکہ میں قائم روبوٹکس کمپنی ''سارکوس روبوٹکس‘‘ پہلے ہی ایسا ایکسو اسکیلٹن پیش کر چکی ہے جس میں ''طاقت میں اضافے‘‘ کا تناسب 20گنا ہے۔یعنی ایک عام شخص اس سوٹ کی مدد سے 200 پاؤنڈ (تقریباً 90 کلوگرام) وزن آسانی سے اٹھا سکتا ہے۔دوسری ایکسو اسکیلٹن ٹیکنالوجیز، جیسے جرمن بائیونک کا ''ایکسیا‘‘ ایکسو اسکیلیٹن، مصنوعی ذہانت پر مبنی ہے۔ یہ جدید آلات جرمنی کے اسپتالوں میں استعمال ہو رہے ہیں۔زخموں کا فوری علاج آنے والے پانچ برسوں میں انسانوں کے جسم میں نہایت باریک 'نینو بوٹس‘ دوڑ رہے ہوں گے، جو صحت کی نگہداشت کا کام انجام دیں گے۔ ان کی مدد سے انسان چوٹوں سے تیزی سے صحت یاب ہو سکیں گے۔غیر معمولی بصارت2030ء تک ایسے کنٹیکٹ لینز دستیاب ہوں گے جو پہننے والے کو نہ صرف بہت دور تک دیکھنے کی صلاحیت دیںگے، بلکہ کمپیوٹر کی معلومات بھی براہِ راست آنکھوں میں منتقل کر سکیں گے۔حال ہی میں چین کے سائنس دانوں نے ایسے کنٹیکٹ لینز تیار کیے ہیں جو اندھیرے میں دیکھنے کی صلاحیت فراہم کرتے ہیں۔ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی آف چائنا کے پروفیسر تیان شوئے (Tian Xue) کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے ان کی یہ تحقیق دیگر سائنس دانوں کو اس قابل بنائے گی کہ وہ ایسے لینز تیار کریں جو انسانوں کو ''سپر وژن‘‘ جیسی صلاحیت عطا کر سکیں۔ہر چیز کا فوری علم 2030ء تک مصنوعی ذہانت سے لیس ویئرایبلز (پہننے کے قابل) آلات، جیسے ایئربڈز، انسانوں کو ڈیجیٹل سپر پاورز جیسی صلاحیتیں دے سکتے ہیں۔یعنی ہر کوئی لمحوں میں اپنے سوالات کے جوابات حاصل کر سکے گا۔ میٹا (Meta) پہلے ہی اپنی ری بین عینکوں میں AI شامل کر رہا ہے، جبکہ گوگل ایک نیا آپریٹنگ سسٹم تیار کر رہا ہے جو ایکس آر (XR)، یعنی ''آگمینٹڈ رئیلٹی‘‘ (Augmented Reality) اور ''ورچوئل رئیلٹی (Virtual Reality)کیلئے مخصوص ہو گا۔کمپیوٹر سائنسدان لوئس روزنبرگ کا کہنا ہے کہ یہ غیر معمولی صلاحیتیں AI، ''آگمینٹڈ رئیلٹی‘‘ اور ''کنورسیشنل کمپیوٹنگ‘‘ کے ملاپ سے جنم لیں گی۔یہ صلاحیتیں ایسے AI ایجنٹس کے ذریعے سامنے آئیں گی جو جسم پر پہنے جانے والے آلات میں نصب ہوں گے اوروہ ہمیں اپنی دنیا کو بہتر طور پر سمجھنے اور جانچنے کی صلاحیت فراہم کریں گے۔ روزنبرگ اس نئے رجحان کو ''آگمینٹڈ منٹیلٹی‘‘ (Augmented Mentality)کا نام دیتے ہیں اور پیش گوئی کرتے ہیں کہ ''2030ء تک، ہم میں سے اکثریت اپنی روزمرہ زندگی میں ''کونٹکسٹ آویئر اے آئی‘‘ (Context aware AI) ایجنٹس کے ساتھ زندگی گزار رہی ہو گی، جو ہمارے تجربات میں ڈیجیٹل سپر پاورز شامل کریں گے‘‘۔2030ء کوئی دور کی بات نہیں، یہ صرف چند سال دور ہے۔ اگر موجودہ رفتار سے سائنسی ترقی جاری رہی تو جلد ہی ہم ایسے انسانوں کو دیکھیں گے جو کسی''سپر ہیرو‘‘ سے کم نہ ہوں گے۔   

عائشہ خان اور خالدہ ریاست  دو عظیم فنکارہ بہنیں

عائشہ خان اور خالدہ ریاست دو عظیم فنکارہ بہنیں

اتر پردیش ہندوستان میں آباد اردو اسپیکنگ پٹھان جن کے اجداد افغانستان سے ہندوستان آئے تھے، ان پٹھانوں نے اپنی شجاعت اور بہادری سے حکومت میں اعلیٰ عہدے حاصل کیے اور کچھ نے نوابی ریاستیں بھی قائم کیں۔ ایسا ہی ایک گھرانہ تھا رعب دار حمید اللہ خان کا۔ کون جانتا تھا حمید اللہ خان کی پوتیاں اداکاری کے میدان میں اپنا لوہا منوائیں گی۔ حمید اللہ خان کا بیٹا ریاست اللہ خان 1914ء میں پیدا ہوا، پولیس سروس اختیار کی، تقسیم ہندوستان کے بعد پاکستان میں پولیس کے اعلیٰ عہدوں پر ملازمت کی۔ ان کی اہلیہ امیر جہاں انتہائی سلجھی ہوئی شائستہ اطوار کی مالک خاتون تھیں۔ وضع دار اور رکھ رکھائو والی خاتون جیسی کہ اردو اسپیکنگ گھرانوں کی خواتین ہوا کرتی ہیں۔ ان کے 9 بچے تھے جن میں دو بیٹے راحت اللہ خان، خالد اللہ خان اور سات بیٹیاں تھیں جن میں عائشہ ریاست، طاہرہ ریاست، سائرہ ریاست، فردوس ریاست، عذرا ریاست، خالدہ ریاست اور دیگر شامل تھیں۔ ایس پی ریاست اللہ 1981ء میں وفات پاگئے۔ عائشہ ریاست 1941ء میں متحدہ ہندوستان میں پیدا ہوئیں، تقسیم ہندوستان کے بعدان کا گھرانہ پاکستان کراچی آکر آباد ہو گیا۔ عائشہ ریاست نے کراچی یونی ورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور ریڈیو پاکستان سے اپنے فن کا آغاز کیا پھر سرکاری ٹی وی پر ڈرامہ سیریل میں اعلی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کا شستہ اردو بولنے کا انداز اور عمدہ انداز نشست و برخاست ناظرین کے دل موہ لیتا تھا۔ وہ شکل و صورت اور قد کاٹھ میں اپنے والد سے مشابہ تھیں۔ سرو قامت، خوش شکل اور دلکش سراپا۔ ان کے مشہور ڈراموںمیں افشاں، عروسہ، فیملی 93 اور مہندی نمایاں ہیں۔ پرائیوٹ چینلز سے بھی انہوں نے کئی ڈرامہ سیریل کیے۔ ان کی تعداد پچاس سے زیادہ ہے ، ٹیلی فلمز اور فلمز اس کے علاوہ ہیں۔ وہ باصلاحیت اور منجھی ہوئی فنکارہ تھیں۔ان کی شادی ڈی ایس پی وجاہت لطیف کے ساتھ ہوئی۔ ان کے دو بیٹے احمد لطیف اور محمد افضل لطیف ہیں۔ ان کے بڑے بیٹے افضل لطیف ایکس چیئرمین سی ڈی اے اسلام آباد اور اس کے بعد سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ رہ چکے ہیں۔ ایک بیٹی عالیہ لطیف ہے جو کہ نوے کی دہائی کی سپر ماڈل ہیں۔ انہوں نے 1981ء میں ڈرامہ سیریل افشاں کیا اور آخری ڈرامہ سیریل 2019ء میں ''بھروسہ پیار تیرا‘‘ میں کام کیا۔ اس کے بعد ان کی صحت خراب رہنے لگی۔ 13 جون 2025ء کو ان کا کراچی گلشن اقبال بلاک 7 میں انتقال ہوا۔ عائشہ خان کو والد کے پہلو میں سپرد خاک کردیا گیا۔ عائشہ خان کی سب سے چھوٹی بہن جو کہ گھر میں منی کے نام سے جانی جاتی تھیں، خالدہ ریاست تھیں۔ وہ 1953ء میں کراچی میں پیدا ہوئیں۔ خالدہ نے بہترین تعلیمی اداروں سے علم حاصل کیا۔ خالدہ نے 1975ء میں ''ایک محبت سو افسانے‘‘ سے فنی کریئر کا آغاز کیا۔ کئی ڈرامہ سیریل میں کام کیا جن میں بندش، نمدار، دھوپ دیوار، سلور جوبلی، تعبیر، پڑوسی اور کئی ٹیلی فلمز شامل ہیں۔ ان کے دو بیٹے رضا فیصل اور علی فیصل ہیں۔ اپنی جاندار اداکاری کی وجہ سے اسی اور نوے کی دہائی میں پی ٹی وی پر راج کیا۔ کینسر کے مرض کا شکار ہو کر 1996ء میں وفات پائی اور سخی حسن قبرستان میں والد اور والدہ کے قریب مدفون ہوئیں۔ دونوں بہنیں بہترین فنکارہ تھیں دونوں نے بہت شہرت حاصل کی۔ دونوں کا اعلی تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق تھا، جہاں روایات اور اقدار کی پاسداری کی جاتی ہے۔ ان کے عزیز و اقارب کا شمار معاشرے کے سلجھے ہوئے باشعور افراد میں کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالی دونوں بہنوں کے درجات بلند فرمائے آمین۔نادیہ عنبر لودھی ایک لکھاری ہیں، ان کے مضامین ملک کے موقر جرائد کی زینت بنتے رہتے ہیں 

وہ 5 فیصلے جن پر آپ  ہمیشہ پچھتائیں گے!

وہ 5 فیصلے جن پر آپ ہمیشہ پچھتائیں گے!

زندگی کی تیز رفتاری، وقت کی قلت اور روزمرہ کی مصروفیات میں انسان بعض اوقات ایسے فیصلے کر بیٹھتا ہے جن کے نتائج وقتی طور پر تو معمولی لگتے ہیں، مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہ معمولی فیصلے زندگی کے بڑے پچھتاووں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ماہرین نفسیات، عمر رسیدہ افراد کے تجربات اور مختلف سرووں کے تجزیے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ زندگی کے اختتام پر انسان کو جو سب سے زیادہ افسوس ہوتا ہے، وہ ان فیصلوں پر ہوتا ہے جو اس نے ''نہیں‘‘ کیے، یا جن سے اس نے ''کنی کترائی‘‘۔آئیے جائزہ لیتے ہیں ان پانچ فیصلوں کا جن پر اکثر لوگ آخر عمر تک پچھتاتے ہیں۔ سخت محنت کیوں کی!سخت محنت کرنا ایک عمدہ طریقہ ہے دنیا پر اثر ڈالنے کا، سیکھنے کا، بڑھنے کا، کچھ حاصل کرنے کا اور بعض اوقات خوشی پانے کا بھی۔ مگر یہ مسئلہ بن جاتا ہے جب آپ یہ سب اُن لوگوں کی قیمت پر کرتے ہیں جو آپ کے سب سے قریب ہوتے ہیں۔ افسوسناک طور پر ہم اکثر ان لوگوں کیلئے پیسہ کمانے کی خاطر محنت کرتے ہیں جن سے ہمیں محبت ہوتی ہے، یہ سمجھے بغیر کہ وہ ہماری موجودگی کو پیسے سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جو کام آپ کو پسند ہو اور جن لوگوں سے آپ کو محبت ہو، ان دونوں میں توازن قائم کریں۔ ورنہ ایک دن پیچھے مڑ کر دیکھیں گے تو افسوس ہوگا کہ آپ نے اُن لوگوں پر زیادہ توجہ کیوں نہ دی جن سے آپ کو محبت تھی۔ اپنے جذبات کا اظہار کیوں نہ کیاہمیں بچپن سے سکھایا جاتا ہے کہ جذبات خطرناک ہوتے ہیں اور انہیں دبانا اور قابو میں رکھنا ضروری ہے۔ شروع میں یہ طریقہ کارگر رہتا ہے، مگر جذبات کو دبانے سے وہ اندر ہی اندر بڑھتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ایک دن پھٹ پڑتے ہیں۔ سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اپنے احساسات کا کھل کر اظہار کریں۔ اگرچہ ایسا کرنا شروع میں تکلیف دہ ہوتا ہے، لیکن یہ آپ کو ایماندار اور شفاف بناتا ہے۔مثال کے طور پر اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی آمدنی کم ہے تو اپنے باس سے ملاقات طے کریں اور دلائل کے ساتھ اپنی قدرو قیمت بتائیں۔ نتیجتاً یا تو وہ آپ سے متفق ہو کر آپ کی تنخواہ بڑھا دے گا یا آپ کو بتائے گا کہ آپ کو مزید قیمتی بننے کیلئے کیا کرنا چاہیے۔دوسری طرف، اگر آپ کچھ نہ کریں اور اپنے جذبات کو اندر ہی اندر سڑنے دیں تو یہ آپ کی کارکردگی کو متاثر کرے گا اور آپ کو اپنے مقصد تک پہنچنے سے روک دے گا۔دوستوں سے رابطے میں کیوں نہ رہے!جب آپ روزمرہ کی مصروفیات میں الجھ جاتے ہیں، تو یہ بھول جانا آسان ہو جاتا ہے کہ لوگ آپ کیلئے کتنے اہم ہیں، خاص طور پر وہ جن کیلئے وقت نکالنا پڑتا ہے۔ پرانے دوستوں سے تعلق وہ پہلا رشتہ ہوتا ہے جو مصروفیات کے دوران نظر انداز ہو جاتا ہے۔یہ افسوسناک ہے کیونکہ دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا تناؤ کم کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ قریبی دوست آپ کو توانائی اور ایک احساسِ وابستگی دیتے ہیں، جو کوئی اور نہیں دے سکتا۔ خود کو خوش ہونے کی اجازت کیوں نہ دی!جب زندگی اپنے اختتام کے قریب پہنچتی ہے، تو وہ ساری مشکلات جن سے آپ گزرے ہوتے ہیں، اچانک بے معنی لگنے لگتی ہیں، ان اچھے لمحوں کے مقابلے میں جو آپ نے جئے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کو آخرکار احساس ہوتا ہے کہ زیادہ تر تکلیفیں ہماری اپنی مرضی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔بدقسمتی سے، زیادہ تر لوگ یہ حقیقت بہت دیر سے سمجھتے ہیں۔ اگرچہ ہم سب کو درد اور تکلیف کا سامنا کرنا ہی ہوتا ہے، لیکن ہم اس پر کیسے ردعمل دیتے ہیں، یہ ہمارے مکمل اختیار میں ہوتا ہے، اور اسی طرح خوشی محسوس کرنا بھی۔ہنسنا، مسکرانا اور خوش رہنا سیکھنا، خاص طور پر دباؤ کے لمحوں میں ایک چیلنج ضرور ہے، مگر یہ ایک ایسا چیلنج ہے جو مکمل طور پر کوشش کے قابل ہے۔یہ پانچ فیصلے بظاہر سادہ اور معمولی لگتے ہیں، لیکن یہی فیصلے زندگی کے بڑے پچھتاوے بن جاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ انسان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ کامیابی، شہرت یا دولت سے بڑھ کر اہم چیزیں احساس، محبت، خود شناسی، اور سچائی ہیں۔زندگی ایک موقع ہے اور یہ موقع صرف ایک بار ملتا ہے۔کوشش کریں کہ آپ کے فیصلے ایسے ہوں جو آنے والے وقت میں فخر کا باعث بنیں، نہ کہ پچھتاوے کا۔   

آج کا دن

آج کا دن

نیوٹن کی '' پرنسپیا‘‘ شائع ہوئیآئزک نیوٹن کے فطری فلسفے کے ریاضیاتی اصولوں پر مبنی کتاب ''پرنسپیا‘‘ 1687ء میں آج کے روز شائع ہوئی۔لاطینی زبان میں لکھی گئی یہ کتاب تین جلدوں پر مشتمل تھی۔''پرنسپیا‘‘ کو سائنس کی تاریخ کے اہم کاموں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔اس کتاب سے قبل تک سائنس گمانوں اور مفروضوں کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی۔چیسمی کی جنگ5جولائی 1770ء کو سلطنت عثمانیہ اور روسی سلطنت کے درمیان ایک بحری جنگ کا آغاز ہوا۔یہ لڑائی اناطولیہ کے مغربی سرے اور جزیرہ چائیوس کے درمیان میں واقع چیسمی کے قریب ہوئی۔عثمانی اور روسی افواج کے درمیان ہونے والی یہ لڑائی لوف بغاوت کا ایک حصہ تھی۔اس جنگ میں پہلی مرتبہ سلطنت عثمانیہ اور روسی سلطنت کے بتاہ کن بحری بیڑے ایک دوسرے کے مدمقابل آئے تھے۔پہلی کلون بھیڑ ''ڈولی‘‘ 1996ء میں آج کے روزسکاٹ لینڈ میں دنیا کی پہلی کلون شدہ بھیڑ ''ڈولی‘‘ کی پیدائش ہوئی۔جو کسی بالغ جانور سے کلون کی جانے والی پہلی ممالیہ تھی۔ یہ تجربہ کلوننگ ٹیکنالوجی کی دنیا میں پہلا کامیاب قدم تھا جس میں کسی بالغ ممالیہ کا سومیٹک سیل (Somatic Cell) استعمال کیا گیا۔ڈولی کا نام امریکی گلوکارہ ڈولی پارٹن کے نام پر رکھا گیا تھا۔  

کینسر کی تشخیص میں انقلاب

کینسر کی تشخیص میں انقلاب

آج کے دور میں جب جینیاتی تحقیق اور جدید تصویری تجزیات میں اہم ترقی ہو چکی ہے بریسٹ کینسر کی تشخیص میں تاخیر مریضوں کے لیے خوفناک ثابت ہو سکتی ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) اور Massachusetts General Hospital(MGH) کے محققین نے مصنوعی ذہانت (AI) پر مبنی ایک جدید ماڈل تیار کیا ہے جو میموگرافی کی تصاویر کی بنیاد پر پانچ سال تک قبل از وقت بریسٹ کینسر کے خطرے کے بارے بتا سکتا ہے۔ یہ پیش رفت نہ صرف مرض کی جلد تشخیص کو ممکن بناتی ہے بلکہ علاج کے انتخاب اور سکریننگ کے شیڈول کو بھی انفرادی سطح پر ترتیب دینے کا موقع فراہم کرتی ہے۔روایتی طور پر مریضوں کی تشخیص عمر کی بنیاد پر کی جاتی تھی۔ امریکی کینسر سوسائٹی 45 سال کی عمر کے بعد ہر سال سکریننگ تجویز کرتی ہے جبکہ U.S. Preventive Services Task Forceہر دو سال بعد سکریننگ کا مشورہ دیتی ہے۔ لیکن ڈاکٹر رجینا برزیلے (Regina Barzilay) جو خود بھی بریسٹ کینسر سے متاثر ہوچکی ہیں، کا کہنا ہے کہ AI کی مدد سے ہر فرد کے لیے مخصوص حکمت عملی وضع کی جاسکے گی۔ماڈل کا ڈیزائن اور ڈیٹا سیٹاس ماڈل کو 60 ہزارمریضوں کے ممالوگرافی ڈیٹا سے تربیت دی گئی ہے جن میں بعدازاں کینسر کی تشخیص ہوئی تھی اور اس میں میموگرافی کی 90 ہزارتصاویر شامل کی گئی ہیں تاکہ ماڈل بہت باریک علامات کو بھی شناخت کرسکے، وہ علامات جو انسانی نظر سے پوشیدہ رہ جاتی ہیں۔ ماڈل نے تصاویر میں ایسے پوشیدہ پیٹرنز کو پہچانا ہے جو مستقبل میں ممکنہ طور پر کینسر کے لامتناہی مراحل کی نشاندہی کرتے ہیں۔ امید کی کرن اور عملی برتریاس ماڈل نے کینسر کے خطرے کے تجزیے میں غیر معمولی نتائج دکھائے۔ روایتی طریقوں کے مقابلے میں، اس نے کینسر کے 31 فیصد مریضوں کو سب سے زیادہ خطرے والے زمرے میں رکھا جبکہ روایتی ماڈل صرف 18فیصد کو ہی اس زمرے میں ڈالتا ہے۔ یہ نتائج واضح ثبوت ہیں کہ AI پر مبنی سسٹمز روایتی طریقہ کار کے مقابلے میں زیادہ مؤثر اور درست پیشگوئی فراہم کرسکتے ہیں۔ایک اہم پہلو یہ ہے کہ پرانے ماڈلز زیادہ تر سفید فام آبادی کے لیے مرتب کیے گئے تھے جس کی وجہ سے دیگر نسلی گروپوں میں تشخیص کم درست ہوتی تھی مگر یہ نیا ماڈل نہ صرف سفید فام بلکہ سیاہ فام خواتین کے لیے بھی یکساں طور پر مؤثر ثابت ہوا ہے۔ اس طرح یہ پیش رفت خاص اہمیت کی حامل ہے کیونکہ سیاہ فام خواتین میں بریسٹ کینسر سے اموات کا تناسب تقریباً 42 فیصدزیادہ ہے۔ہارورڈ میڈیکل سکول کی ڈاکٹر کونسٹنس لیہمان(Connie Lehman) نے اس ماڈل کو طبی شعبے میں ایک اہم تبدیلی قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق پہلے کسی بھی ماڈل نے فرد کی بنیاد پر اس طرح کی درست تشخیص فراہم نہیں کی، لیکن اب یہ ممکن ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قبل ازیں طبی برادری میں خطرے کی بنیاد پر سکریننگ کی حکمت عملی کے لیے کافی درست آلات موجود نہیں تھے۔ ہمارا یہ ماڈل اس سمت میں پھر سے سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ عملی اطلاق: کسٹمائزڈ سکریننگاب تک سکریننگ انتظام کے لحاظ سے عمر واحد پیمانہ رہا لیکن AI کے استعمال سے مریض کی انفرادی خصوصیات کے مطابق علاج ممکن ہوا ہے۔ مثال کے طور پر کم خطرہ والی خواتین دو سال میں ایک ممالوگرام کروایں گی۔ زیادہ خطرے والی خواتین کو سالانہ ممالوگرام کے ساتھ ایم آر آئی (MRI) ٹیسٹ بھی کروایا جائے گا۔ یہ حکمت عملی خطرات کے مطابق وسائل کو مؤثر انداز میں تقسیم کرنے میں مدد دے گی۔مزید امکانات اور چیلنجز:پروفیسر برزیلے اور ان کے ساتھی محقق صرف بریسٹ کینسر تک محدود نہیں ہیں ان کا ارادہ ہے کہ وہ اسی قسم کے ماڈلز کے ذریعے دل کی بیماریوں اور پیڈریاٹرک کینسر جیسے پیچیدہ امراض کی پیشگوئی میں بھی انقلاب لائیں۔اگرچہ یہ AI ماڈل کئی حوالوں سے نئے معیارات متعین کر رہا ہے مگر اس کے نفاذ کے لیے چند اہم چیلنجز بھی موجود ہیں مثال کے طور پر: ریگولیٹری منظوری: اسے روایتی تشخیصی آلات کی طرح طبی سیاق و سباق میں نافذ کرنے کے لیے اجازت نامے درکار ہوں گے۔ پیشہ ورانہ تربیت: ڈاکٹرز اور ٹیکنیشنز کو AI کی سکریننگ پروسیس میں مہارت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈیٹا کا تحفظ اور رازداری: مریضوں کے حساس طبی ڈیٹا کو محفوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ سرمائے کی فراہمی: جدیدّ ٹیکنالوجیز اور آلات کی بڑھتی ہوئی لاگت کے پیشِ نظر مناسب بجٹ درکار ہوگا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس ماڈل کی مزید جانچ اور کلینیکل ٹرائل کامیابی سے گزر گئے تو یہ جدید طبی تشخیص میں اہم سنگ میل ثابت ہو گا اورتیزتر اور مؤثر علاج کے ذریعے یہ مریضوں کی زندگیوں میں نمایاں فرق لا سکتا ہے۔حوالہ جات:آرٹیکل کے تمام اہم نکات MIT News کے مطالعے ''Using AI to predict breast cancer and personalize care‘‘ سے لیے گئے ہیں۔ MIT اور MGH کا AI پر مبنی ماڈل بریسٹ کینسر کی تشخیص کے میدان میں ایک اہم سنگِ میل ہے۔ یہ خصوصی طور پ مندرجہ ذیل خوبیوں کا حامل کرتا ہے:پانچ سال پہلے بیماری کے خطرہ کا پتہ لگا سکتا ہے۔ شخصی بنیاد پر سکریننگ کی حکمت عملی ترتیب دیتا ہے۔نسل کی بنیاد پر کسی طرح کی تفریق نہیں کرتا۔دیگر امراض کے لیے بھی قابلِ توسیع ہے۔یہ پیش رفت نہ صرف علاج و تشخیص میں انقلاب کے امکانات رکھتی ہے بلکہ ایک نئے دور کی امید بھی جگاتی ہے جس میں AI کی مدد سے ہر مریض کو اس کا مخصوص علاج میسر ہوگا اورLate stage تشخیص کا گراف تقریباً صفر پر آجائے گا۔  

آج کا دن

آج کا دن

سول رائٹس ایکٹ 1964ء میں آج کے دن امریکی صدر لنڈن بی جانسن نے شہری حقوق کے قانون پر دستخط کیے جو شہری حقوق پر امریکہ کا سب سے اہم قانون ہے اور امریکی شہری حقوق کی تحریک کا ایک امتیازی نشان ہے۔یہ قانون رنگ،نسل، مذہب، جنس یا قومیت کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی ممانعت کرتا ہے اور اس کا بنیادی مقصد روزگار اور زندگی کی بنیادی سہولتوں تک مساوی رسائی کو یقینی بنانا ہے۔مارسٹن مور کی جنگمارسٹن مور کی جنگ 2 جولائی 1644ء کو شمالی انگلینڈ کے قریب یارک شائر میں لڑی گئی۔ یہ جنگ شاہی فوج اور پارلیمنٹ کی حامی افواج کے درمیان ایک فیصلہ کن معرکہ تھی۔ شاہ چارلس اول کے حامی، جنہیں رائلِسٹس کہا جاتا تھا، کی قیادت پرنس روپرٹ کے پاس تھی جبکہ مخالف اتحاد کی قیادت اولیور کرومویل، لارڈ فیئر فیکس اور سکاٹش کمانڈر لیسلی کر رہے تھے۔ ۔ بحری جہاز پر حملہایس ایس ایرونڈورا سٹار اصل میں بلیو سٹار لائن کا ایک برطانوی مسافر بحری جہاز تھا جسے 1927ء میںتیار کیا گیا تھا۔ 1929ء میں اس جہاز کو کروز جہاز میں تبدیل کر دیا گیا اور دوسری عالمی جنگ کے دوران اسے فوجی مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا۔ جون 1940 ء کے آخر میں اسے اطالوی اور جرمن شہریوں کو جنگی قیدیوں کے ساتھ کینیڈا لے جانے کا کام سونپا گیا۔ 2 جولائی 1940ء کو آئر لینڈ کے ساحل پر ایک جرمن بوٹ نے اس جہاز پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں یہ سمندر میں ڈوب گیا۔ حادثے میں تقریباً 800 افراد ہلاک ہوئے۔