کینسر کی تشخیص میں انقلاب

اسپیشل فیچر
آج کے دور میں جب جینیاتی تحقیق اور جدید تصویری تجزیات میں اہم ترقی ہو چکی ہے بریسٹ کینسر کی تشخیص میں تاخیر مریضوں کے لیے خوفناک ثابت ہو سکتی ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) اور Massachusetts General Hospital(MGH) کے محققین نے مصنوعی ذہانت (AI) پر مبنی ایک جدید ماڈل تیار کیا ہے جو میموگرافی کی تصاویر کی بنیاد پر پانچ سال تک قبل از وقت بریسٹ کینسر کے خطرے کے بارے بتا سکتا ہے۔ یہ پیش رفت نہ صرف مرض کی جلد تشخیص کو ممکن بناتی ہے بلکہ علاج کے انتخاب اور سکریننگ کے شیڈول کو بھی انفرادی سطح پر ترتیب دینے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
روایتی طور پر مریضوں کی تشخیص عمر کی بنیاد پر کی جاتی تھی۔ امریکی کینسر سوسائٹی 45 سال کی عمر کے بعد ہر سال سکریننگ تجویز کرتی ہے جبکہ U.S. Preventive Services Task Forceہر دو سال بعد سکریننگ کا مشورہ دیتی ہے۔ لیکن ڈاکٹر رجینا برزیلے (Regina Barzilay) جو خود بھی بریسٹ کینسر سے متاثر ہوچکی ہیں، کا کہنا ہے کہ AI کی مدد سے ہر فرد کے لیے مخصوص حکمت عملی وضع کی جاسکے گی۔
ماڈل کا ڈیزائن اور ڈیٹا سیٹ
اس ماڈل کو 60 ہزارمریضوں کے ممالوگرافی ڈیٹا سے تربیت دی گئی ہے جن میں بعدازاں کینسر کی تشخیص ہوئی تھی اور اس میں میموگرافی کی 90 ہزارتصاویر شامل کی گئی ہیں تاکہ ماڈل بہت باریک علامات کو بھی شناخت کرسکے، وہ علامات جو انسانی نظر سے پوشیدہ رہ جاتی ہیں۔ ماڈل نے تصاویر میں ایسے پوشیدہ پیٹرنز کو پہچانا ہے جو مستقبل میں ممکنہ طور پر کینسر کے لامتناہی مراحل کی نشاندہی کرتے ہیں۔
امید کی کرن اور عملی برتری
اس ماڈل نے کینسر کے خطرے کے تجزیے میں غیر معمولی نتائج دکھائے۔ روایتی طریقوں کے مقابلے میں، اس نے کینسر کے 31 فیصد مریضوں کو سب سے زیادہ خطرے والے زمرے میں رکھا جبکہ روایتی ماڈل صرف 18فیصد کو ہی اس زمرے میں ڈالتا ہے۔ یہ نتائج واضح ثبوت ہیں کہ AI پر مبنی سسٹمز روایتی طریقہ کار کے مقابلے میں زیادہ مؤثر اور درست پیشگوئی فراہم کرسکتے ہیں۔ایک اہم پہلو یہ ہے کہ پرانے ماڈلز زیادہ تر سفید فام آبادی کے لیے مرتب کیے گئے تھے جس کی وجہ سے دیگر نسلی گروپوں میں تشخیص کم درست ہوتی تھی مگر یہ نیا ماڈل نہ صرف سفید فام بلکہ سیاہ فام خواتین کے لیے بھی یکساں طور پر مؤثر ثابت ہوا ہے۔ اس طرح یہ پیش رفت خاص اہمیت کی حامل ہے کیونکہ سیاہ فام خواتین میں بریسٹ کینسر سے اموات کا تناسب تقریباً 42 فیصدزیادہ ہے۔ہارورڈ میڈیکل سکول کی ڈاکٹر کونسٹنس لیہمان(Connie Lehman) نے اس ماڈل کو طبی شعبے میں ایک اہم تبدیلی قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق پہلے کسی بھی ماڈل نے فرد کی بنیاد پر اس طرح کی درست تشخیص فراہم نہیں کی، لیکن اب یہ ممکن ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قبل ازیں طبی برادری میں خطرے کی بنیاد پر سکریننگ کی حکمت عملی کے لیے کافی درست آلات موجود نہیں تھے۔ ہمارا یہ ماڈل اس سمت میں پھر سے سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔
عملی اطلاق: کسٹمائزڈ سکریننگ
اب تک سکریننگ انتظام کے لحاظ سے عمر واحد پیمانہ رہا لیکن AI کے استعمال سے مریض کی انفرادی خصوصیات کے مطابق علاج ممکن ہوا ہے۔ مثال کے طور پر کم خطرہ والی خواتین دو سال میں ایک ممالوگرام کروایں گی۔ زیادہ خطرے والی خواتین کو سالانہ ممالوگرام کے ساتھ ایم آر آئی (MRI) ٹیسٹ بھی کروایا جائے گا۔ یہ حکمت عملی خطرات کے مطابق وسائل کو مؤثر انداز میں تقسیم کرنے میں مدد دے گی۔
مزید امکانات اور چیلنجز:
پروفیسر برزیلے اور ان کے ساتھی محقق صرف بریسٹ کینسر تک محدود نہیں ہیں ان کا ارادہ ہے کہ وہ اسی قسم کے ماڈلز کے ذریعے دل کی بیماریوں اور پیڈریاٹرک کینسر جیسے پیچیدہ امراض کی پیشگوئی میں بھی انقلاب لائیں۔اگرچہ یہ AI ماڈل کئی حوالوں سے نئے معیارات متعین کر رہا ہے مگر اس کے نفاذ کے لیے چند اہم چیلنجز بھی موجود ہیں مثال کے طور پر:
ریگولیٹری منظوری: اسے روایتی تشخیصی آلات کی طرح طبی سیاق و سباق میں نافذ کرنے کے لیے اجازت نامے درکار ہوں گے۔
پیشہ ورانہ تربیت: ڈاکٹرز اور ٹیکنیشنز کو AI کی سکریننگ پروسیس میں مہارت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈیٹا کا تحفظ اور رازداری: مریضوں کے
حساس طبی ڈیٹا کو محفوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
سرمائے کی فراہمی: جدیدّ ٹیکنالوجیز اور آلات کی بڑھتی ہوئی لاگت کے پیشِ نظر مناسب بجٹ درکار ہوگا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس ماڈل کی مزید جانچ اور کلینیکل ٹرائل کامیابی سے گزر گئے تو یہ جدید طبی تشخیص میں اہم سنگ میل ثابت ہو گا اورتیزتر اور مؤثر علاج کے ذریعے یہ مریضوں کی زندگیوں میں نمایاں فرق لا سکتا ہے۔
حوالہ جات:
آرٹیکل کے تمام اہم نکات MIT News کے مطالعے ''Using AI to predict breast cancer and personalize care‘‘ سے لیے گئے ہیں۔
MIT اور MGH کا AI پر مبنی ماڈل بریسٹ کینسر کی تشخیص کے میدان میں ایک اہم سنگِ میل ہے۔ یہ خصوصی طور پ مندرجہ ذیل خوبیوں کا حامل کرتا ہے:پانچ سال پہلے بیماری کے خطرہ کا پتہ لگا سکتا ہے۔ شخصی بنیاد پر سکریننگ کی حکمت عملی ترتیب دیتا ہے۔نسل کی بنیاد پر کسی طرح کی تفریق نہیں کرتا۔دیگر امراض کے لیے بھی قابلِ توسیع ہے۔یہ پیش رفت نہ صرف علاج و تشخیص میں انقلاب کے امکانات رکھتی ہے بلکہ ایک نئے دور کی امید بھی جگاتی ہے جس میں AI کی مدد سے ہر مریض کو اس کا مخصوص علاج میسر ہوگا اورLate stage تشخیص کا گراف تقریباً صفر پر آجائے گا۔